• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عندلیب زہرا، راول پنڈی

ماسٹر عبد العلی کی تمام زندگی درس و تدریس میں گزری تھی۔ اُن کا گھرانہ تقسیمِ ہند کے خونی مناظر دیکھ کر آیا تھا۔ آگ و خون، قتل و غارت گری۔اُن کےوالد جناح صاحب کے سچّے پرستار، اُن کے نام پراپنا سب کچھ فنا کر کے آئے تھے۔ مال کی قربانی بھی دی تھی، رشتے بھی کھوئے تھے۔

بس، دامنِ دل میں ایک پاکستان سے محبّت تھی اور دوسری محمّد علی جناح سے عقیدت۔ ’’میرا بیٹا استاد بنے گا…‘‘جب عبدالعلی نے پہلی بار تختی، دوات اُٹھائی، تو اُنھوں نے اعلانیہ کہا۔ بیٹے نے بھی باپ کا مان رکھا اور سی ٹی کر کے گاؤں کے اسکول ہی میں استاد لگ گیا۔ ’’تم آنے والی نسلوں سے محمّد علی جناح کا تعارف کرواؤ گے۔ اُن کےخون میں قائدِاعظم کی محبت رواں کردو گے تاکہ ہر نسل کو یاد رہے کہ اُن پرکتنا بڑا احسان کیا گیا ہے۔‘‘ اُنھوں نے اپنے بیٹے سے وعدہ لیا تھا۔

ماسٹرعبدالعلی اپنے پیشے سےبہت مخلص تھے۔ وہ اپنے طلبہ کو کبھی بھی محض رٹی رٹائی باتوں کے ذریعےتعلیم دینے کی کوشش نہیں کرتے۔ یہی وجہ تھی کہ طالبِ علم اُن کےپڑھائے اسباق کبھی نہ بھولتے۔ وہ درسی کتب کے ساتھ شخصیت کی تعمیر سازی بھی کرتے۔ اُنھوں نے بارہا دو قومی نظریے کی وضاحت کی۔ اُنھوں نے کلاس روم میں بڑے سے چارٹ پر لکھوا رکھا تھا۔’’مسلمان گھبرایا نہیں کرتا۔‘‘ محمّد علی جناح کے اقوال ان کی گفتگو کا حصّہ رہتے۔

وہ اُن کی زندگی کے واقعات شگفتہ انداز میں بیان کرتے تاکہ طلبہ اپنے محسن کی زندگی کے ہر ہر پہلو سے آگاہ رہیں۔’’یاد رکھو! جو قومیں اپنے محسنوں، ہیروز کے احسانات بھول جاتی ہیں، پھر وہ تاریکی میں ٹامک ٹوئیاں مارتی ہیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اُن کے چہرے پر ایک نرمی کا تاثر، آنکھوں میں تجربے کی روشنی تھی۔ اور یہ ہی سبب تھا کہ اُن کے شاگرد، ان کے لیکچرز پوری توجّہ سے سُنتے۔

خُودماسٹرعبدالعلی کو اپنے جس شاگرد پر بہت فخر تھا، وہ عبدالواسع تھا۔ اُس سے اُن کی ملاقات بھی عجیب حالات میں ہوئی تھی۔ ’’بیٹا! یہ تم کیا کررہے ہو؟‘‘ اُنھوں نے یہ تب پوچھا تھا، جب دیکھا کہ نہرکنارے ایک دبلا پتلا بچّہ مسلسل گننے کی کوشش کر رہا ہے۔ ’’ایک، دو، تین، چار…دس‘‘ وہ ہر بار دس پر آ کر رُک جاتا۔ اُس نے پہلے درخت گنے، پھر بجلی کی تار پر بیٹھی چڑیاں گننے لگا۔ 

اُس کے بعد گلاب کی شاخ پر اُگے پھول، لیکن ہر بار گنتی دس تک رُک جاتی۔ وہ سائیکل پر اسکول جاتے کئی روز سے اِس بچّے کو دیکھ رہے تھے۔ ’’مَیں پڑھنا چاہتا ہوں، پر ابّا نہیں مانتا۔‘‘ اُس نے اُداس لہجے میں کہا تھا۔ اور پھر سے نہر کنارے کےدرخت گننے لگا تھا۔ ماسٹر عبدالعلی نے افسوس سے دیکھا اور اُس کے باپ سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ 

میلےکچیلےکپڑوں میں ایک نک چڑھا آدمی بُھٹّے بیچ رہا تھا، جس سے بات کرنے سے اندازہ ہوا کہ غربت، فاقے، وسائل کی کمی کے سوا اس کےپاس کوئی بات ہی نہیں، تعلیم توایک طرح کی عیاشی ہی تھی۔ ’’مَیں روز آپ کو دو سو روپے دوں گا، لیکن اپنے بیٹے کوپڑھنے دیں۔‘‘ماسٹرعبدالعلی کا لہجہ ملتجی تھا۔ اُن کی انگلی تھامے وہ ننّھا بچہ آس و نراس کی کیفیت میں باپ کا چہرہ پڑھ رہا تھا۔ بالآخر تھوڑی سی بحث و تمحیص کے بعد وہ راضی ہوگیا۔

اب وہ روز صبح نہر کنارے اُن کی سائیکل کی گھنٹی کا منتظر رہتا۔ وہ اُسے ساتھ بٹھاتے اور اپنے اسکول لے جاتے۔ راستے میں وہ درخت گنتے، مرغیاں گنتے، اسکول جانے والے بچے گنتے۔ اُس نے گنتی بہت جلد یاد کرلی تھی۔ وہ صرف ذہین نہیں، بہت ذہین تھا۔ وہ نہ پڑھتا تو یہ بہت ظلم ہوتا، نہ صرف اُس پر، پوری بستی پر۔ اُسے پانچویں جماعت سے اپنی اعلیٰ کارکردگی پراسکول سے وظیفہ ملنے لگا۔ جو مخیّر افراد کی جانب سے مقررکیا گیا تھا۔ اب اُس کے باپ کو ماسٹر عبدالعلی کے ماہانہ دوسو روپے کی بھی ضرورت نہ تھی کہ عبدالواسع نے اسکول کے بعد کام شروع کردیا تھا۔

جب اُس نے میڑک میں بورڈ میں پوزیشن لی، تو سارا گاؤں اُس کے بوسیدہ دروازے کے آگے مٹھائی، ہار لیے کھڑا تھا، لیکن خُود عبدالواسع ماسٹر صاحب کے قدموں میں سررکھے رو رہا تھا۔ ’’اگر اُس دن آپ مجھے نظرانداز کردیتے تو آج مَیں بھی ریڑھی لگا رہا ہوتا۔‘‘ ماسٹر عبدالعلی نے اُسے کندھوں سے پکڑ کرکھڑا کیا اورگلے لگا لیا۔ ’’میری ہرکام یابی ماسٹر عبدالعلی کے نام ہے۔‘‘ اُس نے انٹرویو میں کہا تھا۔

عبدالواسع نے محنت کی اور اتنی کی کہ اپنے گاؤں کی پہچان بن گیا۔ وقت کے سنہری سکے گرتےگئے۔ اور پھر ایک روز اخبار میں نمایاں شہ سرخی تھی۔ ’’ڈھوک عالم گیر کے عبدالواسع نے سی ایس ایس میں اول پوزیشن حاصل کی ہے۔‘‘ آج پہاڑوں میں گِھرے اس گاؤں میں ہر سمت خوشیاں تھیں، ہر گھرمیں چراغاں۔ عبد الواسع بڑا افسر بن گیا تھا۔ ماسٹرعبدالعلی اب بھی علم کی روشنی بانٹ رہے تھے۔ پہلے سے بوڑھےاورکم زور،لیکن ویسےہی پُرعزم جیسے برسوں پہلے تھے۔ 

اُن کی جماعت میں آج بھی کوئی نہ کوئی گوہرِ نایاب موجود ہوتا، جسے مستقبل کا عبدالواسع بننا تھا۔ وہ اپنی کام یابی پر شاداں و فرحاں اُن سے ملنے آیا۔ سرما کی دھوپ میں حلاوت تھی۔ سوکھے پتّوں کا ڈھیر پڑا تھا کسی نے اُن میں آگ دہکا دی تھی۔ سو وہ باس ہوامیں شامل تھی۔ وہ اُن کے قریب دو زانو بیٹھا تھا۔ اُس کی آنکھوں میں بہت عقیدت تھی، اُس روشن مینار کے لیے، جس نے اسے کندن بنایا۔

’’مَیں جانتا تھا، میرے وجدان نے مجھے خبر دے دی تھی کہ تم منزل پا لو گے، لیکن تمھارا اصل امتحان اب شروع ہواہے۔ کتاب کی دنیا سے نکل کر انسانوں کے جنگل میں تمھیں اپنی وفا و بقا، وقار کی جنگ لڑنی ہے۔ خبردار! کبھی کوئی ایسا کام مت کرنا کہ تمھیں، اپنی نظروں میں شرمندہ ہونا پڑے۔ تمھیں یاد ہے ناں محمّد علی جناح کی وہ باتیں، جو مَیں نے بارہا دہرائی ہیں۔ اُن سےکیا گیا وعدہ۔‘‘ ماسٹر عبدالعلی نے اپنے ہونہار شاگرد کی طرف دیکھا۔ جواباً اُس نے ان کے ہاتھ پر بوسہ دیا اور جُھک کرسلام کیا۔

کمرے کی فضا میں مانوس خاموشی تھی، جس میں کئی بھید بھی تھے۔ ماضی کا مدقوق کم زور عبدواسع آج ڈی سی تھا۔ شہر میں اس کی شہرت کا ڈنکا بجتا تھا۔ اُس کے ایک دستخط پر بڑے بڑے فیصلے ہوتے تھے۔ اُسے ایک فائل بھیجی گئی تھی، ایک غیر قانونی کام کو قانونی رنگ دینا تھا اور اُس کا ایک دستخط یہ کام کرسکتا تھا۔ معاوضے میں اُس کا روشن مستقبل اور ڈھیروں مراعات تھیں۔ لمحے بھر کو لالچ نے سر اُٹھایا، طاقت کا نشہ سر پہ سوار ہوا اور پھر اچانک… تیز ہوائیں چلنے لگیں۔ کھڑکی کے پٹ وا ہو گئے۔ 

سامنے ایک دھندلا زرد سا عکس تھا۔ وہ اپنی کرسی سے اُٹھا اور دروازہ کھول کر باہر آ گیا۔ ’’لے کے رہیں گے پاکستان۔ قائدِاعظم زندہ باد‘‘ لوگ نعرے لگاتے اُس کے پاس سے گزر رہے تھے، لیکن کوئی اُس کی جانب متوجّہ نہ تھا۔’’آج جناح صاحب کا جلسہ ہے، اُن کی سواری آنے والی ہے۔‘‘ دو آدمی پاس سے کہتے گزرے۔ اُس نے چونک کر دیکھا۔ یہ توانیس سو چالیس یا بیالیس کا زمانہ ہے۔ اُس نے اندازہ لگانا چاہا۔ اُس نے اسٹیج پرایک دبلے پتلے، تیز نگاہوں والے لیڈر کو کھڑے دیکھا۔ و ہ قائدِ اعظم تھے۔ پنڈال نعروں سے گونج رہا تھا۔ 

عبدالواسع کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ پھر یک دم پنڈال پر سکوت طاری ہو گیا۔ جناح صاحب تقریر کر رہے تھے۔ ’’مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرزِ حکومت کیا ہو گا؟ پاکستان کے طرزِحکومت کا تعین کرنے والا مَیں کون ہوتا ہوں؟ 

مسلمانوں کا طرزِ حکومت تو ہماری رہنمائی کے لیے آج سے تیرہ سو سال قبل نازل ہونے والے قرآنِ مجید میں موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا۔‘‘ اُن کی نگاہیں عبدالواسع پر تھیں یا شاید اُسے ایسا محسوس ہوا۔ یوں لگا، جیسے وہ پورے پنڈال میں اپنے لیڈر کے ساتھ تنہا کھڑا ہے۔ وہ اُن کے الفاظ اپنے اندر جذب کرنےلگا۔ اچانک ہی ٹھوکر لگی اور وہ منہ کے بل گر پڑا۔

اُس نے چونک کر دیکھا۔ وہ اپنےکمرے میں تنہا بیٹھا تھا۔ فائل قدموں میں گری ہوئی تھی۔ ہوا ساکت، کھڑکی بند تھی۔ دُور دُور کوئی ذی روح نہ تھا، ماسوائے سامنے دیوار پر لگی قائدِاعظم کی پُر وقار تصویر کے۔ اُسے لگا، جیسے وہ اُسے شدید غصے اور ملامت سے دیکھ رہے ہیں۔ 

اُس نے جلدی سے وہ فائل پھاڑ کر ڈسٹ بن میں ڈال دی۔ نگاہوں میں مرحوم ماسٹر عبدالعلی کی تصویر آگئی۔ ’’مجھے آپ سے کیا گیا ہر وعدہ یاد ہے قائدِ اعظم!!‘‘اُس نے تصویر کے سامنے کھڑے ہو کر زیرِ لب کہا اور آنکھوں میں آئی نمی پونچھ ڈالی۔ اُسے لگا، قائدِاعظم کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی، لبوں کی مسکراہٹ گہری ہو گئی ہے۔