• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کلثوم پارس

’’ایک عورت نے اپنے شوہر کو پانی دینے سے انکار کیا تھا، تو مرنے کے بعد کسی نے اُسے خواب میں دیکھا کہ وہ کولھو کے ساتھ بیل کی جگہ جُتی ہوئی ہے۔ اپنے مرد کے آگے زبان نہ چلایا کر!! تُو زبان چلائے گی، تو وہ ہاتھ چلائے گا۔‘‘ دادی آج بھی امّی کے گھر میں کام کرنے والی شکیلہ کو مرد کے فضائل پہ لیکچر دے رہی تھیں۔ ’’دقیانوسی !!!‘‘ اتنا کہہ کر مَیں امّی سے کچھ ضروری بات کرنے کے بعد ڈیوٹی پر روانہ ہوگئی۔ میرے اور امّی کے گھر کے بیچ زیادہ فاصلہ نہیں تھا، اِس لیے صُبح و شام کا آنا جانا تھا۔

ہم دونوں میاں بیوی قریبی اسپتال میں مسیحائی کے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔ شیڈول کچھ ایسے طے کیا ہوا تھا کہ جس دن میری رات کی ڈیوٹی ہوتی، تو شوہرِ نام دار ہمارے بیٹے احمر کو سنبھالتے… اِسی طرح زندگی کے شب و روز قدرے اچھے گزر رہے تھے۔ مگر… کل جب مَیں تھکی ماندی گھر پہنچی تو پورا گھر احمر کے رونے کی آواز سے گونج رہا تھا۔ ہزار جتن کرنے کے باوجود بھی ذیشان، احمر کو سلانے میں ناکام رہے تھے۔ ’’اچھا ہوا تم آگئیں۔ 

یہ چُپ ہی نہیں ہو رہا۔ احمر کو پتا نہیں کیا ہوگیا ہے…فیڈر بھی نہیں لے رہا، حالاں کہ بخار بھی نہیں ہے…‘‘ تھکاوٹ سے میرا بُراحال تھا۔ مَیں نے غصّے میں ذیشان کو کھری کھری سُنا دیں۔ ’’مگر عاتکہ! یہ چُپ نہیں ہو رہا…اور آیا بھی چُھٹی پہ ہے۔‘‘ ذیشان نے التجائیہ لہجے میں کہا۔ ’’ہوجائے گا چُپ… ویسے بھی مَیں نے کہا تھا کہ بچّہ ابھی نہیں… تمہاری ہی ضد تھی۔

اگر یہ سب کچھ پِری پلینڈ ہوتا، تو یوں خواری نہ کاٹنی پڑتی۔ مَیں گھر داری اور نوکری کے درمیان گھن چکر نہ بنی ہوتی۔‘‘ مَیں نے اپنی ساری بھڑاس آج ہی نکالنی تھی۔ ’’ہماری اسٹڈی پِری پلینڈ تھی، محبّت اور شادی پِری پلینڈ تھی، میڈیکل کی پڑھائی اور نوکری پِری پلینڈ تھی۔ اگر بچّہ پری پلینڈ نہیں، تو کون سی قیامت آگئی ہے۔ تم اِس کی حالت تو دیکھو! تم کیسی ماں ہو؟؟‘‘ 

جواباً ذیشان تو جیسے برس ہی پڑا۔ ’’مَیں ماں ہوں، تو تم باپ ہو…‘‘ ’’ہاں! ہوں باپ!! مگر اِس وقت اسے تمہاری ضرورت ہے۔ اس وقت جو تم اُسے دے سکتی ہو، وہ میرے پاس نہیں ہے۔‘‘ ’’دیکھو!! تم جاہل مردوں کی طرح شوہر بننے کی کوشش کررہے ہو۔‘‘ مَیں نے بھی آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا۔ ’’میں شوہر بننے کی کوشش نہیں کر رہا… مَیں شوہر ہوں…‘‘ ’’ہوں‘‘ پہ زور دیتے ہوئے وہ مجھ پہ حکم صادر فرما رہا تھا۔ تھکن سے میرا وجود اور نیند سے آنکھیں بوجھل تھیں مگر ذیشان حکم نامہ جاری کر کے کمرے کا دروازہ پٹخ کر باہر جا چُکا تھا۔

کمرے میں چاروں طرف پھیلی بے چارگی سے نظریں چُراتے ہوئے مَیں نے اپنے بیٹے پر ایک نگاہ ڈالی، جس کا گلا رو رو کر خشک ہو چُکا تھا۔ مَیں نے جیسے ہی اُسے اٹھایا۔ اُس کا رونا تیز طوفانی ہوا سے آہستہ آہستہ نرم ہوا کے جھونکوں میں تبدیل ہوگیا۔ مَیں نے اُسے اپنے ساتھ لگا کربھینچا تو محسوس کیا کہ مَیں غصّے میں جان ہی نہ پائی کہ اِس وقت میرے بچّے کو میری کتنی ضرورت ہے۔ اُسے ماں کی ممتا کی ضروت تھی، جو واقعتاً ذیشان کے پاس نہیں تھی۔ مَیں نے خونِ جگر سے اِس ننھے پودے کی آب یاری شروع کردی۔ جیسے ہی اُس کا شکم سیر ہوا، تو میرے دل میں بھی ایک ٹھنڈک کا احساس ہوا۔ وہ چھوٹی چھوٹی سسکیاں بھرتا سوگیا۔ مجھے بھی اطمینان کی آغوش نصیب ہوئی اور جانے کب میں بھی نیند کی وادیوں کی سیر کو نکل گئی۔

::::::::::::::::

یہ وقت گزرا تو سہی، مگر بہت سے تشنہ سوالوں کی پیاس بجھا گیا۔ پھر ایک مصروف صُبح نے انگڑائی لی اور مَیں انگڑائی لیے بغیر ہی چل سو چل اسپتال کے لیے نکل پڑی۔ صُبح صبح چوراہے پر ٹریفک جام نے دماغ خراب کر رکھا تھا۔ بے ہنگم ٹریفک کا شور، رکشے اور بس کی ٹکر… گاڑیوں اور موٹرسائیکل والوں کی تکرار… عجیب سی کھچڑی پکی ہوئی تھی۔ اتنے میں ایک ٹریفک پولیس اہل کار آیا۔ اُس نے سب سے پہلے بے ہنگم ٹریفک کو ایک ترتیب دی، تو گاڑیاں ایک دوسرے کی قید سے آزاد اپنی اپنی راہ پر گام زن ہوگئیں۔ اور مَیں بھی وقت پر اسپتال پہنچ گئی۔ کل اور آج کے ٹریفک والے واقعات مجھے بہت سے سبق سکھا گئے۔

زندگی کی سڑک پر موجود خواہشیں، تمنائیں، اسٹیٹس، نوکری اور انا زندگی کے گول چکر کے گرد کھڑی بے ترتیبی سے ایک دوسرے کو لتاڑ کر گزرنے کے لیے تیار ہوتی ہیں۔ ایسے میں ٹریفک سگنلز (اصول وقواعد) بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ ٹریفک سگنل کسی نے یقیناً بڑی سوچ بچار کے بعد بنائے ہوں گے۔ کس طرح لال بتی پر رُکنا ہے، کتنی دیر رُکنا ہے اور نہیں رُکے تو حادثہ مقدر بن سکتا ہے۔ یہ لال، پیلی اور سبز بتیاں زندگی کی پوری ترتیب بناتی ہیں۔

اگر عام زندگی میں ان کو فالو نہیں کریں گے تو حادثات ہمارا مقدر بن جائیں گے۔ گھر ٹوٹ جائیں گے۔ رُکیں گے نہیں، تو بہت کچھ پیچھے چھوڑ دیں گے۔ سمجھوتا کرنا بھی لازمی ہوتا ہے۔ اس سے رشتے ٹوٹنے سے بچ جاتے ہیں۔ کچھ کام بعد میں کرنا ضروری ہوتے ہیں اور بعض کام تاخیر سے کرنے سے اپنا وجود کھو بیٹھتے ہیں اور پھر لکیر پیٹنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ آہ! یہ تینوں بتیاں مجھے زندگی کی پوری الجبرا سِکھا گئیں۔ میرے بچّے کو میری ضرورت تھی، اس کام کو مؤخر نہیں کیا جا سکتا تھا۔

مَیں تھوڑی دیر کے لیے یہ بھی سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ ٹریفک کے بیچوں بیچ سگنل نہ ہوں تو گاڑیوں پہ گاڑیاں چڑھ جائیں۔ زندگی کے مسائل کا ریشم الجھ کر رہ جائے اور یوں کوئی سِرا تلاش کرنا مشکل ہوجائے۔ میری نظر ٹریفک پولیس اہل کار پر پڑی۔ سو، اس سوال پر مجھے زیادہ نہیں سوچنا پڑا۔ اس ٹریفک پولیس اہل کار نے اپنی ٹریننگ ضائع نہیں کی تھی۔ اُسے ہی بروئے کار لاتے ہوئے ہاتھ کے اشارے سے ٹریفک کے جمِ غفیر کو چند منٹوں میں ترتیب میں لا کر رکھ دیا تھا۔ 

اور اب ہر کوئی ایک دوسرے کو کچلے بغیر آگے بڑھ رہا تھا۔ زندگی میں بھی ایسے ہی ٹریفک پولیس اہل کاروں کی ضرورت ہوتی ہے، جن کے مشورے ہماری زندگی کی الجھنوں کو سلجھانے میں بڑے معاون ثابت ہوتے ہیں۔ اور میری زندگی میں یہ کام ہمیشہ دادی کیا کرتی تھیں۔ اپنی کہانیوں اور حکایتوں کے ذریعے بڑی بڑی گُتھیاں منٹوں میں سلجھا دیتی تھیں۔ جب سے ’’میرا جسم، میری مرضی‘‘ جیسی آلودہ ہوا چلی تھی، تب سے دادی ہمیشہ کہتی تھیں۔

’’مَردوں کو عورتوں پر ایک درجہ فضیلت حاصل ہے اور یہ فضیلت اللہ نے انہیں دی ہے۔ ہر ایک کے ذمّے کچھ کام ہیں اور جس کا کام اُسی کو ساجھے۔‘‘ مَیں اپنی ذہنی جنگ لڑنے کے بعد دادی کے فلسفے کی قائل ہو گئی تھی۔ ذیشان نے مجھے حُکم دیا تھا یا نہیں۔ اُس نے مجھے سمجھایا تھا کہ زندگی کی گاڑی کس طرح بہتر انداز سے چل سکتی ہے۔ میاں بیوی لاکھ دوست سہی، مگر کبھی کبھار شوہر کا شوہر بن کر بات کرنا بھی فائدہ مند ہوتا ہے۔

:::::::::::::::::

مَیں آج دادی سے کوئی حکایت سُننے گئی تھی، مگر ایک خبر نے میرے ہاتھوں کے توتے اُڑا دیے۔ دادی کے استفسار پر مَیں نے اُنھیں بتایا۔ ’’شکیلہ کے شوہر نے کھانا تاخیر سے دینے پر اُسے اتنا مارا کہ وہ اپنی کوکھ میں پلنے والے بچّے ہی سے ہاتھ دھو بیٹھی۔‘‘ اور اب… مَیں تنہا بیٹھی سوچ رہی ہوں کہ کھانا تاخیر سے لانے پر شکیلہ کولھو کا بیل بنے گی یا اُس کا ’’مجازی خدا…؟؟‘‘