• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مخصوص لب و لہجے کے حامل، مسعود الحسن تابش دہلوی دبستانِ دہلی کے آخری چراغ، اردو کے مایۂ ناز غزل گو شاعر، دانش ور اور براڈکاسٹر تھے۔ وہ صرف شاعر ہی نہیں، شاعر گر بھی تھے۔ انہیں شاعری کی تمام اصناف پر دسترس کے ساتھ نثری ادب پر بھی کمال مہارت حاصل تھی۔ اُن کی روایتی شاعری کے اثرات کو تاریخ ادب میں فراموش کیا جانا ناممکن ہے۔ اگرچہ ُان کے بے شمار شاگرد تھے، مگر افسوس، غالب کی طرح حالی جیسا ایک شاگرد بھی انہیں میسّر آجاتا، تو اُن کی شعری قدرو قیمت اورشہرت فزوں تر ہوتی۔ وہ وسیع حلقۂ احباب رکھتے تھے، مزاج کا یہ عالم تھا کہ جہاں کسی نے کچھ لکھنے کی خواہش کا اظہار کیا، فوراً لکھ کر اس کے حوالے کردیتے، لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ایک طویل تعداد پر اُن کا حق واجب ہے۔

تابش دہلوی نے 9 نومبر 1911ء کو دہلی کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں جنم لیا۔ ابتدائی تعلیم اپنی والدہ سے حاصل کی، جس کے بعد انہیں لکھنو ٔکے سینٹ فرانسز کانونٹ اسکول میں داخل کروادیا گیا۔ 1919ء میں اُن کے رشتے کے نانا مولوی عنایت اللہ نے انھیں اپنے پاس دار الترجمہ حیدر آباد دکن بلوالیا۔ وہاں ایک قدیم اسکول سے آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد رام جپسی اسکول نمبر1سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔

اسی دوران دوسری جنگ عظیم ِچھڑ جانے کی وجہ سے تعلیمی سلسلہ منقطع ہوگیا۔ 1947ء میں پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد خاندان کے ساتھ پاکستان آگئے اور لاہور میں تین برس قیام کے بعد کراچی منتقل ہوگئے۔ 1954ء میں اسلامیہ کالج کراچی میں فرسٹ ایئر میں داخلہ لیا۔اسی دوران رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ شادی کے بعد ایف اے اور پھر1958ء میں کراچی یونی ورسٹی سے گریجویشن کیا۔

اہلیہ، محمودہ بیگم کے ساتھ
اہلیہ، محمودہ بیگم کے ساتھ

پاکستان ہجرت سے قبل، ہندوستان میں قیام کے دوران انہوں نے پہلی ملازمت 1932ء میں ٹیلی گراف کے محکمے میں کی۔ کچھ عرصہ ریڈیو سے بھی منسلک رہے، جہاں اُن کا کام خبریں پڑھنا اور ادبی پروگرامز کی کمپئیرنگ کرنا تھا۔ 1949ءمیں کراچی منتقل ہوئے، تو یہاں بھی 1963ء تک ریڈیو پر خبریں پڑھنے کا سلسلہ جاری رہا۔ یوں 1941ءتا1963ء لگ بھگ 23برس تک شعبۂ خبرمیں خدمات سرانجام دیں۔ پھر 1963ء میں اسکول براڈ کاسٹ کے شعبے سے بطور پروڈیوسر منسلک ہوگئے اور 1980ءمیں سینئر پروڈیوسر کے عہدے تک پہنچنے کے بعد ریٹائر ہوئے۔

1998ء میں حکومتِ پاکستان نے ان کی علمی خدمات کے صلے میں انہیں تمغۂ امتیاز سے نوازا۔تابش دہلوی نے دو شادیاں کیں۔ پہلی اہلیہ کا تعلق میرٹھ کے معزّز گھرانے سے تھا، جن سے اُن کی ایک بیٹی زرینہ ہے۔ پہلی اہلیہ کی رفاقت زیادہ دیر نہیں رہی، وہ 1946ءمیں دَمے کے مُوذی مرض کے باعث انتقال کرگئیں۔ دوسری شادی1946ء میں دہلی کے نواب افضل خان یار ابنِ نواب طالع یار خان کی دختر، محمودہ بیگم سے ہوئی، جو رشتے میں غالب کی بھا نجی تھیں۔ اُن سے تابش دہلوی کی تین صاحب زادیوں شاہانہ، دردانہ، رشیقہ کے علاوہ ایک صاحب زادہ سعود تابش تولد ہوئے۔

تابش دہلوی نے پہلا شعر تیرہ برس کی عُمر میں کہا تھا، جب کہ اُن کی پہلی نظم یا غزل 1931ء میں دہلی کے مشہور جریدے ’’ساقی‘‘ میں شایع ہوئی۔ 1932ء میں پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا۔ وہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے، مگر غزل کی صنف کے ساتھ نعت گوئی، مرثیہ گوئی میں بھی کمال رکھتے ہیں، تو ہائیکوز، آزاد نظمیں، گیت اور قومی نغمے بھی تخلیق کیے۔ابتدا غزلوں سے کی، پھر نظموں میں طبع آزمائی کرنے لگے۔ 

پہلے پہل مسعوؔد تخلّص کرتے تھے۔ بعدازاں، تابش تخلّص اختیار کرلیا۔ 1932ء میں حیدر آباد دکن میں حضرت فانی بدایونی سے زانوئے تلّمذ تہہ کیا، جب کہ اپنی زندگی کی پہلی نثر ’’یاد ایّامِ صحبت فانی‘‘ کے عنوان سے لکھی۔ وہ اپنی شاعری میں کبھی قنوطیت کے شکار نہیں ہوئے، نہ ہی کبھی کسی سے متاثر ہوئے۔ کہا جاسکتا ہے کہ وہ دہلی کے آخری نمائندہ شاعر تھے، جن کی شاعری میں کلاسیکی رچائو اور ٹکسالی انداز جدیدحوالوں اور فکری گہرائیوں کے ساتھ موجود ہے۔ 

انہوں نے غزل میں جہاں فلسفۂ حیات اور انسانی برادری سے تعلق رکھنے والے صد ہا مسائل کو موضوع بنایا، وہیں فکرو فن کے اعتبار سے بھی اُن کے کلام میں انفرادیت نظر آتی ہے اور یہی اُن کا اصل کمال ہے۔ پھر بعض غزلوں میں نئی اصطلاحات بھی وضع کیں، جن سے اردو زبان کو فروغ ملا اور معانی میں گہرائی پیدا ہوئی۔ علاوہ ازیں، عمومی جذباتی کیفیات کو بھی خصوصی انداز اور رنگ دیئے، جو نہ صرف اُن کے قلب و نظر بلکہ زندگی کی تلخیوں کے مختلف پہلوئوں کا بھی احاطہ کرتے ہیں۔ اُن کی غزل میں جینے کا حوصلہ اور جستجو ہے، جس میں وہ زندگی کو خوش گوار بنانے کے اصول سے آگاہی کے علاوہ اُن پر عمل پیرا ہونے کی تلقین بھی کرتے ہیں۔ مثلاً ؎ وقت کے ساتھ رواں ہیں ہم بھی.....اپنا ہر عہد میں حال اچھا ہے.....چھوٹی پڑتی ہے اَنا کی چادر.....پائوں ڈھکتا ہوں تو سر کُھلتا ہے۔

تابش دہلوی زندگی کو صرف محبت و عشق میں کام یابی اور ناکامی سے تعبیر نہیں کرتے، بلکہ اُس کے ہمہ گیر پہلوئوں پربھی نظر رکھتے ہیں۔ اُن کی شاعری زندگی کے مختلف رجحانات کی آئینہ دار ہے۔ جس میں تلخئ دوراں، زمان ومکان، کام یابی و ناکامی، بے چینی، کشا کشِ روزگار،اپنا آپ اور دوسروں کی خُو بُو، سبھی کچھ ہے۔ یہاں اُمید کی کرنیں ہیں، کیوں کہ وہ یاس و ناامید ی کے شکار نہیں ہیں ؎ اب نمو پائیں گےدلوں کے زخم .....ہم نے اِک پھول شاخ پر دیکھا۔ تابش کی غزل اپنے عہد کی ترجمان نظر آتی ہے، کیوں کہ وہ غزل کی روایت پر عمل پیرا رہنے کے ساتھ اردو نظم کی روایت کے بھی قائل تھے۔ 

ایک تقریب میں اشعار سُناتے ہوئے، حکیم محمّد سعید بھی نمایاں ہیں
ایک تقریب میں اشعار سُناتے ہوئے، حکیم محمّد سعید بھی نمایاں ہیں 

یہی وجہ ہے کہ اُن کی نظمیں اپنے پختہ اندازِ بیان کی وجہ سے بھرپور تاثر پیش کرتی ہیں، تو اُن کا شعری آہنگ، زبان و بیان اور موضوعات انہیں رومانیت سے ہم کنار کردیتے ہیں۔ نظموں میں داخلی کیفیت کی پیچیدگی اور سنجیدگی انسان کے باطن کو کئی نئے سوالوں سے آشنا کرتی ہے۔ نظموں میں جا بجا آزاد اور پابند دونوں طرح کی ہئیتوں کے تجربات نظر آتے ہیں، تاہم آزادنظم میں شعریت کی پابندی کو انہوں نے خود کے لیے لازم جانا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی آزاد نظمیں بھی پابند نظموں کی طرح خیال کی یک ساں پختگی اور تاثیر کی حامل ہیں، مثلاً ان میں اس طرز کی شعری کیفیات کا اظہار ملتا ہے ؎ یہ تعلق جہاں سے کافی ہے.....آپ سے رسم و راہ رکھتے ہیں۔ ایک اور جگہ لکھتے ہیں ؎ یہ نازِ عجز میرا، برقرار رہنے دے.....تیرا غرور سلامت، تجھے دُعا دوں گا۔

اُن کی شاعری میں قدیم اور جدید روّیوں کے اظہارِ خیال سے لے کر ہیئت تک بدرجۂ اتم موجود ہے اور کہیں کہیں تو روایت اور جدیدیت کا امتزاج شاعری کا مقام و مرتبہ بلند تر کردیتا ہے۔حالاں کہ انہوں نے اصنافِ نظم و نثر کا کوئی میدان نہیں چھوڑا، حتیٰ کہ ہائیکو کا تجربہ بھی کیا، اُن کی ہائیکوز مقررہ بحر کے علاوہ بحر کے باہر بھی ہیں کہ عہدِ جدید میں کچھ جاپانی شعراءنے ہائیکو کے مقررہ بحر سے انحراف کا تجربہ بھی کیا ہے، چناں چہ یہ تجربہ بھی ہمیں تابش کے ہاں ہی ملتا ہے، جیسے ؎ اُس کے نام کی تحریر.....سادہ سادہ کاغذ کے خوف بناتی جاتی ہے.....حرف حرف کو تصویر!!

تابش دہلوی کے حمدیہ کلام کو اُن کے مذہبی احساسات و جذبات کا بہترین عکّاس قرار دیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات کو جس نفیس پیرائے میں بیان کیا ہے، وہ اُن ہی کا خاصّہ ہےکہ اُس میں اثر و تاثیر کی کیفیت منفرد اورجداگانہ ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر لفظ بے ساختہ دل کی گہرائیوں میں اُترتا چلاجاتا ہے ؎ ہر دل میں تیرا مقام لیکن.....آفاق کی وسعتیں تجھے کم۔اسی طرح انہوں نے نعت گوئی کا جو طرزاختیار کیا، وہ بھی سب سے جدا ہے۔ عام طور پر شعرا نے نظم کا طرز نعت گوئی میں برتا ہے، جب کہ تابش کی بیش تر نعتیں، غزل کے طرز میں وارد ہوئی ہیں، جو انہیں دیگر شعرا سے ممتاز کرتی ہیں۔ 

کلاسیکی غزل کے پیرائے میں کہی گئی نعت کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں ؎ میں آپ اپنی تمنّا ہوگیا ہوں.....گدائے مصطفیٰ کیا ہوگیا ہوں۔ رسولِ پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اُن کی عقیدت و محبت کچھ اس درجے کی ہے کہ قاری اُن کا نعتیہ کلام پڑھتے ہوئے اس عقیدت اور محبت کا حصّہ بن جاتا ہے۔ انہوں نے منقبت نگاری میں بھی مختلف انداز اپنایا ہے؎ منقبت کہہ کے حسینؓ ابنِ علیؓ کی تابش.....اک چراغ اور سرِطاقِ حرم رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ خلفائے راشدین حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عثمان غنی ؓ،حضرت عمر ؓ اور حضرت علی ؓ کے حوالے سے بھی چار منقبتیں تحریر کی ہیں۔ اس طرح کے تجربات یقیناً ایک بڑا شاعر ہی کرسکتا ہے۔

اہلِ کربلا کی شان میں انہوں نے بڑے سلیقے سے سلام پیش کیے ہیں اور کوشش کی ہے کہ اپنی جان پر جو قرض رکھتے ہیں، اس کی ادائی احسن طریقے سے ہوجائے۔ اسی طرح خلفائے راشدینؓ کو بھی مختصر سلام پیش کیا ؎ تیری سچّائی کا پَرتو سینۂ ابوبکرؓ میں.....فکر کا مظہر تِری فاروقؓکی دانش وَری.....تیرے جود و لُطف کاآئینہ عثمان غنیؓ.....تیرے صولت کا مرقّع جوشِ ضربِ حیدریؓ۔اگرچہ ان کا تحریر کردہ مرثیہ، مرثیہ نگاری کی روایت سے مختلف ہے اور انہوں نے کچھ خصوصیات خاص طور پر ہیئتی خصوصیت کو ملحوظ رکھا ہے۔ تاہم، اس کے باوجود ان کا اپنا ذاتی انداز ہے، جو انہیں دیگر مرثیہ نگاروں سے مختلف کرتا ہے۔

انہوں نے مرثیے کی ابتدا سے پہلے دو اشعار تحریر کیے ؎ مدینے کوپیشِ نظر دیکھتے ہیں.....یہ معراج شام و سحر دیکھتے ہیں.....اسی ذات ِ پُرنورکا عکس روشن.....بہر آئینہ جلوہ گر دیکھتے ہیں۔اس کے بعد انہوں نے ’’آگ‘‘ کے عنوان سے ایک مرثیہ تحریر کیا ہےکہ آگ کی علامت خالی از قیاس نہیں۔ آگ زندگی کی علامت بھی ہے اور عشق کو دھیمی آنچ پر پکانے کا ذریعہ بھی ہے۔اوروہ اس عشق کی آگ میں سرشار نظر آتے ہیں۔دراصل مرثیے میں آگ بنیادی عنصر ہے، جس کی کارفرمائی اور کیفیات کو تابش دہلوی نے پیش کیا ہے۔درحقیقت یہ عشق ہی کی آگ تھی، جس نے حضرت امام حسین ؓ سے کربلا کا معرکہ سر کروایا ۔

؎ یہ اُنس، یہ خلوص، یہ شفقت، یہ اختلاط.....یہ خُلق، یہ وفا، یہ تعلق، یہ ارتباط.....یہ خُوش دلی یہ خط، یہ تبسّم، یہ انبساط.....یہ سر خوشی، یہ کیف، یہ تفریح، یہ نشاط.....ہستی کے کھیل سارے کے سارے اُسی کے ہیں.....جینے کے جس قدر ہیں سہارے اُسی کے ہیں۔ بلاشبہ، شاعری کے حوالے سے تابش دہلوی نے انفرادیت کا وہ درجہ حاصل کیا، جس کی بِنا پر ان کی شاعری جہاں اچھوتی اور منفرد صفات کی حامل نظر آتی ہے، تو وہیں وہ پختہ کار نثرنگار بھی تھے۔نثر میں تابش دہلوی کا صرف ایک مجموعہ ’’دیدباز دید‘‘ ہے، جس میں انہوں نے ایک ایسا بیرو میٹر فراہم کیا، جس کی مدد سے ہماری آئندہ نسلیں اس پورے عہد میں جھانک سکیں گی۔ 

جو اگرچہ فی الحال ’’حال‘‘ ہے، لیکن امتدادِ زمانہ سے آج یا کل اُسے ماضی بن جانا ہے۔جہاں انہوں نے خاکے لکھے، وہاں انہوں نے تنقید نگاری بھی کی ہے۔ ساتھ ساتھ ادبی نوعیت کی یادداشتیں بھی تحریر کیں۔ انہوں نے اپنے ہم عصروں پر تنقید و تبصرہ بھی کیا اور ساتھ ہی اپنے دَور کی ادبی تاریخ بھی مرتّب کی، جو ادبی تاریخ نگاروں کے لیے ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ جب کہ اُن کے تخلیق کردہ خاکے، نثری اور تنقیدی مضامین کا یہ خُوب صُورت مرکّب ہیں، تو اردو نثر پر اُن کی گرفت کا واضح ثبوت بھی۔

23 ستمبر 2004ء کو ملک کے نام ور شاعر تابش دہلوی 93 سال کی عُمر میں کراچی میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے اور کراچی کے سخی حسن قبرستان میں اُن کی تدفین ہوئی۔ اُن کے اس دار فانی سے جانے کے بعد ایک عہد اپنے اختتام کو پہنچا۔ ایک انجمن سُونی ہوگئی اور ایک مثالی شاعر، ایک محبت کرنے والے انسان سے دنیا محروم ہوگئی۔ سچ تویہ ہے کہ آج ان صفات کی حامل شخصیات خال خال ہی نظرآتی ہیں۔ (مضمون نگار ’’تابش دہلوی، احوال و آثار‘‘ کے عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھ کر 2018ء میں جامعہ کراچی سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کرچکی ہیں۔ آج کل راول پنڈی ویمن یونی ورسٹی، شعبۂ اردو کی سربراہ ہیں۔)

تازہ ترین