• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

میرا تعلق پاکستان کے شہر جھنگ کے ایک کسان گھرانے سے ہے۔ والد صاحب بچپن ہی میں وفات پاگئے تھے۔ بڑے بھائی، دل میر خان کاشت کاری کے پیشے سے وابستہ تھے۔ جب کہ میری والدہ، جنھیں ہم امّاں جی کہا کرتے تھے، سارا دن گھر کے کام کاج میں مصروف رہتیں، اُنھوں نے گھر ہی میں گائیں، بھینسیں پال رکھی تھیں اور ان کا بھرپور خیال رکھتیں، وقت پر چارہ دیتیں اور اُن کا دودھ دوہا کرتیں۔ 

یوسف گجر نامی گوالا، ان سے روزانہ چار آنے (پچیس پیسا) فی کلو کے حساب سے دودھ خرید کر لے جایا کرتا اور ان پیسوں سے والدہ صاحبہ گائیوں، بھینسوں کے لیے جھنگ سٹی سے چَنے اور کَھل خرید کرلے آیا کرتی تھیں۔ اکثر مَیں بھی اُن کے ساتھ مارکیٹ جایا کرتا۔ امّاں جی، صبح سویرے دودھ بلوتیں، چرخے سے سوت کاتتیں، پھر جولاہے سے کپڑا بنواتیں۔ 

بچپن میں مجھے اسی جولاہے کے بنے کپڑے پہنایا کرتی تھیں۔ مجھے یاد ہے، جس روز ہماری پڑوسی خاتون کی وفات ہوئی، اُس روز والدہ نے چولھے میں آگ جلانا مناسب نہ سمجھا کہ کہیں ہم سائیوں کی دل شکنی نہ ہو، اور ایک فرلانگ دُور اپنے ایک رشتے دار کے گھر جاکر روٹی پکاکر مجھے کھلائی۔ میری والدہ پورے گاؤں کی امّاں تھیں، آس پڑوس کی سب ہی خواتین انھیں ’’امّاں راجن‘‘ کہہ کر پُکارا کرتیں۔ وہ ہر ایک کے دُکھ درد میں شریک ہوتیں۔

مجھے اسکول جانا اچھا لگتا تھا، تو میری خواہش پر امّاں جی نے میرا اسکول میں داخلہ کروایا اور مَیں خوب جی لگا کر پڑھنے لگا۔ اچھے نمبرز سے پرائمری بھی پاس کرلی، لیکن فیس نہ ہونے کی وجہ سے چھٹی جماعت میں داخلہ نہ لے سکا۔ پھر اگلے سال اپریل 1958ء میں اسکول میں داخلے کے لیے والدہ سے ضد کی، تو اُنھوں نے ایک مَن گندم فروخت کرکے اسلامیہ ہائی اسکول، جھنگ، صدر میں میرا داخلہ کروادیا۔ اسکول گاؤں سے چارکلو میٹر دُور تھا، مَیں روزانہ گھر سے اسکول پیدل آیا، جایا کرتا۔

مڈل کلاس میں آیا، تو اسکول کی فیس5روپے ماہانہ ہوگئی۔ یہ اُس دَور میں اچھی خاصی رقم تھی، جو میری والدہ ادا کرنے سے قاصر تھیں، مگر مجھے حصولِ تعلیم کا جنون تھا، لہٰذا میری ضد پر والدہ مجھے ساتھ لے کر ہیڈ ماسٹر، میاں عبدالکریم کے گھر پہنچ گئیں اور اُن سے فیس معاف کرنے کی گزارش کی۔ ہیڈ ماسٹر صاحب بہت خدا ترس، انسان دوست تھے، انھوں نے آدھی فیس معاف کردی۔ تعلیم کے حصول کے لیے مطلوبہ سہولت میرے لیے بہت بڑی غنیمت تھی، سو اس سہولت سے فائدہ اٹھا کر مَیں بھرپور لگن اور دل جمعی سے پڑھنے لگا۔ اسکول میں میرے ایک قابلِ فخر استاد، خالد مسعود بھی تھے، جو معروف ادیب اور صحافی، محمود شام کے بھائی ہیں، اللہ تعالیٰ اُن کی عُمردراز کرے۔ میٹرک میں آیا، تو دو بچّوں کو ٹیوشن پڑھانے لگا، جس سے کچھ آسودگی ہوگئی۔

بہرکیف،1963ء میں نمایاں نمبرز سے میٹرک پاس کرلیا۔ اور تب ہی ایک اندوہ ناک سانحے کا سامنا کرنا پڑا، جس کی کسک آج تک میرے دل میں ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب مَیں میٹرک کے امتحان کا آخری پیپردے کر گھر آیا، تو باہر لوگوں کا ایک ہجوم تھا۔ حیرانی و پریشانی کے عالم میں گھر کے دہلیز پر قدم رکھتے ہی یہ رُوح فرسا خبر سُننے کو ملی کہ میرے بڑے بھائی اچانک انتقال کرگئے۔ والد کے دنیا سے جانے کے بعد یہ ہمارے لیے بہت الم ناک سانحہ تھا، جس کا مجھے اور امّاں جی کو ناقابلِ بیان دُکھ تھا۔ 

بھائی کے انتقال کے بعد ہم مزید مالی مسائل میں گِھر گئے، مَیں آگے پڑھنا چاہتا تھا، لیکن وسائل نہ ہونے کی وجہ سے خواب کی تعبیر ممکن نظر نہیں آرہی تھی، مگر مَیں نے ہمّت نہیں ہاری اور محنت مزدوری شروع کردی، کچھ عرصہ مزدوری کے لیے سڑک پر بھی بیٹھا، پھر گورنمنٹ کالج، جھنگ کے ہاسٹل کی تعمیر شروع ہوئی، تو دو روپے روزانہ دہاڑی لگانے لگا۔ اس طرح دو ماہ میں 120روپے کمالیے اور 117روپے 6آنے فیس جمع کروا کر کالج میں داخلہ لے لیا۔

1965 ء میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان دے کر فارغ ہوا ہی تھا کہ پاک، بھارت جنگ چھڑ گئی۔ لاہور سرحد پر ہونے والی بمباری اور دھماکوں کی آواز ہم جھنگ میں سُنا کرتے تھے۔ ہر طرف خوف و ہراس کی فضا تھی، ایسے میں اپنے علاقے کے تحفّظ کے لیے رات کو ڈنڈے لے کر سڑک اور گاؤں میں پہرا دیتے۔ اس جنگ میں پاک فضائیہ کے معروف ہوا باز، فائٹر ایم ایم عالم نے بھارت کے پانچ جہاز گرا کر ورلڈ ریکارڈ قائم کیا اور پاکستانی عوام کے ہیرو بن گئے۔ 

بہاول پور میں ایک بار مجھے اُن سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو فرطِ جذبات سے گلے لگ گیا۔1967ء میں جھنگ سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر تعلیم، گوہر صدیقی صاحب نے غزالی کالج قائم کیا، تو وہاں مجھے بطور کلرک 80روپے ماہ وار پر ملازمت مل گئی۔ پہلی تن خواہ ملی، تو پوری رقم امّاں جی کے ہاتھ پر رکھ دی۔ وہ بہت خوش ہوئیں اور ہاتھ اٹھا کر درازئ عمرکے ساتھ ترقی و کام رانی، صحت و سلامتی کی دعاؤں سے نوازا۔ 

بعد ازاں، امّاں جی کی دعاؤں سے 1968ء میں ایجوکیشن بورڈ، ملتان میں بطور کلرک سرکاری ملازمت مل گئی۔ اس غرض سے ملتان منتقل ہوا، تو والدہ گاؤں میں اکیلی رہ گئیں، وہ کبھی کبھی ملتان آجایا کرتیں، ایک بار میرے لیے ایک مَن آٹا اور اپنے ہاتھ سے پیسا ہوا ایک کلو نمک لائیں۔ میرے منع کرنے کے باوجود کچھ نہ کچھ ضرور لایا کرتیں، لیکن اُن کا شہر میں دل نہیں لگتا تھا، اس لیے جلد واپس گاؤں لوٹ جایا کرتی تھیں۔

1978ء میں میرا بہاول پور بورڈ تبادلہ ہوگیا، تو جھنگ مزید زیادہ دُور ہوگیا۔ یہاں بھی امّاں جی کو وقتاً فوقتاً لے کر آجایا کرتا، لیکن انہیں گھر کی فکر لاحق رہتی، ہفتہ دس روز بھی نہیں گزرتے کہ گاؤں جانے کے لیے بے چین ہوجاتیں۔ ایک بار میں اُنھیں بہاول پور سے گاؤں لے کر گیا، تو دیکھا کہ گھر کا دروازہ کُھلا تھا، چور سارا سامان لے گئے تھے۔ گھر کا سارا مال و اسباب لُٹ جانے پر امّاں جی کو بہت رنج تھا، وہ بہت روئیں۔ اس موقعے پر گاؤں کی خواتین نے دلاسا دیا، لیکن امّاں جی کا غم ہلکا نہ ہوا اور کچھ عرصہ بیمار رہ کر داغِ مفارقت دے گئیں۔ 

اُن کی جدائی میرے لیے بہت بڑا سانحہ تھی، میں اُن کی دن رات کی محنت اور قربانیوں کو کیسے بھول سکتا ہوں، وہ مرتے دَم تک میرے لیے دُعائیں کرتی رہیں۔ اور یہ اُن ہی کی دُعاؤں کا ثمر تھا کہ مَیں ترقی کے منازل طے کرتا رہا اورجنوری 2005ء میں بطوراسسٹنٹ کنٹرولر ریٹائر ہوا۔ امّاں جی کے انتقال کے بعد کہیں جی نہیں لگتا تھا، ان کی جدائی کا غم غلط کرنے کے لیے کاغذ، قلم سے اپنا رشتہ جوڑ لیا اور زیادہ تر وقت لکھنے لکھانے پر صرف کرنے لگا۔ 

اب تک متعدد کتابیں تحریر کرچکا ہوں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے کئی ملاقاتیں رہیں، اُن کی شخصیت سے متاثر ہوکر اُن پر ایک کتاب ’’ملّت ِاسلامیہ کا اسیر ہیرو، ڈاکٹر عبدالقدیر خان‘‘ بھی تحریر کی۔ اس کتاب کے اب تک تین ایڈیشنز شائع ہوچکے ہیں۔ علاوہ ازیں، مختلف موضوعات پر 9کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ عُمر کی81بہاریں دیکھ چُکا ہوں، مگر قلم اور کتاب سے رشتہ اب بھی برقرار ہے۔ میرا ایمان ہے کہ یہ سب کچھ میری ماں کی دُعاؤں کے بدولت ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ میری امّاں جی کو جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ (مہر محمد بخش نول، مہاجر کالونی بغداد، بہاول پور)

ناقابلِ اشاعت نگارشات اور اُن کےتخلیق کار

برائے صفحہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘

٭ بھینس کا واقعہ +تھانے دار کا گھوڑا+آدمی بلبلہ ہے پانی کا (ظہیر انجم تبسّم، جی پی او، خوشاب)٭سپنوں کے گاؤں میں (جمیل ادیب سیّد)٭شہر میں دندناتے قاتل، خونی ڈمپرز (زہرا یاسمین، کراچی)٭معجزے اب بھی ہوتے ہیں(سہیل رضا تبسم،کراچی) ٭پرندے کی قبر (انجینئر محمد فاروق جان ، اسلام آباد)

برائے صفحہ’’ متفرق‘‘

٭ٹیپو سلطان:اِک مردِ مجاہد(بابر سلیم خان، لاہور)٭ حکیم محمد سعید شہید کا طرز زندگی، مشعلِ راہ +پنڈت نیول کشور، غیر مسلم کا ناقابلِ فراموش واقعہ (ارشد مبین احمد)٭ ریل کی پٹری (ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بخاری)٭ حسینہ معین (ذوالفقار نقوی)٭تیس سالہ ادبی محافل کی روداد، (یگانہ نجمی)