• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک سال بیت گیا لیکن نواز شریف کے فیصلہ کن انتخابی مینڈیٹ کے ایک فیصلہ کن طرز حکومت میں بدلنے کی توقعات پوری نہ ہوئیں بلکہ اس کے بجائے وزیراعظم نے خطرے سے بچنے والی روش اپنائی، حساس سیکورٹی امور اور اصلاحات کو ٹالتے رہے اور صف اول میں رہ کر قیادت کرنے سے جھجکتے رہے۔اس کے سبب وہ پہلے سے ہی سخت عوامی ناراضی کا سامنا کرچکے ہیں۔ ہیرالڈ/ ایس ڈی پی آئی کی جانب سے ان کی پہلے سال کی کارکردگی پر کرائے جانے والی رائے عامہ کے جائزے کے مطابق صرف 10 فیصد رائے دہندگان نے نوازشریف کو ایک موثر سربراہ حکومت قرار دیا۔ تقریباً تین چوتھائی افراد کا کہنا تھا کہ ان کی کارکردگی اوسط سے بہتر نہیں ۔نوازشریف نے مدت کا آغاز ایسے سازگار مواقع کے ساتھ کیا تھا جو ان کے پیشرو کو کبھی حاصل نہیں ہوئے یعنی واضح پارلیمانی اکثریت جس نے انہیں اتحادی سیاست کی جھنجھٹ سے آزاد کردیا، ریاستی اداروں کے مابین طاقت کے توازن کی درستی سے ملنے والا زیادہ سویلین اختیار اور سب سے بڑے صوبے کا کنٹرول۔
2013 کے انتخابات کا علاقائی نتیجہ آنے سے 2 صوبے اپوزیشن کے ہاتھوں میں چلے گئے جبکہ ملک ایک قومی جماعت سے محروم رہ گیا۔ ان نتائج نے واضح روڑے اٹکائے ہیں لیکن نوازشریف کی بااختیار سیاسی حیثیت اور منقسم اپوزیشن نے انہیں ایک نیا جرأت مندانہ رستہ اپنانے کی آزادی دی۔اس کا مطلب تھا کہ ایسے سخت فیصلے کئے جاتے جن کی ملکی سلامتی و معیشت کی نازک صورت حال متقاضی تھی اور ساختی اقتصادی تبدیلیوں اور طویل عرصے سے موخر ادارتی اصلاحات کیلئے ایک فوری تحرک پیدا کیا جاتا۔لیکن اس سمت میں اعتماد کے ساتھ قدم اٹھانے کے بجائے انہوں نے ہچکچاتے ہوئے سفر کا آغاز کیا۔ انہوں نے اپنی کابینہ کو مکمل نہیں کیا اور بڑے قلمدان اپنے پاس ہی رکھے، جیسے بتا رہے ہوں کہ ان کے پاس ٹیم کی کمی ہے۔ نہ ہی دیگر اہم تقرریاں کی گئیں۔ ان کے پہلے سال کے اختتام تک زیادہ تر عوامی اداروں کے سربراہان نامزد نہیں کئے گئے، باوجود ان کے اس وعدے کے کہ غیر منافع بخش اداروں کی تشکیل نو اور نجکاری کی جائے گی تاکہ بے قابو بجٹ خسارے میں ان کا کردار ختم کیا جاسکے۔
نوازشریف نے ہمت کا مظاہرہ کیا بھی تو کہاں، میٹرو بس اور یوتھ بزنس لون اسکیم جیسے بڑے ترقیاتی منصوبے اور عوامی اسکیمیں شروع کرنے میں۔ اس نے ایک تضاد کو عیاں کر دیا کہ پسندیدہ منصوبوں پر تو تیزی سے عمل درآمد کیا جائے لیکن جب حساس پالیسی محاذوں جیسے ساختی اصلاحات اور ملکی سلامتی کی تشویشناک صورت حال بشمول بلوچستان کے غیرمستحکم حالات کی بات آئے تو مخمصے کا شکار ہوگئے۔وزیراعظم نے معیشت کی بحالی اور ملک میں توانائی کی شدید قلت کے مسئلے کے حل کو اپنی اولین دو ترجیحات کے طور پر طے کیا تھا۔ اس کے لئے لین دین اور ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت تھی تاکہ ادائیگیوں کے نازک توازن سے بیک وقت نمٹا جاتا اور ساختی اصلاحات نافذ کی جاتیں جس سے نمو اور سرمایہ کاری کو فروغ ملتا اور معاشی ترقی کے لئے بنیاد تعمیر ہوتی۔ان کی حکومت نے ملک کی کمزور بیرونی حیثیت کو سنبھالا دے کر اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرکے معاشی استحکام میں پیشرفت کی لیکن اس نے یہ سب بیرونی سرمائے سے یا پھر قرضے لے کر کیا، نہ کہ معاشی مبادیات کی ہیئت بدلنے کی کوشش کر کے۔اس سے یہ سوال پیدا ہوا کہ عارضی حل نکالنے سے استحکام کتنے عرصے برقرار رہ سکتا ہے۔ پائیدارکلی اقتصادی استحکام کے لئے فیصلہ کن کوششوں کی ضرورت تھی تاکہ مالیاتی عدم توازن کی بنیادی وجوہات کو حل کیا جاتا لیکن اس حوالے سے اشارے تسلی بخش نہیں تھے۔ تازہ ترین اقتصادی سروے سے ان تمام شعبوں میں جمود نظر آیا جو مالی استحکام اور بیرونی پائیداری کے لئے انتہائی اہم ہیں جن میں آمدن، برآمدات اور سرمایہ کاری کے شعبے شامل ہیں۔ پھر معیشت کی بحالی سب سے بڑا امتحان بن کر سامنے آئی تو دیگر اشارے بھی حوصلہ افزا نہ تھے۔ معیشت کا تقریباً 70 فیصد حصہ زراعت و خدمات پر مشتمل ہے اور حکومت کے پہلے سال یہ دونوں شعبے ناقص کارکردگی کا شکار رہے۔ 74 شاہراہوں کے منصوبوں پر اخراجات سے نمو فروغ پانے کے سرکاری اندازے بے بنیاد ثابت ہوئے کیونکہ ان پر پیسہ لگانے کا نتیجہ مزید قرضوں کی صورت برآمد ہوا۔ان منصوبوں میں سے زیادہ تر کا محل وقوع اور چھوٹے صوبوں سے نواز شریف کے رابطوں کی کمی نے بھی تنقید کو جنم دیا کہ وزیراعظم کی سوچ کا مرکز پنجاب ہے اور انہوں نے اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش بھی بہت کم کی۔
بجلی کی قلت بھی معاشی بحالی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بنی رہی۔ حکومت نے ایک اولو العزم توانائی پالیسی کا اعلان کیا، نرخ بڑھائے اور غیر معین سبسڈیز میں کمی کی۔ لیکن اس کی حکمت عملی کے غیر یکساں نفاذ نے صورت حال کو غیر یقینی کا شکار کردیا۔ بجلی کی چوری اور توانائی کی تقسیم کار نااہل کمپنیاں حل طلب مسائل بنی رہیں جب کہ گردشی قرض دوبارہ چڑھ گیا۔ سیکورٹی کےمحاذ پرحکومت کا متذبذب موقف سب سے زیادہ چشم کشا تھا۔ عسکریت پسندی سے نمٹنے میں اس کے تذبذب نے تشویشناک صورت حال کو حل کرنے کے عزم کے سوا ہر بات کا اشارہ دیا ۔ یہ صورت حال رواں برس کے اواخر میں افغانستان سے مغربی افواج کے نکلنے کے بعد مزید خراب ہونے کا امکان ہے۔
اعلیٰ حکام نجی طور پر مغربی حکومتوں کو تو یہی بتاتے رہے کہ انہیں مذاکرات سے کوئی نتیجہ برآمد ہونے کی توقع نہیں جب کہ ملک میں عوام کو کچھ اور ہی بتایا جاتا رہا۔ حکومت نے ایسے ظاہر کیا جیسے معاشی بحالی کی کوششوں اور امن و امان کو باہم علیحدہ کیا جا سکتا ہے جب کہ دونوں کا معاملہ ایک ساتھ ہی کیا جانا چاہئے تھا۔ اس معاملے پر ہچکچاہٹ نے سول ملٹری تعلقات کو ایک ایسے وقت بگاڑ دیا جب وزیراعظم کیلئے جی ایچ کیو کے ساتھ مستحکم تعلقات اولین ترجیح ہونا چاہئے تھے۔ دیگر امور نے بھی تعلقات میں عدم استحکام پیدا کیا جن میں سابق صدر پرویز مشرف کا مقدمہ اور فیصلہ سازی میں نواز شریف کا غیرمشاورتی رویہ شامل تھا۔ اس طرح شکوے شکایات نے جگہ لی اور بے چینی میں اضافہ ہوا۔ نواز شریف حکومت کے دوسرے سال یہ تعلقات کس طرح درست ہوتے ہیں، اس سے بڑھتے ہوئے سیکورٹی چیلنجوں سے نمٹنے میں ملکی صلاحیت کا تعین ہوگا ۔اس سب سے ہمیں کیا نتیجہ اخذ کرنا چاہئے؟ سب سے اہم ، یہ کہ نواز شریف حکومت کے پہلے سال میں ماضی کی جھلک نظر آئی۔ اس نے انہیں عادات و اطوار کا مظاہرہ کیا جو اس کے پہلے ادوار حکومت سے مشابہ نظر آئے۔ان میں سے پانچ توجہ کے متقاضی ہیں۔اول۔ نواز شریف نے ذاتی اور غیر ساختہ طرز حکومت کے لئے نمایاں دلچسپی کا مظاہرہ کیا، جس میں فیصلہ سازی کے لئے ادارتی طریقہ کار اپنانے کا حوالہ نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ غیر ادارتی طرز حکومت نے کئی طرح سے اپنا اظہار کیا ہے مثلاً باضابطہ اسٹرکچرز(کابینہ کمیٹی) سے باہر قومی سلامتی کے اجلاسوں کا انعقاد اور باضابطہ مشاورت کئے بغیر ایسی اسکیمیں شروع کی گئیں جن کا مالی طور پر قابل عمل ہونا مشکوک ہے اور جنہیں مشاورت کی صورت میں چھان بین کے امتحان سے گزرنا پڑتا۔ ذاتی طرز حکومت میں بے قاعدہ طریقے سے مشورے ملنے کا سلسلہ بھی شامل رہا۔ اس نے وزیراعظم کو وسیع موقف سے دور کرکے ایڈ ہاک ازم (مسائل کے عارضی حل) کو جنم دیا۔دوم، فیصلہ سازی کو ایک مختصر سے دائرے یا وزیراعظم کے گرد جمع وفاداروں کے ایک چھوٹے سے ٹولے تک محدود کردیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اہم فیصلے کابینہ میں کئے جانے کے بجائے اسے سنائے جاتے، جب کہ وسیع پارلیمانی رکنیت سے مشاورت کا تو کوئی پتہ ہی نہیں۔ نکتہ یہ ہے کہ کس طرح ممنون حسین کا صدر کی حیثیت سے انتخاب کیا گیا اور پارٹی کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا گیا۔تیسری خاصیت یہ ہے کہ سخت فیصلے کرنے میں ٹال مٹول کی جاتی رہی، اس رجحان کے ساتھ کہ ملک کے ٹیڑھے مسائل کو حل کرنے کیلئےغیر اذیت ناک طریقے ڈھونڈے جائیں۔
جس کے لئے سیاسی سرمایہ وسیع کرنے اور خطرہ مول لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ نواز شریف نے ملک کے فوری چیلنجوں سے نمٹنے کے بجائے آسان فیصلے کرنے کا انتخاب کیا مثلاً شاہراہوں اور بسوں پر اخراجات۔ چہارم، پارلیمنٹ کے کردار کو گھٹا کر اس سے ایک مجہول ادارے جیسا برتاؤ کیا گیا۔ اس سے غیر ادارتی حکمرانی کا ایک اور پہلو جھلکتا ہے۔ قومی اسمبلی کی اجلاسوں میں کبھی کبھار اور سینیٹ میں بالکل ہی شرکت نہ کر کے، نواز شریف نے اس بات کا اشارہ دیا کہ وہ پارلیمنٹ کو ایک جمہوری طرز حکومت کا آلہ کم اورحکومت کو بااختیار رکھنے کا ذریعہ زیادہ سمجھتے ہیں۔ اسی لئے یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ سارا سال پارلیمنٹ ایک بھی قانون منظور کرنے میں ناکام رہی۔پنجم، نوازشریف نے مشہور و عوام کی توجہ کھینچنے والے منصوبوں کو ترجیح دینے میں رغبت کا مظاہرہ کیا، ان منصوبوں کا مالی طور پر قابل عمل ہونا مشکوک ہے۔ ان کی پہلی مدت کے دوران یلو کیب اسکیم غلط ترجیحی اخراجات کی ایک یادگار تھی۔ اس بار میٹرو بس منصوبہ ، جس کا کبھی بھی مالی طور پر قابل عمل ہونے کا امکان نظر نہیں آتا اور پہلے سے مختص کردہ وسائل یہ یادگار بنتے ہوئے لگ رہے ہیں جو زیادہ بہتر ہوتا کہ ریلوے کو جدید بنانے پر خرچ ہوتے یا صحت اور تعلیم پر ہونے والے اخراجات بڑھائے جاتے۔نواز شریف نے اپنے دوسرے سال کا آغاز بھی انداز حکومت کی انہی عادات کے ساتھ کیا ہے جنہوں نے ماضی میں کوئی متاثر کن نتیجہ نہیں دیا لیکن ان کے پاس سمت کو درست کرنے کے لئے اب بھی موقع اور سیاسی سرمائے کا ذخیرہ موجود ہے۔ اس کے لئے، نواز شریف کو ملک کی واضح تر سیاسی سمت کا تعین کرنے کی ضرورت ہے، اپنی ٹیم کو خاندان اور وفاداروں کے دائرے سے آگے پھیلانا ہوگا، فیصلہ سازی کو پیشہ ورانہ خطوط پر استوار کرنا ہو گا اور ان عادات سے چھٹکارا پانا ہوگا جو ان کی اثر پذیری اور ساکھ کو برباد کرچکی ہیں اور اس سب سے بڑھ کر انہیں ذاتی حکمرانی پر ادارتی طرز حکومت کو فوقیت دینے اور مالی طور پر عاقبت نا اندیش اسکیموں میں اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے۔
تازہ ترین