کراچی( ثاقب صغیر )معاشرے میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح اور اس کے نتیجے میں ہونے والے جرائم نے معصوم بچوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔کراچی کے علاقے ڈیفنس میں جمعرات کو ایک انتہائی دلخراش واقعہ پیش آیا جب ایک خاتون نے اپنے دو کمسن بچوں کا گلا کاٹ کر انھیں قتل کر دیا۔خاتون کی گزشتہ برس ہی اپنے شوہر سے علیحدگی ہوئی تھی اور عدالتی حکم پر بچوں کی حوالگی شوہر کے سپرد کردی گئی تھی۔اسی طرح کا ایک واقعہ دو دریا پر 31 جولائی کو پیش آیا تھا جہاں باپ نے جو خود بھی استاد تھا نے اپنے دو بچوں کو سمندر میں پھینک کر خود بھی چھلانگ لگا کر زندگی کا خاتمہ کر لیا تھا۔مذکورہ واقعہ میں عدالت نے بچوں کی کسٹڈی والدہ کے سپرد کی تھی۔ ان واقعات کے پیچھے کئی معاشرتی، نفسیاتی، معاشی اور ثقافتی عوامل کارفرما ہیں۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف خاندانی نظام متاثر ہو رہا ہے بلکہ بچوں کی زندگیوں کو درپیش خطرات کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت اور ان کے مستقبل پر بھی گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔رشتوں میں صبر، برداشت اور قربانی کی قدریں کمزور پڑ چکی ہیں۔اختلاف رائے، برداشت کرنے کا رجحان ختم ہو رہا ہے ۔طلاق یافتہ افراد کی اکثریت سماجی دباؤ اور تنہائی کا شکار ہو رہی ہے۔والدین میں علیحدگی کے بعد بچوں میں خود اعتمادی میں کمی، ڈپریشن اور عدم تحفظ کا احساس پیدا ہو رہا ہے،ان کی تعلیمی کارکردگی متاثر ہو رہی اور میں جارحانہ رویے پروان چڑھ رہے ہیں۔خاندان کی ٹوٹ پھوٹ کے سوسائٹی بالخصوص بچوں پر پڑنے والے اثرات کے حوالے سے گزشتہ 13 سال سے فیلڈ ریسرچ کرنے والے ادارے " فار ایور" کے ریسرچ ڈائریکٹر محمد اسعد الدین کا ان واقعات کے حوالے سے "جنگ" سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کچھ روز پہلے شوبز سے وابستہ مشہور شخصیت کی تنہائی میں موت اور اب آپس کے جھگڑوں میں اپنے آپ اور اپنے بچوں کو مار ڈالنا فقط واقعہ نہیں سوسائٹی کی تباہی کا الارم ہے۔ اگر ماضی میں اس طرح کے واقعات اور ان کی اصل وجوہات کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جاتا تو ممکن ہے نوبت یہاں تک نہ آتی۔محمد اسعدالدین کا کہنا ہے تھا کہ رشتوں میں، گھروں میں اختلافات ہمیشہ ہوتے رہے ہیں لیکن اس کی وجہ سے معصوم بچوں کو ہی مار ڈالنے کا یہ نیا رجحان صاف نشاندہی کررہا ہے کہ باہمی تلخیاں اور اختلافات اب جنونیت کو پروان چڑھا رہے ہیں ۔ایک اسکول ٹیچر جو بچوں کو تعلیم دے رہا ہو، ان کی شخصیت و کردار بہتر بنانے کی علامت سمجھا جاتا وہی اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں کو سمندر میں پھینک کر خود بھی خود کشی کر رہا ہے یعنی اختلاف سے موت تک کوئی سمجھانے والا، کوئی روکنے ٹوکنے والا، کوئی ہمدردی سے مسئلہ سن کر اسے حل کرنے والا نہیں تھا ؟؟؟ ۔آپس کے مسئلے سے نزدیک والوں کی لاتعلقی ایسی اموات کی بڑی وجہ ہے اس لئے پہلے اگر ضرورت تھی تو اب ناگزیر ہے کہ اس مسئلے کی حساسیت سے واقف لوگ آگے آئیں اور فطری حل کے لیے سنجیدہ کوشش کریں ۔ساتھ ہی حکومت اور ریاست بھی اس خطرے کی گھنٹی کو سنے اور حل کے باقاعدہ حکمت عملی ترتیب دے۔ان کا کہنا تھا کہ سوسائٹی میں ایک نئے خاندان کی بنیاد زوجین کا ایک دوسرے کو قبول کرنے کا اعلان ہے لیکن کراچی کی فیملی کورٹس میں یومیہ بنیادوں پر طلاق و خلع کے درجنوں کیسز رجسٹر ہونے کا کا مطلب ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو قبول کرنے کے بجائے الگ ہونے اور دور ہونے کو ترجیح دے رہے ہیں۔