آئیے دیکھتے ہیں کہ بھارتی مسلمان کیسے مختلف ہیں۔ مسلمانان ہند نے کچھ ایسے مذہبی نظریات کو اپنایا جو اکثر علماء کی طرف سے پیش کیے جاتے ہیں برسوں تک مسلمانوں کا ایک حصہ جماعت اسلامی کے سخت گیر نظریے کی پیروی کرتا رہا جس نے جدید جمہوریت کو حکمرانی کے اسلامی اصولوں کیلئے ’’ناپسندیدہ‘‘ قرار دیا تھاـ اسی طرح ہندوستانی مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ وہابی نظریات کے حامل علماء کی پیروی کرتا نظر آتا ہے۔ ایسے علماء نے کھل کر سرعام ہندوستان اور پوری دنیا میں خلافت کے قیام کا مطالبہ کیا ہے ۔ میرے حساب سے ایسی صورتحال میں اور اس پس منظر میں آئین کو سختی سے اپنے سیکولر ازم کو فروغ دینا اور بین الکمیونٹی (مجھے یہی اصطلاح اچھی لگی ہے) اصلاحات کا آغاز ماضی کی خامیوں کو درست کرنے اور 21ویں صدی میں داخل ہونے کا بہترین ممکنہ علاج ہوگا۔ سیکولر ازم کو مضبوط کرنے سے نہ صرف مسلمانوں کی اپنی سماجی حیثیت میں اضافہ ہوگا بلکہ ہندوستان کے اتحاد اور ترقی میں بھی مدد ملے گی۔ خود کو آئین سے ہم آہنگ کرنے کیلئے مسلمانوں کو اپنے ذاتی یا روایتی قوانین کی اصلاح کا آغاز کرنا ہوگا مسلمانوں کو خواتین کیلئے مساوی حیثیت کو یقینی بنانے والی اصلاحات کی حمایت کرنی ہوگی خواتین کی اعلیٰ تعلیم پر زور دیا جانا چاہیے تاکہ انہیں معاشرے میں آواز ملے اس طرح کے اقدامات اسلام میں انصاف مساوات اور انسانی اقدار پر زور دینے والے احکامات سے پوری طرح مطابقت رکھتے ہیں۔ہم سب جانتے ہیں جیسا کہ آئین جمہوریت کی علامت ہے یہ ایک ایسا معاہدہ ہے جس پر کسی ملک کے تمام شہریوں نے عمل کرنے پر اتفاق کیا ہوتا ہے، یہ قانون کی نظر میں مساوات کی ضمانت ہے، یہ وہ ہتھیار ہے جو کمزوروں کی حفاظت کرتا ہے اور طاقتوروں کا احتساب کرتا ہے مگر مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ بھارتی مسلمانوں نے چھ سال قبل شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) تحریک کے دوران اسے عمومی طور پر قبول کیا ، جب انہوں نے دیکھا کہ اس سے لاکھوں مسلمانوں کی شہریت کے نقصان کا اندیشہ تھا۔ میں نے ہندوستانی آئین میں ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی جو ملکی قوانین کے ساتھ ساتھ اسلام کی تعمیل یا تعلیم سے منع کرتی ہو جدید کاری اور اصلاحات کی بار بار مخالفت کی گئی آپ پر صرف ایک مسلم علاقے میں گھومنے پھرنے سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آ جائیگی کہ آبادی کا ایک بڑا حصہ روایتی تقریروںاور تحریروں کی گرفت میں ہے جنکی تشہیر مذہبی شخصیات کرتی ہیں۔آگے بڑھنے کا راستہ صرف قانونی طور پر بلکہ ثقافتی طور پر بھی آئینی اقتدار کو اپنانے میں مضمر ہے، خاص طور پر خواتین کے حقوق اور تعلیم کو فروغ دینے میں ۔بھارتی مسلمانوں نے فرض شناسی کے ساتھ آئین پر عمل کیا ہے ۔اصلاح کو اسلام سے غداری کے طور پر نہیں بلکہ اسکی حقیقی تکمیل کے طور پر دیکھا جانا چاہئے۔ اسلام بار بار فلاح و بہبود، ترقی اور معاشرتی فلاح پر زور دیتا ہے لہٰذا مسلمانوں کے تمام طبقوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ہم جس دور میں رہ رہے ہیں اسکے تناظر میں فکر و سوچ کے ساتھ ہم جدید معاشرے کے مطابق ڈھلنے کی ضروریات کو قبول کریں کیونکہ مسلمان اپنے ذاتی قوانین کے بارے میں کچھ زیادہ ہی ’’ذاتی‘‘ ہیں لہٰذا میرے حساب سے اپنے سافٹ ویئر کو اپڈیٹ کرتے وقت اسکی حساسیت کو ذہن میں رکھنا چاہیے ۔سیاسی بیساکھیوں کے بجائے میرٹ کے ذریعے طاقتور(اعلیٰ فلسفہ) ہونا چاہیے۔ بھارت میں 22کروڑ سے زائد مسلمان رہتے ہیں جو مسلمانوں کی تیسری بڑی آبادی اور دنیا کے کل مسلمانوں کا 12فیصد ہیں، مسلمان رہنماؤں اور رائے سازوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ ہندوستانی قوم کا ناقابل تقسیم حصہ ہیں اور اب انہیں مرکزی دھارے میں ضم ہونا ہے بلکہ ضم بھی کرنا ہے، اس سلسلے میں بھارتی مسلمان ہندوستان میں پارسیوں کی قومی زندگی سے بھی سبق لے سکتے ہیں وہ اقلیت میں ہیں لیکن ہندوستان میں ضم ہو گئے ہیں اور کیونکہ چینی دودھ میں گھل مل جاتی ہے جس سےیہ میٹھا اورمزیدار ہو جاتا ہے۔ پارسیوں کا شمار ہندوستان کے اعلیٰ ترین آئینی ماہرین میں ہوتا آیا ہے ہندوستانی عدالتی منظر نامے میں انکی اکثریت ہے انکی قومی بصیرت نے انہیں اپنے دائرہ کار میں تقریباً ’’مقدس بُت‘‘ بنا دیا ہے۔ مسلمانوں کو بھی اجتماعی زندگی کیلئے یہ ویژن بنانا ہوگا کہ وہ آئین کی روشنی میں اپنا سفر طے کریں۔ میرے حساب سے مسلمانوں کو انصاف، وقار اور سلامتی کے ساتھ مل جل کر رہنے کی بنیاد کو دلی طور پر قبول کرنا چاہئے اور یہی تاریخ میں صحیح وقت پر بھارتی مسلمانوں کیلئے صحیح سمت ہوگی۔
ملاقاتوں کا کہتے ہو ملاقاتیں کہاں ہوویں
نہ ہم جاتے ہیں مسجد میں نہ تم آتے ہو مے خانے