تحریکِ پاکستان کے دوران برِّعظیم کے سیاسی اُفق پر جو دو شخصیات سب سے نمایاں ہو کر سامنے آئیں، وہ ڈاکٹر علاّمہ محمّد اقبالؒ اور محمّد علی جناحؒ ہیں۔ ان میں سے اول الذّکر شخصیت کاخاندانی پس منظرمذہبی، جب کہ موخرالذّکر کا کاروباری تھا۔ گویا کہ ان میں سے ایک اسلامی اور دوسرے سیکولر ذہن کے مالک تھے۔ چُوں کہ ابتدا میں محمّد علی جناحؒ سیکولرازم اور قوم پرستی کی جانب جُھکاؤ رکھتے تھے، لہٰذا انہوں نے کانگریس میں شمولیت اختیار کی اور متّحدہ ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں شامل ہو گئے۔
بعدازاں، 1913ء میں مولانا محمّد علی جوہر کے بےحد اصرار پر وہ آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوئے اور کانگریس میں اپنی رُکنیت برقرار رکھتے ہوئے ہندو، مُسلم اتحاد کے لیے بھی کوشاں رہے اور اُن کی انہی کوششوں کی بنیاد پر گوپال کرشنا گوکھلے نے اُنہیں ’’ہندو، مُسلم اتحاد کا سفیر‘‘ بھی قرار دیا، لیکن محمّد علی جناحؒ کو 1928ء میں نہرو رپورٹ پیش کیےجانےکے بعد ہندوؤں کی جانب سے انتہائی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے جواب میں انہوں نے 14نکات پیش کیے، جنہیں مسترد کردیا گیا، نتیجتاً وہ ہندوستان سے بددل ہو کر برطانیہ جا کر آباد ہوگئے۔
دوسری جانب ڈاکٹر علاّمہ محمّد اقبالؒ نے ابتدائی تعلیم ہندوستان میں حاصل کی۔ 1899ء میں ایم اے کا امتحان پاس کیا اور اُن کی 1905ء تک کی شاعری میں قوم پرستی اور وطن پرستی کا اظہار موجود ہے، جس کا اندازہ اُن کے 1904ء میں لکھے گئے ’’ترانۂ ہندی‘‘ سے بھی لگایا جا سکتا ہے، جس کا مطلع کچھ یوں ہے کہ؎ سارے جہاں سےاچّھا ہندوستاں ہمارا… ہم بُلبلیں ہیں اِس کی، یہ گلستاں ہمارا۔
علّامہ اقبال 1905ء میں بیرسٹرایٹ لا کی تعلیم حاصل کرنے انگلینڈ گئے اور پھر کچھ عرصہ جرمنی میں بھی قیام کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ یورپ میں قیام کے دوران اُن کے افکار و خیالات میں ایک انقلاب سا برپا ہوا۔ چُوں کہ وہ ایک فلسفی تھے اور پی ایچ ڈی بھی کرچُکے تھے، تو برطانیہ میں قیام کے دوران انہوں نے اسلامی اقدار پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ اسلام کے نظامِ حیات پر ازسرِنو غور و خوض کیا اور اپنے نظریات و خیالات میں بچپن اور لڑکپن میں حاصل کیا گیا قرآن و حدیث کا علم تانے بانے کی طرح پرو لیا، جیسا کہ لندن میں رہائش کے دوران کہے گئے اِن اشعار سے ظاہر ہوتا ہے۔؎ زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی… نہ چُھوٹے مُجھ سے لندن میں بھی آدابِ سحَرخیزی…جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو… جُدا ہو دِیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔
علاّمہ اقبالؒ جب لندن سے ہندوستان واپس آئے، تو اُس وقت یہاں ہندو قوم پرستی کی بنیاد پر وطن پرستی کو بہ طور سیاسی تصوّر اُجاگر کر کے مسلمانوں کا ملّی تصوّرمٹانے کی کوشش کی جارہی تھی۔ نیز، ہندومت کےاحیاء کی تحاریک زوروں پر تھیں اور مسلمانوں کو ہندومذہب قبول کرنے پر مجبور کیا جا رہا تھا۔ اس دوران بنکم چیٹرجی نے بھی ہندومذہب کےاحیاء کی تحریک چلائی اور ’’بندے ماترم‘‘ نامی ترانہ تخلیق کیا، جس میں زمین کی بندگی کا تصوّر پیش کیا گیا۔
یاد رہے، آج بھی بھارت میں اسکولز میں مسلمان طلبہ کو یہی ترانہ پڑھنے پرمجبور کیا جاتا ہے، جس کے خلاف بھارتی مسلمانوں کی مزاحمت جاری ہے۔ اسی طرح راجا رام موہن رائے نے، جو بڑا عالم و فاضل اور دس مغربی و مشرقی زبانوں کا ماہر تھا، انگریز پادریوں کی جانب سے تثلیث کےعقائد کی تبلیغ کرنے پر مسلمانوں سے اظہارِ ہم دردی کرتے ہوئے تثلیث کی نفی کی اور ’’آئینۂ توحید‘‘ کے نام سے ایک کتابچہ لکھ کر مسلمانوں میں مقبول ہوگیا۔
پھر اس نے ’’برہمو سماج‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا اور مسلمانوں کو دھوکا دینے کے لیے وہی فلسفہ پیش کیا کہ جو اِس سے پہلے مغل بادشاہ اکبر نے ’’دینِ الٰہی‘‘ کے نام سے پیش کیا تھا اور آج امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ بھی ’’ابراہام اکارڈ‘‘ کے نام سے اسی نظریے کی ترویج کررہے ہیں تاکہ مشرقِ وسطیٰ کے تمام مذاہب یک جان اور مسلمان رسالتِ محمّدیؐ کی برکت سے محروم ہو جائیں۔
؎ وہ فاقہ کَش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا… رُوحِ محمّدؐ اس کے بدن سے نکال دو… اقبال کے نفَس سے ہے لالے کی آگ تیز… ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو۔ اِس موقعے پرکچھ مسلمان زعماء ہندی وطنیت کے نظریے اور برہمو سماج کے فلسفے سے متاثر ہوئے، تو اقبالؒ نے اُن کے خلاف بھرپور آواز بلند کرتے ہوئے کہا کہ؎ عجم ہنوز نداند رموزِ دیں، ورنہ… زدیوبند حسین احمد! ایں چہ بو العجبی است… سرود برسرِمنبر کہ مِلّت از وطن است… چہ بےخبر زمقامِ محمّدِ عربیؐ است… بمصطفیٰؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست… اگر بہ او نرسیدی، تمام بولہبی است۔
مسلمانوں کے خلاف تیسری پُرتشدّد اور جارحیت پسند تحریک دیانند سرسوتی کی ’’آریا سماج تحریک‘‘ تھی، جسے ہندو معاشرے میں خاصی پذیرائی ملی۔ اس تحریک کے دوران یہ نعرہ لگایا گیا کہ ’’ہندوستان صرف ہندوؤں کا مُلک ہے۔ یہاں مسلمانوں کے لیےکوئی جگہ نہیں۔ لہٰذا، ہندو ہوجاؤ یا یہاں سے ہجرت کر جاؤ۔‘‘ اِسی تحریک کے تحت ہی بعد میں ’’آر ایس ایس‘‘ وجود میں آئی، جو ہندوؤں کی انتہائی جارحیت پسند تنظیم ہے۔
اِسی طرح ’’شُدھی تحریک‘‘ شروع ہوئی کہ مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بنایا جائے۔ شُدھی تحریک سے وابستہ افراد کا ماننا تھا کہ ’’مسلمانوں کے آباؤ اجداد ہندوؤں ہی میں سے تھے، جو مسلمان ہوگئے تھے، لہٰذا مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بنایا جائے۔‘‘ راجستھان اور میوات کے علاقوں میں یہ تحریک بڑی تیزی سے پھیلی، جہاں مسلمانوں میں جہالت تھی اور وہ ہندو ہوگئے۔ پھر’’سنگھٹن تحریک‘‘ شروع ہوئی کہ سب ہندوؤں کو ایک جگہ متّحد کردیا جائے۔ اِن حالات میں اقبال نے وطنیت کے مروّجہ تصوّرکی شدید ترین نفی کی۔
اِس ضمن میں اُن کی نظم ’’وطنیت‘‘ ملاحظہ کیجیے کہ ؎ اِن تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے… جو پیرہن اِس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہے… یہ بُت کہ تراشیدۂ تہذیبِ نوی ہے… غارت گرِکاشانۂ دینِ نبویؐ ہے… بازو تِرا توحید کی قوّت سے قوی ہے… اسلام تِرا دیس ہے، تُو مصطفویؐ ہے… نظارۂ دیرینہ زمانے کو دِکھا دے… اے مصطفویؐ خاک میں اِس بُت کو ملا دے… گُفتارِسیاست میں وطن اورہی کچھ ہے… ارشادِ نبوّتؐ میں وطن اور ہی کچھ ہے… اقوام میں مخلوقِ خدا بٹتی ہے اس سے… قومیتِ اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے۔
دوسری جانب محمّد علی جناحؒ دسمبر 1930ء میں جب ہندوستان کی سیاست سے مایوس ہوکر انگلستان جا کر آباد ہوگئے، تو شیخ محمّد اکرام نے،جو ’’ادارۂ ثقافتِ اسلامیہ‘‘ کے ڈائریکٹر بھی رہے، لندن میں اُن سے ملاقات کے دوران استفسار کیا کہ ’’آپ نے ہندوستان کیوں چھوڑا؟‘‘ تو اُنھوں نے جواب دیا کہ ’’ہندو ناقابلِ اصلاح ہیں اور مسلمان ناقابلِ بھروسا، اُن کا کوئی لیڈرمُجھ سے جو بات صُبح کرتا ہے، وہ شام کو ڈپٹی کمشنر کو بتا دیتا ہے، تو اب مَیں ایسی قوم کی رہنمائی کیسے کروں؟‘‘
اُسی سال علاّمہ اقبالؒ نے الہٰ باد میں منعقدہ مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس سے اپنے صدارتی خطاب کے دوران ببانگِ دہل کہا کہ ’’مَیں پنجاب، سرحد، سندھ اور بلوچستان کو متّحد ہوکرایک واحد ریاست کی شکل میں دیکھنا چاہتا ہوں، جس کی اپنی حکومت ہو، خواہ سلطنتِ برطانیہ کے تحت یا اُس سے الگ۔ اور مُجھے نظر آرہا ہے کہ یہ متّحدہ شمال مغربی مسلم ریاست کم ازکم شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے اٹل تقدیر ہے۔
لہٰذا، مَیں ہندوستان اور اسلام کے بہترین مفاد میں ایک الگ مسلم ریاست بنانے کا مطالبہ کرتا ہوں۔‘‘ اس موقعے پر انہوں نے مزید کہا کہ ’’اسلام کےلیے یہ ایک موقع ہوگا کہ عرب ملوکیت کے تحت اس پر جو پردے پڑگئے تھے، اُن سے چُھٹکارا حاصل کر سکے اور اپنے قوانین، تعلیمات اورثقافت کو اپنی اصل رُوح کے ساتھ رُوحِ عصر سے ہم آہنگ کرسکے۔‘‘
1930ء ہی میں منعقدہونے والی تیسری گول میز کانفرنس میں محمّدعلی جناحؒ شریک نہیں ہوئے۔ علاّمہ اقبالؒ جب اس میں شرکت کے لیے گئے، توانہوں نےلندن میں محمّدعلی جناح ؒسے ملاقات کی اور اُنہیں اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ دوبارہ سیاست میں آئیں اور مسلمانوں کے جذبات میں حرارت پیدا کرنےکےلیے اسلام کےاحیاء کی بات کریں۔
اقبالؒ سے ملاقات کے بعد محمّد علی جناحؒ نے اپنا فیصلہ تبدیل کیا اور وہ 1934ء میں ہندوستان واپس آگئے اورعلاّمہ محمّد اقبالؒ نے اُنہیں اپنی جگہ مسلم لیگ کا تا حیات صدر بنادیا اور اُن کی قیادت میں مسلمانوں نے ایکٹ آف انڈیا 1935ءکے تحت ہونے والے انتخابات میں حصّہ لینے کی تیاری شروع کر دی۔1936ء کے انتخابات میں کانگریس نے فیصلہ کُن اکثریت سےکام یابی حاصل کی اور حکومت سازی کے بعد کانگریسی وزراء نے مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک ہی نہیں، حقوق کی پامالی بھی شروع کردی۔
ہندوؤں کے اس طرزِعمل سے محمّد علی جناحؒ پر اُن کی اسلام دشمنی واضح ہوگئی۔ اور پھر اُنہوں نے 1937ء سے 1947ء تک اپنی سیاست میں اسلام اور مسلمانوں ہی کی بات کی کہ ’’ہمیں اسلام چاہیے، ہم اسلامی تہذیب، اسلامی قوانین چاہتے ہیں، جو ہندو قوانین سے یک سر الگ ہیں۔
اسلام صرف ہمارا مذہب نہیں، بلکہ دین ہے، یہ زندگی کے تمام معاملات پرحاوی ہے۔‘‘اس دو قومی نظریے نے مسلمانوں کا جوش و ولولہ تازہ کردیا، جس پر اقبالؒ نے کہا کہ ؎ اِک ولولہ ٔتازہ دیا مَیں نے دِلوں کو… لاہور سے تا خاکِ بخارا و سمرقند۔ جب محمّد علی جناحؒ کی زبان سے وہ آواز بلند ہوئی کہ جو مسلمانوں کے دِلوں کی آواز اور اُن کی رُوح کی پکار تھی، تو سب نے اس پر لبّیک کہا۔ نتیجتاً، مُسلم لیگ ایک عوامی جماعت بن گئی اور محمّد علی جناحؒ ’’قائدِ اعظم‘‘ قرار پائے۔
مذکورہ بالا تجزیے کی رُو سے نظریۂ پاکستان اور احیائے اسلام کے خالق اقبال ہیں اور اس نظریے کو قائدِاعظم محمّدعلی جناحؒ تک پہنچانے والے بھی اقبال ہی تھے۔ اس اَمر کی تائید کے لیے قائدِاعظمؒ کے علاّمہ اقبالؒ کے حوالے سے تاثرات پر مبنی اقتباسات پیشِ خدمت ہیں۔
جب کلکتہ میں مسئلہ فلسطین پر غور کے لیے منعقدہ ایک جلسے کی صدارت کے دوران 21 اپریل 1938ء کو قائدِ اعظمؒ کو علاّمہ اقبال کے انتقال کی خبر ملی، تو اُنہوں نے اس جلسے میں خطاب کے دوران جو کہا، اُس کی خبر’’اسٹار آف انڈیا‘‘ نامی اخبارمیں 22 اپریل کوشہ سرخی کے طور پریوں شائع ہوئی کہ ’’مسئلہ فلسطین پر غور کے لیے 21 اپریل کو کلکتہ کے مسلمانوں کا ایک عظیم الشّان جلسہ فُٹ بال گراؤنڈ میں منعقد ہوا، لیکن یہ جلسہ علاّمہ اقبال کی وفات کے سوگ میں ایک تعزیّتی جلسے میں تبدیل ہوگیا۔ اس کی صدارت مسٹر محمّد علی جناح نےکی۔
مسٹر محمد علی جناح نے فرمایا کہ ’’ڈاکٹر سر محمّد اقبال کی وفات کی افسوس ناک خبر نے دنیائے اسلام کو گہرے رنج اور افسوس میں مبتلا کردیا ہے۔ سر محمّد اقبالؒ بِلاشُبہ ایک عظیم شاعر، فلسفی اور ہمہ وقت صاحبِ بصیرت انسان تھے۔ انہوں نے مُلکی سیاست میں نمایاں حصّہ لیا اور دنیائے اسلام کی علمی و ثقافتی تجدید میں اہم کردار ادا کیا۔ دُنیائے ادب میں ان کی تحریر و تقریر کا جو حصّہ ہے، وہ ہمیشہ زندہ رہےگا۔‘‘
قائدِ اعظمؒ نے مزید کہا کہ ’’وہ میرے ذاتی دوست، فلسفی اور رہنما تھے۔ وہ میرے لیے تشویق، فیضان اور روحانی قوّت کا سب سے بڑا ذریعہ تھے۔‘‘ اسی طرح 1940ء میں اقبال ڈے کے موقعے پر قائدِاعظمؒ نے فرمایا کہ ’’اگر مَیں ہندوستان میں ایک مثالی اسلامی ریاست کے حصول تک زندہ رہا اوراُس وقت مُجھے یہ اختیار دیا گیا کہ مَیں اقبال کےکلام اوراس مُسلم ریاست کی حُکم رانی میں سے ایک کا انتخاب کروں، تو مَیں اقبال کے کلام کو ترجیح دوں گا۔‘‘ اِسی تسلسل میں انہوں نےفرمایا کہ ’’اپریل 1936ء میں انہوں نے مسلم لیگ کو، جواُس وقت صرف ایک عام ادارہ تھا، ہندوستان کے مسلمانوں کی پارلیمنٹ میں تبدیل کرنے کے متعلق سوچا۔
اُس وقت سے لے کر زندگی کے آخری دن تک اقبال میرے ساتھ چٹان کی طرح کھڑے رہے۔‘‘ بانیٔ پاکستان نے مزید فرمایا کہ ’’اقبال صرف ایک عظیم شاعر ہی نہ تھے کہ جو ادبی دُنیا کی تاریخ میں ایک بہترین ادیب جانے جائیں گے بلکہ وہ ایک متحرّک شخصیت تھے، جنہوں نے اپنی زندگی میں مسلمانوں کا قومی شعور بےدار کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔‘‘
مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ بات بلا تردید و خوف کہی جا سکتی ہے کہ ڈاکٹر علاّمہ محمّد اقبال کا پاکستان کی تخلیق میں کلیدی کردار ہے۔ وہ نہ صرف مبشّرِ پاکستان تھے بلکہ مفکّرِ پاکستان اورمجوّزِ پاکستان بھی تھے۔ انہوں نے مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے تحریکِ پاکستان میں نہ صرف اسلام کی رُوح پھونکی بلکہ محمّد علی جناحؒ کو بھی اِس حقیقت سے رُوشناس کروایا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی بقا صرف اور صرف ایک الگ مملکت کے قیام میں مضمر ہے۔ نیز، یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر وہ محمّد علی جناحؒ کو منا کر ہندوستان واپس نہ لاتے اور مسلم لیگ کی صدرات ازخُود اُن کے حوالے نہ کرتے، تو محمّد علی جناحؒ قائدِ اعظم بنتے اور نہ ہی پاکستان معرضِ وجود میں آتا۔
ڈاکٹر قمر عبّاس
عزم اپنا تھا چُوں کہ فولادی
اس لیے ہم نے پائی آزادی
درمیاں تھے ہمارے غیر مگر
ہم نے باطل کو دُھول چٹوا دی
چاند تارے سجا کے پرچم میں
شان دھرتی کی اور بڑھوا دی
کوہ و دریا بھی تھے سمندر بھی
کس قدر تھی ہری بھری وادی
مرد و زن، نوجواں، صغیر و کبیر
گویا قوّت بہت تھی افرادی
ہم کو بخشا تھا ربّ نے اتنا کچھ
پھر مقدّر میں اتنی بربادی؟
اب تو حالت کچھ ہوگئی ایسی
جس کو دیکھو وہی ہے فریادی
کیوں ہے پہلو تہی یہ محنت سے ؟
قوم کیوں اس کی ہوگئی عادی؟
حالِ بد گفتنی نہیں اب تو
اب نہ رہبر نہ اب رہے ہادی
چل پڑے ہم بغیر کچھ سمجھے
جس نے جو راہ ہم کو دکھلا دی
کاش ہم لوگ اب سنبھل جائیں
اب نہ ہرگز ہو اور بربادی
روحِ قائد بھی شاد ہو پیہم
خانۂ غم ہو خانۂ شادی
نظم ہو، اتحاد و ایماں ہو
بس اُنہوں نے یہ بات سمجھا دی
اپنا پرچم رہے قمر اونچا
ہے دُعاگو تمام آبادی