• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شخصیت پرستی: ترقی و اختراع کی راہ میں بڑی رکاوٹ

شخصیت پرستی، اندھی تقلید کو جنم دیتی ہے اور یہی وہ مسئلہ ہے، جو کسی بھی معاشرے کی فکری و مادی ترقّی میں سب سے بڑی رُکاوٹ بنتا ہے، کیوں کہ جب کوئی قوم یا افراد کسی شخصیت کی ہر بات کو وحی کے درجے پر فائز کرنے لگتے ہیں، تو اس کے نتیجے میں ان کی تنقیدی سوچ ختم، خودارادیت کم زور اور تحقیق و جستجو کے راستے بند ہو جاتے ہیں۔ 

یوں معاشرہ فکری جمود کا شکار ہوجاتا ہے اور پھر یہی جمود ترقّی و اختراع کی راہ میں حائل ہوجاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ اُن ہی معاشروں نے ترقّی کی، جہاں شخصیت کی بجائے اصولوں کی پیروی کی گئی اور جہاں افراد کوآزادانہ طور پرسوچنے اور سوال کرنے کی اجازت دی گئی۔ 

اس کے برعکس جہاں شخصیت پرستی حاوی ہوجاتی ہے، وہاں نہ صرف سوچنے کا عمل رُک جاتا ہے بلکہ لوگ کسی دلیل، منطق یا استدلال کے بغیر ہی کسی بیانیے کو تسلیم کرلیتے ہیں اور اس نظریے سے اختلاف کرنے والوں کو باغی یا نافرمان سمجھا جاتا ہے۔ بعدازاں، یہی رویّہ آمریّت کو فروغ دیتا اور معاشرتی زوال کا سبب بنتا ہے۔

تاریخ ایسے واقعات سے بَھری پڑی ہے کہ جب لوگوں نے بادشاہوں، مذہبی پیشواؤں یا سیاسی رہنماؤں کی اندھی تقلید کی، تو نتیجتاً ناانصافی، استحصال اور جبر کا نظام مستحکم ہوگیا، کیوں کہ جب لوگ شخصیت پرستی میں مگن ہوجاتے ہیں، تو اُن کے سامنے حقائق کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی اور پھر حُکم ران طبقے کو اپنی من مانی کا موقع مل جاتا ہے، جیسا کہ قرونِ وسطیٰ کے یورپ میں کلیسا کے پادریوں کی اندھی تقلید نےلوگوں کوتحقیق اور سائنسی ترقّی سے محروم کردیا۔

اِسی طرح اسلامی تاریخ میں بھی جب بعض حُکم رانوں اور مذہبی شخصیات کو معصوم عنِ الخطا سمجھتے ہوئے اُن کے ہر فیصلے کو بلا حیل وجُحّت تسلیم کیا گیا، تو پھر علمی زوال کا آغاز ہوگیا۔ یاد رہے، جب لوگوں میں سوال کرنے اور نئی راہیں تلاش کرنے کی جستجو ختم ہوجائے، تو زوال یقینی ہو جاتا ہے اور یہ اصول سیاست اور مذہب سمیت ہر شعبے پر لاگو ہوتا ہے۔

اگر ہم سیاست کی بات کریں، تو جن ممالک میں شخصیت پرستی زیادہ ہوتی ہے، وہاں جمہوریت کم زور پڑجاتی ہے،کیوں کہ وہاں لوگ اصولوں کی بجائے شخصیات کی پیروی کرنے لگتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مفاد پرست سیاست دان عوام کو بےوقوف بناکر اپنے مفادات حاصل کرنے میں کام یاب ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح مذہب کے معاملے میں بھی جب لوگ شخصیات کو معیارِ حق بنا لیتے ہیں، تو وہ سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ 

وہ کسی مذہبی عالم یا روحانی پیشوا کے ہر قول کو وحی کا درجہ دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں اختلافِ رائے کو دبایا جاتا ہے اور فکری آزادی ختم ہوجاتی ہے اور جب فکری آزادی ختم ہوجائے، تو تحقیق و جستجو کا دروازہ بند ہوجاتا ہے اور یہی وہ خامی ہے کہ جس نے اُمّتِ مسلمہ کو علمی میدان میں پیچھے کی جانب دھکیل دیا ہے۔ 

اسی طرح اگرہم جدید دَورمیں سوشل میڈیا کے اثرات پر غور کریں، تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بھی شخصیت پرستی نے اپنی جڑیں مضبوط کر لی ہیں۔ آج لوگ کسی سوشل میڈیا انفلوئنسر یا کسی مشہور شخصیت کے منہ سے نکلنے والی ہر بات کو بغیر تحقیق کے سچ مان لیتے ہیں اور پھر اُس کو پھیلانے لگتے ہیں، جس کے نتیجے میں غلط معلومات کا سیلاب آ جاتا ہے اور معاشرے میں انتشار بڑھ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج فیک نیوز اور پروپیگنڈے کو اس قدر فروغ مل رہا ہے۔

علاوہ ازیں، شخصیت پرستی کے نتیجے میں معاشرے میں انتہا پسندی اور عدم برداشت بھی پھیلتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب لوگ کسی ایک شخص کو پارسا اور عقلِ کُل سمجھ کر دوسروں کےخیالات کو رد کرنے لگتے ہیں، تو معاشرہ تقسیم ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی فرد کسی مخصوص سیاسی رہنما یا سیاسی جماعت کا حامی ہے، تو وہ نہ صرف اُس کے اختلافی نقطۂ نظرکو سُننے پرآمادہ نہیں ہوتا، بلکہ ہر اُس شخص کو غلط سمجھتا ہے کہ جو اُس کے لیڈر سے اختلاف کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں معاشرہ انتہا پسندی، نفرت اور عدم برداشت کی راہ پر چل پڑتا ہے۔ 

واضح رہے، جب لوگ دلیل اور مکالمے کی بجائے جذبات کی بنیاد پر فیصلے کرنے لگتے ہیں، تو معاشرے میں رواداری ختم ہوجاتی ہے۔ اسی طرح مذہب کے میدان میں بھی جب لوگ شخصیت پرستی میں مبتلا ہوکر کسی مخصوص مذہبی رہنما کی ہر بات کو دُرست مان لیتے ہیں، تو اس کا نتیجہ فرقہ واریت کی صُورت برآمد ہوتا ہے، کیوں کہ جب ایک گروہ کسی ایک مذہبی عالم کو سچّا و کھرا سمجھ کر دوسرے تمام علماء کو رَد کر دیتا ہے، تو اس کے نتیجے میں بھی معاشرے میں انتشار، مخاصمت اور عداوت کے جذبات جنم لیتے ہیں اور اسی مسئلے کے سبب آج اُمّتِ مسلمہ فرقہ واریت کی دلدل میں دھنسی ہوئی ہے۔

اس کے برعکس اگر ہم ترقّی یافتہ معاشروں کا جائزہ لیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں شخصیت پرستی کی بجائے اصولوں اور نظریات کی بنیاد پر فیصلے کیے جاتے ہیں۔ وہاں لوگ سوالات اُٹھاتے ہیں، تحقیق کرتے ہیں اور کسی بھی بات کو ثبوت کے بغیر قبول نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ممالک آج ترقّی کر رہے ہیں، جب کہ شخصیت پرستی میں مبتلا معاشرے زوال پذیر ہیں، کیوں کہ جب لوگ سوال کرنا چھوڑ دیں اور صرف تقلید پر اکتفا کریں، تو اُن کے ذہنوں میں نئے خیالات جنم نہیں لیتے اور نہ ہی وہ اپنے معاشرتی مسائل کا حل نکال سکتے ہیں۔ 

اس لیے اگر کسی قوم کو ترقّی کرنی ہے، تو اُسے شخصیت پرستی سے نکل کر دلیل، منطق اور تحقیق کی راہ اختیار کرنا ہوگی۔ جب تک لوگ اندھی تقلید کرتے رہیں گے، تب تک وہ استحصال کا شکار ہوتے رہیں گے۔ اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ معاشرے میں تنقیدی سوچ اور سوال اُٹھانے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ 

اسی طرح میڈیا کو بھی آزاد اور غیر جانب دار ہونا چاہیے، تاکہ عوام کو حقیقی اطلاعات فراہم کی جا سکیں اور سب سے بڑھ کر، تعلیمی نظام میں ایسی اصلاحات کی ضرورت ہے کہ جو طلبہ میں تحقیق وجستجو کے رجحانات پروان چڑھائیں، تاکہ وہ کسی شخص کی اندھی تقلید کی بجائے سوچ سمجھ کر فیصلے کریں۔

لہٰذا، اگر ہم ایک باشعور اور ترقّی یافتہ قوم بننا چاہتے ہیں، تو ہمیں شخصیت پرستی سے نکل کر اصولوں، دلائل اور حقائق کی بنیاد پر اپنے نظریات کو استوار کرنا ہوگا، کیوں کہ یہی وہ راستہ ہے کہ جو کسی قوم یا فرد کو حقیقی ترقّی کی جانب گام زن کرتا ہے۔

سنڈے میگزین سے مزید