یہ کس کا فیصلہ تھا؟ کس نے بہ یک جُنبشِ قلم ایک زندگی ختم کرنے کا فتویٰ لکھ دیا؟ کس نے ایثار و قربانی، اپنائیت اور محبّت و اُلفت جیسے ناپید ہوتے جذبات سے گُندھی عورت نامی بے ضرر مخلوق کو غیرت کے نام پرموت کے گھاٹ اُتار دیا؟ یہ سوالات ہماری سرزمین میں دھنسی اُس بےنشاں قبر کی مانندہیں کہ جس میں انصاف دفن ہے۔
پاکستان کے مختلف قبائلی اور نیم قبائلی علاقوں میں رائج ’’غیرت کے نام پر قتل‘‘ جیسی قبیح رسم آج ایک ایسا ناسور بن چُکی ہے کہ جو ریاستی وجود، عدالتی وقار اور انسانی شعور کو چیلنج کررہی ہے۔ اب ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ غیرت کے نام پر قتل، دراصل غیرت کا قتل ہے اور بدقسمتی سے یہ قتل محض انسانی جانوں کا نہیں، اجتماعی شعور کا بھی ہے۔
خواتین کو غیرت کی بھینٹ چڑھانے والے رُوح فرسا واقعات پر، بیٹی کو دفنانے والے معاشرے میں خواتین کو عزّت و اکرام کا رُتبہ دینے والے نبیٔ کریم ﷺ کی سیرتِ طیّبہ ہمیں جھنجوڑتی ہے اور کبھی وہ قبریں چیختی ہیں کہ جن میں بیٹیوں کو زندہ دفن کردیا جاتا تھا۔ فرق صرف وقت اور دَور کا ہے، ظلم، جہالت اور پستی کی گہرائیاں وہی ہیں۔ خطّۂ عرب کا وہ تاریک دور یاد کیجیےکہ جب بیٹی کی پیدائش کوذلّت تصوّر کیا جاتا تھا۔
اُسی دَورِ جہالت میں اللہ کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ نے اعلان کیا کہ ’’بیٹی رحمت ہے، لعنت نہیں۔‘‘ آپﷺ نے جزیرہ نما عرب کے معاشرتی نظام کو چیلنج کیا۔ بیٹی کو کاندھوں پر بٹھایا اور فاطمۃ الزہراؓ کو ’’اُمِّ ابیھا‘‘ کے لقب سے یاد کیا۔ اور جب سیدہ فاطمہؓ کے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونے کا وقت آیا، تو نبی مکرم ﷺ نے اُن کی رائے، پسند اورعزّتِ نفس کا خیال رکھا۔ یہ وہی معاشرہ تھا کہ جہاں عورت کو وراثت سے محروم، بیٹے کی غلام اورغیرت کا سودا سمجھا جاتا تھا۔
مگر نبی اکرم ﷺ نےفرمایاکہ ’’جس نے تین بیٹیوں کی پرورش کی، اُن کا نکاح کروایا اور حُسنِ سلوک کیا، وہ جنّت کا حق دار ہے۔‘‘ آج ہم سچّے عاشقِ رسولﷺ ہونے کے دعوے تو بہت کرتے ہیں، لیکن کیا ہم آپؐ کے اسوۂ حسنہ پرعمل پیرا بھی ہیں؟ کیا ہم اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو وہ عزّت اور مقام دیتے ہیں کہ جس کی وہ حق دار ہیں؟
کیا ہم اُنہیں شادی کے بندھن میں باندھتے ہوئے اُن سے اُن کی رائے دریافت کرتے ہیں؟ بدقسمتی سے اِن تمام سوالات کے جواب نفی میں ہیں، کیوں کہ ہم تو کسی جرگے کے حُکم پر، اپنی قبائلی انا کے تحفّظ کی خاطر اُنہیں غیرت کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ان لرزہ خیز واقعات پر ریاست اور قانون کیوں خاموش ہیں؟ آخر ہم کب تک فرسودہ قبائلی رسوم و رواج کے پیچھے چُھپتے رہیں گے؟ کب تک جرگے، پنچائتیں اور ناکارہ بااثر افراد اپنی بیٹھکوں میں بیٹھ کر فیصلے صادر کرتے رہیں گے۔ کب تک غیرت جیسے مقدّس لفظ کو ’’قتل‘‘ کےجواز کےطور پر استعمال کیا جاتا رہے گا؟
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور غیرت کے نام پر قتل کو قرآنِ پاک نے جائز قرار دیا اور نہ نبی پاک ﷺ نے اس عمل کو برداشت کیا۔ آخر یہ کیسی غیرت ہےکہ جو صرف عورت کے معاملے ہی میں جاگتی ہے؟ کیا مَرد کی بدکرداری پر بھی کبھی کوئی جرگہ بیٹھتا ہے؟ کیا کبھی کسی بھائی کو بھی غیرت کےنام پر قتل کیا گیا؟
یہ وہ دُہرا معیار ہے، جس نے ہمارے سماج کی بنیادیں کھوکھلی کردی ہیں۔ یہ ریاست کیسی ماں ہے کہ جو اپنی بیٹیوں کی لاشیں گود میں لیے بھی خاموش ہے؟ یہ کیسا قانون ہے کہ جو ظلم ہوتا دیکھ کر آنکھیں بند کرلیتا، مجرم کو ’’روایت‘‘ کے نام پرچھوڑ دیتا ہے؟ کیا یہ وہی ریاست نہیں کہ جو دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں دُنیا بَھر کے لیے مثال بنی؟
کیا یہ وہی ریاست نہیں کہ جس نے عالمی سازشوں کے باوجود اپنے ایٹمی اثاثے محفوظ رکھے؟ تو کیا ایک بیٹی کی جان کی حفاظت، اُس کے خواب اور اُس کے نکاح کا حق ریاست کے دائرۂ اختیار سے باہر ہے؟ عدلیہ، پولیس اور انتظامیہ سب ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں۔ ’’مدعی پیچھے ہٹ گیا تھا‘‘، کبھی کہا جاتا ہے کہ ’’ثبوت نہیں ملا‘‘ اور کبھی یہ عُذر پیش کیا جاتا ہے کہ ’’یہ تو خاندانی معاملہ تھا‘‘ درحقیقت، یہ کوئی خاندانی معاملہ نہیں، قتل، قتل ہے اور پوری انسانیت کے گلے پر چُھری چلانے کے مترادف ہے۔
اگر کسی واقعے پر ریاست خاموش ہے، تو اُس کی خاموشی بھی مجرمانہ ہے۔ ہمیں اب یہ سوال کرنا ہے، نہ صرف قاتل سے، بلکہ قانون لکھنے والوں، نافذ کرنے والوں اوراُن سے بھی، جو ہر روز ایوان میں بیٹھ کر دعوے کرتے ہیں کہ وہ عوام کی نمائندے ہیں ۔ کیا یہ نمائندگی غیرت کے نام پر قتل ہونے والوں کی لاشوں پر خاموشی اختیار کر کے کی جائے گی؟
یاد رہے، جس دن غیرت، عزّت کی بجائے لاشوں سے پہچانی جائے، وہ دن ماتم کا دن ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب معاشرے کا ضمیر مَر جائے، تو قانون، کتابوں میں، انصاف، تقریروں میں اورغیرت، قبروں میں دفن ہوجاتی ہے۔ آج ہم ایک ایسے سماج میں جی رہے ہیں، جہاں بیٹی کو پسند کی شادی کے جُرم میں مار دیا جاتا ہے، جہاں نکاح کی طاقت کو جرگے کی کم زوری سے ختم کردیا جاتا ہے، جہاں عورت کو محض ’’خاندان کی عزّت‘‘ سمجھا جاتا ہے اورجب وہ اپنے لیے جینے کا فیصلہ کرتی ہے، تو اُسی خاندان کی بندوق اُس کی پیشانی پر رکھ دی جاتی ہے۔
بدقسمتی سے ہم آج ایک مرتبہ پھر دَورِ جاہلیت کی طرف پلٹ رہے ہیں، دوبارہ بیٹیوں کو مارا جارہا ہے۔ فرق بس یہ ہے کہ آج وہ جرگےکے فیصلوں کے نتیجے، جُھوٹی غیرت کے الزام میں دَم توڑ رہی ہیں۔ مگر ہم سب اس جُرم میں برابر کے شریک ہیں۔ یاد رکھیں، یہ صرف پولیس یا عدالت کا نہیں، اِس معاشرے کے ہرفرد کا مسئلہ ہے۔ اِن واقعات پر ہم صرف اظہارِ افسوس و ہم دردی کرکے خاموش ہوجاتے ہیں، جوکافی نہیں۔
اب وقت ہے کہ ہم جرأت کے ساتھ اس بات کا اظہار کریں کہ جو غیرت کسی کو مارنے پر اُکساتی ہے، وہ غیرت نہیں، درندگی ہے۔ جو نکاح کو جُرم سمجھتی ہے، وہ معاشرت نہیں، بیماری ہے۔ جو بیٹی کو مرضی کا اختیار دینے سے ڈرتی ہے، وہ تربیت نہیں، غلامی ہے۔ اب ہمیں انصاف کی بات کرنی ہے، کسی لفّاظی اور مصلحت کے بغیر اور سب سے بڑھ کر… ہمیں اپنی بیٹیوں سے معافی مانگنی ہے۔
معاشرے کی بےحسی نے اُنہیں مارا ہے اور جب تک یہ بےحسی زندہ ہے، ہم سب اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ ساتھ ہی ہم دُعاگو ہیں کہ جلد وہ دن آئے، جب نکاح کا اعلان قتل کا اعلان نہ بنے، جب بیٹی کی مرضی کو جرم نہ سمجھا جائے اور جب غیرت کے نام پر ہونے والے ہر قتل پر ریاست، عدالت، معاشرہ، سب متّحد ہو کر پکاریں کہ ’’یہ قتل ہے اور مظلوم کو انصاف مل کر رہے گا۔‘‘ (مضمون نگار، حکومتِ سندھ کی ترجمان ہیں)