• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صحابیِ رسول ؐ، حضرت طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ

آپؓ اپنے قبیلے کے سردار ، یمن کے مشہور شاعر ، رئیس اور معروف تاجر تھے
آپؓ اپنے قبیلے کے سردار ، یمن کے مشہور شاعر ، رئیس اور معروف تاجر تھے

مکّہ مکرّمہ سے تقریباً ساڑھے تین سو میل جنوب میں شہرِ طائف سے یمن جانے والی شاہ راہ پر ’’دوسی‘‘ نامی ایک قبیلہ آباد تھا۔ یہ جگہ آج کل سعودی عرب کے صوبے عسیر کا حصّہ ہے اور یہاں مشہور شہر ابہا آباد ہے۔ دوسی قبیلہ یمن کےقبائل میں ایک منفرد مقام رکھتا تھا۔ 

قبیلے کے سردار اور رئیس، طفیل بن عمروؓ نامی ایک معزز، زیرک اور دانش مند شخص تھے، جو اعلیٰ پائے کے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی بارُعب شخصیت اور حق و انصاف پر مبنی حکیمانہ فیصلوں کی بِنا پر پورے عرب میں عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔

آپ کا نام طفیل، لقب ذوالنور (نور والا) اور سلسلہ نسب اس طرح ہے۔ طفیل بن عمروؓ بن طریف بن العاص بن ثعلبہ بن سلیم بن فہم بن غنم بن دوس بن عدنان بن عبداللہ بن زہران بن کعب بن حارث بن نصر بن الازو۔ آپ کا تعلق دوس قبیلے سے تھا، اس لیے دوسی کہلاتے تھے۔ قبیلے کے رئیس اور مشہور و معروف تاجر تھے اور اسی تعلق سے مکّۂ مکرّمہ آتے جاتے رہتے تھے۔ (طبقات ابنِ سعد 4/497)۔

یہ نبوت کے گیارہویں سال کی بات ہے کہ جب مکّہ مکرّمہ میں تبلیغ دین کا کام زور و شور سے جاری تھا۔ تقریباً ڈیڑھ سو افراد مشرف بہ اسلام ہوچکے تھے کہ ایسے میں طفیل بن عمروؓ مکّہ مکرّمہ تشریف لائے، چوں کہ اُن کا شمار رؤسائے یمن میں ہوتا تھا اور وہ یمن کی مشہور و معروف شخصیت تھے، چناں چہ اہلِ مکّہ نے اُن کا فقید المثال استقبال کیا۔ 

قریش کے سرداروں نے اُن کے اعزاز میں بڑے جشن کا اہتمام کیا، جس میں شعر و شاعری کے علاوہ عرب ثقافت پر مبنی تفریحِ طبع کے پروگرام بھی شامل تھے۔ اس طرح کے میلوں ٹھیلوں میں بُتوں کی یاترا کے ساتھ ساتھ کاروباری اور تجارتی لین دین کے سودے بھی طے پاجاتے تھے۔ تقریب کے اختتام پر قریش کے اہم سرداروں نے طفیل بن عمرو دوسیؓ سے ملاقات کی اور عرض کیا۔ ’’اے طفیل! آج کل اہلِ مکّہ نہایت پریشانی اور اذیت میں مبتلا ہیں۔ 

ہم پر عجیب افتاد آن پڑی ہے، جسے بیان کرتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے۔ دراصل ہماری قوم کا ایک نوجوان ہم سے باغی ہو گیا ہے۔ وہ ہمارے خداؤں کی تکذیب کرتا ہے، پوجا پاٹ کو کفر کہتا ہے اور نئے دین کی بات کرتا ہے۔ اس نے ہمارا اتحاد پارہ پارہ، ہماری جمعیت کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا ہے۔ ہم میں آپس میں ایسا تفرقہ ڈال دیا ہے کہ بھائی، بھائی کا اور بیٹا، باپ کا دشمن ہو گیا ہے۔ اس شخص کے کلام میں ایسا جادو ہے کہ جو اس کی باتیں سنتا ہے، اُسی کا ہوجاتا ہے۔ سب اُس کی باتوں کے اسیر ہو چکے ہیں۔‘‘

طفیل بن عمروؓ،حیرانی سے اہلِ قریش کی باتیں سُن رہے تھے۔ اُن کے سامنے مکّہ کے نام وَر جنگجو سردار بے بسی کی تصویر بنے ہم کلام تھے۔ طفیل بن عمروؓنے سوال کیا۔ ’’مکّہ کے معزز سردارو! آخر ایسا کون زورآور شخص ہے، جس نے آپ جیسے جَری، بہادر رؤسا کو یوں بے دست و پا کردیا ہے۔‘‘ سرداروں نے جواب دیا۔ ’’اے طفیل! وہ عبدالمطّلب کا پوتا، بنوہاشم کے سردار ابوطالب کا بھتیجا، محمد بن عبداللہ ہے۔‘‘

طفیل نے حیران کُن لہجے میں کہا۔ ’’ارے یہ وہی محمدؐ تو نہیں، جنھیں آپ لوگ امین اور صادق کے نام سے یاد کرتے ہیں؟‘‘سب نے یک زبان کہا۔ ’’ہاں ہاں! تم نے صحیح پہچانا، یہ وہی ہیں۔‘‘ پھر ایک سردار نے کہا۔’’ہم تمہیں یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ تم جتنا عرصہ مکّے میں ہو، ہمارے معزز مہمان بن کر رہو، اس دوران کبھی اُن سے ملنے یا اُن کا کلام سننے کی کوشش مت کرنا، کیوں کہ اُن کے کلام میں وہ جادو ہے، جس سے وہ لوگوں کو دیوانہ کردیتے ہیں۔ ہمیں ڈر ہے کہ کہیں وہ تمہیں اور تمہارے قبیلے کو بھی پراگندہ نہ کردیں۔‘‘(نعوذ باللہ) (حیاۃ الصحابہؓ۔ 1/222)

حضرت طفیل بن عمروؓ کی آنحضرتؐ سے ملاقات اور قبول ِاسلام

حضرت طفیل بن عمروؓ کہتے ہیں کہ’’ اُن لوگوں کی باتوں سے خوف زدہ ہوکر مَیں نے عزمِ مصمّم کرلیا کہ اُن سے ملوں گا، نہ ہی اُن کا کلام سُنوں گا۔ لیکن چند دنوں میں، مَیں نے اس بات کا مشاہدہ کرلیا تھا کہ صبح سے رات تک پانچ مرتبہ محمدؐ بن عبداللہ کے ساتھ چند رفقاء آتے، نماز کے دوران بہ آوازِ بلند اللہ کا کلام پڑھتے اور واپس چلے جاتے۔ شروع میں تو مجھے اتنا خوف تھا کہ مَیں نے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی تھی تاکہ طواف کے دوران اُن کے کلام کی آواز میرے کانوں میں نہ پڑ جائے، لیکن یہ سلسلہ چند دن تک ہی برقرار رہا۔ 

مَیں نہ چاہنے کے باوجود تجسّس کے ہاتھوں مجبور ہوگیا کہ کم ازکم ان کا کلام سنوں تو سہی کہ وہ کیا کہتے ہیں اور کس خدا کی عبادت کرتے ہیں؟ مَیں نہ تو اَن پڑھ جاہل ہوں اور نہ ہی ناسمجھ بچّہ کہ اُن کے بہکاوے میں آجاؤں، میرے دل نے میرے فیصلے کی تائید کی اور پھر ایک صبح سویرے کہ ابھی حرم شریف میں اُجالا بھی نہ ہونے پایا تھا کہ مَیں خانہ کعبہ میں داخل ہوا۔ مَیں نے دیکھا کہ حضرت محمدؐ اپنے چند رفقاء کے ساتھ عبادت میں مصروف ہیں۔

اُن کے رفقاء میں سے کم از کم تین سے تو مَیں واقف تھا۔ اُن میں سے ایک مکّہ کے مشہور صاحبِ بصیرت تاجر، ابو بکر ؓ، دوسرے، عرب کے مشہور زور آور جنگجو پہلوان عمرؓ اور ابو طالب کے ہونہار فرزند، علیؓ تھے۔ مَیں اُن کے قریب ہی خانہ کعبہ کی دیوار کے ساتھ چُھپ کر بیٹھ گیا۔ عبادت کے دوران محمدؐ جو کلام تلاوت فرما رہے تھے، وہ سن کر مجھ پر وجد کی کیفیت طاری ہوگئی۔ مَیں خود بھی شاعر ہوں، لیکن میرے دل نے گواہی دی کہ یہ کسی شاعر کا کلام نہیں، نہ ہی یہ کوئی جادوئی کلمات ہیں۔ 

مجھے جستجو ہوئی کہ اس نئے دین کی حقیقت معلوم کروں، چناں چہ جب وہ عبادت کے بعد واپس جانے لگے، تو مَیں بھی اُن کے پیچھے ہو لیا۔ مَیں نے دیکھا کہ یہ لوگ کوہِ صفا کے دامن میں واقع ایک گھر میں داخل ہو رہے ہیں، مَیں بھی اُس گھر میں داخل ہوگیا۔ وہاں حضرت محمد ؐ کو دیکھا، تو انھیں سلام کیا۔ آپؐ نے سلام کا جواب دیا اور میرا ہاتھ پکڑ کر نہایت محبّت و شفقت سے اپنے پاس بٹھالیا۔ میرا اور میرے قبیلے کا حال احوال معلوم کیا۔ 

میری درخواست پر آپؐ نے مجھے اسلامی تعلیمات سے آگاہ فرمایا اور تلاوتِ کلام پاک سے مستفید فرمایا۔ میرا اللہ گواہ ہے کہ مَیں نے اپنی بھرپور زندگی میں کبھی بھی نہ تو اتنا عمدہ کلام سُنا تھا اور نہ ہی اتنی سچّی اور حق و انصاف پر مبنی باتیں۔ میرے جسم کا ذرّہ ذرّہ اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ یقیناً یہ اللہ کے سچّے نبی ہیں اور یہ کلام اللہ کا کلام ہے۔ مَیں نے اُسی وقت آنحضرتؐ کے دستِ مبارک پر بیعت کی اور اسلام قبول کرلیا۔‘‘ (حیاۃ الصحابہؓ۔ 1/222)۔

قبیلے کے لوگوں کی سرکشی

قبولِ اسلام کے بعد حضرت طفیل بن عمروؓ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا۔ ’’اے اللہ کے نبیؐ! میری قوم بڑی فرماں بردار ہے، مَیں اُن کے پاس واپس جا کر دین کا کام کرنا چاہتا ہوں، میرے لیے دُعا فرما دیں کہ میں اس مقصد میں کام یاب ہو جاؤں اور اللہ تعالیٰ مجھے کوئی نشانی عطا فرما دے۔‘‘ آپؐ نے دُعا فرمائی ’’اے اللہ! اِنھیں کوئی نشانی عطا فرما۔‘‘ 

طفیل بن عمروؓ کہتے ہیں کہ مَیں قبولِ اسلام اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کے بعد یمن روانہ ہو گیا، جب اپنے قبیلے میں اُس گھاٹی پر پہنچا، جہاں سے آبادی کے لوگ نظر آ رہے تھے، تو مَیں نے دیکھا کہ میری دونوں آنکھوں کے درمیان چراغ کی مانند ایک نور چمک رہا ہے، مَیں نے اللہ سے دعا مانگی کہ اے اللہ! میرے اس نور کو چہرے کے بجائے کہیں اور منتقل کر دے، کیوں کہ مجھے خطرہ ہے کہ میری قوم کے لوگ یہ سمجھیں گے کہ اُن کے دین کو چھوڑنے کی وجہ سے میرا چہرہ داغ دار ہو گیا ہے۔ 

چناں چہ وہ نور وہاں سے منتقل ہوکر میری لاٹھی کے سرے پر چمکتا ہوا لوگوں کو ایک معلّق قندیل کی طرح نظر آنے لگا۔ قبیلے کے لوگ میری لاٹھی پر اس نور کو اس طرح دیکھ رہے تھے، جیسے قندیل آویزاں ہو۔ حضرت طفیلؓ کہتے ہیں کہ ’’جب مَیں اپنے مکان میں داخل ہوا، تو میرے والد میرے پاس آئے، مَیں نے اُن سے کہا۔ ’’والد محترم! اب ہم اور آپ ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہیں، کیوں کہ مَیں نے اسلام قبول کرلیا ہے اور آپ بُتوں کی پُوجا کرتے ہیں۔‘‘ والد نے محبّت بھرے لہجے میں کہا۔ ’’جانِ من! جو تیرا دین ہے، اب میرا بھی وہی دین ہوگا۔‘‘ 

میں نے کہا۔ ’’اگر یہ بات ہے، تو پھر غسل کیجیے، کپڑے پاک کیجیے۔‘‘ وہ آئے، تو مَیں نے اُنھیں مشرف بہ اسلام کیا۔ پھر میری اہلیہ میرے پاس آئیں، تو اُن سے بھی یہی کہا۔ ’’اب تمہارا میرا کوئی رشتہ نہیں، کیوں کہ میں اسلام قبول کرچکا ہوں، جب کہ تم مشرک ہو۔‘‘ چناں چہ اہلیہ نے بھی فوراً اسلام قبول کرلیا۔ یوں میرے سب گھر والے مشرف بہ اسلام ہوگئے۔ 

پھر مَیں نے اپنے قبیلے والوں کو دین کی دعوت دی، مجھے یقین تھا کہ مجھ پر جان چھڑکنے والے میرے قبیلے کے لوگ میری دعوت پر فوراً لبّیک کہیں گے، لیکن مجھے بڑی مایوسی ہوئی کہ بار بار دعوت دینے کے باوجود وہ ٹس سے مس نہ ہوئے اور برابر انکار کرتے رہے۔ حضرت طفیل بن عمروؓ کہتے ہیں کہ جب مَیں بہت مایوس ہو گیا، تو آنحضرتؐ کی خدمتِ اقدس میں حاضری کے لیے مکّہ روانہ ہو گیا۔ حضورؐ اس وقت تک مکّے ہی میں قیام پذیر تھے۔ 

حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت طفیل بن عمروؓ اپنے چند مسلمان رفقاء کے ساتھ آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔ ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! قبیلہ دوس کے لوگ سرکشی پر اُتر آئے ہیں اور اللہ کا کلام سُننے سے انکار کرتے ہیں۔ آپ ان کے لیے بد دُعا کیجیے۔‘‘ اس موقعے پر بعض صحابہؓ نے کہا کہ اب دوس کے لوگ برباد ہوجائیں گے، لیکن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرمائی۔ ’’اے اللہ! دوس کے لوگوں کو ہدایت دے اور انھیں میرے پاس بھیج دے۔‘‘ (صحیح بخاری۔ 2937،4392، 6397)۔ 

اس موقعے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت طفیل بن عمروؓ سے فرمایا۔ ’’اپنی قوم میں واپس جاؤ اور انھیں دعوت دیتے رہو، لیکن ان کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ۔‘‘ طفیلؓ کہتے ہیں کہ اس حکم کے بعد مَیں واپس ملکِ یمن آگیا اور اپنی بستی کے لوگوں کو برابر دین کی دعوت دیتا رہا، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینے کی طرف ہجرت فرمائی اور غزوئہ احد اور غزوئہ خندق بھی وقوع پذیر ہوئے۔

اہلِ قبیلہ کی مدینہ ہجرت

حضرت طفیل بن عمروؓ کہتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہؓ اور چند رفقاء تو ابتدا ہی میں اسلام قبول کرچکے تھے، لیکن مسلسل تبلیغ کے نتیجے میں وہ وقت بھی آگیا کہ جب قبیلے کے باقی لوگ بھی مسلمان ہونے کے لیے تیار تھے، چناں چہ مَیں اُن سب کو لے کر مدینہ منورہ کی جانب رونہ ہوا۔ یہ 70یا80خاندان تھے۔ اللہ کے رسولؐ خیبر میں تھے، ہم سب رسول اللہؐ سے خیبر میں ملے۔ قبیلے کے تمام لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کیا۔ 

حضور اکرمؐ نے مالِ غنیمت میں مسلمانوں کے ساتھ ہمارا حصّہ بھی مقرر فرمایا۔ حضرت طفیلؓ کہتے ہیں کہ مَیں اور حضرت ابوہریرہؓ برابر رسول اللہؐ کے پاس رہے، یہاں تک کہ اللہ نے آپؐ کو مکّہ مکرّمہ کی فتح نصیب فرمائی۔ اس موقعے پر حضرت طفیل نے عرض کیا۔ ’’یا رسول اللہؐ! مجھے ذوالکفین کی طرف بھیج دیجیےتاکہ عمرو بن حمہ کا بُت نذرِآتش کردوں۔‘‘ 

چناں چہ اللہ کے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت طفیل کو ذوالکفین کی طرف روانہ فرمایا۔ حضرت طفیلؓ نے بُت کو آگ لگا دی، بُت لکڑی کا تھا۔ حضرت طفیلؓ اس پر آگ لگاتے وقت کہہ رہے تھے۔ ’’اے ذوالکفین! مَیں تیرے بندوں میں سے نہیں ہوں۔ مَیں نے تیرے دل میں آگ لگادی ہے۔‘‘ جب بُت ذو الکفین جل کر راکھ ہو گیا، تو جو لوگ اس کی پُوجا کرتے تھے، اُن پر اس کی اصلیت ظاہر ہوگئی کہ یہ تو کچھ بھی نہیں ہے، چناں چہ وہ سب کے سب اسلام لے آئے۔ (طبقات ابنِ سعد۔4/499)۔

غزوات میں شرکت اور شہادت

دوسی قبیلے کےباشندے، حضرت طفیل بن عمروؓ کی قیادت میں خیبر کے مقام پر آنحضرتؐ سے ملے اور اسلام قبول کرکے غزوئہ خیبر میں شریک ہوئے۔ حضرت طفیلؓ کی درخواست پر رسول اللہؐ نے دوسیوں کو خیبر شکن فوج کے میمنہ پر مقرر فرمایا۔ غزوئہ طائف کے موقعے پر دوسی قبیلے کے چار سو جنگجو حضرت طفیل بن عمروؓ کی قیادت میں آنحضرتؐ کے ساتھ شریک تھے، اُن کا الگ سے دستہ تھا۔

حضورؐ نے حضرت طفیلؓ سے دریافت فرمایا۔ ’’تمہاے دستے کا علَم کون اٹھائے گا؟‘‘ حضرت طفیلؓ نے عرض کیا ’’نعمان بن باریہؓ، شروع سے ہمارے قبیلے کے علَم بردار ہیں، لہٰذا یہاں بھی وہی علَم اٹھائیں گے۔‘‘ آنحضرتؐ کی وفات کے بعد جب عرب کے کچھ لوگ مرتد ہوئے، تو حضرت طفیلؓ صحابہؓ کے ساتھ نکلے اور مرتدوں سے جہاد کیا۔ 

سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کے دَورِ خلافت میں یمامہ کے مقام پر نبوّت کے جھوٹے دعوے دار، مسیلمہ کذّاب کے خلاف جنگ میں حضرت طفیل بن عمروؓ اور ان کے صاحب زادے عمرو بن طفیلؓ نے بھی حصّہ لیا۔ اس جنگ میں حضرت طفیل بن عمروؓ نے نہایت بہادری اور شجاعت کے ساتھ جنگ لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا، جب کہ اُن کے صاحب زادے، عمرو بن طفیلؓ دوران جنگ زخمی ہوئے اور ایک ہاتھ سے محروم ہوگئے۔ (طبقاتِ ابنِ سعد۔ 4/499)۔