"ہائے! اُف میرا سر… ٹانگیں…اللہ جی! کمر میں بھی بہت درد ہورہا ہے۔‘‘ روزانہ ہی امّاں کو رات کے وقت سارے درد ایک ساتھ شروع ہو جاتے تھے۔ سب بہن بھائی کن انکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ آخرکار، حسبِ معمول بڑی بیٹی آگے بڑھ کر ماں کی ٹانگیں دبانے لگی۔ اُس کے دباتے ہی ماں سوگئیں۔
صُبح پھر وہی چاق چوبند ماں سارے کام، گھر، نوکری، معمولاتِ زندگی انجام دے رہی تھیں۔ ’’ہاں، جب کام کا وقت آتا ہے، تو بڑی بیٹی اور لینے کا وقت آئے، تو ساری اولاد… واہ جی واہ!!‘‘
یہ بڑی بیٹی تھی۔ ماں نے سُنا، چونکیں اور کہا۔ ’’بیٹا! مَیں تمہاری اکلوتی ماں ہوں اور تم سب میرے آٹھ بچے۔ تم سب نے ایک میرے لیے کرنا ہے اور مَیں نے تم آٹھوں کے لیے۔ چاہے کوئی میرے لیے کچھ کرے یا نہ کرے، مجھے تو سب ہی کا کرنا ہے ناں!‘‘ ’’اچھا جی! جو آپ کی خدمت نہ کرے، اُس کا بھی حصّہ ہے آپ کی محبت میں؟‘‘ ’’یہ میرا نہیں، اللہ کا اصول، اُس کی شریعت ہے اور یہی طریقت بھی میری بچی۔‘‘ ’’اونہہ! یہ صحیح ہے۔‘‘
آج رات بہت ان ہونی ہوئی۔ ماں نے سونے سے پہلے شور نہیں مچایا۔ نہ جانے کیسے سوگئی تھیں۔ اُن کے تھکے تھکے خراٹے گونج رہے تھے۔ سب نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ کچھ نہ کرنے والوں نے بھی سُکون کا سانس لیا اور خدمت کرنے والی کی تو آج چاندی تھی۔ مشقت سے جو بچ گئی تھی۔
دن پر دن گزرتے چلے گئے۔ وہی مشقت بھرے دن… مگر اب اماں کو درد کی دوا کھا کر سونے کی ایسی عادت ہوگئی تھی کہ وہ کسی کو تنگ نہیں کرتی تھیں۔
شہر کے بڑے سرکاری اسپتال کے کمرے میں آج ماں زندگی کی بازی ہار رہی تھیں۔ ’’مستقل پین کلرز لینے سے اُن کا جگر تباہ ہوچُکا ہے۔ ہم نے پہلے ہی کہا تھا کہ یہ جگر کے عارضے میں مبتلا ہیں۔ دوائیں سوچ سمجھ کر لینی ہوں گی۔ غیر ضروری طور پر لی جانے والی دواؤں نے اِن کے جگر کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ ان کے بچنے کے کوئی چانسز نہیں ہیں۔‘‘ ڈاکٹر نے گویا حتمی فیصلہ سنا دیا تھا۔
’’اُف! اماں بھی ناں! لاپروا تو ہمیشہ ہی سے ہیں۔ ہزار بار سمجھایا کہ دواؤں کے سائیڈ ایفیکٹس بھی ہوتے ہیں۔ نہیں جی، مُٹھی بھر بھر دوائیں ایسے لیتی تھیں، جیسے بچے ٹافیاں کھاتے ہیں۔‘‘ ماں کی میت کے پاس بیٹھے ملول و افسردہ بچوں میں سے ایک نے عقلِ کُل ہونے کا ثبوت دیا۔ ’’ہاں ناں، ہم نے بھی بہت سمجھایا، سُنتی ہی نہیں تھیں۔ کہتی تھیں، درد کا علاج کرتی ہوں۔ لو دیکھو، ہوگیا ناں علاج آہ ہا…!!‘‘سب نے ایک ساتھ افسوس کی آہ بَھری اور ماں کو منوں مٹی تلے دفن کردیا۔