السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
سب کچھ موبائل اورمنہگائی کی نذر
مسلمانوں کی علم سےدُوری، تفرقہ بازی، لڑائی جھگڑے اورعدم برداشت ہی درحقیقت اُن کی پس ماندگی کی بڑی وجوہ ہیں۔ فقط اسلامی ممالک میں جنگیں ہو رہی ہیں اور ہم اپنے وسائل لڑائی جھگڑوں یا دہشت گردی کے سدِباب میں ضایع کررہے ہیں، یہی وسائل تعلیم و ہنر، تحقیق و جستجو میں استعمال ہونے چاہئیں۔
آج خلیل جبران کا لبنان لہو رنگ ہے، غزہ کسی صلاح الدین کو پکار رہا ہے۔ جریدے میں کہا گیا کہ ’’شکایت کرنا سیکھیں‘‘ مگرہمارے بے حِس، بے رحم حُکم رانوں نے رشوت، سفارش کلچر کو فروغ دے کر ہمیں شکایت کرنا بُھلا ہی دیا ہے۔ اور کریں بھی توسُنتا کون ہے۔
یہاں شکایت کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا،اُلٹا انتقامی کارروائی شروع ہوجاتی ہے اور یہ میرا ذاتی تجربہ ہے۔ جانے کہاں گئے وہ دن، جب کتابیں خرید کر پڑھتے، لائبریریز سے لیتے، دوستوں سے تبادلۂ خیال کرتے تھے۔ اب تو بس موبائل کا دَور ہے۔ پہلےبچّوں کوکھلونے دیتے، کہانیاں سناتے،عزیز رشتے داروں کے یہاں چھوڑجایا کرتےتھے، سب مل جل کررہتے،ہنستے بولتے، کھیلتے کودتے تھے۔
’’فیچر‘‘ پڑھا، تو ؎ آیا ہے مجھے پھر یاد وہ ظالم گزرا زمانہ بچپن کا۔ شادی بیاہ، بچوں کی پیدائش کے مواقع، ڈھول ڈھمکے، بندر، کٹھ پتلیوں کے تماشے، ڈبّے نما گھر میں مکّہ، مدینہ دیکھنا، لوہے کے گھیرے، لچھے، بانس کی ڈنڈے والی مٹھائی سے چڑیا، مور، کبوتر بنانا، پتا نہیں کیا کیا کچھ یاد آکے رہ گیا۔ اب تو سب موبائل اور منہگائی کی نذر ہوگیا ہے۔
محبتوں کی باتیں، کھیل سب کہانیاں ہوئے۔ ’’دنیا امن چاہتی ہے‘‘، لیکن زبانی کلامی، دراصل سب جنگیں ہی پسند کرتے ہیں کہ اب حُکم رانی، قیادت ٹرمپ مودی، نیتن یاہو جیسے لوگوں کے ہاتھ ہے۔ نیوزی لینڈ کی وزیرِاعظم جسینڈاآرڈرن جیسے حُکم ران نہیں رہے۔ عرفان جاوید کی آمد نےمیگزین میں ایک بار پھر دل چسپی بہت بڑھادی ہے۔
کیا بات ہے، ’’کباڑیے‘‘ کی۔ ’’صرف پاکستان ہی میں طاقت وَر کے حق میں فیصلے نہیں ہوتے، امریکا کا بھی (جو انسانی حقوق، جمہوریت کا بادشاہ کہلاتا ہے) یہی حال ہے، پڑھ کر تسلی ہوئی۔ حقوق، انصار عبدالقہار نے غریب، غرباء کے لیے بہترین لفظ کا انتخاب کیا، جو ہم قافیہ بھی ہے۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں شامل مضمون ’’آج کیا پکے گا؟‘‘ تو ہر گھر کی کہانی لگا۔ ایک خط کے جواب میں آپ نے بجا فرمایا۔ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ (سعید احمد خانزادہ، ضلع شہید بےنظیرآباد، سکرنڈ)
ج: آپ کی بہت سی باتیں درست ہیں،مگر تحریر کی بےربطگی کے سبب بمشکل ہی وہ سب سمجھ پائے، جو آپ نے کہنا چاہا۔ کوشش تو کی ہے، جس حد تک ربط ضبط میں لا سکیں، لے آئیں۔ آئندہ براہِ مہربانی کوشش کریں، کم لکھیں، لیکن سُتھرا لکھیں۔ متعدد صفحات کالے کرنا ضروری نہیں ہوتا، چند جملوں میں بھی بہت عُمدگی سےمافی الضمیر بیان ہو سکتا ہے۔
اچانک ہی ’’آخری قسط‘‘
ایک بیٹی کے لیےدُعا سے بڑھ کر تحفہ کوئی نہیں ہوسکتا، تو تہہ دل سے دُعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت آپ سمیت سب بچیوں کا نصیب اچھا کرے، سب کو اپنی حفظ وامان میں رکھے۔ ذوالفقارچیمہ کی’’خُودنوشت‘‘جب شروع ہوئی، تو اندازہ تھا کہ یہ بہت طویل چلے گی۔ ظاہر ہے، ایک پوری زندگی کا احوال تھا، مگر جب اچانک ہی ’’آخری قسط‘‘ پڑھی، تو ہمیں واقعی ایسا لگا کہ ہاتھوں کے توتے اُڑ گئے ہیں۔ آپ کا کہنا بجاکہ محاروہ سچویشن سے ہٹ کر استعمال کیا گیا۔
بہرکیف، ’’روشنی کےمینار‘‘ میں محمود میاں نجمی نے حضرت عکرمہؓ کے حالاتِ زندگی نہایت عُمدگی سے بیان کیے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا کا ’’ایران واسرائیل جنگ‘‘ پر تجزیہ، ثانیہ انورکا ماہِ جولائی کے اہم ایام کا تذکرہ اور ڈاکٹر عبدالستارعباسی اور منیر احمد خلیلی کی تحریریں پڑھ کر معلومات میں بیش بہا اضافہ ہوا۔ آخر میں دُعا ہے، اللہ پاک ہمارے مُلک، پاک افواج سمیت ہم سب کو ہمیشہ اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ (صبور مشتاق حسین، رمضان گارڈن، شو مارکیٹ، کراچی)
ج: بھئی، آپ کے ہاتھ، آپ کے توتے…تو جیسے اور جہاں مرضی اُڑائیے۔
کہاں سے ہمّت آئی…!!
سرِورق دلآویز اور جاذبِ نظر تھا۔ دوسرے ہی صفحے پرعرب حُکم رانوں کی روایتی بے حسی سے متعلق نگارش پڑھنے کو ملی۔ عربوں پر بہت غصّہ آتا ہے کہ بس ؎ حمیّت نام ہے جس کا، گئی تیمور کے گھر سے…’’کراچی زلزلوں کی زد میں‘‘ مضمون پڑھا، وافر مقدار میں معلومات فراہم کی گئیں، مگر سائنس اپنی تمام تر ترقی کے باوجود اِس قابل نہیں ہوسکی کہ زلزلوں کے وقت اور شدّت کا تعیّن کرسکے تو سائنس دانوں سے یہی کہیں گے کہ ؎ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔ رئوف ظفر نے غیر مُلکی یونی ورسٹیز کی داخلہ پالیسی، اسٹوڈنٹ موبیلیٹی اورمزیدیہ کہ انسانی اسمگلنگ جیسے فراڈز کو اُجاگر کرکے راہ نمائی فرمائی۔
منور مرزا کی جیو پالیٹکس اور بین الاقوامی بصیرت پر وسعت نظری دنیا سے ہم آہنگ کر دیتی ہے۔ کہانی ’’فیصلہ‘‘ از اظہر حسین میں انتہائی نازک مسئلے پر زندگی کے افسوس ناک پہلو اور بہن بھائی کی لازوال محبت کو قرطاسِ ابیض پر بکھیر کے رکھ دیا گیا، تو دل مسوس کر رہ گیا۔ جریدے کے وسط میں خُوب رُو ماڈل ؎ جیسے چُپکے سے بہار آجائے… کے مصداق ٹھہری۔ رابعہ فاطمہ کی نگارش ’’پرسنل برانڈنگ کی علامہ کی فکری سوچ کے ساتھ مماثلت‘‘شان دارتھی۔
’’ڈائجسٹ‘‘ کاافسانہ ’’صیقل‘‘ کافی حد تک فارمولا کہانی لگا، جسے بہت بے دردی سے گھسیٹ کر انجام تک لایا گیا اور یہ بھی آپ ہی کا کام لگتا ہے۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں ’’رحمت کے دروازے‘‘ مختصر، مگر پُراثر تحریر تھی، لیکن اُس کے نیچے شائع شدہ تحریر ’’پتا نہیں، کہاں سے ہمّت آئی‘‘ پڑھ کے سمجھ نہیں آیا کہ آپ میں اتنی ہمّت کہاں سے آئی، جو اِسے چھاپ بھی دیا۔ واقعہ نگار شاید آپ کی سہیلی ہوگی اورمنورراجپوت نےکتاب ’’صحافت بیتی‘‘ پر تبصرہ فرما کر خریدنے کے لیے اُتاولا سا کر دیا ہے۔ (جاوید جواد حسین، گلشنِ اقبال، کراچی)
ج: بخدا ہمیں نہیں پتا، یہ ایم۔ بانو کون ہیں۔ ہم نے تو عرصے بعد ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کا صفحہ قارئین کے حد درجہ اصرار پر، مجبور ہو کے شایع کیا، تاکہ شکوہ کنندگان کو اندازہ ہو کہ یہ سلسلہ کیوں موقوف کیا گیا ہے۔ حرام ہے، جو کوئی ایک ڈھنگ کا واقعہ موصول ہوتا ہو۔ ہاں البتہ ’’صیقل‘‘ سے متعلق آپ کا تجزیہ کافی حد تک درست ہے۔
تم تیسری محبت ہو!!
ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا، صد شُکر کہ دونوں میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے صفحات موجود تھے۔ ’’اردن: شریف مکہ سے عبداللہ ثانی تک‘‘ ایک خُوب صُورت مضمون تھا۔ ’’سانحہ کربلا:ضمیر کی بےداری، مزاحمت کا استعارہ‘‘ اور سینٹر رائٹ اَپ میں بھی واقعۂ کربلا سے متعلق نگارش پڑھ کر دل حُزن و ملال سے بھر گیا۔ بلاشبہ،ایران، اسرائیل سیزفائر سے دنیا بڑی آزمائش سے بچ گئی،منور مرزا کا تجزیہ انتہائی مدلل تھا۔ عبدالواحد کاکڑ کا ’’انٹرویو‘‘ بھی شان دار رہا۔
اللہ پاک اُن کے ارادوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچائے۔ ’’نئی کہانی، نیافسانہ‘‘ کی دونوں کہانیاں ’’رہائی اور کباڑیا‘‘ سُپرہٹ تھیں۔ ’’کتب خانوں سے بےگانگی‘‘ واقعی ایک سماجی المیہ ہے۔ کسی نے کیا خُوب کہا ہے کہ ’’جہاں جوتے شوکیس میں اور کتابیں سڑکوں پر ملیں تو وہاں کے لوگوں کو جوتوں ہی کی ضرورت ہے۔‘‘
مجھے بچپن ہی سےلکھنےپڑھنے کا شوق ہے، بچّوں کے رسائل، اخبارات میں لکھتا تھا۔ بڑا ہوا تو ریڈیو سُننےکا شوق ہوگیا۔ اب بیگم کہتی ہیں، یہ کیا تم ہر وقت کتابوں اور ریڈیو سے چپکے رہتے ہو اور میرا جواب ہوتا ہے۔ ’’کتاب میری پہلی، ریڈیو دوسری اور تم تیسری محبت ہو‘‘ اور وہ یہ سن کر خاموش ہوجاتی ہیں۔ (پرنس افضل شاہین، نادرشاہ بازار، بہاول نگر)
ج: ظاہر ہے وہ سُن کرخاموش ہی ہوں گی کہ کوئی تیسری محبت ہو بھی، تو اُسے برملا کہنا، اور سُننا کوئی بھنگڑے ڈالنے والی بات تو نہیں ہے۔
پرنس کے 4 خطوط
’’سرچشمۂ ہدایت‘‘میں محمود میاں نجمی نے ایک اور ’’روشنی کا مینار‘‘ کچھ اور بھی منور کر دیا، واقعتاً سبق آموز مضمون تھا۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں منیر احمد خلیلی نے اُردن کے حالات، شریفِ مکّہ سے عبداللہ ثانی تک، عُمدگی سے بیان کیے۔ نصرت عباس داسو نے مضمون دل کی گہرائیوں میں ڈوب کر لکھا۔ سیّد ثقلین نقوی کی تحریر کا بھی جواب نہ تھا۔ رؤف اسلم آرائیں نے ’’پھلوں کا بادشاہ‘‘ آم کی کئی قسمیں اور فوائد و نقصانات گوش گزار کیے۔
’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا کا تجزیہ بہترین تھا۔ جریدے کا سرورق اور ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ انتہائی متاثرکُن لگے۔ ڈاکٹرحافظ محمّد ثانی کے رائٹ اَپ کی تاثیر رُوح تک اُتری۔ ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ بہترین سلسلہ ہے۔ آبنائے ہرمز کی بندش پر مضمون معلوماتی تھا۔ ’’پیارا گھر‘‘ کے مضامین شان دار اور روبینہ یوسف کا افسانہ دل کش تھا۔
پرنس افضل شاہین کے ’’اَن مول موتی‘‘ پسند آئے۔ ڈاکٹر قمر عباس اور سیّد سخاوت علی جوہر کے سلام کا جواب نہ تھا۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں پرنس افضل شاہین کے چار خطوط، (مطلب دو دو شماروں پر تبصروں کے ساتھ دو خطوط) شائع ہوگئے، مگر ہمارا خط شامل نہ ہو سکا۔
اگلے شمارے کے ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ایک اور ’’روشنی کے مینار‘‘ کے حالاتِ زندگی پڑھنے کو ملے۔ منیر احمد خلیلی لبنان کے حقیقی مسائل اجاگر کررہے تھے اور اسرار ایوبی نےشکایت کرنا سکھایا۔ انجینئر قدر پرواز کتب خانوں سے بےگانگی کو المیہ قرار دے رہی تھیں۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا امن کا درس دیتے نظر آئے، توعرفان جاوید نے بھی خاقان ساجد کا کیا خُوب صُورت افسانہ چھانٹ کے نکالا۔
اب تک جتنے افسانے شائع ہوئے، اُن میں یہ سب سےعُمدہ افسانہ تھا۔ عمیر محمود کا مضمون بھی ایک مختلف موضوع پر بہترین تحریر تھی۔ زبیر انصاری نے اساتذہ کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کی طرف توجّہ دلائی۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں روبینہ قریشی کا مشورہ پسند آیا کہ کل کیا پکے گا، کا فیصلہ آج ہی کرلیا جائے۔ جب کہ ڈاکٹر شاہد ایم شاہد نے خوبانی کے طبّی فوائد بیان کیے۔ ثانیہ انور کا افسانہ سمجھ میں نہیں آیا اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ہمارا خط دوسری بار بھی شامل نہیں تھا، تو بات یہیں ختم کرتے ہیں۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)
ج: دو خطوط کوچار کرنے کا گُر، کلیہ بھی بس کچھ آپ ایسوں ہی کی ذہنی اختراع ہوسکتی تھی۔ ایک بار باضابطہ معذرت توکرلی گئی ہے، اب اور کیا کیا جائے۔
فی امان اللہ
صُبحِ اتوار ہاکر بھائی کو دیکھ کر’’او ویکھو! ساڈا یار آیا اے!‘‘ پھر رسالہ ملنے پر ’’بےحد اور بے اختیار پیار آیا ہے‘‘ کا ڈرامیٹک سین ہوتا ہے۔ اِس بار گل دستۂ رسالہ کو دو درجن بھر رنگا رنگ صفحات /سلسلوں سے حُسن ترتیب دی گئی۔ یوں ہی تو یہ ہرمکتبۂ فکر کو قبول اور ہر فردِ عُمر میں مقبول نہیں۔ سرِورق، جریدے کا دل کش چہرہ ہے۔ اس لیے سال کے بارہ میں سے گیارہ ماہ اُس پر پری وش، نازنین کا پہرہ ہے۔ ہاہاہا… ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ معاشرے کے سلگتے افیئرز اوردہکتے ایشوز کا نمائندہ صفحہ ہے۔ فیسٹیولز اور عالمی ایام پر یہ اسپیشل ہوکر ایونٹس کو چاردونی آٹھ چاند لگا دیتا ہے۔
مختلف النّوع تحاریر سے مرصّع جو سلسلہ ہے، وہ ہے ’’سنڈے اسپیشل‘‘، جہاں اکثرعالمی ایام کی بہار رہتی ہے۔’’حالات و واقعات‘‘ کےپیش کار، عالمی سیاست کے بھونچال کے وطنِ عزیز تک آنے والے آفٹرشاکس سے آگاہ کرتے ہیں۔ ’’رپورٹ‘‘ میں وقتاً فوقتاً مُلک کے دُور دراز علاقوں کے مسائل ہائی لائٹ کر کے اربابِ اختیار تک پہنچائے جاتے ہیں۔ عوامی ٹیلی اسکوپ سے اوجھل مقامات کی صفحہ ’’فیچر‘‘ میں اہمیت اجاگر کر کے قارئین کی گاہ بگاہ توجہ مبذول کروائی جاتی ہے۔
میگزین کے سلامی صفحات میں جو قابلِ اشاعت آرٹیکلز جگہ نہ پاسکیں، تو مدیرہ صاحبہ وہ پیٹو صفحے’’متفرق‘‘ کی طرف لڑھکا دیتی ہیں۔ گویا کہ یہ مفید بلیک ہول ہے۔ ہاہاہا…’’پیارا گھر‘‘میں رانی سگھڑجی کو معدے کے رستے راجا کے دل پر دائمی قبضے کے گُرسکھائے جاتے ہیں، مگر جب وافر خوراک سے راجا کے معدے کا باجا بجتا ہے، تو پھر ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘۔ہی سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ ’’اسٹائل‘‘ وہ پوشاک محل ہے، جس میں حضرات بلااجازت قدم دھر نہیں سکتے، مگر لیڈیز بے دھڑک، ہلا بول کرواپس جانا ہی بھول جاتی ہیں۔ اور میگزین کے بُک اسٹال پر ’’نئی کتابیں‘‘ وزیٹرز سے استدعا کرتی ہیں۔’’کان سے موبائل ہٹا کر ذرا اِک کتاب چکھ لو ناں۔‘‘
میگزین کا ایک صفحہ عرفان جاوید کے لیے مختص ہے، جو سُرخاب کے پَروں سے آراستہ ہونے کے بعد آج کل افسانوی ورق سے مزیّن ہے۔ باذوق قارئین کے لیے ’’ڈائجسٹ‘‘جیسے زودہضم مستقل سلسلے کا بھی انصرام ہے۔ انسانی رشتوں کی سچی کہانیاں ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کی زینت بنتی ہیں۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ اور ناقابلِ فراموش‘‘ کے صفحات تو اکثرغائب ہی پائے جاتے ہیں۔ اور وہ صفحہ، جہاں نامہ نگاروں کی نگار شات تراش خراش کے بعد ’’اس ہفتے کی چٹھی‘‘ اور مزید نوک پلک سنوار کر’’لیٹر آف دی ائیر‘‘میں ڈھل جاتی ہیں۔ وہ ہے’’آپ کا صفحہ‘‘ ہمارا، آپ کا، سب کا صفحہ۔ ( محمد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)
ج: آپ کا تو کچھ زیادہ ہی ہے۔
* جنگ، سنڈے میگزین میں عالیہ شمیم کا افسانہ پڑھا، بہت پسند آیا۔ (ثمینہ نعمان)
* مَیں فیصل آباد سے ہوں، سنڈے میگزین میں ایک کہانی شائع کروانا چاہتا ہوں۔ (عاصم علی)
ج: بھیج دیں۔ دیکھنےکے بعد ہی اشاعت یا عدم اشاعت سے متعلق کوئی فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
* ’’سنڈے میگزین‘‘ میں میرا پیغام ہوبہوشایع کیا گیا، جسے کینیڈا میں مقیم میرے بیٹے اسامہ نے بھی پڑھا اوربہت ہی خوش ہوا۔ مَیں سنڈے میگزین کا تہہ دل سے ممنون ہوں۔ آپ نے ثابت کیا کہ آپ لوگ اپنے قاری اور لکھاری کی خُوب حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اب مَیں ان شاءاللہ جریدے کے لیے کچھ نہ کچھ تحریر کرتا رہوں گا۔ (واجد علی شاہین، لاہور)
ج:جی ضرور۔
* سنڈے میگزین بہت اچھا ہے۔ آپ سے گزارش یہ ہے کہ آپ لوگ، جن سلیبریٹیز کے انٹرویوز شایع کرتےہیں، اُن کے رابطہ نمبرز بھی ضرور شایع کیا کریں، تاکہ اگرکوئی اُن سےذاتی حیثیت میں بھی بات کرنا چاہےتوکرسکے۔ (شہزاد احمد کرد، کوئٹہ)
ج: سلیبریٹیزہی کی طرف سےاِس بات کی سختی سے ممانعت ہے۔ ویسے چشم ِبددُور، ہماری قوم جتنی فارغ اورشوقین مزاج ہے، ہم خُود بھی کسی کا نمبرشایع کرنےکا تصور بھی نہیں کر سکتے۔
* ’’ہائیڈ پارک‘‘ میں چھوٹی سی اینٹری دینا چاہتی ہوں، اپنے لیے نہیں، بلکہ آپ کے ایک معصوم، اور بہت مستقل مزاج لکھاری کے لیے۔ میرا اشارہ ہے، شری مرلی چند گوپی چند گوگھلیہ کی طرف، جو ہر ہفتےبہت باقاعدگی سےمحض 2,3 سطروں ہی کاخط لکھ بھیجتے ہیں۔
مَیں چوں کہ ’’آپ کا صفحہ‘‘لازماً پڑھتی ہوں، تو مجھے خیال آیا کہ ہر بار کسی طویل چٹھی لکھنے والے ہی کومسند نشین کرنے کے بجائے ایک آدھ بار کسی مستقل نامہ نگار کو بھی اس اعزازکاحق دار ٹھہرا دینا چاہیے۔ ویسے یہ بحیثیت مستقل قاریہ، میری ذاتی رائے ہے، آگے آپ کی مرضی۔ (شاہینہ اعوان علی، کراچی)
ج: جب کہ ہمارےخیال میں ایسا کرنا اچھے لکھاریوں کے ساتھ زیادتی ہوگی۔
قارئینِ کرام کے نام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk