• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غزہ میں بدترین قحط، پوری انسانیت کی ناکامی

غزہ میں انسانی المیہ ایک بھیانک خواب سے حقیقت میں بدل چکا ہے۔اقوامِ متحدہ نے باقاعدہ طور پر اعلان کیا ہے کہ قحط بدترین شکل میں غزہ کے شہریوں کو نگل رہا ہے اور ہر طرف بھوک اور افلاس نے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ انسان ہڈیوں کے ڈھانچوں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ زخمیوں اور ہلاکتوں کی تعداد اسرائیلی بم باری کی وجہ سے بڑھتی جاری ہے۔اقوامِ متحدہ اور دیگر خودمختار این جی اوز کے مطابق،63 ہزار سے زیادہ افراد جاں بحق، جب کہ لاکھوں زخمی ہوچُکے ہیں۔

یہ بے آسرا افراد، خوارک اور پانی کے بغیر آسمان تلے سسک سسک کے زندگی گزار رہے ہیں۔اب جاں بحق ہونے والوں میں کوئی تشخیص بھی نہیں رہی، یہاں تک کہ صحافی بھی روز بم باری کی زد میں آرہے ہیں اور نومولود بچّے بھی۔ قحط کی صُورتِ حال اِتنی بھیانک ہوچکی کہ اقوامِ متحدہ بھی چیخ اٹھی کہ صدی کا سب سے بڑا بحران قرار دیا ہے۔

سیکریٹری جنرل انتھونیو کا کہنا ہے کہ یہ صُورتِ حال پوری انسانیت کی ناکامی ہے۔جب کہ غزہ کے لوگوں کا، جن میں عورتیں، بچّے، جوان، بزرگ سبھی شامل ہیں،کہنا ہے کہ اُنہیں چھے ماہ سے پیٹ بھر کھانا نہیں ملا۔ خوراک کے امدادی ٹرکس آنے کا شور تو ہوتا ہے، فضا سے بھی خوراک گرانے کی خبریں آتی ہیں، مگر عوام پھر بھی بھوکے ہیں۔ اس طرح کی سرگرمیوں سے غزہ کے خوف ناک قحط پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ انسانیت کی ناکامی بھی ہے اور اس کا المیہ بھی۔

ناکامی بیانات کی شکل میں سامنے آ رہی ہے اور وہ ایسے کہ ہر روز مختلف عالمی و علاقائی فورمز اور ممالک کی جانب سے ہم دردانہ اور مذمّتی بیانات آ رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کاؤنسل کئی مرتبہ اجلاس کرچُکی ہے، جس میں غزہ کی بگڑتی صُورتِ حال پر بحث ہوئی۔بڑی طاقتوں سے لے کر چھوٹے ممالک تک نے پُرجوش تقاریر کے جوہر دِکھائے، ایک آدھ قرار داد بھی پاس ہوگئی، لیکن کسی کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوسکا۔کہا جاتا ہے کہ امریکا، اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے اور وہ امن کی ہر کوشش ناکام بنا دیتا ہے کہ اُس کے پاس ویٹو پاور ہے۔ 

ویسے امریکا نے اسے کبھی چُھپایا بھی نہیں، لیکن جو مُلک بڑے رقت آمیز بیانات دیتے ہیں، سوال یہ ہے کہ اُنھوں نے اس ضمن میں کیا کردار ادا کیا۔ان ممالک کی تعداد 191 ہے اور آبادی آٹھ ارب سے زیادہ۔ ان میں چین، روس، برطانیہ اور فرانس بھی تو موجود ہیں، جو اپنے اپنے طور پر غزہ کے بے بس لوگوں کے لیے بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ لیکن روس خود یورپ میں یوکرین کے خلاف جنگ میں ملوّث ہے۔اپنے سے چار گُنا چھوٹے مُلک پر چوالیس مہینوں سے مسلسل حملے کر رہا ہے، جدید ترین ہتھیار استعمال کرتا ہے۔صدر ٹرمپ کی تمام تر کوششوں کے باوجود سیز فائر تک پر راضی نہیں، تو پھر اس سے کیا توقّع کی جاسکتی ہے کہ وہ غزہ میں امن قائم کرنے میں کوئی کردار ادا کرے گا۔

فرانس اور برطانیہ نے اعلان کیا کہ اگر اسرائیل نے جنگ بندی نہیں کی، تو وہ فلسطینی اسٹیٹ کو تسلیم کر لیں گے۔ اب اس سے کیا فرق پڑے گا۔فلسطینی اسٹیٹ تو خود اوسلو مذکرات کے بعد یاسر عرفات اور اسرئیل کے درمیان اُن مقبوضہ علاقوں پر قائم ہے، جو1967 ء کی جنگ میں اسرائیل نے مصر اور اردن کو شکست دے کر ہتھیائے تھے اور بعد میں وہاں ایک معاہدے کے تحت فلسطینی اتھارٹی بنا دی۔ یاسر عرفات اس کے پہلے صدر تھے، لیکن اس کا بنیادی کنٹرول اسرائیل ہی کے پاس ہے۔ فلسطینی، جن میں حماس اور محاذِ آزادیٔ فلسطین شامل ہیں، خود تقسیم ہیں۔ غزہ حماس کے پاس اور ویسٹ بینک محاذِ آزادی کے کنٹرول میں ہے۔ 

وہ ایک دوسرے سے ملنے تک کو تیار نہیں۔ حماس کے ساتھ ایران تھا اور محاذ کے ساتھ عرب ممالک۔چین نے ابھی تک فلسطین کے معاملے میں کوئی فعال کردار ادا نہیں کیا، ہاں اس کے اثرات مشرقِ وسطیٰ میں بڑھ ضرور رہے ہیں۔اسلامی تعاون تنظیم، جو اقوامِ متحدہ کے بعد دنیا کی سب سے بڑی تنظیم ہے، بھی بے بس ہے۔وہ اجلاس بُلاتی ہے، مذمّت کرتی ہے، لیکن عملاً کچھ کرنے کے قابل نہیں۔ کئی اہم مسلم ممالک کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ہیں۔ان میں تُرکیہ، یو اے ای، بحرین، مراکش، مصر اور اردن شامل ہیں اور اسرائیل سے ان کا تعاون بڑھ رہا ہے۔

غزہ میں قحط قدرتی نہیں، بلکہ اسرائیلی جارحیت کی باقاعدہ شکل ہے اور یہ سب ایک منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا۔مسلم ممالک اس کے فوری تدارک کی بجائے اِسی میں الجھے رہے کہ نیتن یاہو کی حکومت خطرے میں ہے یا نہیں۔ اُن کے دانش ور اور تجزیہ کار انہیں اسی قسم کی کہانیاں سناتے ہیں۔یعنی وہ خود کچھ نہیں کرنا چاہتے، بس’’دیکھو اور انتظار کرو‘‘ کی پالیسی پر چل رہے ہیں۔ 

کبھی یہ نہ سوچا کہ اسرائیل انٹیلی جینس اور پراپیگنڈے کا ماہر ہے، وہ خود ایسی خبریں پھیلاتا ہے اور مسلم میڈیا میں ایسے تجزیے سامنے لاتا ہے، جو یہ تاثر دیتے ہیں کہ اسرائیل بالکل تنہا ہے۔ اگر واقعی ایسا ہوتا، تو اسرائیل کب کا نیست و نابود ہوچُکا ہوتا۔ اس کے امریکا اور مغربی ممالک کے سربراہان سے اس قدر قریبی رابطے نہ ہوتے۔اسے کسی قسم کے ہتھیاروں اور اقتصادی کمی کا سامنا کیوں کبھی نہیں کرنا پڑا، اِسی پس منظر میں اس سوال کا جواب تلاش کیا جاسکتا ہے۔

اگر اسرائیل تنہا ہوتا، تو امریکا اُس کی حمایت میں ایران پر بم نہ گراتا۔ ایران کو کتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے، لیکن وہ خود امریکا، مغربی ممالک، چین اور روس کے ساتھ خاموشی سے مذاکرات کر رہا ہے۔ غزہ میں قحط کی صورتِ حال تمام عالمی اداروں کی جانب سے تصدیق شدہ ہے۔

غزہ کے چھے لاکھ شہری قحط، یعنیIPC فیز 5 کی حالت میں ہیں، جب کہ 116000 افراد ایمرجینسی، یعنی فیز فور میں ہیں۔نیز،4 لاکھ افراد فیز 3 ، یعنی بحران کی کیفیت میں ہیں۔ واضح رہے، غزہ کی کل آبادی22 لاکھ ہے۔ دوسرے الفاظ میں، عالمی ادارے تصدیق کر رہے ہیں کہ غزہ کا انسانی بحران اپنی انتہا پر ہے، جب کہ شمالی غزہ تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے صُورتِ حال اس سے بھی زیادہ خراب ہے۔اب چھے راستے ہیں، جن سے امداد آتی ہے یا پھر ایئر ڈراپ کی جاتی ہے۔

ان میں سے پانچ راستے اسرائیل اور ایک مصر کے پاس ہے، لیکن سب پر مکمل پابندی ہے، جب کہ فضا پر بھی اسرائیلی فضائیہ کا مکمل کنٹرول ہے۔اِس لیے اسرائیل کی اجازت کے بغیر غزہ تک امداد پہنچانی ممکن نہیں۔ گو کہ بہت سے ادارے وہاں تک امداد پہنچانے کے دعوے دار ہیں، لیکن مسلم ممالک اور باقی دنیا کو کوئی ایسا میکنزم بنانا چاہیے، جس سے غزہ تک امداد پہنچائی جاسکے۔

غزہ میں اسرائیلی بم باری اور زمینی کارروائی کو اب تقریباً دو سال ہونے کو آئے ہیں، جب کہ جنگ بندی اور یرغمالیوں سے متعلق مذاکرات بھی اتنے ہی عرصے سے جاری ہیں۔ اِس ضمن میں قطر کا کردار بہت فعال رہا۔ اِس دوران جہاں اسرائیل کو بھاری نقصان ہوا، وہیں حماس کو بھی کافی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ اسماعیل ہانیہ سمیت اس کی تقریباً پوری قیادت اسرائیلی حملوں کا نشانہ بن چُکی ہے۔

پھر یہ کہ حماس کا سب سے بڑا سپورٹر، ایران بھی اسرائیل کے تین حملوں کے بعد اب شاید اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ اُس کی مزید مدد کرسکے۔ اِسی طرح حزب اللہ، جو مشرقِ وسطیٰ کی سب سے مؤثر ملیشیا تھی، اب لبنان میں فوجی طور پر خاصی غیر مؤثر ہوچکی ہے اور اُسے مسلسل غیر مسلّح کیا جارہا ہے۔ اس کے لیڈر حسن نصراللہ ایک اسرائیلی حملے کا نشانہ بنے اور باقی قیادت کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ غزہ کے شہری بدترین بحران سے گزر رہے ہیں اور اس کے باوجود کسی معاہدے تک پہنچے کے آثار نظر نہیں آتے۔

کوئی اسرائیل کو روکنے والا نہیں۔او آئی سی اور اقوامِ متحدہ کے اجلاس اپنی جگہ، لیکن کیا انسانی المیے کی شدّت دیکھ کر اس امر پر غور نہیں کیا جاسکتا کہ مسلم اور مغربی ممالک بھی، جو غزہ کی صُورتِ حال کو تشویش ناک کہتے ہیں، ان مذاکرات کا حصّہ بنیں اور کچھ بھی کرکے جنگ بند کروائیں، کیوں کہ یہ لڑائی تو یک طرفہ ہے۔ اسرائیل بلا روک ٹوک صرف غزہ ہی نہیں، پورے خطّے میں دندناتا پھر رہا ہے۔ سیاسی مسائل اپنی جگہ، لیکن فلسطینیوں کے حق سے کون انکار کرسکتا ہے۔ بے بس اور بھوک سے نڈھال شہریوں کو اس اس اذیّت سے نجات دلانا سب کی اوّلین انسانی ذمّے داری ہے۔

اسرائیلی وزیرِ اعظم نے غزہ پر مکمل قبضے کا اعلان کیا ہے اور وہ بھی فوجی طاقت کے بل پر۔ ویسے بھی اب جو صُورتِ حال ہے، اُسے اِس اقدام سے کون روک رہا ہے۔ شاید ایک باقاعدہ اعلان کی دیر ہے اور قبضہ ہوجائے گا، کیوں کہ عالمی ضمیر تو غزہ کے بے بس شہریوں کو خوراک تک دینے سے قاصر ہے، تو وہ اسرائیل کو وہاں ٹیک اوور کرنے سے کیسے روک پائے گا۔

بہت سے تکلیف دہ اور تلخ سوالات ہیں، جن کا بوجوہ تجزیہ نہیں کیا جاتا۔ لیکن اب عوام کو بتانا چاہیے کہ غزہ سے ہم دردی کا تقاضا ہے کہ وہاں سب سے پہلے اس قحط کی صورت حال کا خاتمہ کیا جائے۔ ہم ریلیاں نکالتے ہیں، ٹاک شوز میں بڑے بڑے انکشافات کرتے ہیں، دعوے کیے جاتے ہیں، دھمکیاں دیتے ہیں اور امداد کی اپیلز کرتے ہیں، لیکن اصل صورت حال سے یا تو بے خبر ہیں یا پھر بے خبر ہونے کا تاثر دیتے ہیں۔

دنیا تو جان بوجھ کر خاموش ہے، مگر ہمیں کیا ہوا ہے۔حل یہی نظر آتا ہے کہ پہلے قحط کا خاتمہ کیا جائے، وہاں امن قائم ہو اور اس کے بعد کسی سیاسی حل کی طرف بڑھا جائے۔ کیوں کہ موجودہ حالات سے اسرائیل کو وقت مل رہا ہے اور وہ اس سے فائدہ اٹھانا خوب جانتا ہے۔ سیاسی حل کے طور پر بہت سی تجاویز فضا میں گردش کرتی ہیں۔جیسے کہ فلسطینی اتھارٹی کی واپسی۔

یعنی اسے اختیارات دے کر دونوں حصّوں، غزہ اور مغربی کنارے کو ملا دیا جائے، لیکن اسرائیل اس اقدام کی مخالفت کرتا ہے۔ ایک تجویز یہ ہے کہ عرب ممالک کی قیادت میں ایک عبوری انتظام قائم کردیا جائے۔ یاد رہے، عرب ممالک ایران کے منظر نامے میں داخل ہونے سے پہلے چار بار اسرائیل سے جنگیں لڑ چکے ہیں۔ گو کہ ہر ایک میں انہیں شکست ہوئی۔ وہ سرد جنگ کا زمانہ تھا، جب عرب سوشلسٹ سوویت کیمپ اور امریکی کیمپ میں بٹے ہوئے تھے۔

بہرحال، اس تجویز کے نفاذ میں بہت سی قانونی رکاوٹیں ہیں۔ایک خیال یہ ہے کہ بین الاقوامی سرپرستی یعنی اقوامِ متحدہ کے تحت کوئی عارضی انتظامیہ بنا دی جائے، جو فلسطینی اتھارٹی کو سنبھالے۔ جہاں تک اسرائیل کے غزہ پر مستقل قبضے کا سوال ہے، تو اس پر خود اسرائیل میں تقسیم ہے۔ ایک رائے کے مطابق، اسرائیل جو پہلے ہی تنہائی کا شکار ہے، برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک اس کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں، اس اقدام سے مزید تنہائی کا شکار ہوجائے گا۔ اس لیے نیتن یاہو مکمل قبضے سے زیادہ طویل مدّتی کنٹرول پر زور دیتے ہیں۔ 

ان کا کہنا ہے کہ وہ اس دوران حماس کے فوجی کردار کے خاتمے میں کام یاب ہوجائیں گے اور وہ اِسی کو اپنا جنگی ہدف بتاتے ہیں۔ غزہ پر اسرائیلی قبضے سے جڑا ایک نظریہ، گریٹر اسرائیل کا بھی ہے۔اس نظریے کی جڑیں اسرائیل کے قیام تک پھیلی ہوئی ہیں۔ عالمی برادری اسے مکمل طور پر مسترد کرتی ہے۔ گریٹر اسرائیل کے نظریے کو بائبل وغیرہ سے بھی جوڑا جاتا ہے، یعنی اس پر مذہبی رنگ غالب ہے، جو جذبات بھڑکانے کا ایک ذریعہ ہے۔جب کہ انتہا پسند سیاست دان اس کا جواز اسرائیل کے تحفّظ کے طور پر بھی پیش کرتے ہیں۔

مسلم دنیا، خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کو فلسطینیوں کو اُن کا حق دلوانے میں اہم کردار ادا کرنا چاہیے، لیکن خود فلسطینیوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ آزادی کی دیگر تحریکات سے سبق سیکھیں۔ ویت نام سے الجزائر اور جنوبی افریقا تک میں آزادی کے متوالے امریکا، فرانس اور برطانیہ جیسی بڑی طاقتوں سے ٹکرائے، لیکن پھر اُنہوں نے اپنے لوگوں کو ترقّی کے جدید طریقوں سے ہم آہنگ کیا۔ بہرحال، پہلا مرحلہ تو یہی ہے کہ غزہ کے بے بس، مجبور باسیوں کو قحط جیسے درد ناک انسانی المیے سے نکالا جائے۔