• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دبستان دہلی کے آخری چراغ: مسعود الحسن تابش دہلوی

اردو کے ممتاز شاعر، تابش دہلوی، 9نومبر 1911ء کو دہلی میں پیدا ہوئے اور 23 ستمبر 2004ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔ان کا اصل نام سید مسعود الحسن تھا۔ وہ ایک طویل عرصے تک ریڈیو پاکستان سے بطور نیوز کاسٹر اور پروڈیوسر وابستہ رہے۔ 

ان کے شعری مجموعوں میں نیم روز، چراغِ صحرا، غبارِ انجم، گوہرِانجم، تقدیس، ماہ ِشکستہ اور دھوپ چھاؤں، جب کہ نثری تصانیف میں دید باز دید شامل ہیں۔برسی کے موقعے پرنام ور اردو نقّاد، محقّق، شاعر، ڈاکٹر اسلم فرخّی کی تاثراتی تحریر ’’نذرِتابش‘‘ پیش ِ خدمت ہے۔

مسعود الحسن تابش دہلوی کو خبریں پڑھتے سنتا رہا، مشاعروں میں دیکھتا بھی رہا، لمبا قد، بڑی بڑی روشن آنکھیں، ستواں ناک، چوڑی پیشانی، مسکراتا کتابی چہرہ، چال ڈھال میں وقار، جامہ زیب، لباس سے غیر معمولی نفاست، کپڑے عارفِ کامل کے قلب کی طرح بے داغ، نہ کوئی سلوٹ، نہ شکن، صادق الخیری مرحوم کہا کرتے تھے۔ 

’’تابش کیا تم کپڑے پہننے کے بعد استری کرواتے ہو۔‘‘ گفتگو میں گھلاوٹ، مگر مَیں انہیں دیکھتا ہی رہا۔ محض صاحب سلامت رہی۔ شاہد بھائی کے ہاں آنا جانا ہوا، تو تابش صاحب کو بھی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اس بزم بے تکلف میں بھی اپنے آپ کو لیے دیے رہتے۔ چناں چہ ہم جیسے چُھٹ بھیّوں نے اُن سے دُور ہی رہنے میں عافیت سمجھی، مگر کب تک دُور رہتے۔ محکمہ ایک، احباب ایک اور ملنے جلنے والوں کا حلقہ ایک۔ 

ریڈیو اسٹیشن، انٹیلی جینس اسکول سے بندر روڈ کی نئی عمارت میں منتقل ہوا، تو ملاقات کے مواقع بھی بڑھے، مگر مجھے نہ جانے کیوں ایک عرصے تک یہ احساس رہا کہ تابش صاحب مُدمغ، یعنی مغرور ہیں۔ کالے آدمی کو گھاس نہیں ڈالتے۔ اس احساس کی وجہ یہ تھی کہ مرحوم سرور قدوائی نے شاہدبھائی کے کہنے پر اپنے ہاں ایک طرحی مشاعرہ منعقد کیا۔ ’’محبّت نہ پوچھیے، قیمت نہ پوچھیے۔‘‘ 

تابش صاحب بھی اس مشاعرے میں شریک تھے، جب وہ غزل پڑھ رہے تھے، تو ایک شاعر نے مصرع اُٹھایا۔ بدقسمتی سے انہوں نے مصرع اُٹھانے میں سہواً ایک لفظ بدل کر پڑھا۔ تابش صاحب نے فوراً ٹوکا۔ ’’جناب! مَیں نے یہ لفظ نہیں، یہ لفظ نظم کیا۔‘‘ مصرع اُٹھانے والے خاصے خفیف ہوئے اور انہوں نے بڑی معذرت کی۔ بات رفت و گزشت ہوگئی، مگر میرا یہ گمان، یقین میں بدل گیا کہ تابش صاحب کے مزاج میں کسی قدر سختی ہے۔

اب غور کرتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ جسے میں سختی سمجھتا تھا، وہ سختی نہیں، رکھ رکھاؤ کی اعلیٰ ترین کیفیت کا اظہار تھا۔ انسان جب اپنے لیے کچھ اصول وضع کرتا ہے اور ان پر کاربند بھی ہوجاتا ہے تو پھر کسی قسم کے گریز اور بے قاعدگی کو گوارا نہیں کرتا، نہ خود بے قاعدگی برتتا ہے، نہ دوسرے کی بے قاعدگی گوارا کرتا ہے۔ 

تابش صاحب نے اپنے ذہن اور عادات و مزاج کا تشکیلی دَور حیدرآباد دکن میں گزارا، جو برصغیر میں اسلامی تہذیب کا آخری اور مستند مرکز تھا۔ یہ بھی اتفاق کہ ان کا قیام مولوی عنایت اللہ دہلوی جیسے ذی علم اور درویش مزاج انسان کے یہاں رہا۔ وہ کم عمری کے باوجود شاعروں، ادیبوں، عالموں کے اُس حلقے میں بیٹھتے اُٹھتے، جو تہذیبی، ثقافتی اور علمی اعتبار سے اپنی مثال آپ تھا۔ 

مہاراجا بہادر جیسے و ضع دار علم دوست اور سخن پرور رئیس کی بارگاہ اور فانی جیسے شائستہ آدابِ زندگی شاعر کی صحبت نے تابش صاحب کی وضع داری کو اس انتہا پر پہنچا دیا، جو سطحی نظر رکھنے والوں کو تکبّر اور انَانیت سے عبارت معلوم ہوتی ہے۔

تابش صاحب ،فانی کی شاعری اور شخصیت دونوں سے بہت متاثر تھے۔ مجھے کبھی کبھی یہ محسوس ہوا کہ خود اُن کی شخصیت میں فانی کا سا رکھ رکھاؤ اور شاعری میں فانی کے شعری تفکّر کا ہلکا سا پَرتو ہے۔ میں نے بارہا فانی کے بارے میں اُن سے گفتگو کی، ایسے موقعوں پر ’’وہ کہیں اور سنا کرے کوئی‘‘ والی بات ہوتی۔ انہوں نے فانی کے بارے میں جو مضمون لکھا، غالباً وہ ان کی شخصیت کے حوالے سے انتہائی بہترین مضمون ہے۔ رفتہ رفتہ تابش صاحب سے میرے تعلقات بڑھے، قربت حاصل ہوئی، تو اندازہ ہوا کہ اوپر سے غیر معمولی رکھ رکھاؤ کا اظہار کرنے والے تابش صاحب اندر سے بڑے نرم اور سراپا خلوص ہیں۔ 

دوستوں پر جان چِھڑکتے تھے۔ جانِ احباب تھے، اپنوں کا خیال سب ہی کرتے ہیں، تابش صاحب غیروں کا خیال بھی رکھتے تھے۔ دنیادار ہوتے ہوئے دنیاداری سے متنفرتھے اور اُن میں سو عیبوں کا ایک عیب یہ تھا کہ غلط بات پر مصالحت کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتے۔ اِدھر کسی نے کوئی ایسی بات کہی، جو ناروا، بے جا یا غلط ہوتی اور اُدھر تابش صاحب کے چہرے کا رنگ بدلتا، بڑی شائستگی سے تردید کرتے۔ لگی لپٹی نہیں رکھتے۔ اُن کی اس عادت سے بہت سے لوگ اُن سے ناراض بھی ہوجاتے، کیوں کہ منافقت کا زہر اب ہمارے پورے معاشرے میں سرایت کررہا ہے۔

منہ پر رام رام اور بغل میں چھری والوں کی کثرت ہے، کہنے والے نہ حق بات کہنے کی جرا ٔت کرتے ہیں، نہ سُننے والوں میں حق سننے کی تاب ہے۔ ان حالات میں لوگ تابش صاحب سے ناراض نہیں ہوتے تو کیا خوش ہوتے؟ ویسے تابش صاحب نے ایک اور نادر طریقہ بھی اختیار کر رکھا تھا۔ کوئی بڑے رازدارانہ لہجے میں چہرے پر غیر معمولی سنجیدگی طاری کرکے کوئی ناروا بات کہتا، کسی کی مذمّت کرتا، کسی کا استہزا کرتا، تو مسکرا کر’’امَا، ہٹو، امَا نہیں‘‘ کہہ کر ساری راز داری اور سنجیدگی مٹّی میں ملادیتے۔ 

ایسے مواقع پر بات کہنے والا ’’اما، ہٹو‘‘ سن کر خاصا شرمندہ ہوتا ہے کہ ہم نے تو اتنی بڑی خبر سنائی اور انہوں نے ہنسی ہنسی میں اس کی ساری اہمیت ہی ختم کردی۔ عام طور پر لوگ مذمّت اور استہزا سے لُطف لیتے ہیں، لیکن جس کا دل صاف ہو، وہ اِن باتوں سے نہ لُطف لیتا ہے، نہ کہنے والے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ تابش صاحب کی روش بھی یہی تھی، خود دوٹوک بات کہتے اور فضول باتیں سننے سے پرہیز بھی کرتے۔

خوش بیانی، فصاحت اور زبان کی پرکھ تابش صاحب کو وَرثے میں ملی تھی۔ سنتے آئے تھے کہ مادری زبان، ماں کی گود میں سیکھی، یہ حقیقت تابش صاحب کی والدہ سے مل کر روشن ہوئی۔ تابش صاحب کی والدہ مرحومہ کو اللہ تعالیٰ نے فصاحت و بلاغت کی جو خوبی، زبان کا جو دل موہ لینے والا انداز عطا کیا تھا، کم ازکم مَیں نے ایسا انداز اور خوبی کہیں نہیں دیکھی۔ اُنھیں ہزاروں اشعار ازبر تھے، مثالیں، محاورے، فارسی کے فقرے، نوکِ زبان تھے۔ گفتگو کیا تھی، ایک طلسم تھا، سنتے جائیے اور اش اش کرتے جائیے۔ 

مَیں نے سنگ وخشت کے ’’قلعۂ معلیٰ‘‘ کو بارہا دیکھا، مگر ’’قلعۂ معلیٰ‘‘ کی زبان کا لُطف، تابش صاحب کی والدہ سے سُن کر حاصل ہوا۔ بلبلِ ہزار داستان کا نام پڑھا اور سُنا تھا، معنویت اُن کی گفتگو سُن کر واضح ہوئی۔ وہ سراپا محبّت تھیں، سب پر جان چھڑکتیں، مگر غلط لفظ کی سہار نہیں تھی، اِدھر آپ نے کوئی غلط لفظ کہا اور انہوں نے ٹوکا۔ ایک بار مَیں نے گفتگو کے دوران رنگ کے حوالے سے ’’پیلا‘‘ کا لفظ استعمال کیا۔ تابش صاحب کی والدہ نے فوراً ٹوکا۔ ’’اے میاں! یہ پیلا کیا ہوتا ہے، زرد کہو زرد، رنگ زرد ہوتا ہے۔‘‘ مَیں تو کیا چیز ہوں، کوئی اور بھی جملہ سُنتا، تو چہرے پر زردی کھنڈ جاتی۔ زبان کا یہ عرفان اور ملکہ، تابش صاحب کو وَرثے میں ملا تھا۔ 

مطالعے اور علم نے اس ملکہ کو علمی بنیاد بھی فراہم کی، چناں چہ ’’مستند ہے میرا فرمایا ہوا‘‘ کا اطلاق صحیح معنوں میں اُن ہی پر ہوتا۔ زبان کے سلسلے میں جب گاڑی کہیں اٹکتی، تو تابش صاحب ہی یاد آتے، یا پھر حقّی صاحب کا خیال آتا۔ حقّی صاحب نے تحقیقِ لغت میں عمر گزاری۔ تابش صاحب کو تحقیقی لغت سے دل چسپی ضرور تھی، مگر اپنے تخلیقی سفر کے حوالے سے جو کچھ کہتے، بہت سوچ سمجھ کر، اس کہنے میں شعر و سخن اور عام گفتگو سب ہی شامل ہوتے۔

تابش صاحب کو قریب سے دیکھنے کے بعد ایک دن مجھے خیال آیا کہ اگر صرف ایک لفظ میں اُن کی شخصیت کا بیان مقصود ہو، تو کون سا لفظ موزوں ہوگا۔ وہ لفظ بھی فوراً ہی ذہن میں آگیا۔ نفیس، کڑھی ہوئی شخصیت، وضع دار انسان اور اس قسم کی دوسری ترکیبیں استعمال ہوتی رہتی ہیں، مگر میری رائے میں تابش صاحب کی سیرت و کردار کا صحیح اظہار ’’نفیس‘‘ سے ہوتا تھا۔ زبان ہو، شاعری ہو، رہن سہن ہو یا زندگی کا عام رویّہ، تابش صاحب ہر سطح پر نفیس ہی نظر آتے، بڑے باقاعدہ انسان تھے۔ 

نظم و ضبط کے عادی، گھر پر اُن کی نشست سب سے الگ تھلگ، صاف ستھری ہر چیز قرینے کی، ہر چیز اپنی جگہ، کتابیں، قلم، کاغذ، سب صاف ستھرے۔ اُن کی سادگی میں بھی ایک آن تھی۔ وہ جو ہم میں سے بعض لوگوں کو بَربنائے احساسِ کم تری اپنے ہاتھ سے کام کرنے یا گھر کا کام کرنے میں ایک طرح کا معذرتی رویّہ اختیار کرنا پڑتا ہے، شرم سی آتی ہے، تابش صاحب کے یہاں اس کا کوئی شائبہ بھی نہیں تھا۔ ایک دفعہ انہوں نے مجھ سے کہا۔ ’’مجھے اپنے ہاتھ سے کام کرنے یا گھر کے کام کرنے میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں ہوتی، مَیں نہیں کروں گا، تو کون کرے گا؟‘‘

رکھ رکھاؤ اور چھوٹوں کا خیال ایسا کہ ایک دفعہ اسلام آباد میں وہ اور مَیں ایک مشترک عزیز کے یہاں گئے۔ راستے میں ایک جگہ ٹھہرے، پھل خریدے، کہنے لگے، چھوٹوں کے یہاں خالی ہاتھ نہیں جاتے۔ پھر خوش خوش اُن صاحب کے یہاں پہنچے، مجھے کبھی فون کرتے تو پہلا سوال یہ ہوتا۔ ’’مصروف تو نہیں تھے، میں مخل تو نہیں ہوا۔‘‘ یہ ساری باتیں نفاستِ طبع ہی سے تعلق رکھتی ہیں۔ لباس سے متعلق تابش صاحب نفیس نہیں، بلکہ بڑے نفیس آدمی تھے، جو لباس پہنتے، بھلا معلوم ہوتا۔ 

یوں لگتا کہ یہ لباس خاص طور پر اُن ہی کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ ایک دفعہ مَیں نے اُن کی شیروانی کی تعریف کی اور دریافت کیا، کہاں سلوائی ہے؟ میرا خیال تھا کسی بہت معروف اور بڑی دکان پر سلی ہوگی، کیوں کہ فٹنگ اور تراش خراش بہت اعلیٰ تھی۔ معلوم ہوا حیدرآباد کالونی کے کسی غیر معروف درزی نے تیار کی ہے۔ 

ہدایات تابش صاحب کی تھیں، کام اس کا ہے؎ ہے رگ ساز میں رواں صاحب ساز کا لہو۔ ہدایات وہی دے سکتا ہے، جو فن کارانہ نظر رکھتا ہو۔ اچھے کپڑے بھی وہی پہن سکتا ہے، جو اُن کی تراش خراش کا صحیح طریقہ بھی جانتا ہو۔ محض اونچی دکان پر چلے جانے سے خوش پوشی کی تکمیل نہیں ہوتی۔ پھیکا پکوان ضرور ہاتھ آتا ہے۔

لباس کی طرح تابش صاحب کی تحریر بھی بڑی سجل تھی۔ نستعلیق لکھتے، شکست کے قائل نہیں تھے۔ شعر بڑی احتیاط سے کہتے، مگر ضرورت پڑ جائے، تو زود گوئی اور برجستگی کا مظاہرہ بھی کرتے۔ ایک دفعہ عزیزوں میں شادی تھی۔ باراتی جمع ہورہے تھے۔ کسی بزرگ نے تابش صاحب سے کہا۔ ’’اما! تم نے سہرا نہیں کہا۔‘‘ تابش صاحب نے کاغذ منگوایا، جیب سے قلم نکالا اور منٹوں میں سہرا لکھ کر اُن صاحب کے حوالے کردیا۔ 

سہرے میں نوشے اور مختلف عزیزوں کے نام بھی تھے۔ یہ نہیں تھا کہ کسی پرانے سہرے کے اشعار لکھ دیے ہوں، مگر انہوں نے زود گوئی اور برجستگی کو اپنا شعار اور فن نہیں بنایا، سوچ سمجھ کر کہتے، اور ہر لفظ پر پوری طرح غور کرتے، وہ شاعری میں گروہ بندی کے قائل نہیں تھے۔ مولانا ماہر القادری ان کے بڑے گہرے دوست تھے۔ دونوں میں بڑی گاڑھی چھنتی تھی۔ 

ایک دوسرے کا احترام بھی کرتے تھے۔ ایک دفعہ مَیں نے مولانا کی موجودگی میں تابش صاحب سے پوچھا۔ ’’اِن کی زبان دانی کے بارے میں کیا خیال ہے۔‘‘ بے ساختہ بولے۔ ’’اس اعتبار سے تو یہ گنوار ہے، گنوار۔‘‘ لُطف کی بات یہ ہے کہ مولانا نے تابش صاحب کی اس بات کا بالکل بُرا نہیں مانا، بلکہ اُن کا جملہ سُن کر ہنستے رہے۔

درونِ خانہ تابش صاحب سعادت مند اولاد، شفیق باپ، ذمّے دار شوہر اور مخلص عزیز تھے۔ والد اور والدہ کی بڑی خدمت کی، خدمت کیا، ناز برداریاں تک کیں۔ ’’وبالوالدین احسانا‘‘ پر پوری طرح کاربند ہوئے۔ والدین کی خدمت سب ہی کرتے ہیں۔ تابش صاحب کے یہاں یہ جذبہ دوسروں سے زیادہ تھا۔ بچّوں کو اچھی تعلیم و تربیت دی، مگر وہ اس سلسلے میں کلاسیکی اصول ’’کھلاؤ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی نگاہ سے۔‘‘ کے قائل تھے۔ اُن کے گھر کا ماحول صاف ستھرا اور پاکیزہ تھا۔ پھولوں کی ہلکی خوشبو، کمروں میں ہلکے رنگ، نفاست کا بھرپور احساس رہتا۔

قیامِ پاکستان سے پہلے دلّی، لکھنو ٔ ، حیدرآباد دکن اور لاہور زبان و ادب کے بڑے مرکز تھے۔ دلّی اور لکھنؤ میں چشمک بھی تھی، تابش صاحب چوں کہ خالص دہلوی تھے، اس لیے وہ لکھنو ٔ کی زبان اور شاعری کے کچھ زیادہ قائل نہیں تھے۔ ان کا ایک فقرہ کہ ’’لکھنو ٔ کی شاعری، طوائف کا چونچلا ہے۔‘‘ بہت مشہور ہوا، مگر میری رائے میں یہ فقرہ یک رُخا ہے۔ نہ لکھنو ٔ کی شاعری طوائف کا چونچلا ہے، نہ دلّی کی شاعری تماش بین کی فریاد۔ دونوں اپنی جگہ قابلِ قدر ہیں۔ 

تابش صاحب دین دار آدمی تھے، نماز، روزے کے پابند، بزرگانِ دین کے عقیدت مند، حضرت سلطان جی رحمت اللہ علیہ سے خصوصی عقیدت رکھتے تھے۔ ایک دفعہ حیدرآباد میں قیام پذیر اور میعادی بخار میں مبتلا تھے، خواب میں دیکھا کہ حضرت سلطان جی ؒ کا عرس ہورہا ہے، جس میں وہ بھی شریک ہیں۔ آنکھ کُھلی تو سوچنے لگے، مَیں تو بیمارہوں، سترہویں میں کیسے شرکت کرسکتا ہوں۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ صحت یاب ہونے کے بعد دلّی آئے، گاڑی فرید آباد پہنچی، تو بڑی بھیڑ بھاڑ، خلقِ خداکا ہجوم، پوچھا کیا بات ہے؟ 

معلوم ہوا کہ حضرت سلطان جی کی سترہویں ہے۔ زائرین شرکت کے لیے جارہے ہیں۔ تابش صاحب گھر پہنچے، بڑے اطمینان و سکون سے سترہویں میں شامل ہوئے، اُس وقت یہ احساس ہوا کہ وہ خواب نہیں تھا، بلاوا تھا۔ تابش صاحب جب بھی یہ واقعہ سناتے، تو ان کی آنکھوں میں خصوصی چمک نمودار ہوجاتی۔ وہ مستقل مزاج انسان تھے، محنت سے ترقی کرنے کا جذبہ رکھتے تھے۔ انہوں نے اسلامیہ کالج سے اعزاز کے ساتھ بی اے کیا۔ ایم اے میں بھی داخلہ لیا، مگر مصروفیت کی وجہ سے چھوڑنا پڑا۔ 

وہ اپنے اساتذہ کا، جن کی غالب اکثریت عمر اور تجربے میں ان سے چھوٹی تھی، بڑا احترام کرتے، عزت سے ان کا نام لیتے، اسی طرح اپنے شاگردوں کا بھی بے حدا احترام کرتے تھے۔ ان کے ملنے جلنے والوں کا حلقہ بھی بڑا وسیع تھا۔ حیدرآباد دکن، دلّی، لاہور اور کراچی ،وہ جہاں رہے کثیرالاحباب رہے۔ ملنے جلنے والوں میں ہر طرح کے لوگ شامل تھے۔ وہ ہر شخص سے برابری کی سطح پر ملتے، کسی سے مرعوب نہیں ہوتے، نہ کسی کی بے جا تعریف کرتے۔ وہ قدیم اور جدید ادبی تاریخ کا جیتا جاگتا مرقّع تھے۔ نظم طباطبائی سے تاجدار عادل تک شاعروں اور ادیبوں کی متعدد نسلوں سے ان کا قریبی رابطہ رہا۔ 

ایک بار مَیں نے تابش صاحب کے سامنے مولانا سیماب کا یہ مطلع پڑھا؎ دل کی بساط کیا تھی، نگاہ ِجمال میں.....ایک آئینہ تھا، ٹوٹ گیا ،دیکھ بھال میں۔ یہ سنتے ہی تابش صاحب کے چہرے پر سرور کی ایک لہر دوڑ گئی، ایک لمحے کے لیے ماضی کے دھندلکوں میں کھوگئے، پھر کہنے لگے۔ ’’مولانا نے یہ مطلع جے پور کے طرحی مشاعرے میں پڑھا تھا، البرٹ ہال میں مشاعرہ ہوا تھا، کیا دھوم دھام تھی، برصغیر کا کوئی معروف شاعر ایسا نہیں تھا، جو موجود نہ ہو، حاصلِ مشاعرہ سراج لکھنوی کا یہ شعر تھا؎ کچھ اور مانگنا مرے مشرب میں کفر ہے.....لا اپنا ہاتھ دے میرے دستِ سوال میں۔

جس شخص کی یادداشت اور معلومات کا یہ عالم ہو، اس کا ان یادداشتوں کا قلم بند نہ کرنا، ظلم نہیں تو اور کیا ہے، مگر میں یہ بات تابش صاحب کو سمجھا نہیں سکا۔