• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روشنی کے مینار: صحابی رسولﷺ، حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ

وادیِ اُحد کے دامن میں واقع میدانِ کار زار میں دُوردُور تک لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ کہیں مسلمان شہداء کا جسدِ خاکی تھا، تو کہیں کفّارِ مکّہ کے خاک و خون میں لت پت لاشے۔ دن بھر جاری اس خوں ریز جنگ کے تمام مناظر کا جبلِ اُحد، چشم دید گواہ تھا۔ اُحد کے پہلو میں ہر لمحہ بدلتے جنگ کے یہ مناظر آنے والی نسلوں کے لیے ایک نئی داستان رقم کررہے تھے۔ 

عین میدانِ جنگ میں رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی کی غدّاری، نہتّے مسلمانوں کا اپنی تعداد سے تین گنا زائد مشرک جنگجوئوں کے سامنے صف آرا ہونا، کفّارِ مکّہ کا جوش و خروش، مشرک عورتوں کا شوروغُل، جذبات برانگیختہ کرنے والے اشعار، جواب میں اللہ ُاکبر کی صدائیں، جنگ کی شروعات، مجاہدین کے تابڑ توڑ حملے، کفّار کی شکست، مسلمانوں کی فتح، رماۃ کے تیر اندازوں کی غلطی، خالد بن ولید کے وار، مشرکین کی واپسی، جنگ کا پانسا پلٹنا، مجاہدین میں انتشار، رسول اللہﷺ کے گرد خوں ریز معرکہ، اللہ کے نبیؐ کا زخمی چہرئہ اقدس۔ کوہِ اُحد بے تاب تھا کہ اُسے حکم ملے اور وہ کفّار کو سنگ سار کردے، لیکن اللہ کا کوئی بھی کام مصلحت اور حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ 

مسلمانوں کی اس عارضی شکست میں مستقبل کے لیے بڑا پیغام تھا کہ ’’اللہ کے نبیؐ کا ہر حکم، اللہ کا حکم ہوتا ہے اور نبیؐ کی حکم عدولی اللہ کی ناراضی کا باعث بنتی ہے۔‘‘ جبل ِرماۃ کے تیر انداز، صحابیِ رسولؐ تھے۔ نیک لوگ تھے، لیکن نادانستگی میں نبیؐ کی حکم عدولی، اللہ کی ناراضی کا باعث بنی۔ غزوئہ اُحد میں اللہ کے نبی ؐ کا دندان شریف شہید ہوچکے تھے۔ رُخِ انور زخمی تھا، صحابہؓ آپ کو کوہِ اُحد کی جانب لے جارہے تھے۔ 

اللہ تعالیٰ نے کوہِ اُحد کو حکم دیا کہ میرا محبوبؐ تیری طرف آرہا ہے، اُسے اپنی آغوش میں لے لے۔ چناں چہ وادی کے آخری سرے پر حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے آنے والے راستے کے بالکل سامنے پہاڑ کی چٹان شق ہوئی اور دو فٹ چوڑی گھاٹی نمودار ہوئی، جس میں سرکارِ دوعالمؐ نے آرام فرمایا۔ 

سیّدنا علی مرتضیٰؓ اور خاتونِ جنّت سیّدہ فاطمۃ الزہرہؓ نے آپؐ کے زخموں کو صاف کیا۔ اس چھوٹی سی گھاٹی کے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے جس پتّھر سے سرِاقدس کو ٹیک لگائی تھی، وہ پتّھر آج بھی روئی کے گالوں کی طرح نرم ہے۔ گھاٹی کو حکومت ِوقت نے پتّھر لگاکر عارضی طور پر بند کردیا ہے، لیکن پندرہ سو سال گزر جانے کے باوجود آج بھی وہ جگہ خوشبوؤں سے معطّر ہے۔ غزوئہ اُحد میں مسلمان شہداء کی تعداد70تھی۔ ابنِ اسحاق کے مطابق، قریش کے مقتولین کی تعداد22تھی، لیکن اہلِ سیر نے اُن کی تعداد37تک بتائی ہے۔ (واللہ اعلم) (سیرت ابنِ ہشام2/131 )۔

حضرت عاصمؓ کے ہاتھوں طلحہ کے بیٹوں کا قتل

اِدھر میدان ِکارِ زار میں مشرک عورتیں فتح کے نشے سے سرشار رقص کناں تھیں۔ ابو سفیان کی بیوی ہند بنت عتبہ اور عمرو بن عاص کی بیوی ریطہ بنتِ منبہ دیگر عورتوں کے ساتھ مسلمان شہداء کے مثلہ میں مشغول، جب کہ ہند بنتِ عتبہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے سب سے چہیتے اور جاں نثار چچا، شیرِ خدا، حضرت حمزہؓ کے جسدِ خاکی کی بے حرمتی میں مصروف تھی، لیکن ہم جولیوں میں شامل ایک مشرک عورت سلافہ بنت سعد اپنے فکرمند چہرے کے ساتھ الگ تھلگ بیٹھی اپنے شوہر اور تین بیٹوں کی منتظر تھی۔ 

وہ بڑی دیر سے میدان کے چاروں جانب نظریں گھما گھما کر اپنے عزیزوں کو تلاش کررہی تھی۔ وہ بے تاب تھی کہ وہ بھی دیگر عورتوں کے ساتھ مسلم شہداء کے مثلہ میں شریک ہو، لیکن حالات و واقعات اور عینی شاہدین اسے باور کروا رہے تھے کہ وہ سب قتل کردیے گئے۔ سلافہ یہ حقیقت ماننے کو تیار نہ تھی۔ جب کافی دیر ہوگئی اور کفّار نے میدانِ جنگ سے واپسی کی تیاری شروع کردی، تو سلافہ کو بھی ہوش آیا۔ 

اس نے لاشوں کے ڈھیر میں اپنوں کو ڈھونڈنا شروع کیا، جلد ہی اسے اپنے شوہر طلحہ بن ابی طلحہ کی خون میں لت پت، خاک آلود لاش مل گئی۔ طلحہ مشرکین کا علَم بردار اور جنگ کا پہلا ایندھن تھا۔ اس کے قتل کے بعد مشرکین کا لشکر اس کے بیٹے مسافع بن طلحہ نے اُٹھایا۔ وہ قتل ہوا، تو اس کے دوسرے بیٹے کلاب بن طلحہ نے علَم اُٹھایا، جلد ہی وہ بھی قتل ہوگیا، تو تیسرے بیٹے جلاس بن طلحہ نے جھنڈا اٹھایا، لیکن حضرت عاصم بن ثابتؓ کی شمشیرِبرہنہ نے اس کا سر بھی جسم سے جدا کردیا۔ 

شوہر کی لاش دیکھ کر سلافہ بدحواس ہوگئی اورتیزی سے بیٹوں کی لاشیں تلاش کرنے لگی۔ تھوڑی ہی دیر میں اُسے اپنے بیٹے مسافع کی لاش مل گئی۔ اس سے ذرا آگے دوسرے بیٹے کلاب کی سر کٹی لاش پڑی تھی۔ ذرا اور آگے پہاڑ کی ایک چٹان میں تیسرا بیٹا جلاس نظر آیا، جو آخری سانسیں لے رہا تھا۔ سلافہ نے اُس کا خون آلود سر اپنی گود میں رکھا اور سر اور چہرے سے خون صاف کرتے ہوئے آہ و بکا کے عالم میں بولی۔ ’’اے میرے لختِ جگر! تیرا یہ حال کس نے کیا؟‘‘ 

اس کے کئی بار یہی سوال دُہرانے پر جلاس نے اُکھڑتی سانسوں کے درمیان جواب دیا۔ ’’مجھے اور میرے بھائیوں کو عاصم بن ثابتؓ نے قتل کیا ہے۔‘‘ جلاس تو اس جملے کے بعد جہنّم رسید ہوگیا، لیکن سلافہ بپھری ہوئی شیرنی کی طرح آپے سے باہر ہوگئی۔ اس نے دیوانہ وار زور زور سے بین شروع کردیا۔ 

اس نے قسم کھائی کہ ’’مجھے لات وعزّیٰ کی قسم، مَیں اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوں گی، جب تک عاصم بن ثابتؓ کے سر کی کھوپڑی میں شراب بھر کر نہ پی لوں۔‘‘ پھر اس نے اعلان کیا کہ ’’جو بھی عاصمؓ کا سر میرے پاس لائے گا، اُسے سُرخ اونٹوں کے علاوہ منہ مانگی دولت دوں گی۔‘‘ 

سلافہ مکّہ کی مال دار عورت تھی۔ شوہر اور بیٹوں کی موت کے بعد وہ تمام مال و دولت کی اکیلی وارث تھی۔ قریش کے نوجوانوں کے لیے مال دار ہونے کا یہ سنہری موقع تھا۔ چناں چہ مکّے کا ہر شخص عاصم بن ثابتؓ کو قتل کرکے ان کا سر سلافہ کو پیش کرنے کا خواب دیکھنے لگا۔

عاصم بن ثابتؓ کا حسب نسب

حضرت عاصم بن ثابتؓ مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور انصار کے قبیلے، اوس سے تعلق رکھتے تھے۔ آنحضرتؐ کے مدینہ ہجرت سے پہلے مسلمان ہوچکے تھے۔ان کی کنیت ابو سلیمان اور نسب نامہ اس طرح تھا، عاصم بن ثابت بن قیس ابی الاقلع بنی عصہ بن نعمان بن ملک۔ 

ان کی والدہ شموس بنتِ ابی عامر بن صیفی بن نعمان بن مالک تھیں۔ مدینے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے آپ کا مواخاۃ عبداللہ بن حجشؓ سے کیا تھا۔ آپؓ، نبی کریمؐ کے نام زَد تیر اندازوں میں سے ایک تھے۔ (طبقات ِابن سعد 4/313)۔

جنگ میں لڑنے کا بہترین طریقہ

غزوئہ اُحد کے اختتام پر مسلمان مدینہ واپس آگئے، تاہم اس جنگ کے اثرات تادیر قائم رہے۔ شہداء کیجرأت و شجاعت اور غازیوں کی بہادری کی کہانیاں ہر ایک کی زبان پر تھیں۔ اس کے ساتھ ہی مسلمان مہاجر قبیلہ عبدالدّار کے علَم بردار، طلحہ بن طلحہ اور اس کے خاندان کے6افراد کے قتل پر حیران تھے۔ طلحہ بن طلحہ عبدری قریشِ مکّہ کے چند نہایت بہادر اور تجربہ کار شہ سواروں میں سے ایک تھا، جسے مسلمان ’’کبش الکتبیہ‘‘ یعنی ’’لشکر کا مینڈھا‘‘ کہتے تھے۔ یہ پہلا شخص تھا، جو کفّار کی جانب سے میدانِ جنگ میں آیا۔ 

حضرت زبیرؓ آگے بڑھے اور کوئی مہلت دیئے بغیر اُسے تلوار سے ذبح کردیا۔ کفّار کا پرچم طلحہ کے بھائی عثمان نے اُٹھایا۔ اس شخص پر حضوراکرمؐؐ کے چچا، حضرت حمزہؓ نے تلوارکا ایسا زبردست وار کیاکہ کندھے سے جسم کو چیرتی ہوئی ناف تک چلی گئی۔ اس کے بعد طلحہ کے دوسرے بھائی، ابو سعد نے پرچم اٹھالیا، جسے شیرِخدا سیّدنا علی مرتضیؓ نے جہنّم رسید کیا۔ 

اس کے بعد طلحہ کے تینوں بیٹوں مسافع، کلاب اور جلاس نے یکے بعد دیگرے پرچم اٹھایا، لیکن حضرت عاصم بن ثابتؓ کے تیر، تلوار اور نیزوں کے آگے نہ ٹِک سکے اور ایک کے بعد ایک قتل ہوتے گئے۔ بنو عبدالدّار کے دس افراد نے مشرکین کا جھنڈا اٹھایا اور تمام کے تمام قتل ہوگئے۔ آخر میں ایک حبشی غلام، صواب نے جھنڈا اٹھالیا، لیکن جلد ہی وہ بھی اپنے انجام کو پہنچ گیا، اس کے قتل کے بعد مشرکین کا جھنڈا اٹھانے والا کوئی نہ تھا۔ 

صحابہ ٔ کرامؓ دیگر مجاہدین کے ساتھ ہی انصاری صحابی، حضرت عاصم بن ثابتؓ کی بہادری کے تعلق سے بھی گفتگو کررہے تھے۔ اس موقعے پر مجلس میں موجود ایک صحابیؓ نے عرض کیا۔ ’’آپ لوگوں کو یادہوگا کہ غزوئہ بدر سے پہلے رسول اللہؐ نے ایک اجلاس طلب فرمایا تھا، جس میں جنگ کے ممکنہ خطرات سے نمٹنے اور جنگی حکمتِ عملی پر گفتگو ہوئی تھی۔ 

اس دورانِ گفتگو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا تھا کہ اگر دشمن سے جنگ کی نوبت آجائے تو کیسے لڑوگے؟ تو اسی قبیلۂ اوس کے نوجوان عاصم بن ثابتؓ نے جواباً عرض کیا۔ ’’اے اللہ کے نبیؐ اگر دشمن سو ہاتھ یا اس سے زیادہ فاصلے پر ہوگا، تو میں تیر، کمان استعمال کروں گا۔ 

اگر دشمن میرے قریب ہوگا ، تو پھر میں اپنے تیز دھار نوکیلے نیزے سے اس کا مقابلہ کروں گا اور اگر کسی موقعے پر میرا نیزہ دشمن کےجسم کے اندر داخل ہوکر ٹوٹ جائے گا، تو میں فوراً اپنی برہنہ شمشیر اس کے سر پر سونت دوں گا اور دوبدو جنگ کروں گا۔‘‘ یہ سن کر سول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا۔ ’’جنگ کا یہی طریقہ ہے، تم میں سے جو کوئی بھی جنگ کرے، اُسے چاہیے عاصم بن ثابتؓ کا طریقہ اپنائے۔‘‘

حضرت عاصمؓ کی شہادت کا الم ناک واقعہ

صحیح بخاری کی ایک حدیث میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے غزوئہ اُحد کے بعد حضرت عاصم بن ثابتؓ کو ایک فوجی دستے کا امیر مقرر فرما کر معلومات کی غرض سے روانہ فرمایا۔ فوجی دستہ، عسفان اور مکّہ کے درمیان پہنچا، تو ہذیل کے ایک قبیلے بنو لحیان کو اُن کی خبر ہوگئی۔ چناں چہ تقریباً ایک سو تیر انداز، ان مجاہدین کے تعاقب میں روانہ ہوگئے۔ 

چلتے چلتے وہ لوگ ایک ایسی جگہ پہنچ گئے، جہاں مجاہدین نے پڑائو ڈالا ہوا تھا۔ وہاں انہیں کھجوروں کی گٹھلیاں ملیں، جو وہ مدینہ منورہ سے توشہ کے طور پر ساتھ لائے تھے۔ مشرکین کہنے لگے۔ ’’یہ تو یثرب کی کھجوریں ہیں۔‘‘ چناں چہ مشرکین نے مجاہدین کے قدموں کے نشانات پر ان کا پیچھا کیا اور مجاہدین کو ڈھونڈ نکالا۔ دراصل، حضرت عاصمؓ اور اُن کے ساتھی پیدل چلتے چلتے اس قدر تھک چکے تھے کہ اب اُن میں مزید چلنے کی سکت باقی نہ رہی تھی۔ چناں چہ انہوں نے ایک اونچے ٹیلے پر پناہ لے لی۔ 

مشکرین نے چاروں جانب سے اُنھیں گھیر لیا اور اُن سے کہا کہ ’’ہمارا تم سے عہد و میثاق ہے۔ اگر تم نیچے اُتر آئو، تو ہم کسی کو بھی قتل نہیں کریں گے۔‘‘ امیرِ لشکر، حضرت عاصم بن ثابتؓ نے انھیں جواب دیا۔ مَیں تو کسی کافر کے عہد پر نیچے نہیں اُتروں گا۔‘‘ پھر انہوں نے ٹیلے پر کھڑے کھڑے دُعا مانگی۔ ’’اے اللہ! ہماری طرف سے اپنے نبیؐ کو اطلاع کردے۔‘‘ اس دُعا کے بعد انہوں نے مشرکین کی جانب دیکھا، جو اُن سے مقابلے کے لیے تیار تھے۔ 

پھر انہوں نے مجاہدین کی جانب تیروں کی بوچھاڑ کردی، یہاں تک کہ مشرکین نے حضرت عاصمؓ سمیت سات مجاہدین کو شہید کردیا۔ بعدازاں، اہلِ قریش نے حضرت عاصم بن ثابتؓ کی لاش کے لیے آدمی بھیجے تاکہ ان کے جسم کا کوئی بھی حصّہ لائیں، جس سے انہیں پہچانا جاسکے، لیکن اللہ تعالیٰ نے بھڑوں کی ایک فوج کو بادل کی طرح اُن کے اوپر بھیجا، جنھوں نے اُن کی لاش کو قریش کے آدمیوں سے محفوظ رکھا اور قریش کے بھیجے ہوئے یہ لوگ کچھ نہ کرسکے۔ (صحیح بخاری 3989,3045,4086)

بارش کا پانی لاش بہالے گیا

سیرت ابنِ ہاشم میں یہ واقعہ یوں تحریر ہے۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ اُحد کی جنگ کے بعد بنی عفل اور بنی قارہ کے لوگ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا، یارسول اللہؐ! ہم لوگوں میں دین کی رغبت ہے۔ ہمارے ساتھ چند صحابہؓ روانہ فرما دیں تاکہ وہ ہماری قوم کو قرآنِ مجید کی تعلیم دیں۔ 

آپؐ نے عاصم بن ثابتؓ سمیت چھ صحابہؓ ساتھ کردیے۔ یہ لوگ صحابہؓ کو لے کر مقام رجیع پہنچے، جو قبیلہ ہذیل کے ایک چشمے کا نام ہے، ان لوگوں نے صحابہؐ کے ساتھ غدّاری کی اور قبیلہ ہذیل کو ان کے خلاف بھڑکا دیا۔ صحابہؓ اس وقت اپنے خیموں میں تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ چاروں جانب سے لوگ تلواریں لیے چلے آرہے ہیں۔ صحابہؓ بھی جنگ کے لیے تیار ہوگئے۔

ان لوگوں نے کہا کہ واللہ! ہم تمہیں قتل نہیں کریں گے۔ تمہیں مکّہ والوں کے پاس لے جائیں اور اُن سے کچھ معاوضہ لیں گے۔ عاصم بن ثابتؓ سمیت دو صحابہؓ نے ان کے ساتھ جانے کے بجائے لڑنے کا فیصلہ کیا اور شہید ہوگئے۔ حضرت عاصمؓ کے شہید ہونے کے بعد ہذیل کے لوگوں نے یہ ارادہ کیا کہ حضرت عاصمؓ کا سرمکّہ لے جاکر سلافہ بنتِ سعد کے ہاتھ فروخت کردیں، کیوں کہ جب حضرت عاصمؓ نے ان کے بیٹوں کو اُحد میں قتل کیا تھا، تو اس نے منّت مانی تھی کہ اگر مجھے موقع ملا، تو مَیں عاصمؓ کی کھوپڑی میں شراب پیوں گی، جب کہ حضرت عاصمؓ نے اللہ سے دُعا کی تھی کوئی مشرک مجھے ہاتھ نہ لگائے اور نہ میں مشرک کو ہاتھ لگاؤں، وہ انہیں ناپاک سمجھتے تھے۔ 

جب ہذیل نے ایسا ارادہ کیا، تو اللہ نے اس زور کی بارش برسائی کہ وہ لوگ حضرت عاصمؓ کا سر نہ لے جاسکے، پھر اسی بارش کی رَو میں ان کی لاش بہہ گئی اور کسی کوپتا نہ چلا۔ حضرت عمرؓ نے جب حضرت عاصمؓ کا یہ واقعہ سنا، تو فرمایا کہ یہ اسی دُعا کے سبب تھا، جو حضرت عاصمؓ نے اپنی زندگی میں اللہ تعالیٰ سے کی تھی کہ مرنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے ان کی لاش کو مشرکین کے ہاتھ لگنے سے محفوظ کردیا۔ (سیرت ابن ہاشم، اردو ترجمہ، جلد 2 صفحہ134)۔

شہد کی مکھیوں اور سیلاب سے جسم کی حفاظت

ابن ِسعدؒ لکھتے ہیں کہ’’کفّار نے جب حضرت عاصم بن ثابتؓ کا سر کاٹنا چاہا، تو اللہ نے ان کے پاس بِھڑیں یعنی شہد کی مکّھیاں بھیج دیں، جنہوں نے اُن کے جسم کی حفاظت کی۔ مشرکین کا خیال تھا کہ رات میں شہد کی مکّھیاں نہیں ہوں گی اور سر الگ کرلیں گے، لیکن جب رات ہوئی، تو اللہ تعالیٰ نے ایک نامعلوم سیلاب بھیج دیا، جس کا پانی اُن کا جسم بہا لے گیا اور مشرکین اُن کے پاس نہ پہنچ سکے۔

عاصم نے اپنے اوپر لازم کرلیا تھا کہ نہ وہ کسی مشرک کو چھوئیں گے اور نہ کوئی مشرک انہیں چھوئے گا۔ ان کا اور ان کے ساتھیوں کا قتل ہجرت کے چھتیسویں مہینے، صفر میں یوم الرجیع میں ہوا۔‘‘ (طبقاتِ ابن سعد، اردو4/314)۔

سنڈے میگزین سے مزید