• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مصنّف: جسٹس(ر)آغا رفیق احمد خان

صفحات: 256، قیمت: 2500روپے

ناشر: فرید پبلشرز، 12 ، مبارک محل، نزد مقدّس مسجد، اُردو بازار، کراچی۔

فون نمبر: 2360378 - 0345

آغا رفیق احمد خان نے سِول جج کے طور پر اپنے کیرئیر کا آغاز کیا اور فیڈرل شریعت کورٹ کے چیف جسٹس کے عُہدے تک پہنچے۔ اِس دوران ایڈیشنل سیکریٹری سندھ اسمبلی، ڈائریکٹر لیگل پی آئی اے، سیکریٹری سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن سندھ، صوبائی سیکریٹری قانون اور وفاقی سیکریٹری وزارتِ قانون و انصاف بھی رہے۔ 2014ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد سندھ پبلک سروس کمیشن کے چئیرمین مقرّر ہوئے۔

کئی یونی ورسٹیز سے بھی مختلف حیثیتوں میں وابستہ رہے۔24 ابواب پر مشتمل اِس کتاب میں زندگی کے اِسی سفر کی جھلکیاں پیش کی گئی ہیں۔ مصنّف سندھ کے بڑے درّانی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، جس کا صوبے میں سیاسی و سماجی طور پر ایک خاص مقام ہے۔ ابتدائی تین ابواب میں خاندانی حالات بیان کیے گئے ہیں، جن کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ خاندان قیامِ پاکستان ہی سے سیاسی طور پر سرگرم رہا ہے اور یوں مصنّف کو بچپن ہی سے اہم افراد کی صحبت میسّر آئی۔ 

چوتھے باب میں آصف علی زرداری سے دوستی کی تفصیلات ہیں۔ آغا رفیق احمد کی آصف زرداری سے دوستی اُس وقت سے ہے، جب اُن کی محترمہ بے نظیر بھٹّو سے شادی نہیں ہوئی تھی۔ اِس دوستی سے اُنھیں اپنے کیرئیر میں کچھ سہولتیں تو ضرور حاصل ہوئیں، مگر اُنھوں نے اِس تعلق کی بھاری قیمت بھی ادا کی۔ یہاں تک کہ معزولی، برخاستگی سے آگے گرفتاری کے مرحلے تک بھی پہنچے۔ اِس کتاب کے ذریعے آصف زرداری سے متعلق بہت سی نئی باتیں سامنے آئی ہیں اور اُن کے بارے میں مشہور کئی باتوں کی نفی بھی ہوتی ہے، جو لوگوں نے ویسے ہی اُڑائی ہوئی ہیں۔

آغا رفیق احمد نے عدلیہ میں تعیّناتیوں کی کہانیاں سُنائی ہیں، تو کئی اہم مقدمات کی روداد بھی قارئین کے لیے پیش کی ہیں۔ اِن تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ عدلیہ کس کس طرح دباؤ کا سامنا کرتی ہے اور وہ کس طرح دباؤ میں آئے بغیر فیصلے کرتے رہے۔ وہ ابواب بھی نہایت اہم ہیں، جن میں مصنّف نے جسٹس سجّاد علی شاہ کا قصّہ تحریر کیا ہے۔ اِنہوں ہی نے موصوف کی بے نظیر بھٹّو سے ملاقات کروائی اور اُنہیں سندھ ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عُہدے تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔

بدلے میں سجّاد علی شاہ نے جو کچھ بےنظیر بھٹّو اور فاضل مصنّف کے ساتھ کیا، وہ بھی بتایا گیا ہے۔ جب پرویز مشرّف کا عدلیہ کے ساتھ تنازع ہوا، تو مصنّف وفاقی سیکریٹری قانون تھے۔ معزول ججز میں تن خواہوں کے چیکس کی تقسیم اور ازسر نو تقرّری کی کہانی بے حد دل چسپ ہے، جو آپ کو اِس کتاب میں پڑھنے کو ملے گی۔ آغا صاحب کو سندھ پبلک سروس کمیشن کی چئیرمین شپ راس نہ آئی اور سات ماہ بعد ہی کرپٹ مافیا سے نجات حاص کرنے کے لیے مستعفی ہوگئے۔

گو کہ اِس کا ذکر محض چار صفحات پر مشتمل ہے، مگر پھر بھی وہ بہت کچھ لکھ گئے ہیں۔ آخری دو ابواب اِس لحاظ سے اہم ہیں کہ ایک سابق جج نے ہمارے نظامِ انصاف کا المیہ تحریر کیا ہے، جس میں عام آدمی کی تو کیا اوقات، ایک جج بھی انصاف کے لیے مارا مارا پِھر رہا ہے۔

جسٹس سیّد منصور علی شاہ، جسٹس افتخار محمد چوہدری، جسٹس انور ظہیر جمالی، جسٹس اقبال حمید الرحمٰن، جسٹس محمد شفیع صدیقی، جسٹس سیّد غوث علی شاہ، جسٹس سیّد دیدار حسین شاہ، عبداللہ حسین ہارون، منیر اے ملک، جسٹس انور منصور خان، جہانگیر صدیقی اور محمود شام جیسی شخصیات کی توصیفی آرا سے آراستہ یہ کتاب، بلاشبہ مُلکی سیاسی و عدالتی تاریخ کا ایک اہم ریکارڈ ہے، جسے آغا رفیق احمد خان نے بہت رواں، شستہ اور دل چسپ انداز میں تحریر کیا ہے۔