• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صحابی رسولﷺ، حضرت عدی رضی اللہ عنہ بن حاتم طائی

ظہور ِاسلام سے قبل مُلکِ یمن میں ’’بنوطے‘‘ نامی ایک قبیلہ آباد تھا۔ اس قبیلے کے سردار ’’حاتم طائی‘‘ غیرمعمولی شجاعت و سخاوت کے حامل ایک بہادر اور فیّاض شخص تھے۔ جن کی سخاوت و دریا دلی آج بھی ضرب المثل ہے۔ حاتم طائی کا انتقال طلوع ِاسلام سے پہلے ہی ہوگیا تھا۔ اُن کے انتقال کے بعد اُن کے بیٹے، عدی بن حاتم طائی قبیلے کے سردار بنے۔ 

اُن کے پاس مال و دولت کی فراوانی تھی، جو باپ سے ورثے میں ملی تھی۔ مال و اسباب میں لاتعداد بھیڑ، بکریوں، اونٹوں اور دیگر جانوروں کا ایک ریوڑ اُن کی ملکیت تھا۔ نیز، اُن کی قوم نے بھی قبیلے کی پیداوار کا چوتھائی حصّہ اُن کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ غرض، عیش و عشرت کی پُرتعیش زندگی کے ساتھ وہ اپنے قبیلے کے بادشاہ تھے۔ 

عدی پہلے بُتوں کے پجاری تھے، لیکن شام میں رومیوں کی حکومت ہونے کی وجہ سے انھوں نے بھی عیسائی مذہب اختیار کرلیا تھا۔ یہ 9ہجری کی بات ہے کہ جب پورے حجاز میں اسلامی حکومت قائم ہوچکی تھی، لیکن سرحدوں کے باہر کچھ قبائل ابھی تک قدیم روایات کے مطابق کفر و شرک میں مبتلا تھے۔ شام کی نصرانی حکومت اُن کی پشت پناہی کر رہی تھی۔ ان ہی قبائل میں مشہور و معروف طے قبیلہ بھی تھا۔ آنحضرت ﷺ نے فاتحِ خیبر، حضرت علی مرتضیٰ ؓ کو امیرِ لشکر بنا کر یمن کے مضافات میں ان قبائل کی جانب روانہ فرمایا۔

سیّدنا علیؓ کا لشکر، قبیلہ طے کی جانب: عدی جہاں دیدہ شخص تھے۔ اپنے اردگرد کے حالات سے باخبر رہتے تھے۔ مسلمانوں کی فتح و نصرت کی خبریں تواتر کے ساتھ اُن تک پہنچ رہی تھیں۔ وہ اسلام کو عیسائیت کا رقیب سمجھتے تھے۔ اُن کی مسلمانوں اور خاص طور پر پیغمبرِ اسلام حضرت محمد مصطفیٰﷺسے (نعوذ باللہ) عداوت روز بروز بڑھتی جا رہی تھی اور ہر گزرتے دن کے ساتھ بغض و عداوت و دشمنی میں تبدیل ہوتی جا رہی تھی۔ 

عدی خود کو دینِ اسلام کا سب سے بڑا دشمن سمجھتے تھے، لیکن عرب قبائل جس تیزی سے مائل بہ اسلام ہو رہے تھے، وہ حیرت انگیز عمل تھا، جس نے عدی کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیا۔ ’’کیا میرے آباؤ اجداد کی میراث، یہ بادشاہت، جاہ و جلال، شان و شوکت سب ختم ہوجائیں گے؟‘‘ یہ وہ سوال تھا، جس نے اُن کی نیند حرام کردی تھی۔ 

اَن جانے خوف کی ایک لہر وجود کو لرزا دیتی ہے۔ حالات دن بدن نیا رخ اختیار کر رہے تھے۔ ایک طرف حُکم رانی کا غرور، بادشاہت کا نشہ اُنھیں سر جُھکانے سے روکتا، تو دوسری طرف روز افزوں اسلام کی ترویج و اشاعت کی صُورت تیزی سے آنے والے انقلاب کو روکنا بھی بس میں نہ تھا۔

پھر آگے کیا ہوا؟ ہم عدی بن حاتم طائی کی زبانی سنتے ہیں۔ عدیؓ کہتے ہیں کہ ’’سیّدنا علی مرتضیٰؓ کی امارت میں مسلمان آندھی طوفان کی طرح مختلف علاقے فتح کرتے آگے بڑھے چلے آرہے تھے۔ اس گمبھیر صورتِ حال نے مجھے تشویش میں مبتلا کر دیا تھا۔ چناں چہ مَیں نے اپنے غلام کو بلایا، جو میرے مویشیوں کی دیکھ بھال پر مامور تھا اور اُس سے کہا کہ دو فربہ اونٹنیوں کو ہر طرح سے تیار کر کے میرے دروازے پر باندھ دو۔ راستوں پر پہرے دار مقرر کر دو اور جیسے ہی کوئی غیر معمولی بات دیکھو فوراً مجھے مطّلع کرو۔ 

ایک صبح کی بات ہے، ابھی سورج پوری طرح طلوع بھی نہ ہوا تھا کہ میرا غلام بھاگتا ہوا آیا اور بولا۔ ’’آقا! میں نے قبیلے کی حدود میں اسلامی پرچم اور اجنبی فوجیوں کی نقل و حرکت دیکھی ہے۔‘‘ اس خبر نے مجھے بدحواس کر دیا ۔ مَیں تیزی سے اندر گیا، پہلے سے بندھے کچھ ضروری سامان کے ساتھ اپنے بیو ی بچّوں کو لےکر باہر آیا اور دونوں اونٹنیوں پر انھیں سوار کروا کر نہایت تیز رفتاری کے ساتھ ملک شام کی جانب روانہ ہو گیا، جہاں میرےہم مذہب، نصرانی آباد تھے۔ 

جان کے خوف سے گھبرا کر یہ سب کام مَیں نے اتنی عجلت میں کیے کہ اپنے خاندان والوں کوبھی نہ جمع کر سکا، یہاں تک کہ مَیں اپنی اکلوتی بہن کو بھی ساتھ نہ لا سکا، جس کا مجھے شدید افسوس تھا۔ کچھ دنوں بعد مجھے اطلاع ملی کہ اسلامی فوج بنو طے میں داخل ہو گئی۔ مال مویشی سمیت بہت سے لوگوں کو قیدی بنا کر مدینہ لےگئی، جب کہ قبیلے کے اکثر مرد مسلمانوں سے جنگ کرنے کے بجائے دوسرے علاقوں میں بھاگ نکلے۔ 

ان قیدیوں میں میری ہم شیرہ بھی شامل تھیں۔ ان سب قیدیوں کو مسجدِ نبویؐ کے قریب ایک احاطے میں رکھا گیا تھا۔ آنحضرتﷺ کو میرے شام کوچ کرنے کی اطلاع مل چکی تھی۔ مسلمان ان تمام قیدیوں کا بہت اچھی طرح خیال رکھتے تھے۔ میری ہم شیرہ بھی دیگر خواتین اور بچّوں کے ساتھ اس احاطے میں قید تھیں۔ ایک دن حضور نبی کریمﷺ اس احاطے میں تشریف لائے، سب قیدیوں کے حال احوال دریافت کیے۔ 

میری بہن نہایت نڈر اور فصیح زبان تھیں۔ وہ کھڑی ہو گئیں اورحضوراکرم ﷺ سے مخاطب ہوئیں ’’یا رسول اللہ ﷺ! میں حاتم طائی کی لختِ جگر ہوں، میرے والد وفات پا چکے ہیں ۔ میرا رکھوالا بھائی مجھے اکیلا چھوڑ کر ملک شام کی جانب چلا گیا ہے۔ آپؐ مجھ پراحسان فرمائیں۔ اللہ آپؐ پر احسان فرمائے گا۔‘‘ آپؐ نے دریافت کیا۔ ’’تیرا رکھوالا کون تھا؟‘‘ اس نے جواب دیا۔ ’’عدی بن حاتم۔‘‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ ’’کیا وہی، جو اللہ اور اس کے رسولﷺ سے دُور بھاگتا ہے؟‘‘ یہ کہہ کر آپؐ چلے گئے۔ دوسرے دن پھر حضوراکرم ﷺ تشریف لائے۔ سفانہ بنتِ حاتم نے اپنی التجا دہرائی۔ 

آپؐ نے اپنا وہی جواب دہرایا۔ میری بہن، سفانہ بنتِ حاتم کہتی ہیں کہ’’ تیسرے دن آپؐ پھر قیدیوں کے پاس تشریف لائے، تو میں مایوس ہو چکی تھی۔ خاموش کھڑی تھی کہ حضور ﷺ کے پیچھے ایک نورانی چہرے والے نوجوان نے مجھے سے کہا کہ مَیں اپنا معاملہ پیش کروں۔ چناں چہ مَیں نے ہمّت کر کے اپنی درخواست دُہرائی۔ حضورؐ میری بات سُن کر رکے اور فرمایا۔ مَیں نے تم سب کو آزادی دے دی ہے، مگر یہاں سے جانے میں جلدی نہ کرنا۔ جب تک تمہاری قوم کا کوئی ذمّے دار شخص یا قافلہ نہ مل جائے، یہیں قیام کرو اور جب جانے لگو، تو مجھے اطلاع دے دینا۔

حضوراکرم ﷺتشریف لے گئے، تو میں نے اُس شخص کے بارے میں دریافت کیا، جس نے مجھے حضور ﷺ سے بات کرنے کے لیے اشارہ کیا تھا، مجھے بتایا گیا کہ یہ امیرِ لشکر حضرت علی بن ابی طالبؓ ہیں اور رسول اللہﷺ کے چچا زاد بھائی ہیں۔(سیرت ابنِ ہشام، جلد2صفحہ 369)۔ میری بہن وہاں کچھ دن رہیں اور قابلِ اعتماد افراد تلاش کرتی رہیں، یہاں تک کہ انھیں ایک ایسا قافلہ مل گیا، جس پر وہ اعتماد کرسکتی تھیں۔ 

قافلے والوں سے بات کر کے وہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور ایک جان پہچان کے قافلے سے متعلق بتایا کہ وہ انھیں ملک شام تک بحفاظت پہنچا دے گا۔ اللہ کے نبی ﷺ نے انھیں پہننے کے لیے کپڑے، سواری کے لیے اونٹنی اور بقدر ِضرورت زادِ راہ دے کر رخصت کیا۔ میری بہن میرے پاس آنےکے لیے کارواں کے ساتھ مُلکِ شام چلی گئیں۔ جب کہ اللہ کے نبیؐ نے باقی قیدی خواتین اور بچّوں کو عزت و احترام کے ساتھ اُن کے علاقے بنوطے میں بھیج دیا۔‘‘

عدی کہتے ہیں کہ’’ واللہ! مَیں اپنے اہل و عیال سمیت نصرانیوں کے ساتھ ملک شام میں مقیم تھا، مگر اپنی بہن کی جانب سے سخت پریشان تھا۔ مجھے خوف تھا کہ نہ جانے مسلمان فوجیوں نے اُن کے ساتھ کیا سلوک کیا ہو گا اور اُن پر کیا بیت رہی ہو گی؟ 

اس پریشانی نے میری راتوں کی نینداُڑا دی تھی۔ ایک روز میں ان ہی خیالوں میں گُم اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھا تھا کہ مجھے دُور سے ایک قافلہ نظر آیا ،جو میرے گھر کی جانب بڑھتا چلا آرہا تھا، قافلہ ذرا اور قریب آیا، تو مَیں نے دیکھا کہ اونٹ پر کوئی پردہ نشین خاتون سوار ہیں اور نہایت برق رفتاری سے ہماری طرف چلی آرہی ہیں۔ میرے دل نے کہا، ہو نہ ہو یہ میری بہن سفانہ ہیں۔

جیسے ہی وہ میرے قریب پہنچیں، اُنھوں نے مجھ پر لعن طعن شروع کردی۔ ’’رشتے ناتے توڑنے والے ظالم بے مروّت! تُو اپنے بیوی، بچّوں کو لے کر فرار ہو گیا، لیکن اپنے باپ کی بیٹی اور اس کی عزت کو بے سہارا چھوڑ دیا۔‘‘ مَیں خود بھی بہت ہی نادم و شرمندہ تھا۔ مَیں نے اپنی بہن کے سامنے ہاتھ جوڑے، اُن سے معافی مانگی اور اُنھیں منانے لگ گیا۔ آخر کو ماں جائی بہن تھیں، مجھے معاف کردیا اورراضی ہو گئیں۔ 

پھر انھوں نے مجھے اپنی پوری داستان سنائی اور مسلمانوں کی تعریف کی۔ مَیں نے اُن سے پوچھا۔ ’’آپ نے اُس شخص کو کیسا پایا، جس کا نام محمدؐ ہے؟‘‘ وہ بولیں۔ ’’خدا کی قسم! مَیں نے اُن جیسا نیک انسان نہیں پایا، تم اُن سے ملنے میں جلدی کرو، اگروہ نبی ہیں، تو اُن کی طرف سبقت کرنے والا فضیلت پائے گا اور اگر وہ بادشاہ ہیں، تو وہ لوگوں کی قدر کرنا جانتے ہیں ،تم کبھی بھی اُن کی محفل میں رسوا نہیں ہوگے۔‘‘ (سیرت ابنِ ہشام، 371/2، )۔

بارگاہِ رسالتؐ میں: حضرت عدی ؓفرماتے ہیں ۔’’مَیں نے بہن کی رائے کو صائب جانا، سفر کی تیاری کی اور بغیر کسی پیشگی اطلاع کے مدینے کی جانب چل پڑا۔ مدینے پہنچ کر مسجدِ نبوی میں داخل ہوا، تو وہاں سرکارِ دو عالمؐ تشریف فرما تھے۔ میں نے اُنہیں سلام کیا۔ آپؐ نے فرمایا۔ ’’تم کون ہو؟‘‘ میں نے عرض کیا۔ ’’مَیں عدی بن حاتم ہوں‘‘۔ یہ سنتے ہی آپؐ کھڑے ہو گئے، میرا ہاتھ پکڑا اور گھر کی جانب چل دیئے۔ اسی اثنا ایک بوڑھی عورت نے، جس کے ساتھ ایک چھوٹا بچّہ بھی تھا، راستے میں آپؐ کو روک لیا اور اپنی پریشانی بیان کی۔ 

آپؐ نے کھڑے کھڑے اس عورت کی پوری بات سنی اور پھر اس کی حاجت پوری فرما دی۔ مَیں کھڑا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ مَیں نے اپنے دل میں کہا۔ خدا کی قسم، یہ بادشاہ نہیں ہیں۔ پھر آپؐ نے میرا ہاتھ تھام لیا اور مجھے لیے اپنے گھر آگئے۔ کمرے میں ایک چمڑے کا گدّا تھا۔ آپؐ نے اُسے میری جانب بڑھا دیا اور فرمایا اس پر بیٹھ جاؤ۔ حضورؐ زمین پر بیٹھ گئے۔ آپؐ نے اللہ کی حمد و ثنا کی پھر فرمایا۔ ’’تمہیں ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کہنے سے کیا چیز روک رہی ہے؟ کیا تم اللہ کے سوا کسی اور کو معبود سمجھتے ہو؟‘‘ مَیں نے عرض کیا ۔’’نہیں۔‘‘ 

آپؐ نے فرمایا ’’یہود پر اللہ کا غضب نازل ہو چکا ہے اور نصاریٰ گم راہ ہیں۔‘‘ مَیں نے عرض کیا۔ ’’یارسول اللہ ؐ! میں تو مسلمان ہونے کا ارادہ کر کے آیا ہوں۔ یہ سن کر آپؐ کا چہرئہ انورخوشی سے دمک اٹھا، پھر آپؐ نے مجھےایک انصاری صحابی کے یہاں بطور مہمان ٹھہرنے کا حکم فرمایا۔ مَیں صبح وشام خدمت ِاقدس میں حاضر ہوتا۔ ایک شام آپؐ کے پاس باہر سے کچھ لوگ آئے۔

آپؐ نے نماز پڑھائی، پھر کھڑے ہو کر تقریر فرمائی۔ آپؐ نے فرمایا۔ ’’صدقہ دو، اگرچہ ایک صاع اور یا آدھا صاع ہو، یا ایک مٹھی یا اس سے بھی کم ہو۔چاہے ایک کھجور یا آدھی کھجور ہی کیوں نہ ہو، کیوں کہ صدقہ تمہیں جہنم کی آگ سے بچا سکتا ہے۔ اگر آدھی کھجور بھی میسّر نہ ہو تو اچھی بھلی بات کہہ کر ہی خود کو جہنّم کی گرمی سے بچائو۔ مجھے اس بات پر خوف نہیں ہے کہ فقرو فاقہ کا شکار ہو جائوگے، کیوں کہ اللہ تمہیں دینے والا ہے۔ وہ تمہارا مددگار ہے۔‘‘ 

پھر فرمایا۔’’ایک ہودج پر سوار عورت تنِ تنہا مدینے سے حیرہ (عرب کی سرحد پر مدینے سے ہزاروں میل دُور ایک شہر کا نام) تک یا اس سے بھی لمبا سفر کرے گی اور اُسے کوئی ڈر یا خوف نہیں ہوگا۔‘‘ (جامع ترمذی2954) حضرت عدیؓ کہتے ہیں کہ اُس وقت میں سوچنے لگا کہ بنی طے کے چور کہاں چلے جائیں گے؟ بنی طے کے چوروں کا خیال انہیں اس لیے آیا کہ وہ خود بھی اس قبیلے سے تعلق رکھتے تھے، یہ قبیلہ عراق اور حجاز کے درمیان آباد تھا۔ ان کے پاس سے جو بھی گزرتا، وہ اس پر حملہ کرکے اس کا سارا سامان لُوٹ لیتے تھے۔ 

اسی لیےحضرت عدیؓ کو تعجّب ہوا کہ میرے قبیلے والوں کی موجودگی میں ایک عورت تن تنہا امن وامان کے ساتھ کیسے سفر کر سکے گی؟ حضرت عدیؓ کہتے ہیں کہ ’’اللہ کے نبیؐ نے فرمایا ’’بہ خدا، وہ وقت بہت جلد آنے والا ہے کہ جب بابل کے سفید محلّات ان مسلمانوں کے لیے کھول دیئے جائیں گے اور کسریٰ بن ہرمز کے خزانے ان کے قدموں تلے ہوں گے۔‘‘ 

حضرت عدیؓ فرماتے ہیں کہ مَیں نے اپنی زندگی میں حضورؐ کی تین میں سے دو پیش گوئیاں پوری ہوتے دیکھ لیں۔مَیں نے دیکھا کہ قادسیہ سے اونٹنی پر سوار ایک عورت بغیر کسی خوف کے بیت اللہ تک کا سفر تنِ تنہا کر رہی ہے، جب کہ مَیں پہلا سوار تھا، جو مسلمان مجاہدین کے ساتھ کسریٰ کے خزانوں اور بابل کے محلّات پر قابض ہوا۔

مَیں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تیسری بات بھی ضرور پوری ہو کر رہے گی کہ جب صدقہ و خیرات دینے والے تو ہوں گے، لیکن اسے لینے والا کوئی نہ رہے گا۔‘‘ (حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے دورِ خلافت میں یہ پیش گوئی بھی پوری ہوگئی، مسلمانوں میں دولت کی ریل پیل اتنی زیادہ ہو گئی تھی کہ سب زکوٰۃ دینےوالے تو تھے، لینے والا کوئی نہ تھا)۔

امارت کی واپسی: حضرت عدی بن حاتم، قبیلہ بنوطے کے حکم ران تھے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد اللہ کے نبی ؐ نے انہیں قبیلہ طے کی امارت پر قائم رکھا اور وہ پہلے سے زیادہ عزت و احترام کے ساتھ واپس جا کر اپنے قبیلے پر حکم رانی کرتے رہے۔ (سیّر الصحابہ 387/4)۔

حضرت علیؓ سے عقیدت و محبّت: حضرت عدیؓ بن حاتم، شام کی فتوحات میں حضرت خالد بن ولیدؓ کے ساتھ رہے۔ 13ہجری میں امیر المومنین سیّدنا عمر فاروقؓ کے حکم پر اپنے قبیلے کے لوگوں کے ساتھ معرکہ ٔ حیرہ میں شریک ہوئے۔ جنگِ قادسیہ میں دادِ شجاعت دکھائی۔ جنگِ مدائن کے فاتحین میں سے تھے۔ 

ان کے سامنے کسریٰ کا خزانہ مسلمانوں کے قبضے میں آیا۔ یوں آنحضرتؐ کی پیش گوئی اپنی آنکھوں سے پوری ہوتی دیکھی۔ انھیں سیّدنا علی مرتضیٰؓ سے بڑی عقیدت تھی۔وہ آپؓ ان کےجاں نثاروں میں سے تھے۔ جنگِ جمل، جنگِ صفین اور جنگِ نہروان میں حصّہ لیا۔

نام و نسب، وفات: حضرت عدی ؓبن حاتم 572 عیسوی میں پیدا ہوئے، جب کہ 687عیسوی میں وفات پائی۔ عمر مبارک 115سال تھی۔ آپؓ کا نام عدی، کنیت ابو ظریف یا ابو وہب تھی۔ سلسلہ ٔ نسب کے مطابق، عدی بن حاتم بن عبد اللہ بن سعد بن حشر بن امرالقیس بن عدی بن ابی اخزام بن ربیعہ بن جرول بن ثعل بن عمرو بن غوث بن طے طائی تھے۔(اسد الغابہ 535/2) ۔