رابعہ فاطمہ
تاریخِ اقوام میں وہ تحریکات ہمیشہ دیرپا اثرات مرتّب کرتی ہیں، جن کی بنیاد صرف سیاسی مطالبات پر نہیں، بلکہ فکری شعور، تہذیبی شناخت اور اجتماعی وجود کے احساس پر ہو۔ تحریکِ پاکستان ایسی ہی ایک ہمہ جہت قومی تحریک تھی، جو برّ ِصغیر کے مسلمانوں کی سیاسی خود مختاری سے کہیں بڑھ کر اُن کی فکری و تمدّنی بازیافت کی علامت بن کر اُبھری۔
اِس تحریک کی قیادت اگرچہ مَردوں کے ہاتھ میں تھی، مگر اس کے فکری قلعے، سماجی بنیادوں اور اخلاقی منازل کی تعمیر میں مسلم خواتین نے بھی ایسا کردار ادا کیا، جو نہ صرف قابلِ تحسین ہے، بلکہ تحقیق کا مستحق بھی۔
روایتاً محدود دائرۂ عمل میں مقیّد عورت نے جب قوم کے نصب العین کو اپنا وجودی مقدمہ بنایا، تو اس نے نہ صرف خود کو جدید سیاسی شعور سے ہم آہنگ کیا، بلکہ پوری تحریک کو ایک روحانی جواز عطا کردیا۔
مسلم خواتین کی شرکت محض نمائشی یا جذباتی تائید نہ تھی، یہ ایک منظّم، نظریاتی اور عملی شمولیت تھی، جس نے تحریک کو فکری گہرائی، اخلاقی استواری اور عوامی وسعت بخشی۔ ان کا کردار اب صرف تاریخی حوالہ نہیں رہا، بلکہ نسوانی حریّت، مسلم شناخت اور قومی ترقّی کے مباحث میں ایک مرکزی مقام اختیار کر چُکا ہے۔
قومی بے داری اور ابتدائی سیاسی شرکت
برّ ِعظیم کی مسلم خواتین کی سیاسی بے داری کا آغاز انیسویں صدی کے اواخر میں ہوا، تاہم اس میں شعوری جہت، تحریکِ خلافت کے دَوران نمایاں ہوئی۔ بی امّاں(والدۂ مولانا محمّد علی جوہر) نے پہلی مرتبہ عوامی جلسوں میں شرکت اور خطابات کے ذریعے نسوانی سیاست کو عملی میدان میں متعارف کروایا۔ اِس اقدام نے خواتین کے لیے قومی تحریکوں میں فعال کردار ادا کرنے کی راہ ہم وار کی۔
تحریکِ پاکستان کی ابتدائی دہائیوں میں مسلم لیگ کی قیادت نے خواتین کی شرکت کو رسمی حیثیت دی۔تاہم، 1938ء میں مسلم لیگ کے کلکتہ اجلاس میں خواتین کی تنظیم سازی پر زور دیا گیا۔ اِسی تسلسل میں خواتین ونگز قائم کیے گئے، جن سے بیگم سلمیٰ تصدّق حسین، بیگم جہان آرا شاہ نواز اور بیگم رعنا لیاقت علی خان جیسے نام نمایاں ہوئے۔
یہ خواتین نہ صرف تنظیمی امور میں مصروف رہیں، بلکہ سیاسی جلسوں میں شرکت، تقاریر اور رائے عامّہ کی تشکیل میں بھی پیش پیش رہیں۔ خاص طور پر 23 مارچ 1940ء کو قراردادِ لاہور کے موقعے پر خواتین کی شمولیت ایک سنگِ میل ثابت ہوئی، جس نے واضح کر دیا کہ تحریکِ پاکستان ایک ہمہ گیر قومی تحریک ہے۔1946ء کے انتخابات میں خواتین نے نہ صرف ووٹ کا استعمال کیا، بلکہ انتخابی مہمّات میں بھی عملی کردار ادا کیا۔
گھر گھر جا کر خواتین کو بے دار کرنا، جلسے منعقد کرنا اور مَردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا، خواتین کی سیاسی پختگی کا مظہر تھا۔اِس تمام عمل نے نہ صرف مسلم خواتین کو سیاسی اعتبار سے مضبوط کیا، بلکہ تحریکِ پاکستان کو ایک اخلاقی و عوامی طاقت بھی فراہم کی۔
نظریاتی تربیت اور تعلیمی پیش رفت
تحریکِ پاکستان کی فکری اساس مضبوط کرنے میں مسلم خواتین کے تعلیمی کردار کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ علی گڑھ تحریک نے مسلمانانِ ہند کو جدید تعلیم کی طرف مائل کیا، جس کے اثرات خواتین تک بھی پہنچے۔ بیگم رقیہ سخاوت حسین اور نصرت خانم جیسی خواتین نے خواتین کی تعلیم کو ایک سماجی تحریک میں بدل دیا۔
تعلیمی ادارے جیسے دارالعلوم اسلامیہ لاہور، اسلامیہ کالج برائے خواتین کراچی اور دہلی کالج نے طالبات کو نہ صرف تعلیم دی بلکہ سیاسی شعور اور قومی نظریات سے بھی روشناس کیا۔ یہاں تقریری مقابلے، مباحثے اور فکری نشستیں مسلم نوجوان طالبات کی تربیت کا حصّہ بنیں۔ تعلیم یافتہ خواتین نے اپنے قلم کے ذریعے بھی تحریکِ پاکستان کی وکالت کی۔
اُنہوں نے اُردو اخبارات و رسائل میں نظریۂ پاکستان پر مضامین لکھے اور قارئین میں فکری یک جہتی پیدا کی۔ ان کی تحریریں علمی استدلال، لسانی فصاحت اور سیاسی بصیرت کا شاہ کار تھیں۔ یہی خواتین بعدازاں تحریک کے پالیسی ساز طبقے اور تعلیمی اصلاحات کی علم بردار بنیں۔
ان کا شعور اِس قدر بے دار تھا کہ وہ صرف پیروکار نہیں، بلکہ فکری رہنما بھی ثابت ہوئیں۔تحریک کے اِس پہلو نے واضح کیا کہ تعلیم محض معلومات کا ذخیرہ نہیں، سیاسی و سماجی تشکیلِ نو کا بنیادی وسیلہ بھی ہے۔
صحافت و ادبی ترویج
تحریکِ پاکستان کے نظریات کو عام کرنے میں خواتین کی صحافتی و ادبی خدمات نظرانداز نہیں کی جا سکتیں۔ برّ ِعظیم کے مختلف شہروں سے خواتین کے لیے مخصوص رسائل شائع ہوتے تھے، جن میں’’تہذیبِ نسواں‘‘، ’’عصمت‘‘ اور ’’خاتون‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔ ان جرائد میں قومی آزادی، حجاب، نسوانی خودی اور تعلیم جیسے موضوعات پر مدلّل مضامین شائع ہوتے تھے۔
بیگم شاہ نواز اور بیگم شوکت فاطمہ نے اردو صحافت میں اپنی تحریروں کے ذریعے قومی شعور کو مہمیز دی۔ ان کی تحریریں خالص فکری استدلال پر مبنی ہوتی تھیں، جنہوں نے خواتین کو تحریکِ پاکستان کا فعال حصّہ بنایا۔ فاطمہ جناح نے خطابت کے ذریعے نہ صرف خواتین کو بلکہ عوام النّاس کو بھی تحریک کے اغراض و مقاصد سے روشناس کروایا۔
ان کی تقریریں ولولہ انگیز اور فکری گہرائی سے بھرپور ہوتی تھیں۔اِس ادبی سرگرمی کا مقصد صرف تحریک کے حق میں جذبات اُبھارنا نہیں تھا، بلکہ سامع و قاری کو فکری بنیادوں پر قائل کرنا تھا۔ یہی وہ اسلوب تھا، جس نے تحریک کو محض ایک سیاسی بیانیے کی بجائے ایک فکری تحریک میں بدل دیا۔ خواتین کی ادبی کاوشیں اِس حقیقت کا ثبوت ہیں کہ اُنہوں نے صرف خود کو بے دار نہیں کیا، بلکہ پوری ملّتِ اسلامیہ کی فکری رہنمائی کی۔
تنظیم سازی اور عوامی مہمّات
سیاسی و فکری سطح پر سرگرمیوں کے ساتھ، خواتین نے تنظیم سازی میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ مسلم لیگ کے خواتین ونگز اور بعدازاں قائم ہونے والی آل پاکستان ویمن ایسوسی ایشن (APWA) خواتین کی تنظیمی سرگرمیوں کا محور بن گئے۔ بیگم رعنا لیاقت علی خان نے اپوا کے ذریعے خواتین کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا، جہاں سے وہ نہ صرف تربیت حاصل کرتیں،بلکہ تحریک کے لیے عملی خدمات انجام دیتی رہیں۔
خواتین نے عوامی سطح پر اجتماعات منعقد کیے، سیاسی شعور بیدار کیا، چندہ مہمّات چلائیں اور نچلی سطح تک تحریک کے نظریات پہنچائے۔ یہ تمام سرگرمیاں نہایت منظّم اور مربوط انداز میں کی جاتی تھیں۔ اِن تنظیموں نے خواتین میں قیادت، گفت و شنید اور انتظامی امور کی صلاحیتیں پیدا کیں، جو بعدازاں نئی مملکت کی تعمیر میں کام آئیں۔یہ حقیقت ناقابلِ تردید ہے کہ خواتین کی تنظیمی شمولیت نے تحریکِ پاکستان کو ایک عوامی تحریک بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔
قربانی اور استقامت کا عملی مظاہرہ
تحریکِ پاکستان کے عملی مراحل میں مسلم خواتین نے جس قربانی، استقامت اور صبر کا مظاہرہ کیا، وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ 1946ء کے فسادات کے دَوران ہزاروں خواتین نے جان و مال اور عزّت کی قربانی دی، مگر تحریک سے پیچھے نہ ہٹیں۔ کلکتہ، ڈھاکا، بہار اور کان پور کے فسادات میں مسلم خواتین پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے، لیکن اُن کی جرأت اور حوصلہ قابلِ ستائش رہا۔ اُنہوں نے نہ صرف اپنے حقوق کا دفاع کیا، بلکہ مظلوموں کی حمایت میں بھی آواز بلند کی۔
قیامِ پاکستان کے وقت لاکھوں خواتین نے اپنے خاندانوں کے ساتھ ہجرت کی۔ قافلوں کی قیادت، زخمیوں کی خدمت، بچّوں اور بزرگوں کی نگہہ داشت جیسے کاموں میں خواتین پیش پیش تھیں۔ مہاجر کیمپس میں خواتین رضاکاروں نے طبّی خدمات، خوراک کی تقسیم اور تعلیمی سرگرمیوں کا بندوبست کیا۔
ان خدمات نے خواتین کو ملّت کی محافظ اور معمار کے طور پر متعارف کروایا۔ یہ تمام قربانیاں تحریک کی نظریاتی مضبوطی کا عملی اظہار تھیں، جن سے واضح ہوا کہ عورت اِس تحریک کا غیر متنازع ستون ہے۔
فکری میراث اور علمی تشریح
تحریکِ پاکستان میں خواتین کے کردار نے ایک مستقل فکری و علمی وَرثہ چھوڑا، جسے عصرِ حاضر کے محقّقین نے تفصیل سے اُجاگر کیا ہے۔ڈاکٹر روبینہ سہیل، ڈاکٹر نائلہ کوثر اور ڈاکٹر رضیہ فاطمہ جیسی اسکالرز نے اپنے تحقیقی مضامین میں خواتین کے سیاسی، تعلیمی اور صحافتی کردار پر مدلّل اور حوالہ جاتی تجزیے پیش کیے ہیں۔
ان محقّقین نے ثابت کیا کہ خواتین کی شرکت نہ صرف عددی یا جذباتی تھی، بلکہ ایک نظریاتی و تنظیمی حقیقت بھی تھی، جس نے تحریکِ پاکستان کو علمی جواز عطا کیا۔ ان کی خدمات اِس بات کی شہادت ہیں کہ مسلم خواتین نے فکری خودی، قومی وابستگی اور دینی شعور کو تحریک کے ساتھ جوڑ کر ایک نئی نسوانی شناخت تشکیل دی۔ یہ تحقیقی کوششیں اِس بات کی متقاضی ہیں کہ اِس کردار کو مزید تحقیق، تعلیم اور علمی مباحث کا حصّہ بنایا جائے۔
نسلِ نو کی رہنما
آج جب مسلم دنیا کو نئے فکری، سیاسی اور سماجی چیلنجز کا سامنا ہے، تو ایسے میں تحریکِ پاکستان میں خواتین کی جدوجہد ایک قیمتی رہنما اصول کے طور پر سامنے آتی ہے۔ یہ کردار اِس لیے بھی اہم ہے کہ اس نے روایت اور جدّت، پردہ اور سیاست، علم اور عمل، سب کو ایک حسین امتزاج میں ڈھال دیا۔ موجودہ نسل کو چاہیے کہ وہ تحریکِ پاکستان میں خواتین کے کردار کو محض ماضی کا فخر نہ سمجھے، بلکہ اسے حال کی رہنمائی اور مستقبل کی تعمیر کا ذریعہ بنائے۔
خواتین کے تعلیمی اداروں، فکری حلقوں اور پالیسی سازی کے مراکز میں اس کردار کو شامل کرنا، فکری خود انحصاری اور علمی ارتقا کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔تحریکِ پاکستان میں شامل خواتین ہمارے فکری وَرثے کی محافظ ہیں اور ان کا ذکر فقط خراجِ تحسین نہیں، بلکہ عہدِ نو کی فکری تعمیر کا نقطۂ آغاز ہونا چاہیے۔
تحریکِ پاکستان میں خواتین کا کردار محض ایک ضمیمہ یا اضافی پہلو نہیں، بلکہ یہ اس تحریک کے نظریاتی تشخّص، عملی ساخت اور سماجی قبولیت کی بنیادی اکائی تھا۔ جب مسلم عورت نے اپنی سماجی قیود سے بلند ہو کر علم، قلم، تقریر اور عمل کے ذریعے تحریک کا حصّہ بننے کا فیصلہ کیا، تو درحقیقت اُس نے برّعظیم میں اسلامی فکر، قومی وحدت اور صنفی توازن کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔
سیاسی جلسوں کی نظم ہو یا تعلیمی اداروں میں فکری مباحث، صحافتی کالم ہوں یا فسادات کے دَوران انسانی خدمت، مسلم خواتین نے ہر محاذ پر یہ ثابت کیا کہ تحریکِ پاکستان صرف مردانِ ملّت کا خواب نہیں، بلکہ ایک ایسی اجتماعی سعیٔ پیہم تھی، جس میں عورت کا کردار مرکزیت رکھتا ہے۔ ان کی تحریریں دلیل سے لب ریز تھیں، خطابت میں ولولہ تھا اور قربانیوں میں اخلاص اور ثابت قدمی۔
آج جب مسلم معاشرے مختلف تہذیبی اور فکری آزمائشوں سے دوچار ہیں، تحریکِ پاکستان میں خواتین کے کردار کو نئی نسل کے سامنے صرف تاریخی بیانیے کے طور پر نہیں، بلکہ ایک عملی نمونے، فکری مثال اور تہذیبی میراث کے طور پر پیش کرنا ناگزیر ہو گیا ہے۔ یہ کردار ہمیں بتاتا ہے کہ جب عورت کسی نصب العین کو دل سے اپنا لیتی ہے، تو وہ محض پیروکار نہیں، بلکہ رہنما بن جاتی ہے۔
اِس لیے لازم ہے کہ مسلم خواتین کے اِس تاریخی کردار کو محقّقانہ بصیرت کے ساتھ محفوظ کیا جائے تاکہ آئندہ نسلیں اِسے صرف یاد نہ کریں بلکہ اس سے روشنی اور رہنمائی بھی حاصل کریں۔ یہی علمی دیانت، تہذیبی فرض اور فکری استقامت کا تقاضا ہے۔