’ہم اسی وقت رواداری کی معراج حاصل کر سکتے ہیں جب ہم خود کسی تیقن کے بار تلے دبے ہوں‘ الیگزینڈر ۔ معذرت کے ساتھ میں یہ کہنا چاہونگا کہ بات کچھ عقل سے ماورا معلوم ہوتی ہے۔ آئیے آج اسی بات پر گہری نظر ڈالتے ہیں احترام کا مطلب اتفاق نہیں ہے احترام کا مطلب یہ ہے کہ آپ خود کو اس مختلف رائے کا پابند سمجھیں گویا رواداری کی معراج یہ ہے کہ آپ دوسروں کے مختلف رائے رکھنے کےحق کو تسلیم کریں بلکہ انہیں اس پر عمل کرنے کی اجازت بھی دیں ۔بشرطیکہ وہ خلاف قانون نہ ہو۔ خلاف قانون رائے رکھنے کا حق تو ہر کسی کو ہے لیکن خلاف قانون عمل کرنے کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں ۔یہ دونوں اصول ریاست کے ہر باشندے پر لاگو ہوتے ہیں یعنی خود پر بھی اور دوسروں پر بھی البتہ اس ضمن میں ایک اور قابلِ غور سوال یہ ہے کہ کیاقانون کی مقرر کردہ حدود کے علاوہ بھی رواداری کی کوئی اور حدود ہیں ؟میرے حساب سے ہاں ہیں لیکن ایسی حدود ہر شخص کی اپنی ہوتی ہیں یہ بھی ممکن ہے کوئی دفعہ کسی شخص کی حد قانون کی حد کا آغاز ہونے سے پہلے ہی شروع ہو جائےـ ایسی صورت میں ممکن ہے کہ وہ شخص اپنی حدِ رواداری پر عمل کرتے ہوئے قانون کی حد سے تجاوز کر جائے ۔ان حالات میں سماج کے ایک ذمہ دار کی حیثیت سے ضروری ہے کہ وہ از خود اپنے آپ کو قانون کے حوالے کر دے اسی طرح کسی معاملے میں یقین کامل (تیقن ) کا کوئی بار یا بوجھ نہیں ہے تیقن کو بوجھ جاننے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی، میری رائے میں تیقن ہی مقصد حیات کا تعین کرتا ہے وہ ایک ایسا لنگر ہے جو زندگی کو ڈانواںڈول ہونے سے روکتا ہے غرض یہ کہ زندگی میں تیقن ایک لازمی جزو ہے لیکن بہرحال یہ میرا خیال ہے۔ خیال اپنا اپنا۔ضروری نہیں کہ سب کا یہی خیال ہو لیکن اس معاملے میں اختلاف رائے کی خاصی گنجائش ہے اور رواداری کی بھی لیکن جس بات کو میں عقل سے ماورا سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ رواداری کی معراج اس وقت حاصل ہو سکتی ہے جب تیقن کا بوجھ ہو۔ جب کسی معاملے میں ایمان ہی نہ ہو تو پھر رواداری کا سوال کہاں پیدا ہوتا ہے رواداری کے معنی یہ ہیں کہ آپ کسی معاملے میں ایک پختہ ارادہ رکھنے کے باوجود ایک مختلف رائےکو خوشدلی سے برداشت کریں بلکہ ایک ایسی رائے کا احترام کریں جو آپ کی رائے کو کاٹتی ہو۔
آئیے آج کے دور میں آزادی رائے اور رواداری کی ایک تازہ مثال پیش کرتا ہوں۔ امریکہ میں مشی گن یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر انڈاک رکمین نے اپنے ایک تھیسس میں امریکہ میں مقیم مسلمانوں سے کہا ہے کہ غیر مطمئن ،جارح، ظالم، غیر مہذب اور غلاموں کی تجارت کرنے والا مسلمان کہلاتا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ اگر انہیں جمہوریت ،آزادی اظہار، سیکولرازم، رواداری پسند نہیں ہے تو وہ امریکہ چھوڑ کر اپنے آبائی ملک لوٹ جائیں۔ مگر امریکیوں کو امریکہ میں چین سے رہنے دیں اور خود اپنی اصلاح کریں ، یہ تو تھی ایک دنیائے عیسائیت کی مثال۔ اب آیئے ہم اپنے ہمسائے ملک بھارت کو دیکھتے ہیں گزشتہ مہینوں سے بھارتی مسلمانوں کی ایک ایسی تصویر کھینچی گئی ہے جس میں انہیں بے حد ناپسندیدہ افراد سمجھا جا رہا ہے جو رواداری سے عاری ، انتہا پسند اور ناقابل بھروسہ ہیں۔
ہم میں بعض مسلمانوں کے احساسات بھی اس حد تک نازک ہو چکے ہیں کہ کسی بھی اختلاف رائے رکھنے والے مسلمان کو سرے سے مسلمان ہی نہیں تسلیم کیا جاتا یہ رویہ ایسا ہے جیسے سابق امریکی صدر کا فرمان تھا ’’یا تو تم ہمارے ساتھ ہو یا تم ہمارے مخالف‘‘یہ طریقہ کار قطعی غلط ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان اپنے آپ سے سوال کریں چاہے غلط اسباب کی بنا پر ہی کیوں نہ ہو آخر دنیا ان کے خلاف کیوں ہے ؟یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب مسلمانوں کو دینا ہی پڑے گا،ایک جواب تو یہ ہےکہ میڈیا( عیسائی یہودی ہندو) کا مسلمانوں کے خلاف غلط رویہ عیسائیت یہودیت اور ہندومت کا اسلام کے ساتھ تاریخی تصادم اور ماضی میں مسلمانوں کی فتوحات سے پیدا ہونیوالی دشمنی اور تعصب...یہ جواب بے شک اپنی جگہ پر صحیح ہے لیکن بات پوری طرح واضح نہیں ہوپاتی۔ یہ بالکل ایسی ہی ہے جیسے صدر ٹرمپ بھی گاہے گاہے کہتے رہتے ہیں کہ امریکہ سے نفرت انکی سمجھ میں نہیں آتی اور یہ کہ’’امریکہ کے مخالفین ہماری آزادانہ زندگی اور اقتدار کو پسند نہیں کرتے‘‘ اس منطق پر کون یقین کرے گا۔ ٹرمپ کا یہ سوال تکلیف دہ ہے لیکن مجھے بہرحال آپ کے سامنے رکھنا ہے، میں بھی سوچتا ہوں آپ بھی سوچئے۔ـ