• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صحابی رسولﷺ، حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ

بصرہ شہر کی بنیاد رکھنے والے جرنیل صحابی ؓ، جنہوں نے تمام غزوات میں شرکت کی
بصرہ شہر کی بنیاد رکھنے والے جرنیل صحابی ؓ، جنہوں نے تمام غزوات میں شرکت کی

رات کا پچھلا پہر ہے، خلیفۂ دوم، امیرالمومنین سیدنا عمربن خطاب حسبِ معمول رعایا کی خبر گیری کے بعد گھر تشریف لے جاچکے ہیں اور اپنے بستر پر دراز چراغ کی مدھم روشنی میں مختلف شہروں اور محاذ جنگ سے آنے والے خطوط کا مطالعہ فرما رہے ہیں۔ یوں تو تمام مفتوحہ علاقوں کی صُورتِ حال اطمینان بخش ہے، لیکن ایک خط کے مندرجات نےان کا چہرہ متفکر کردیا ہے۔ بستر سے اٹھ بیٹھتے ہیں، قریب ہی موجود اہلیہ پریشانی بھانپتے ہوئے دریافت کرتی ہیں۔ ’’امیر المومنینؓ! خیریت تو ہے ؟ کیا لکھا ہے اِس خط میں؟‘‘

جواب دیتے ہیں۔  ’’اس خط سمیت مجھے تواتر کے ساتھ یہ اطلاعات موصول ہورہی ہیں کہ ملک فارس کی شکست خوردہ فوجیں دریائے دجلہ کے کنارے حجازِ مقدّس کی آخری حدود اور عراق و ایران کے سرحدی مقام، ابلہ بیسان کی بندرگاہ سے شہر میں بڑے پیمانے پر اسلحے کے انبار جمع ہورہے ہیں، جیسے ایک بڑی جنگ کی تیاری میں مصروف ہوں۔ میری پریشانی کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس وقت تقریباً تمام مجاہدین اور نام ور سپہ سالار مدینے سے ہزاروں میل دُور مختلف محاذوں پر ہیں۔ دارلخلافہ میں معدودے چند عمر رسیدہ افراد کے اور کوئی نہیں۔‘‘ اہلیہ سے یہ بات کرکے امیر المومنین ؆قیام اللیل میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ 

نوافل سے فارغ ہوئے، تو آپ ؓکا چہرہ جگمگا رہا تھا، لبوں پر مسکراہٹ تھی۔ اہلیہ آپؓ کے متبسّم رخِ انور کو دیکھ کر حیرت سے عرض کرتی ہیں۔ ’’امیرالمومنین! ابھی کچھ دیر پہلے آپ بہت متفکر تھے، پیشانی پسینے سے تر تھی ، لیکن نمازِ تہجد ادا کرنے کے بعد آپ ؓ کے چہرے پر خوشی اور اطمینان کی لہر ہے ۔‘‘ امیر المومنین فرماتے ہیں۔ ’’مَیں نے اللہ سے مدد مانگی تھی ، اللہ نے مجھے ہدایت فرمائی، میری پریشانی رفع ہوئی، مجھے ایک بہترین آزمودہ اور تجربہ کار سپہ سالار مل گیا ، میرا یقین ہے کہ وہ اکیلا ہزاروں پر بھاری ہوگا۔‘‘ 

اہلیہ نے تجسّس سے عرض کیا۔ ’’امیر المومنین! کیا آپ ہمیں اس خوشی میں شامل نہیں فرمائیں گے ؟‘‘سیدنا عمر فاروقؓ نے پُرجوش لہجے میں فرمایا۔ ’’اہلیہ محترمہ! میرے وہ سپہ سالار ’’سابقون الاوّلون‘‘ میں سے ہیں ، انہیں دوبار ہجرت کا شرف حاصل ہوا۔ ایک بار حبشہ اور دوسری بار مدینہ منورہ میں، غزوئہ بدر ، اُحد، خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ ﷺ کے ہم رکاب رہے ، میدانِ کارزار میں اُن کی تلوار کی کاٹ، شمشیرِ برہنہ اور نوکیلے نیزوں سے دشمن کے سینوں کو چھلنی کرتے وار آج بھی میری نگاہوں میں دادِ شجاعت وصول کررہے ہیں۔ 

ابھی دوسال پہلے جنگِ حیرہ میں وہ خالد بن ولید ؓ کے شانہ بشانہ رہے، اور غازی بن کر لوٹے۔‘‘(موجودہ کوفہ سے تین کلومیٹر جنوب میں دریائے فرات کے مغربی کنارے پر حیرہ شہر، ایرانی ساسانیوں کے زیرِ تسلّط تھا۔633عیسوی میں سیّدنا عمر فاروقؓ کے حکم پر حضرت خالد بن ولیدؓنے اسے فتح کیا۔ 

عتبہ بن غزوانؓ اس جنگ میں شامل تھے)۔ مسلمانوں کے خلیفہ ماضی کے اوراق اُلٹ رہے تھے، لیکن اہلیہ کا تجسّس اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا۔ اٹھ کر بیٹھتے ہوئے بولیں۔ ’’امیر المومنین! ان صحابی کا نام تو بتادیں۔‘‘، سیّدنا عمر فاروق ؄ نے اہلیہ کی جانب دیکھا اور فرمایا۔ ’’میرے نئے سپہ سالار کا نام عتبہ بن غزوان ہے۔‘‘(اسد الغابہ 364/3)۔

مختصر تعارف: نام عتبہ بن غزوان بن جابر المازنی، کنیت ابو عبداللہ تھی۔ 584عیسوی میں مکّہ مکرّمہ میں پیدا ہوئے، بنو حازن قبیلے سے تعلق تھا، زمانہ ٔ جاہلیت میں اُن کا خاندان قبیلہ بنو نوفل بن عبد مناف کا حلیف تھا۔ آپ ان چند بزرگوں میں سے تھے، جنھوں نے اعلانِ نبوت کے ابتدائی دو تین دنوں ہی میں اسلام قبول کرلیا تھا۔ 

حبشہ کی دوسری ہجرت میں شریک ہوئے، لیکن جلد ہی واپس آگئے ، آنحضرتﷺ ابھی مکّے ہی میں تھے۔ حضور ﷺ کی مدینہ ہجرت کے بعد کفارِ قریش نے مدینے کے گرد و نواح میں چھاپہ مار کارروائیوں کا آغاز کردیا تھا، ایسی ہی ایک کارروائی کے دوران عکرمہ بن ابو جہل کی قیادت میں کفار کا لشکر مدینہ کی جانب روانہ ہوا۔ 

اس لشکر میں عتبہ بن غزوانؓ اور مقداد بن اسود ؓبھی شامل ہوگئے۔ مدینے کے قریب رابع کے مقام پر کفار کے لشکر کی مڈبھیڑ، حضرت عبیدہ بن حارثؓ کی قیادت میں مجاہدین کی ایک جماعت سے ہوگئی۔ موقع غنیمت جان کر یہ دونوں حضرات نہایت خاموشی سے مجاہدین سے جاملے۔ مدینے میں حضرت عبداللہ بن سلمہ کے مہمان رہے، بعد میں آنحضرتﷺ نے حضرت عتبہ کی مواخات، حضرت ابودجانہ انصاریؓ سے فرمادی۔ (طبقات ابن سعد69/1)

محاذِ جنگ پر جانے کا حکم: صبح بعد نماز ِفجر، امیر المومنین ؓ نے حضرت عتبہ بن غزوان ؓکو طلب فرمایا۔ وہ اُس وقت مدینے کے مضافات میں ایک گاؤں میں مقیم تھے ۔ خلیفۂ وقت کا پیغام پہنچا، تو اُس وقت وہ حسب ِعادت اپنی تلواروں اور نیزوں کی دھاریں تیز کرکے میانوں میں رکھنے میں مصروف تھے۔ یہ نماز فجر کے بعد ان کا معمول تھاکہ ایک مجاہد کےلیے اس کا سامانِ حرب ہی اس کی کُل کائنات ہوتی ہے۔ 

پیغام ملتے ہی گھوڑے کی زین کسَی اور سرپٹ دوڑاتے ہوئے مسجد نبوی ؐ پہنچ کر خدمت میں حاضرہوگئے ۔ امیر المومنین ؓنے شفقت کے ساتھ اپنے پاس بٹھایا۔ حال احوال معلوم کرنے کے بعد فرمایا۔ ’’اے ابو عبداللہ ! اللہ تعالیٰ نے ایک بار پھر تمھیں اپنی راہ میں جہاد کے لیے منتخب فرمایا ہے، لہٰذا تمھیں جلد از جلد ابلہ کے مقام پر اہل فارس سے جنگ کرنی ہوگی۔‘‘ حضرت عتبہؓنے امیرالمومنین ؓکا شکریہ ادا کیا ۔ گھر واپس آئے، اہلیہ کو خوش خبری سنائی، تو انہوں نے بھی ساتھ جانے کی فرمائش کردی۔

امیر المومنین کی نصیحت: تاریخِ مقررہ پرسیّدنا عمر فاروق؄ نے تین سو انیس مجاہدین پر مشتمل فوجی دستہ اُن کے حوالے کیا، جن میں اُن کی اہلیہ کے علاوہ مجاہدین کی بیویوں اور بہنوں پر مشتمل پانچ دیگر خواتین بھی شامل تھیں۔ روانگی کے وقت امیر المومنین نے نصیحت فرمائی۔ ’’اے عبداللہ ! اللہ کی تائید و نصرت کے سائے میں عرب کی انتہائی حدود اور مملکتِ عجم کے قریب ترین بندرگاہ ابلہ کی جانب اپنے ساتھیوں کو لے کر روانہ ہوجاؤ، جہاں تک ممکن ہو، تقویٰ کو اپنا شعار بناؤ اور یہ خیال رہے کہ تم دشمن کی سرزمین پر جارہے ہو، مجھے امید ہے خدا تمھاری مدد فرمائے گا۔ 

مَیں نے علا ابن الحضرمی کو لکھا ہے کہ عرفجہ بن ہر شمہ کو بھیج کر تمھاری مدد کریں ، وہ دشمن کے مقابلے میں ایک نہایت سرگرم مجاہد اور صاحبِ تدبیر شخص ہیں ، تم انھیں اپنا مشیر بنا لینا اور اہلِ عجم کو دین کی دعوت دینا، جو قبول کرلے، اُسے پناہ دینا، جو اس سے انکار کردے، اُس سے جزیہ وصول کرنا، ورنہ تلوار سے فیصلہ کرنا۔ راہ میں جن عرب قبائل سے گزرو، انہیں جہاد کی ترغیب اور دشمن سے لڑنے کی نصیحت کرنا ، ہرحال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا۔‘‘ (اسد الغابہ 3/364)۔

حضرت عتبہ ؓ اس مختصر فوجی دستے کے ساتھ محاذِ جنگ پر روانہ ہوئے، طویل اور دشوار گزار راستوں کو عبور کرتے ہوئے شہر ابلہ کے نزدیک قصبا نامی بستی میں پڑاؤ ڈالا ۔ مجاہدین کے پاس اتنے طویل سفر کے لیے کوئی زاد ِراہ نہ تھا۔ بھوک ستانے لگی ،تو امیرِ لشکر نے چند مجاہدین کو غذا کی تلاش میں روانہ کیا۔ اُن میں سے ایک مجاہد کا بیان ہے۔ ’’ہم غذاکی تلاش میں اِدھر اُدھربھٹک رہے تھے کہ اچانک ہمیں گھنے درختوں کے جُھنڈ میں دو مٹکے نظر آئے۔ ایک میں کھجوریں، جب کہ دوسرے میں زرد چھلکوں کے ساتھ چھوٹے چھوٹے سفید دانے تھے۔ 

ہم دونوں مٹکے لے کر امیرِ لشکر کے پاس آئے، ہمارے ایک ساتھی نے جب زرد چھلکے والے سفید دانے دیکھے تو گھبرا کر کہا۔ ’’اسے ہاتھ نہ لگانا، ضرور ہمارے دشمن نے اس زہر کو ہمیں ہلاک کرنے کے لیے رکھا ہوگا۔‘‘ ہم نے اسے چھوڑا اور کھجوروں کی جانب لپکے، ابھی ہم کھجوریں کھا رہے تھے کہ ہمارے لشکر کا ایک گھوڑا رسّی تڑواکر بھاگتا ہوا سیدھے زرد دانے والے مٹکے پر آیا اور منہ ڈال کر جلدی جلدی کھانا شروع کردیا۔ 

یہ دیکھ کر ہم نے سوچا کہ چوں کہ اس نے زہر کھالیا ہے، لہٰذا اس سے پہلے کہ یہ مرجائے، ہم اسے ذبح کردیتے ہیں ، لیکن ہمارے ایک ساتھی نے کہا۔ ’’یہ کام کی سواری ہے اس ذبح نہ کرو، مَیں رات بھر اس کی نگرانی کروں گا ، اگر یہ مرنے لگے گا، تو اسے ذبح کردوں گا۔‘‘جب صبح ہوئی، تو ہم نےدیکھا کہ وہ تو بھلا چنگا ہے۔ اس موقعے پر مجاہدین کی بیگمات میں سے ایک نے کہا۔ ’’بھائیو! مَیں نے اپنے والد سے سُنا ہے کہ زہر کو اگر آگ پر جلادیا جائے، تو اس کا اثر ختم ہوجاتا ہے۔‘‘ 

یہ کہہ کر اس مجاہدہ نے تھوڑے سے دانے ایک ہنڈیا میں ڈالے اور اسے آگ پر رکھ دیا۔ کچھ دیر بعد اُس نے ہمیں بلایا اور بولی۔ ’’دیکھو! زرد چھلکوں کے اندر سے سفید دانے برآمد ہوئے ہیں۔‘‘ ایک برتن میں کچھ دانے امیرِ لشکر کو پیش کیے گئے۔ انہوں نے اس میں سے کچھ کھائے اور پھر فرمایا۔ ’’اللہ کا نام لے کر کھاؤ۔‘‘ جب ہم نے کھایا، تو بڑا لذیذ پایا۔ بعد میں پتا چلا کہ اس کا نام ’’چاول‘‘ ہے اور یہ ایرانیوں کی مرغوب غذا ہے۔

بہترین جنگی حکمت عملی: امیرِ لشکر نے حکم دیا کہ صبح بعد نمازِ فجر ہمیں  اپنے ہدف کی جانب بڑھنا ہے۔ دجلہ کے کنارے یہ شہر ایرانی فوج کی بہت بڑی رسدگاہ تھی جہاں بہت بڑی تعداد میں سامانِ حرب کے علاوہ سونے، چاندی کے قیمتی جواہرات اور دیگر نایاب اشیاء کا بہت بڑا ذخیرہ محفوظ کیا گیا تھا۔ شہر کے چاروں جانب بڑے بڑے قلعے اور فصیلیں تھیں، جن کے بُرجوں پر دشمن پر نگاہ رکھنے کے لیے بہت تعداد میں مورچے بنائے گئے تھے۔ 

جہاں دن رات سپاہی پہرا دیتے رہتے۔ نبی کریم ﷺکے ساتھ تمام غزوات میں شجاعت و پامردی کے جوہر دکھانے والے حضرت عتبہؓ کے جذبۂ جہاد کے سامنے کنکریٹ کی ان دیواروں کی کوئی حیثیت نہ تھی۔ آپؓ نے بہترین جنگی حکمتِ عملی بروئےکار لاتے ہوئے لشکر کے زیادہ تر سپاہیوں کواگلی صفوں پر رکھا۔ اُن کے پیچھے عورتیں تھیں، جنھوں نے نیزوں کے ساتھ اونچے اونچے جھنڈے آویزاں کر رکھے تھے۔ 

آپؓ نے حکم دیا کہ جب ہم شہر کے قریب پہنچ جائیں، تو ہمارے پیچھے اس قدر غبار اُڑائیں کہ پوری فضا گرد آلود ہوجائے اور کچھ دکھائی نہ دے۔ ‘‘ اور پھر یہی ہوا، گرد و غبار کے طوفان میں تیزی سے آگے بڑھنے والے لشکر کا یہ منظر اتنا خوف ناک تھا کہ حفاظت پر مامور ایرانی فوجی، قلعوں کی بُرجوں اور حفاظتی ناکے چھوڑ کر بدحواسی کی حالت میں خوف زدہ ہوکر دریائے دجلہ میں لنگر انداز کشتیوں میں بیٹھ کر بھاگ نکلے۔ 

حضرت عتبہ ؓ کسی مزاحمت کے بغیر فاتحانہ انداز میں ابلہ شہر میں داخل ہوئے، پھر اس کے تھوڑے ہی عرصے میں دریائے دجلہ کے تمام ساحلی علاقے بشمول جو ابلہ ، ابرقباز اور عیسان جیسےاہم مقامات سمیت گرد و نواح کے شہروں اور بستیوں کو اسلام کے زیرِ نگیں کردیا۔(یعقوبی 163/2)

بصرہ شہر کی تعمیر: ابلہ کے اس محاذ پر مسلمانوں کو بے حساب مال و دولت ہاتھ آیا۔ یہاں تک کہ کس مپرسی سے زندگی گزارنے والے یہ مجاہدین راتوں رات امیر کبیر ہوگئے۔ دولتِ کثیر اور آرام و آسائش کی یہ خبریں جب مدینہ پہنچیں، تو لوگ جُوق درجُوق ابلہ کا رُخ کرنے لگے۔ 

ایک برگزیدہ صحابئ رسول ﷺاور تجربہ کار جرنیل کے لیے یہ لمحہ ٔ فکریہ تھا۔ انہیں اندیشہ تھا کہ یہاں کی چاولوں سمیت مرغوب غذائیں اور پُرآسائش زندگی، مجاہدین کو کہیں اُن کے مقصدِ حیات سے دُور نہ کردے، اُن کا جذبہ جہاد ماند نہ پڑ جائے۔ 

چناں چہ انہوں نے بندرگاہ کے نزدیک شہر کے پُرفضا مقام پر ایک نیا شہر بسانے کی تجویز امیرالمومنینؓ کو بھیجی۔ سیّدنا عمر فاروق ؓنے ان کی تجویز پر نہ صرف شہر کی تعمیر کی منظوری دی، بلکہ اس کا نام ’’بصرہ‘‘ بھی خود تجویز فرمایا۔ حضرت عتبہ بن غزوانؓ نے شہر کی داغ بیل ڈالی اور مجاہدین کے ہر قبیلے کے لیے ایک ایک محلّہ مخصوص کردیا۔ آپؓ نے یہاں سب سے پہلے ایک مسجد بنانےکا حکم دیا۔ امیر المومنینؓ نے حضرت عتبہ بن غزوانؓ کو اس نئے شہر کا والی مقرر فرمایا ۔

بصرہ کی مسجد میں خطبہ:مسجد کی تعمیر مکمل ہونے پر آپؓ نے ابلہ شہر میں  موجود تمام مسلمانوں کو مسجد میں جمع کیا اور ایک تاریخی خطبہ دیا ۔ اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا۔ ’’اے لوگو! یاد رکھو یہ دنیا بہت جلد ختم ہونے والی ہے، تم سب ایک کبھی نہ فنا ہونے والی جگہ پر منتقل ہونے والے ہو، لہٰذا اپنے نیک دینی اعمال کے ساتھ اس میں داخل ہونے کی کوشش کرو۔ 

مَیں رسول ﷺ کی رسالت کی تصدیق کرنے والا ساتواں صحابی تھا، اُس وقت مفلسی کا یہ عالم تھا کہ ہمارے پاس کھانےکے لیے درختوں کے پتّوں کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں تھی، حتیٰ کہ ہمارے ہونٹ پھٹ جاتے تھے۔ ایک روز مجھے ایک چادرملی، مَیں نے اسے اپنے اور سعد بن ابی وقاص ؓکے درمیان تقسیم کرلیا، لیکن آج ہم میں سے ہر شخص امیر و کبیر ہوچکا ہے۔ مَیں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ کہیں مَیں اللہ کے نزدیک جھوٹا نہ ہوجاؤں۔‘‘ 

پھر آپؓ نے حضرت مجاشع بن مسعودؓ کو امارت کے فرائض سونپ کردریائے فرات کی جانب پیش قدمی کا حکم دیا اور حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کو امامت کے فرائض سپرد کرکے حج کے خیال سے مکّہ مکرّمہ تشریف لائے۔ یہاں امیر المومنینؓ سے ملاقات ہوئی، تو آپ ؓ نے اپنا استعفیٰ پیش کیا، سیّدنا عمرؓ نے استعفیٰ منظور نہیں کیا، اور انھیں واپس بصرہ واپس جانے کی ہدایت فرمائی۔ (اسد الغابہ 364/3)۔

وفات: اہلِ سیر نے لکھا ہے کہ ’’حضرت عتبہ بن غزوانؓ بصرہ واپس جانا نہیں  چاہتے تھے، لیکن خلیفۂ وقت، امیر المومنینؓ کا حکم تھا۔ چناں چہ طوعاً و کرھاً بصرہ جانے کے لیے جب اونٹنی پر سوار ہونے لگے، تو دُعا فرمائی۔ ’’ اے اللہ مجھے بصرہ دوبارہ نہ پہنچانا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندے کی دعا قبول فرمائی۔ ابھی زیادہ دُور نہیں گئے تھے کہ اونٹنی زمین پر گری ، آپ بھی اونٹنی کی پشت سے زمین پر گرے اور اُسی وقت خالقِ حقیقی سے جاملے۔ 638عیسوی، 17ہجری کو 57برس کی عُمرمیں وفات پائی۔