• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حمیرا بنتِ فرید

1945 ء : برسوں سے امن و آشتی کا پیغام دیتی پرانی حویلی کی دیواریں دادا اور ابا کی گھن گرج سے گونجیں تو پانچ سالہ سلمیٰ سہم کر ماں کی گود میں جا دبکی۔ جانے کیا بات تھی، کچھ دنوں سے دادی غصّےسے بھری نظر آتیں،تو کبھی ماں، اُسے چاچا اور دادا، دادی کے کمروں کی جانب جانے سے سختی سے منع کر دیتیں۔ 

کبھی چاچی اور ماں ایک دوسرے سے کھنچی کھنچی نظر آتیں۔ حسّاس طبع سلمیٰ کا ننھا سا ذہن کچھ سمجھ نہ پاتا کہ معاملہ کیا ہے۔ وہ چاچا اور پھوپیوں کے بچّوں کے سنگ ہر روز کی طرح کھیلنا کودنا چاہتی، پر بڑوں کی تنبیہی نگاہیں اُسے اپنے کمرے ہی تک محدود رہنے پر مجبور کر دیتیں۔

سلمیٰ نے ماں کو سامان باندھتے دیکھ کر بہت معصومیت سے پوچھا تھا۔ ’’امّاں! ہم یہاں سے چلے گئے، تو پھر کبھی واپس نہیں آئیں گے؟‘‘ ’’ہم اپنے نئے گھر جا رہے ہیں، جو بہت اچھا، بہت پیارا ہے۔‘‘ امّاں نے اُسے دلاسہ دیا۔ مگر…دادا کا شکستہ دل شاید یہ بٹوارا سہہ نہ سکا اور اُن کے نئے گھر منتقل ہونے سے پہلے ہی اُن کی رُوح دوسرے جہاں منتقل ہو گئی۔ 

اور پھر… اُس کے چند دن بعد ہی سلمیٰ اپنے ابّا، امّاں کے ساتھ نئے گھر آگئی۔ یہاں شروع میں تو سلمیٰ بہت بولائی بولائی پِھرتی۔ اُسے سب بہت زیادہ یاد آتے۔ یہ تنہائی اُسے بہت رُلاتی، مگر روز روز کے جھگڑوں سے بہرحال نجات مل گئی تھی اور گھر میں خاصا امن و سکون رہنے لگا تھا۔نئے گھر میں رہتے ابھی بمشکل دو سال کا عرصہ گزرا تھا کہ سلمیٰ کو اپنے اردگرد کے ماحول میں بہت تناؤ سا محسوس ہونے لگا۔

1947 ء : سلمیٰ کی ماں نے دیوار ساتھ رہائش پذیر اُس کی پکی سہیلی، ہم جولی، ریتو شرما کے گھر آنے جانے پر پابندی لگا دی تھی۔ صحن میں لگے آم کے پیڑ پر پڑے جھولے پر تنہا بیٹھی، منڈیر کے اُس پار بنے جھروکے میں وہ ریتو کےمُسکراتے چہرے کی بس منتظر ہی رہتی۔ سلمیٰ کا دل، شامیں، محلے کی گلیاں سب حسرت و یاس کی تصویر بنے رہتے۔ سلمیٰ کے کانوں میں گونجتے نعروں’’ لے کے رہیں گے پاکستان، بن کے رہے گا پاکستان‘‘ کے ساتھ ہندو، مسلم فسادات میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا۔ 

شہر میں مِل جُل کر رہنے والوں کے دلوں میں کشیدگی بڑھتی ہی جارہی تھی۔ گھر میں ایک وحشت زدہ سی خاموشی چھائی رہتی۔ وہ امّاں ابّا کے چہروں پر خوف کے لہراتے سائے بخوبی دیکھ سکتی تھی۔ ’’امّاں! یہ پاکستان کیا ہے، جس کے نام کےسب نعرے لگا رہے ہیں؟‘‘ سلمیٰ کا ذہن الجھن کا شکار تھا۔ ”بیٹا! وہ ہمارا ایک نیا گھر ہوگا۔‘‘ امّاں نے اُسے سجھایا۔ ” ایک اور نیاگھر… پر، ابھی تویہ ہمارا نیا گھر بنا تھا۔‘‘ 

سلمیٰ کے ننّھے ذہن میں کئی اندیشے سر اُٹھانے لگے۔ ’’نہیں بیٹا! پاکستان بہت بڑا گھر ہوگا۔ وہ پورا ہمارا اپنا مُلک ہوگا، جہاں ہم سب مسلمان بغیرکسی خوف و خطر کے مِل جُل کر رہ سکیں گے۔ نہ کوئی کسی سے لڑے گا، نہ کوئی کسی کو کچھ کہےگا۔ سب بہت خوش و خرم رہیں گے۔‘‘ ابّا نے سلمیٰ کو اپنے زانو پر بٹھا کرسمجھایا۔ اور ابّا کی آنکھوں میں اُمید کے دئیے جلتے دیکھ کر سلمیٰ بھی مُسکرا دی۔

یہ وہ آخری لمحات تھے، جو اُس نے اپنے پیارے والدین کےسنگ گزارے۔ جانے کیسے، کس طرح لُٹتے پِٹتے، بچتے بچاتے، دل خراش مناظردیکھتے،خون کی ندیاں پارکرتے، آخرکار کسی نہ کسی طرح وہ اپنے پاکستان پہنچ گئے تھے۔ اَن گنت قربانیاں دے کر ایک مُلک حاصل کرلیا تھا۔ 

ایسی قربانی، جس میں سلمیٰ نے اپنے ابّا، امّاں کو بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھو دیا تھا۔ دل غموں سےچُورتھا، پرذہن میں اِک ’’اپنے گھر‘‘ کا احساس جاگزیں رہا، حالاں کہ اُس اپنے گھر میں اس کے ’’اپنے‘‘ تو رہے ہی نہ تھے۔ بہرکیف، شادی کے بعد بَھرے پُرے سسرال میں سلمیٰ ایک بار پھر خوش باش رہنےلگی۔ وہ خُود بھی خوش رہتی اورباقی سب کوبھی خوش رکھنے کی تگ و دو کرتی رہتی۔

1960ء: وہ اکثر سوچتی کہ جب اتنی بے بہا قربانیاں دینے کا مقصد ہی ایک ہو کر، مل جُل کر،خوش خوش رہنا تھا، تو مقصد کو پایۂ تکمیل تک تو پہنچنا ہی چاہیے اوراِسی سبب اُس نے محض سب کو جوڑے رکھنے کی خاطر اپنی ذات کی بس نفی کردی۔ اِس گھر کی بقا کے لیے تن من دھن سب وار دیا۔

1987ء: جب اُس کے اپنے بیٹوں کی شادی کا وقت آیا، تو اُس نے بہو، بیٹوں کی ضروریات و خواہشات مدنظر رکھتے ہوئے سب کے لیے الگ الگ حصّےمختص کردیئے تاکہ خاندان بکھرنے نہ پائے۔

2025ء: ’’نہ جانے ہم امّی کی خواہش کے احترام میں کب تک اِن بوسیدہ درودیوار، دقیانوسی روایات سے چمٹے رہیں گے…؟؟‘‘ یہ سلمیٰ کی بڑی بہو تھی۔ ’’یہ مُلک ہی رہنے کے قابل نہیں رہا۔ مَیں تو ظہیر سے کب سے کہہ رہی ہوں کہ بس یہاں سے نکلنے کی کریں، اِدھر بچوں کا کوئی مستقبل نہیں۔‘‘ 

یہ چھوٹی بہو کے الفاظ تھے۔ سلمیٰ کے سینے میں ایک ٹیس سی اُٹھی۔ وہ اپنے بستر پر جا کر خاموشی سے لیٹ گئی۔ رات بھر بے چینی سے کروٹیں بدلتی رہی۔ اور… صُبح تک اُس کاوجود پُرسکون ہوچُکا تھا، کیوں کہ ہرنئے گھر کے لیے ’’قربانی‘‘ تو ایک بہت پرانی ریت تھی۔