• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے جمعہ کو میں نے ایک کالم میں جو دی نیوز میں چھپا کچھ ان حالات کا ذکر کیا جو ملک کے مقتدر اور فیصلہ کرنے والے لوگوں کے ڈرائنگ روم میں بڑی شدت کے ساتھ زیر بحث ہیں۔ ساتھ ہی ایک لسٹ شائع کی جو میری اطلاعات اور تجزیئے کے مطابق ان لوگوں نے بنائی ہے اور یہ وہ اقدامات ہیں جو اس جمہوریت کی کشتی کو ڈوبنے سے بچا سکتے ہیں۔ اس کالم کا عنوان تھا ’’فوری ایجنڈا جو ہمیں آج کل کے شدید بحران سے نکال سکتا ہے ‘‘ میں نے کالم لکھنا شروع ہی اس جملے سے کیا تھا کہ کچھ لوگ مجھے فوری طور پر کہیں گے کہ بڈھا سٹھیا گیا ہے یا میں جمہوریت کی بساط لپیٹ کر فوجی آمروں کودعوت دے رہا ہوں۔ کالم آپ خود پڑھ لیں جو دی نیوز کی ویب سائیٹ اور میرے فیس بک اور ٹویٹر کے صفحات پر موجود ہے۔ بہت ہی مختصراً اس کا لب لباب یہ تھا کہ ملک کے ادارے ڈوب چکے ہیں اور کچھ ایسے زمین ہلادینے والے فیصلوں کی فوری اور اشد ضرورت ہے کہ بچا کھچا نظام بچا لیا جائے اور ملک میں فوری ایمرجنسی لگا کر دفاعی اداروں اور اہم تنصیبات فوج کے حوالے کی جائیں اور اسمبلی کوایک سال تک معطل کیا جائے ایک ایمرجنسی کونسل جس میں 10سے12لوگ ہوں فوری طور پر بنائی جائے اور وہ ملک کے ان قابل اور ایماندار لوگوں کوجن کی تعداد کچھ کم نہیں مختلف اداروں میں لگائے تاکہ مکمل فوجی مارشل لا کو آنے سے روکا جاسکے۔اس تبدیلی کی حمایت وہ سیاسی پارٹیاں اور لیڈر کریں جواس گرتے ہوئے نظام کواپنے ذاتی اور خاندانی مفاد کی خاطر بچانا نہیں چاہتے، ساتھ ہی سول سوسائٹی، ایک ذمہ دار میڈیا ایک معقول عدلیہ اور ایک غیر سیاسی فوج اس ایجنڈے کوآگے بڑھائیں۔ اگر کہیں طاقت استعمال کرنی پڑے توضرور کی جائے اور اس کڑوی گولی کوابھی کھاکر مرض کا علاج کرلیا جائے اس سے پہلے کہ بڑا آپریشن کرکے چیر پھاڑ کی ضرورت پیش آئے۔ ظاہر ہے یہ باتیں لکھنے کا مطلب تھا کہ میں حکومت اور حکمرانوں کے عذاب اور عتاب کودعوت دے رہا ہوں۔ میں مشکور ہوں اپنے اخبار کا کہ اس طرح کی بات بھی چھپ گئی ورنہ میرا ارادہ تھا کہ سوشل میڈیا پر تو یہ بحث شروع کی ہی جاسکتی ہے کیونکہ میں ایک سیاستدان اور اقتدار کا خواہشمند نہیں ایک صحافی کی حیثیت سے میرا فرض ہے کہ جو سازش یا پلان ایوانوں میں بن رہے ہوں یا زیر بحث ہوں ان کو عوام تک پہنچاؤں میرا یہ کام نہیں کہ میں یہ سوچوں کہ یہ سوچ یا پلان غلط ہیں یا صحیح۔ اگر کوئی غلط پلان بنارہا ہے توعوام تک وہ قبل از وقت اگر پہنچ گیا تولوگ خود ہی اس کو روک دیں گے اور اگر پروگرام صحیح ہے تو لوگ اسے آگے بڑھانے میں خود آگے آئیں گے۔ اس لئے یہ میرا ایجنڈا نہیں ہے، نہ تھا۔ میں نے ایک ایماندار ڈاکیئے کی طرح خط کا مضمون لوگوں تک پہنچادیا اور اپنا ضمیر مطمئن کرلیا۔ اب جیسے ہی میرا مضمون پہلے ٹویٹر اور فیس بل پر آیا اور دوچار گھنٹے بعد دی نیوز کی ویب سائٹ پر بھی لگ گیا ایک طوفان ساکھڑا ہونا شروع ہوا۔ کچھ لوگوں نے جیسا کہ امید تھی مجھے پاگل کہنا شروع کیا اور پوچھنا شروع کیا کہ کیا میں ساٹھ سال کا ہوچکا ہوں۔ دی نیوز کی ویب سائٹ پر چند گھنٹوں میں اس مضمون کو700لوگوں نے دوسرے لوگوں کو بھیجا،528لوگوں نے ٹویٹر پر لگایا اور155لوگوں نے فیس بک پر اپنے صفحات پر پڑھنے کیلئے لگادیا یعنی سوشل میڈیا کی زبان میں یہ مضمونviralہوگیا یعنیvirusکی طرح پھیل گیا۔ خود میرے 80ہزار ٹویٹر کے اور کوئی 10ہزار فیس بک کے مداحوں کے علاوہ بے شمار لوگوں نے ایک دوسرے کوبھیجا مجھے جوای میل کے پیغام آئے ان میں اکثر نے لکھا کہ ملکی حالات میں اگر سب نے مل جل کر کوئی حل نہیں نکالا تو پھر مصر یا تھائی لینڈ کاماڈل ہی اپنانا پڑجائے گا۔ کئی لوگوں نے یاد دلایا کہ اب مغربی ملکوں اور خاص کر امریکہ میں مصر اور تھائی لینڈ کے ماڈل پر کوئی خاص تنقید نہیں ہورہی یعنی اگر صدر مرسی کی حکومت کو ہٹا دیا گیا یاتھائی لینڈ میں وزیراعظم کا تختہ الٹ کرایک فوجی جنتا بٹھادی گئی توکسی کے کان پر کوئی بڑی جوں نہیں رینگی اور الٹا مصر کوتو امریکہ اور سعودی عرب نے اربوں ڈالر کی رقم بھی جنرل سیسی کو دے دی تو پھر پاکستان کے سیسی کو بھی امید نظر آنے لگی ہو گی کہ اگر ایک جمہوری حکومت نظام نہیں سنبھال سکتی تو پھر کسی سیسی کو ہی آگے آنا ہوگا۔ یہی وہ خطرہ ہے جسے میں نے اپنے کالم میں بیان کیا اور بتایا کہ اگر فوری طور پر حکومت کے اور سیکورٹی کے معاملات ٹھیک نہ کئے گئے توکتنی دیر لوگ ان گرتی ہوئی دیواروں پر تکیا کرکے بیٹھیں گے۔ اب کراچی میں ایئرپورٹ پر جو کچھ ہوا وہ کوئی معمولی بات نہیں۔ خود جو نقصان PIAکا ہوا وہ ابھی تک کسی کی ہمت ہی نہیں ہوئی کہ لوگوں کوبتائے۔ کم از کم دو باہر کی ایئر لائنیں کراچی آنے سے انکار کررہی ہیں۔ باقی امارات اور دیگر خلیج کے ممالک کی پروازیں صرف دن کی روشنی میں کراچی آئیں گی مگر ابھی تک ہمارے سول ایوی ایشن کے کرتا دھرتا جوایک بار نواز شریف کے ساتھ بطور پائلٹ ملے تھے وہ اب پانچ چھ اداروں کے کرتا دھرتا ہیں مگر ناکامی کی ذمہ داری اٹھانے کوتیار نہیں۔ اگر اگلے کچھ دنوں اور ہفتوں میں جبکہ شمالی وزیرستان میں فوجی اپریشن شروع ہوچکا ہوگا کوئی اور اسی قسم کا دہشت گردی کاواقعہ ہوگیا اور بڑا نقصان ہوگیا تو پھر ذمہ دار کون ہوگا۔ میرے خیال میں کراچی کے حملے میں بہت زیادہ اور ملک کے لئے انتہائی خطرناک نقصان ہو سکتا تھا مگر دہشت گرد ناتجربہ کار نکلے اور اتنا اسلحہ اور اتنے لوگوں کے باوجود زیادہ بڑی کارروائی نہ کرسکے ۔ ذرا سوچیں اگر اندر گھستے ہی وہ دہشت گرد کسی ایک بس یا گاڑی کوزبردستی چھین کردوچارمنٹ میں ٹرمنل1تک لے جاتے جہاں امارات ایئرلائن اور دیگر جہاز کھڑے تھے اور وہاں وہ سارا اسلحہ جو پکڑا گیا استعمال کرتے تواس وقت کراچی کا ہوائی اڈا بند ہوتا اور ساری دنیا کی پروازیں پاکستان کوخیرآباد کہہ چکی ہوتیں۔ مگر ہماری حکومتیں اور ادارے سوائے گالی گلوچ اور ایک دوسرے پرالزام تراشی کے اور کچھ کرنے کے قابل نہیں کیونکہ جبCAAکا سربراہ بھی وہی ہوگا جوASFکا سربراہ ہے اورPIAکا بھی سربراہ ہے تو وہ الزام کس پر لگائے گا، خود اپنے اوپر۔ کوئی اور ملک ہوتا تو ہوا بازی کے مشیر اگلے دن ہی استعفیٰ دیکر گھر جاتے اور ایک نئے شخص کو موقع ملتا کہ و پوری تفتیش کرے کہ کس نے کیا غلطی کی مگر جمہوریت میں ایسا کم ہی ہوتا ہے آج تک ایک بندہ اپنی جگہ سے نہ ہلانہ ہلایا گیا تو پھر انہی لوگوں پر کس طرح اعتبار کیا جاسکتا ہے کہ وہ آئندہ ایسی بڑی غلطی نہیں کریں گے۔ ابھی تو جب شمالی وزیرستان میں فوجی حملے شروع ہوں گے تو طالبان اور دوسرے دہشت گرد پورے پاکستان کو اپنا جنگ کامیدان بنائیں گے اس کی ذمہ داری کون لے گا۔ یہ سب دیکھ کر اور سمجھ کریوں لگتا ہے کہ اسلام آباد اور پنڈی کے ڈرائنگ رومز میں جو پلان بن رہے ہیں ان پر ان سول حکمرانوں کی نالائقی یا ہٹ دھرمی کی وجہ سے عمل درآمد شروع ہی نہ ہوجائے۔ پھر ہم میڈیا والے بھی پرانے زمانے یاد کرکے آنسو بہائیں گے اور سیاستدان بھی تو پھر کڑوی گولی ابھی کھانی ہے یا چیر پھاڑ والی سرجری کرانی ہے؟
تازہ ترین