• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک مغربی دانش وَر نے کہا تھا۔’’ اگر کسی ملک کی ترقی کا راز جاننا مقصود ہو، تو وہاں کے تعلیمی اداروں کو دیکھا جائے۔ اور اگر تعلیمی اداروں کا معیار اور ترقی پرکھنی ہو، تو وہاں کے کتب خانوں کا معیار دیکھا جائے۔‘‘ بلاشبہ،جس ملک کے کتب خانے جتنے فعال اور منظّم ہوں گے، وہاں کے تعلیمی ادارے بھی تعلیم و تحقیق میں اُسی قدر فعال اور منظّم ہوں گے، جس کا لازمی نتیجہ وہاں کی معاشی و معاشرتی ترقی اور خوش حالی کی صُورت ظاہر ہوگا۔ 

اسی طرح مشہور فلسفی ایمرسن کا قول ہے’’ اچھی کتاب، ایک مثالی دوست، سچّے ساتھی کی مانند ہوتی ہے، جو ہمیشہ سیدھے راستے پر چلنے کا درس دیتی ہے۔‘‘ جب کہ عظیم مفکّر، سقراط کا مشہور قول ہے’’ جس گھر میں اچھی کتابیں نہیں، وہ حقیقتاً گھر کہلانے کا حق دار نہیں، بلکہ اسے زندوں کا قبرستان کہنا زیادہ موزوں ہوگا۔‘‘

پاکستان کے بیش تر شہروں میں لاتعداد کتب خانے (لائبریریز) موجود ہیں، جو حکومتی اور عوامی عدم توجہی کے باعث زبوں حالی کا شکار ہیں۔ تاہم، اس کے باوجود بعض ایسی لائبریریز بھی ہیں، جن سے مکمل نہ سہی، کچھ نہ کچھ استفادہ ضرور کیا جاسکتا ہے۔ 

قیام ِپاکستان کے بعد جو چند ادارے اور کُتب خانے قائم ہوئے، اُن میں ’’کتب خانہ، بہادر یار جنگ‘‘ شہرِ کراچی کا ایک یادگار خزانہ اور علمی میراث کا حامل ہے، جس کی ہمیشہ سے اوّلین کاوش یہی رہی کہ اُردو زبان کو زمانے کی رفتار اور ترقی سے ہم آہنگ کرنے کے ساتھ اِسے جدید اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کا ترجمان بناکر نسلِ نو کو قومی و ملّی تہذیب و ثقافت اور تاریخی وَرثے سے آشنا کروایا جائے، کیوں کہ تعلیم، تہذیبی اور اِخلاقی اقدار کی پاس داری کے بغیر محال ہی نہیں، ناممکن بھی ہے۔ 

بہادر یار جنگ اکادمی 1964ء میں سراج الدولہ روڈ، بہادر آباد میں قائم ہوئی۔ اس کے بانیان میں احمد علی (ٹاؤن پلانر) محمد عطاءالرحمٰن علوی، احمد عبداللہ المسدوی، محمداسماعیل مینائی، محمد فاروق ، مہدی علی صدیقی ، خواجہ حمید الدین شاہد، ڈاکٹر عبدالحئی، خواجہ معین الدین، ابراہیم جلیس اور مسلم ضیائی کے نام شامل ہیں۔

جدوجہدِ آزادی اور تحریکِ پاکستان کے خصوصی حوالے سے ریاست حیدرآباد دکن کے فرزند، لِسان الامّت، نواب محمد بہادر یار جنگ کے نام سے موسوم ’’بہادر یار جنگ اکادمی‘‘ کا یہ قدیم کتب خانہ اب جدید خطوط پر استوار ہوچکا ہے۔ یہ دو حصّوں پر مشتمل ہے، جہاں تقریباً40ہزار سے زائد کتب کے علاوہ اہم مخطوطات، مکتوبات، دستاویزات، رسائل، جرائد، قدیم اخبارات، ایم فل/ پی ایچ ڈیز کے مقالات، اہم شخصیات نمبر، خصوصی ضمیمے، نادر نسخہ جات اور قرآنِ مجید کے قدیم نسخہ جات موجود ہیں، جب کہ اُردو زبان و ادب، بین الاقوامی تعلقات، سیاسیات، ارضیات، عمرانیات، سماجی بہبود، اسلامیات، جغرافیہ، قانون، انگریزی، فارسی، عربی، سندھی اَدب، اقبالیات، ابلاغیات، تاریخِ اسلام، تاریخِ اقوامِ عالم، معاشیات، تعلیمات اور دیگر سائنسی وسماجی علوم، سیرت نگاری اور دینی موضوعات سمیت ہزارہا کتب کا ایک بڑا ذخیرہ بھی موجود ہے۔ 

اس کتب خانے میں دنیا کے سب سے مشہور انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے علاوہ امریکانیکا، پاکستانیکا اور انسائیکلو پیڈیا آف اسلام بھی عُمدہ حالت میں موجود ہیں، جن سے قارئین، طلبہ، محقّقین، مصنّفین، مُؤلفین اور اہلِ علم و دانش خاطر خواہ استفادہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں سابق ریاست حیدرآباد دکن کے نوابین کے خطوط، ان کے زیرِ استعمال رہنے والی نادر اشیاء، قلم، دوات، دستار، قدیم سکّے اور تاریخی تقاریر کے نادر البم بھی موجود ہیں۔

اِس کتب خانے کوگاہے بگاہے معروف مشاہیر، اکابرین اور اہل علم و دانش نے اپنی جانب سے کتب کے گراں قدر عطیات بھی مرحمت فرمائے، جن میں حفیظ جالندھری، رئیس امروہوی، مختار زمن، شاہ بلیغ الدین، شاہ مصباح الدین شکیل، پروفیسر حسنین کاظمی، جاوید جبار، قطب الدین عزیز، پروفیسر محمد خلیل اللہ اور رضوان صدیقی سمیت دیگر شخصیات شامل ہیں۔ 

اکادمی کے زیرِ نگرانی کئی اہم کتب شائع ہوئیں، جن میں حیاتِ بہادر یار جنگ (مولانا غلام محمد) مکاتیبِ بہادر یارجنگ (اوّل و دوئم) سیّاحت ممالکِ اسلامیہ (شاہد حسین رزاقی) تقاریر و نگارشات (محمد احمد خان) تصانیف خواجہ گیسو بندہ دراز (مجید احمد فاروقی) سقوطِ حیدرآباد (ڈاکٹر معین الدین عقیل) آصف جاہ سابع (محمد سعید اللہ) جامعہ عثمانیہ (ڈاکٹر رضی الدین صدیقی) مدحتِ مصطفیٰ ﷺ (ڈاکڑ سیّد وسیم الدین)، کِھلتے کنول سے لوگ (حمایت علی شاعر) صنفِ  مژگاں (نظر حیدرآبادی) ڈاکٹر محمد حمیداللہ (پروفیسر خواجہ قطب الدین) صدائے دہقانی (نذیر دہقانی) عورت اور اُردو زبان (پروفیسر وحیدہ نسیم) لال قلعے سے لالو کھیت (خواجہ معین الدین) رباعیاتِ امجد (شبیرالزماں خاں) ارمغانِ دکن (علّامہ سیّد سلیمان ندوی) بابائے ڈراما خواجہ معین الدین (علامہ سیّد میر حسین علی امام) منشورِ پاکستان (نواب بہادر یار جنگ) چند یادداشتیں (پروفیسر حبیب الرحمٰن) دکن کا آخری تاج دار (محمد احمد خاں) فیضانِ دکن (پروفیسر شفقت رضوی) اور رقصِ نجوم (تحسین سروری ) وغیرہ شامل ہیں۔

کتب خانہ، بہادر یار جنگ کے حوالے سے یہ کہنا ہرگز غلط نہ ہوگا کہ یہ ایک مستحکم علمی و ثقافتی مرکز ہی نہیں، بلکہ پاکستان میں سابقہ حیدرآباد دکن اور جامعہ عثمانیہ کا ایک علامتی جزیرہ بن چکا ہے، جہاں عہدِ آصفیہ، عثمانیہ اور حیدرآبادی معاشرت کا گلستاں مہکتا نظر آتا ہے۔ اس ادارے اور کتب خانے کی یہ خوش بختی رہی کہ اسے فرزندانِ جامعہ عثمانیہ نے اپنا علمی و ادبی اور ثقافتی وَرثہ منتقل کیا، جو اس کی شہرت میں چار چاند لگانے کے مترادف ہے۔ 

اِس امر سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا کہ اردو دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے، جسے ایک ارب سے زائد افراد بولنے، پڑھنے اور سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور اِس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ کتب خانہ بہادر یار جنگ اکادمی پاکستان، خصوصاً اہلیانِ کراچی کے لیے ایک نادر تحفہ اور نعمت ِ غیرمترقبہ ہے، جس سے قارئین زیادہ سے زیادہ مستفید ہوسکتے ہیں کہ زندہ قوموں کی ایک شان یہ بھی ہوتی ہے کتاب سے ان کا رشتہ ہمیشہ قائم رہتا ہے اور اگر غمِ جاناں اور غمِ دوراں کا کوئی مداوا ہے تو وہ صرف اور صرف کتاب ہے۔ وہ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ؎کوئی رفیقِ سفر نہیں ہے کتاب سے بہتر۔