’’یا رسول اللہﷺ ! ہم لوگ جاہلیت والے اور بُتوں کی عبادت کرنے والے لوگ تھے، ہم اپنی اولاد کو قتل کر دیتے۔ میری ایک بیٹی تھی، جب وہ بڑی ہوئی اور اُس کا حال یہ تھا کہ جب مَیں اُسے بُلاتا، تو وہ میرے بُلانے سے خوش ہوتی۔ تو ایک دن مَیں نے اُسے بُلایا، وہ میرے پیچھے ہولی، مَیں چلا، یہاں تک کہ اپنے قبیلے کے کنویں پر آیا، جو زیادہ دُور نہیں تھا، پھر مَیں نے اُس کا ہاتھ پکڑا اور اُسے کنویں میں ڈال دیا۔‘‘
ایک روایت میں ہے کہ’’ وہ اپنے ننّھے ننّھے ہاتھوں سے میرے ساتھ گڑھا کھودنے لگی اور مَیں نے اُسے اُس میں دَبا دیا اور اُس کے آخری الفاظ تھے کہ ’’میرے بابا، میرے بابا…۔‘‘ حضور نبی کریمﷺ یہ واقعہ سُن کر رو پڑے۔ صحابہ کرامؓ نے اُس شخص کو کہا کہ’’تم نے نبی کریمﷺ کو غم گین کر دیا۔‘‘ حضورﷺ نے صحابہؓ سے فرمایا’’ اِسے کچھ نہ کہو۔ یہ اپنے غم اور اپنی پشیمانی کے بارے میں پوچھ رہا ہے، جو لاحق ہے۔‘‘ اور اُسے دوبارہ یہ قصّہ سُنانے کے لیے کہا۔
یہاں تک کہ آپؐ کے آنسو آپؐ کی داڑھی مبارک پر بہہ پڑے اور اُن صاحب سے کہا کہ ’’اللہ نے اہلِ جاہلیت کے تمام بُرے اعمال (اسلام لانے کی وجہ سے) معاف فرما دیئے ہیں، لہٰذا اب نئے سرے سے اچھے اعمال بجالاؤ۔‘‘(سنن الدارمی، 153/1 ) آج لگتا ہے کہ زمانۂ جاہلیت پھر سے پلٹ کر آگیا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق سال 2024ء میں صرف غیرت کے نام پر 547خواتین کو قتل کیا گیا، جب کہ مجموعی طور پر صنفی بنیاد پر تشدّد کے 32617کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں عصمت دری، اغوا اور گھریلو تشدّد بھی شامل ہے۔
عورتوں کے قتل کے پیچھے سماجی، ثقافتی رویّے بنیادی عوامل ہیں، جن کے باعث خواتین کو موت کے گھاٹ اُتارا جاتا ہے اور یہ رویّے خطرناک طور پر بڑھ رہے ہیں۔ ہمارے قانونی اور عدالتی نظام میں خرابیوں کی وجہ سے مجرم دندناتے پِھرتے ہیں اور سزا کی شرح0.5 فی صد تک محدود ہو گئی ہے۔ یہ ایک سنگین انسانی حقوق کا مسئلہ ہے، جو سماجی بے داری، اصلاحات اور قانون کے مؤثر نفاذ کا متقاضی ہے۔ ابھی حال ہی میں بلوچستان میں وقوع پذیر ہونے والے سانحے میں دو شادی شدہ افراد اپنی ازدواجی زندگیوں کا تقدّس پامال کرتے ہوئے اپنے بچّوں کو چھوڑ کر چلے گئے اور پھر ماورائے عدالت قتل کر دئیے گئے۔
یہ دونوں ہی رویّے ہمارے سماجی اور معاشرتی انحطاط کی نشان دہی کرتے ہیں کہ کوئی بھی فرد کیسے اپنے معصوم بچّوں اور اپنے شوہر یا بیوی کے ساتھ بے وفائی کر کے اُنھیں چھوڑ کر جاسکتا ہے۔ بالفرض، اگر کوئی عورت اپنی شادی سے ناخوش ہے، تو اُس کا طریقہ موجود ہے کہ سیدھی طرح طلاق لے کر، عدّت گزار کے دوسری شادی کر لے، مگر اِس طرح اپنے سماج کی روایتوں کو باغیانہ طریقے سے پسِ پُشت ڈال کر گھروں سے بھاگ جانا، کسی بھی معاشرے میں قابلِ قبول نہیں، یہاں تک کہ مغرب میں بھی نہیں، جیسا کہ پچھلے دنوں ایک میوزک کے کنسرٹ میں مشہور امریکی کمپنی کے سی ای او کو اپنی سیکرٹری کے ساتھ نامناسب طور پر دیکھا گیا اور اُن کی ویڈیو وائرل ہوئی، تو اُنھیں مستعفی ہونا پڑا اور پھر دونوں کے لائف پارٹنرز نے اُن سے الگ ہونے کا اعلان کردیا، جب کہ دونوں کو پوری دنیا سے لعن طعن بھی سُننے کو ملی۔
لیکن بہرحال، ماورائے عدالت قتل کا اختیار کسی کو نہیں دیا جا سکتا۔ اِسی طرح نور مقدّم کا کیس ہے، جو چار سال سے چل رہا ہے، جس میں ظاہر جعفر کو سزائے موت سُنائی گئی ہے۔ یہ کیس پاکستان میں عورتوں پر تشدّد کے حوالے سے بڑے کیسز میں شمار کیا جاتا ہے اور اس کیس نے ہمارے ہاں کی اشرافیہ کے لائف اسٹائل اور رویّوں کو بُری طرح آشکار کر کے رکھ دیا ہے۔
نبی کریم ﷺ کی تشریف آوری کے 1500سال مکمل ہونے اور ’’عالمی یومِ حجاب‘‘ کو تقریباً دو عشروں سے منانے کے موقعے پر یہ سب واقعات اور اعدادوشمار اِس لیے یاد آئے کہ ہم اُن نبیﷺکے نام لیوا ہیں کہ جن کی زندگی میں عورت کا کردار، بڑا مقدّس ہے۔ اُن کی حیاتِ طیبہؐ کے ہر ہر ورق پر خواتین سے حُسنِ سلوک، محبّت اور عزّت و تحفّظ کے یادگار لمحات محفوظ ہیں۔ مشہور مؤرخ، ابنِ ہشام نے نبی کریم ﷺ کی رضاعی بہن کا ایک خُوب صُورت واقعہ بیان کیا ہے۔
آپؐ کی کوئی حقیقی بہن نہیں تھیں، جب آپؐ سیّدہ حلیمہ سعدیہ کے پاس گئے، تو وہاں حضورﷺ کی ایک رضاعی بہن کا ذکر بھی آتا ہے، جو آپؐ کو لوریاں دیتی تھیں اور اُن کا نام حضرت شیماؓ ہے۔ شام کے وقت جب خواتین کھانا پکانے میں مصروف ہوتیں، تو بہنیں اپنے بھائی اُٹھا کر باہر لے جاتیں اور ہر بہن کا خیال ہوتا کہ اُس کا بھائی زمانے بھر میں سب سے خُوب صُورت ہے۔ ایک کہتی’’میرے بھائی جیسا کوئی نہیں۔‘‘ تو دوسری کہتی ’’میرے بھائی جیسا کوئی نہیں۔‘‘
اِتنے میں شیما اپنے بھائی، نبی کریم ﷺ کو اُٹھا لاتیں اور دُور سے کہتیں ’’میرا بھائی بھی آگیا ہے۔‘‘، تو سب کے سر جُھک جاتے اور سب کہتیں ’’نہیں، نہیں، تیرے بھائی کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا، ہم تو آپس کی بات کر رہے ہیں۔‘‘ شیماؓ، حضور ﷺ کو اپنی گود میں لے کے سمیٹتیں، جھومتیں اور پھر لوری دیتیں، جس کا ترجمہ ہے۔ ’’اے ہمارے ربّ، میرے بھائی محمّدﷺ کو سلامت رکھنا۔ آج یہ پالنے میں بچّوں کا سردار ہے، کل جوانوں کا بھی سردار ہوگا۔‘‘ پھر کچھ عرصے بعد حضورﷺ اپنی والدہ کے پاس مکّے چلے گئے۔
حضور ﷺ نے اعلانِ نبوّت فرمایا اور مکّے سے مدینہ منوّرہ ہجرت فرمائی۔ جب غزوات کا سلسلہ شروع ہوا، تو جس قبیلے میں حضرت شیماؓ کی شادی ہوئی تھی، اُس قبیلے کے ساتھ مسلمانوں کا ٹکراؤ ہوگیا۔ مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی اور اُس قبیلے کے چند افراد گرفتار ہوئے۔ وہ لوگ اپنے قیدیوں کو چُھڑوانے کے لیے فدیہ جمع کرنے لگے، قبیلے کے سردار بھی گھر گھر جا کر رقم جمع کر رہے تھے۔
چلتے چلتے وہ حضرت شیماؓ کے گھر پہنچ گئے، جو اپنی عُمر کا خاصا حصّہ گزار چُکی تھیں۔ جب اُن سے بھی رقم کا مطالبہ کیا گیا، تو اُنھوں نے لوگوں سے پوچھا کہ کس لیے جمع کر رہے ہیں؟ اُنہیں بتایا گیا کہ لڑائی میں ہمارے آدمی گرفتار ہوئے ہیں، اُنھیں فدیہ دے کر رہا کروانا ہے۔
باتیں کرتے کرتے کسی کے لبوں پر محمّد ﷺ نام آگیا، تو حضرت شیماؓ یہ سُن کر کہنے لگیں ’’اچھا، تو کیا اُنہوں نے تمہارے لوگ پکڑے ہیں؟‘‘ جب ’’ہاں‘‘ میں جواب ملا، تو اُنہوں نے کہا۔ ’’تم رقم اکٹھی کرنا چھوڑ دو، مجھے ساتھ لے چلو۔‘‘ سردار نے حیرت سے کہا۔ ’’تمہیں کیوں ساتھ لے چلیں؟‘‘ اُنہوں نے کہا۔ ’’ہاں تم نہیں جانتے، وہ میرے بھائی ہیں۔‘‘ قصّہ مختصر، حضرت شیماؓ قبیلے والوں کے ساتھ مدینہ منوّرہ چلی گئیں۔ جب وہ نبی کریمﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئیں، تو آپﷺ دیکھتے ہی پہچان گئے اور اُٹھ کر اُن کا استقبال کیا۔ پھر اُن کی درخواست پر نہ صرف قیدی رہا کردئیے، بلکہ آپﷺ نے کچھ گھوڑے اور کپڑوں کے چند جوڑے حضرت شیماؓ کو بطور تحفہ بھی دیئے۔ آپﷺ اُنھیں رخصت کرنے کے لیے خیمے سے باہر تک تشریف لائے۔
الغرض، آپؐ کی حیاتِ طیّبہ میں ماں، بہن، بیوی اور بیٹی ہی نہیں، ہر عورت سے عزّت و احترام کے ساتھ پیش آنے کے واقعات موجود ہیں۔ اور جب ہم اپنے رویّے دیکھتے ہیں، تو جہاں عورت کے تحفّظ کی بات ہو، اُسے حقوق دینے ہوں، تو آپؐ کی سیرتِ مبارکہ کی پیروی کی بجائے عورت کو رسم ورواج کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔
حلقۂ خواتین، جماعتِ اسلامی قریباً20برس سے’’عالمی یومِ حجاب‘‘ اِس عزم کے ساتھ مناتی آرہی ہے کہ معاشرے میں عورت کی حفاظت کے رویّے رواج پائیں۔ اُس کے حقوق کا شعور حاصل ہو۔ اپنے فرائض کی ادائی کے لیے عورت جتنی تن دہی سے کام کرتی ہے، معاشرہ تحفّظ کی صُورت اُسے خراج ادا کرے۔ حجاب محض گز بھر کپڑے کے ٹکڑے کا نام نہیں، بلکہ ایک پورا نظامِ تحفّظ ہے۔
مسلمان خواتین کی واضح اکثریت اب ببانگِ دہل یہ اعلان کرتی ہے کہ جن تہذیبوں نے بھی مرد اور عورت کے درمیان فطری تقسیمِ کار کے خلاف اقدامات اُٹھائے، وہ روئے زمین سے نیست و نابود ہوگئیں۔ رومن اور یونانی تہذیبیں اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ اسلامی تہذیب و تمدّن میں عورت اور مرد، ایک دوسرے کی صلاحیتیں پروان چڑھانے میں معاونت کرتے ہیں۔ یہ دو مدّ ِ مقابل قوّتیں نہیں، زندگی کی گاڑی کے دو یک ساں پہیّے ہیں، جو حقوق، اجر و ثواب اور عذاب و پاداش میں بالکل مساوی اور فرائض میں جدا گانہ کردار ادا کرتے ہیں۔
اس میں عورت کا کردار بحیثیت ماں اور بیوی کے اُتنا ہی اہم ہے، جتنا کسی مُلک کے لیے حُکم ران، فوج اور قانون کا ہوتا ہے۔ عورت کی ممتا اور بیوی کے کردار کو غیر اہم، فرسودہ اور ترقّی کی راہ میں رکاوٹ سمجھنا پوری تہذیب کو ملیا میٹ کرنے کے مترادف ہے۔ عورت کو انسان کی تخلیق و تعمیر کی جو گراں بار ذمّے داری سونپی گئی ہے، اُس سلسلے میں اُس کی فطرت تقاضا کرتی ہے کہ وہ محبّت وحفاظت کے حصار میں رہے۔ اسے دنیا کے جھمیلوں سے بے نیاز خلوت عطا کی جائے، تبھی روئے زمین پر مہذب اور متمدّن نسل پروان چڑھ سکے گی۔
جسے گھر کی خُوب صُورت دنیا کی محبّت ملی ہوگی، وہ دنیا کو وہی محبّت اور شفقت لَوٹا سکے گی۔ ورنہ آج کی دنیا اِسی لیے فساد سے بَھر گئی ہے کہ عورت نے اپنا بنیادی فریضہ غیر اہم اور فرسودہ سمجھ کر تَرک کر دیا ہے۔اُس پر ایسے نظریات مسلّط کر دیئے گئے ہیں، جن کے سبب وہ اپنی فطری ذمّے داریوں سے فرار کی راہ اختیار کرنے ہی کو اپنی ترقّی سمجھ بیٹھی ہے۔
گھر، جو دنیا کی بنیادی اکائی ہے، ممتا اور گھر گرہستن سے خالی ہو کر بازار کے سپرد ہو گیا ہے۔ وہ ایک سرائے اور ہوٹل میں تبدیل ہو کر محبّت اور شفقت سے خالی ہو گیا ہے۔ اِس لیے ہمیں شادی، خاندان اور ممتا کے اداروں کی بحالی کے لیے سنجیدہ ہو جانا چاہیے۔
عورت کے تحفّظ اور وقار کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ مخلوط معاشرے کی ترویج کی بجائے مرد و عورت کے اپنی اپنی فطرت کے مطابق دائرۂ کار میں کام کو ترجیح دیں۔ اس کے بعد جب بھی ضروری ہو، وہ ایک باوقار لباس میں (جسے اسلامی معاشرے میں حجاب کے نام سے جانا جاتا ہے) گھر سے باہر کے امور سر انجام دے سکتی ہے۔ اِس حجاب کو قرآنِ کریم میں عورتوں کے لیے فرض قرار دیا گیا ہے تا کہ وہ ستائی نہ جاسکیں اور محفوظ و باوقار رہیں۔
پوری اسلامی تاریخ اِس امر کی گواہ ہے کہ دورِ نبویؐ سے لے کر آج کی جدید دنیا تک، حجاب مسلمان عورت کا بنیادی فریضہ رہا ہے، جسے وہ کسی شوق، فیشن، جبر، پابندی، مَردوں کے حکم یا معاشرے کے رواج کی وجہ سے نہیں، بلکہ اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلّم کے احکامات کے تحت اپناتی ہے اور اِس پیروی کو اپنے لیے وجۂ افتخار سمجھتی ہے۔ لیکن استحصالی قوّتیں مسلمان عورت کے اِس بنیادی حق، یعنی حجاب کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے دہشت گردی سے جوڑ رہی ہیں۔
باحجاب عورت کو دہشت گرد اور فرسودہ اقدار کی حامل عورت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، مگر مسلمان عورت اور مسلم معاشرہ کبھی بھی اِس پراپیگنڈے کا شکار نہیں ہوگا۔ خواہ یہ اسلام دشمن طاقتوں کے لیے کتنی بھی خوف کی علامت کیوں نہ ہو۔ ہمیں’’ Aging problems ‘‘اور بوڑھے پینشنرز کے بوجھ سے لدی سوسائٹی، خاندانی نظام کی مضبوطی اور افزائشِ نسل کی بڑھوتری کے اقوامِ مغرب کے فلسفے سے سبق اور عبرت حاصل کرتے ہوئے فطرت سے بغاوت کی روش تَرک کر کے صحیح اسلامی، فلاحی معاشرے کی داغ بیل ڈالنی چاہیے، جس میں عورت کا ایک ایسا غالب کردار ہے، جس کی عملی مثالیں خانوادۂ نبوّتؐ کی خواتین نے اِس طور پیش کیں کہ زمانہ لاکھ اُنہیں نظر انداز کرے، وہ چُھپائے نہیں چُھپتیں۔
خواہ وہ حضرت خدیجہؓ ہوں، جنہوں نے سب سے پہلے نبوّت کی گواہی دی یا کہ حضرت عائشہؓ، جو آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں کہ اُن کے ذریعے مسلمان، دین کے ایک تہائی علم سے بہرہ ور ہوئے۔ پھر حضرت فاطمہؓ کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے، جو خاندان اور ممتا کے اداروں کے لیے مینارۂ نور کی حیثیت رکھتی ہیں۔ حضرتِ زنیبؓ کے خطبات نے حضرت علی المرتضیٰ ؓ کی یاد اُمّت کے دِلوں میں تازہ کی، جن کی شجاعت نے حق و صداقت کا عَلم بلند کرنے اور یزیدی قوّتوں کے سامنے نہ جُھکنے کا ولولہ انگیز سبق دیا۔
اسلام مکالمے، رواداری، امن و سلامتی اور محبّت واخوّت کا دین ہے۔ مسلمان عورت اِنہی نظریات کے ساتھ پروان چڑھتی ہے۔ وہ دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے، ’’جیو اور جینے دو‘‘ کے اصولوں پر اِس زمین کو محبّت و سلامتی کی آغوش میں دینے کے لیے سرگرداں ہے۔
مگر آج اُس کے لیے حجاب کی پابندی، اُس کے خاندان میں بنیادی کردار اور مخلوط معاشرے کی تباہ کاریوں سے بچ کر محفوظ اور محبّت بھری پناہ گاہوں میں رہنے کو شک و شبے کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ اُس کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اُسی عورت کی اہمیت ہے، جو مرد کی طرح سوچے، مرد کی طرح جیے اور مرد ہی کی طرح لباس پہنے۔
شرق و غرب کی تمام مسلمان عورتیں، تمام تر دہشت گردی سے( چاہے وہ انفرادی ہو یا ریاستی ) سرِعام بے زاری اور نفرت کا اعلان کرتے ہوئے اِس بات کا عزم کرتی ہیں کہ اپنی روایات و اقدار پر زبردستی کسی کا تسلّط تسلیم نہیں کریں گی۔ خواہ اس کے لیے اُنہیں کتنی ہی قربانیاں کیوں نہ دینی پڑیں اور ہم خواتین، اقوامِ عالم اور اداروں سے بھی یہی توقّع رکھتی ہیں کہ اپنی تہذیب و اقدار تھوپنے کی بجائے وہ مکالمے، بحث مباحثے اور احترام و رواداری کے اعلیٰ انسانی اصول اپنائیں تاکہ ہم مہذّب معاشرے تشکیل دے کر زمین کو تہذیب و شائستگی اور امن و آشتی کی جگہ بناسکیں۔