اسلام آباد (محمد صالح ظافر … خصوصی تجزیہ نگار) پارلیمانی راہداریوں میں سندھ حکومت کی طرف سے رینجرز کے معاملے پر مجرمانہ طرزفکر پر تشویش کا اظہار ہوتا رہا، قومی اسمبلی میں دوسرے دن ہی کورم کا آسیب کارروائی میں گھس آیا جب سہ پہر کے پہلے حصے میں تحریک انصاف کی منحرف رکن محترمہ مسرت زیب نے اچانک اس کی نشاندہی کردی، حکومتی رکن پرویز ملک مسند نشین تھے، انہوں نے رکن شماری کی تو پتہ چلا کہ ایوان میں محض چھتیس 36 ارکان فروکش ہیں جن میں پارلیمانی امور کے اکلوتے وزیر آفتاب احمد شیخ بھی شامل تھے۔ اس طرح کارروائی کو اگلے روز تک کیلئے ملتوی کردیا گیا۔ وزیراعظم سمیت پارلیمانی گروپ لیڈرز ایوان کا رخ کرنے سے بدستور گریزپا ہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان دو روز قبل پہاڑی چوٹیاں سر کرنے لگے تھے، ان کے تین میں سے دو بچے بھی اس مہم جوئی میں ان کے ساتھ تھے، بعدازاں وہ صحت افزا مقام کی طرف چلے گئے۔ قومی اسمبلی میں ان کے ارکان ٹامک ٹوئیاں مارنے پر لگے ہیں۔ تحریک کی سرگرم رکن محترمہ شیری مزاری نے کورم کی نشاندہی کرنے میں شہرت حاصل کررکھی تھی۔ منگل کو یہ بیڑہ محترمہ مسرت زیب نے اٹھالیا۔ منگل کو ارکان کی نجی کارروائی کا دن تھا، 66 نکاتی ایجنڈا ایوان کے سامنے تھا جس میں انواع و اقسام کی تحاریک، قراردادیں اور قانون سازی، آئینی ترامیم اور توجہ دلائو نوٹس شامل تھے۔ خیال تھا کہ اجلاس تادیر چلے گا، اسپیکر سردار ایاز صادق دن کے ابتدائی حصے میں کارروائی کو رواں کرکے منظرسے غائب ہوگئے۔ مذہبی امور کے وفاقی وزیر سردار محمد یوسف کی پیش کردہ قرارداد کو جس میں سعودی عرب کے شہر مدینہ منورہ سمیت تین شہروں میں گزشتہ ماہ کے اوائل میں ہوئے دھماکوں کی شدید مذمت کی گئی۔ متفقہ طور پر ایوان نےمنظور کرلیا، اس قرارداد نے حکومتی پاکستان مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کے درمیان ’’جھڑپ‘‘ کا ماحول پیدا کردیاجب محترمہ شیری مزاری نے اس تاثر کو ابھارنے کی کوشش کی کہ سعودی عرب نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قابض افواج کےمظالم کی کبھی مذمت نہیں کی اس نے پاکستان کے موقف کی طرفداری کب کی ہے، اس کے جواب میں پاکستان مسلم لیگ نون یوتھ ونگ کے سربراہ کیپٹن محمدصفدر کے خون نے جوش مارا، انہوں نے محترمہ مزاری کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا خاتون کو اسلام سے کیا شغف ہوسکتا ہے، انہوں نے تبلیغ دین کیلئے کبھی چالیس دن لگائے ہوتے تو انہیں علم ہوتا کہ سعودی عرب کی ہمارے لئے کیا حیثیت ہے، ہم مدینہ منورہ کی خاک کو اپنی آنکھوں کا سرمہ تصور کرتے ہیں، ہمارے لئے دنیا کی کوئی دوسری زمین سعودی عرب سے زیادہ تقدس مآب نہیں ہے۔ سعودی عرب کی حفاظت اور اسے کسی بھی نوع کے گزند سے محفوظ رکھنا ہمارا جزو ایمان ہے۔ یہ سوال ہی بے معنٰی ہے کہ سعودی عرب نے ہمارے موقف کے بارے میں کیا کہا۔ حرمین شریفین کا تحفظ دنیا کے ہر مسلمان کا نصب العین ہے، کیپٹن محمدصفدر نے حجاز مقدس کےتحفظ کے ضمن میں اس قدر جذباتی دلائل پیش کئے کہ پورا ایوان ان کی رو میں بہہ گیا اور ارکان صاف طور پر ان سے متاثر دکھائی دے رہے تھے۔ اس قرارداد کی حمایت کرنے والوں میں قومی اسمبلی کے اقلیتی ارکان بھی شامل تھے، جنہوں نے سعودی عرب میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی بھرپور مذمت کی۔ سردار محمدیوسف کی قرارداد میں کہا گیا تھا کہ سعودی عرب میں حملوں پر پورا پاکستان افسردہ اور غمزدہ ہے، اسلام دشمنوں کے خلاف مسلمانوں کو متحد ہونے کی ضرورت ہے، ان کا کہنا تھا کہ حرمین شریفین کی حرمت کے تحفظ کی خاطر ہر مسلمان قربانی دینے کیلئےتیارہے۔ پارلیمانی راہداریوں میں سندھ حکومت کی طرف سے رینجرز کے معاملے پر مجرمانہ طرزفکر پر تشویش کا اظہار ہوتا رہا۔اس بارے میں سب سے تکلیف دہ امر یہ ہے کہ رینجرز جنہوں نے اپنی بے بہا اور گرانقدر جانوں کے نذرانے پیش کرکے صوبے بالخصوص کراچی میں امن کے قیام کو یقینی بنایا ان کی راہ میں نہ صرف رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں بلکہ صوبائی حکومت کے بعض بڑے ان کی خدمات کا اعتراف کرنے سے بھی گریز کررہے ہیں۔ سندھ حکومت کے کارپردازان ایک سے زیادہ مرتبہ کہہ چکےہیں کہ رینجرز کو کرپشن اور بدعنوانی کےخلاف کارروائی کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہے، انہیں صرف دہشت گردی کے خلاف کردار تفویض کیا گیا ہے۔اب یہ کہا جارہا ہے کہ رینجرزکی خدمات کا دائرہ کراچی تک محدود ہے، انہیں کراچی سے باہر کارروائی کا مجاز نہیں بنایا گیا۔ سندھ حکومت کےبعض ذمہ دار افراد ایسے بیانات جاری کررہے ہیں جیسے وہ صوبائی حکومت نہیں بلکہ کسی مفتوحہ علاقے کے حکمراں ہیں، سندھ کا صوبہ پاکستان کے قلمرو کا حصہ ہے، جہاں بدامنی یا بدعنوانی کو روکنا وفاقی یا صوبائی دونوں انتظامیہ کی ذمہ داری بنتی ہے۔ کرپشن کےخلاف رینجرز کو اختیارنہ ہونےکا بیان دیکر صوبائی حکومت کے بڑے اس امر کا اعتراف کررہے ہوتے ہیں کہ صوبائی حکومت اور اسے چلانے والے کرپشن کے پشت پناہ اور اس کے سرپرست ہیں، ایسی حکومت جس کے وزیر داخلہ کا گھر دن کے اجالے میں کروڑوں اربوں کی لوٹ مار کرنے والے مجرموں کی پناہ گاہ بن جائے اور اگر وہاں سے مجرم پکڑا جائے تو پولیس اسے جبراً چھڑا کر فرار کرادے تو ایسی حکومت کے رینجرز کے اختیارات کی مزاحمت کرنا زیادہ مشکل کے بغیر سمجھ میں آجانے والا معاملہ ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا رینجرز کے وقار اور اختیار کیلئے ڈٹ جانا ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ وفاقی حکومت دہشت گردی اور کرپشن کے لازم و ملزوم ہونے کے بیانیے پر یقین رکھتی ہے۔ اگر سندھ کی حکومت کے معاملات میں کھوٹ نہ ہوتا تو وہ رینجرز کی تعیناتی کو سخت غیرمترقبہ قرار دیتی جنہوں نے صوبے میں امن اور ترقی کو یقینی بنانے کیلئے ماحول پیدا کیا ہے۔