رابعہ فاطمہ
قیامِ پاکستان کے ابتدائی برسوں میں پورے مُلک کا انحصار زرعی معیشت پر تھا کہ صنعتی ڈھانچا انتہائی کم زور تھا۔ ایسے میں نوزائیدہ ریاست کو معاشی استحکام کے لیے فوری طور پر صنعتوں کے قیام اور توسیع کی ضرورت تھی، تاکہ بیرونی انحصار کم سے کم کرکے خودکفالت کی راہ ہم وار کی جاسکے۔ یہی وہ نقطۂ آغاز تھا، جہاں سے مُلک نے صنعت کاری کی طرف پہلا قدم اُٹھایا۔
تاہم، یہ قدم محض بہترئ معیشت تک محدود نہ رہا، بدقسمتی سے وقت کے ساتھ ماحولیاتی تباہی میں اس کے اثرات نمایاں اور گہرے ہوتے چلے گئے۔ صنعت کاری نے پاکستان کے بڑے شہروں کو تجارتی و پیداواری مراکز میں بدل ڈالا۔ کراچی، لاہور اور فیصل آباد جیسے شہر، صنعتوں کی بدولت اگرچہ ترقی کی منازل طے کرنے لگے، مگر دوسری جانب اُن کے سبب پھیلنے والی آلودگی کے سائے بھی گہرے ہوتے چلے گئے۔
ان شہروں میں قائم فیکٹریز سے اُٹھنے والا دھواں اور کیمیکلز سے لب ریز فضلہ، زمین اور پانی آلودہ کرنے لگا اور اِسی اس غفلت کے نتائج آج ہمارے سامنے ہیں کہ پاکستان اقوامِ عالم میں اُن ممالک کی صف میں کھڑا ہے، جو ماحولیاتی تبدیلی کے شدید خطرات سے دوچار ہیں۔
تحقیقی اعتبار سے دیکھا جائے، تو صنعت اور ماحول ایک دوسرے سے وابستہ، مگر متصادم پہلو رکھتے ہیں۔ صنعت، جہاں معاشی ترقی، روزگار اور برآمدات کا ذریعہ ہے، وہیں اس کے اثرات فضائی و آبی آلودگی، زرعی زمین کی بربادی اور صحتِ عامہ کے بحران کی صُورت سامنے آتے ہیں۔ اس دو رُخی حقیقت سے آگاہی، اسے سمجھنا اور متوازن حکمت ِعملی اختیار کرنا، وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد صنعت کاری کی بنیادیں: ہندوستان کی تقسیم کے بعد معرضِ وجود میں آنے والے نوزائیدہ ملک، پاکستان کو وَرثے میں محض چند درجن چھوٹی صنعتیں ملیں، جو مُلکی ضروریات کے مطابق تھیں، نہ ہی برآمدات کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ ایسے ناگفتہ بہ معاشی حالات میں پاکستان نے 1955ء میں صنعت کاری کی بنیاد رکھی اور پانچ سالہ منصوبوں کا آغاز کیا۔
فیصل آباد میں ٹیکسٹائل ملز، کراچی میں سیمنٹ اور اسٹیل کے کارخانے اور مُلک بھر میں شوگر ملز کا قیام اُسی دَور کی یادگار ہیں۔ ان منصوبوں سے مُلک بَھر میں پراسیسنگ کی صلاحیتوں میں اضافے کے ساتھ معیشت کو ایک نئے رُخ پر گام زن کرنے میں بھرپور مدد ملی۔1960ءکی دہائی پاکستان کی صنعتی تاریخ کا عہدِ زرّیں ثابت ہوئی۔ اُس دَور میں صنعتوں کی ترقی کی شرح خطّے کے دیگر مُمالک سے کہیں زیادہ تھی۔
ٹیکسٹائل انڈسٹری نے پاکستان کو عالمی سطح پر پہچان تو دلائی، لیکن ساتھ ہی بڑے شہروں کی فضا میں آلودگی کے بادل بھی چھانے لگے۔ فیکٹریز کے دھویں اور فضلے کے اثرات اگرچہ اُس وقت تک زیادہ نمایاں نہیں تھے، مگر ماہرین نے اُسی وقت ماحولیاتی بگاڑ کی ابتدائی نشان دہی کرنا شروع کردی تھی۔
یہی وہ دہائی تھی، جب مُلک میں زرعی سے صنعتی معیشت کی طرف حقیقی سفر شروع ہوا، مگر ساتھ ہی ماحولیاتی نقصان کے بیج بھی بودیے گئے۔ صنعتوں کے قیام میں ماحول دوست ٹیکنالوجی یا فُضلے کی تلفی کے جدید طریقے شامل نہ تھے۔ یوں یہ ترقی وقتی فائدے کا باعث تو بنی، لیکن مستقبل کے لیے خطرناک بھی ثابت ہوئی۔
1970 ءاور 1980 ءکی دہائیوں میں صنعتی بحران: 1970 ءکی دہائی میں صنعتوں کو قومیانے کی پالیسی نے صنعتی شعبے پر گہرا اثر ڈالا۔ اگرچہ فولاد، کھاد اور پیٹروکیمیکل کی صنعتوں کا قیام مُلکی خود کفالت کی طرف ایک قدم تھا، لیکن ناقص انتظامی ڈھانچے اور جدید ٹیکنالوجی کے فقدان نے ان صنعتوں کو غیر مؤثر بنادیا۔ اس دوران فیکٹریز اور کارخانوں سے نکلنے والے فضلے کو سائنسی طریقوں سے تلف نہ کرنے کے سبب ماحولیاتی نقصان میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا۔
1980ءکی دہائی میں نج کاری کا عمل شروع ہوا تو سرمایہ کاری کے نئے رجحانات اُبھرے۔ تاہم، اُس دَور میں بھی صنعتی شعبے میں ماحولیاتی تحفّظ کے بجائے زیادہ تر توجّہ منافعے ہی پر مرکوز رہی۔ شہروں میں کیمیکل فیکٹریز کا پھیلاؤ، شوگر ملز کا وسیع جال اور گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی صنعت نے آلودگی کی شدّت میں بے پناہ اضافہ کردیا۔ کراچی اور لاہور جیسے شہر فضائی و آبی آلودگی کے نمایاں مراکز بن گئے۔
1990 ءکی دہائی اور اکیسویں صدی کا آغاز: 1990ءکی دہائی میں پاکستان نے بین الاقوامی سرمایہ کاری کے لیے اپنے دروازے کھولے۔ توانائی، گاڑیوں اور تعمیرات کے شعبوں میں غیر ملکی سرمایہ کار آئے۔ ساتھ ہی ملک بھر میں سیمنٹ، ٹیکسٹائل اور کیمیکل فیکٹریز کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا، مگر بدقسمتی سے اس صنعتی ترقی کے ساتھ ماحولیاتی قوانین پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔
جس کے بعد عالمی ادارے، پاکستان کے شہری مراکز میں خطرناک حد تک فضائی آلودگی پھیلنے کی رپورٹس دینے لگے۔ اکیسویں صدی میں صنعت کاری کے دائرے میں مزید وسعت آئی۔ توانائی، تعمیرات اور ٹیکنالوجی کے شعبوں نے معیشت کو سہارا دیا۔ تاہم، یہ ترقی ماحول دوست حکمتِ عملی کے بغیر تھی، نتیجتاً ملک آج شدید ماحولیاتی بحران سے دوچار ہے اور عالمی سطح پر پاکستان کو ’’کلائمیٹ چینج کے ہاٹ اسپاٹ‘‘ ممالک میں شمار کیا جانے لگا ہے۔
صنعتی ترقی کے معاشی فوائد: پاکستان کی صنعت کاری نے معیشت کو بلاشبہ نئی جہت عطا کی۔ لاکھوں افراد کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوئے۔ کپڑا سازی، شوگر ملز اور سیمنٹ فیکٹریز میں دیہی و شہری علاقوں کےمحنت کشوں کو ملازمتیں ملیں، جنھوں نے معاشی سرگرمیوں کے فروغ میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ اس سے غربت میں کمی آئی اور متوسط طبقہ مستحکم ہوا۔
پراسیسنگ اور ویلیو ایڈیشن کے ذریعے زرعی اجناس، قومی اور عالمی منڈی تک پہنچانے کا موقع ملا۔ کپاس سے ٹیکسٹائل مصنوعات، گنّے سے چینی اور زرعی اجناس سے مختلف مصنوعات تیار ہوئیں۔ ان برآمدات سے حاصل ہونے والے زرِ مبادلہ نے ملک کو ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کی قوت بخشی۔ ٹیکنالوجی کی منتقلی بھی صنعتی ترقی کا ایک روشن پہلو ہے۔
جدید مشینری اور سائنسی طریقہ کار کے استعمال سے مقامی ماہرین نئی مہارتوں سے روشناس ہوئے۔ انجینئرز، ٹیکنیشینز اور مینجمنٹ کے ماہرین کی ایک کھیپ تیار ہوئی، جس نے مُلکی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ انفرااسٹرکچر کی ترقی بھی صنعت کاری کے ثمرات میں شامل ہے۔ سڑکوں، بندرگاہوں، بجلی گھروں اور تعلیمی اداروں کی تعمیر نے نہ صرف صنعت کو تقویت دی، بلکہ عام شہریوں کو بھی سہولتیں فراہم کیں۔
شہروں میں صحت اور تعلیم کے شعبوں میں سرمایہ کاری ممکن ہوئی، جس سے معیارِ زندگی بلند ہوا۔ یہ تمام عوامل مل کر پاکستان کی معیشت کو زرعی سے صنعتی معیشت میں منتقل کرنے کا سبب بنے۔ تاہم، ان معاشی فوائد کے ساتھ ماحولیاتی نقصان کا بوجھ بھی مسلسل بڑھتا رہا، جو بعدازاں ایک بڑے بحران کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔
ماحولیاتی بگاڑ اور اس کے اثرات: صنعتی ترقی کے مثبت پہلوؤں کے ساتھ ایک تاریک رُخ بھی ہے، جو ماحولیاتی بگاڑ کی صُورت سامنے آیا۔ یہاں سب سے پہلے فضائی آلودگی کا ذکر ضروری ہے۔ صنعتی اخراج اور گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں بڑے شہروں کی فضا کو مسموم کررہا ہے۔ لاہور اور کراچی جیسے شہر فضائی آلودگی کے باعث دنیا کے بدترین شہروں میں شمار ہونے لگے ہیں۔ سانس کی بیماریوں میں اضافہ اس صورتِ حال کی سنگینی عیاں کرتا ہے۔ پانی کی آلودگی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
متعدد فیکٹریز اپنا فضلہ براہِ راست دریاؤں، نہروں میں پھینکتی ہیں، جس سے آبی حیات متاثر ہوتی ہے اور پینے کے پانی کے ذخائر بھی آلودہ ہو جاتے ہیں۔ دریائے راوی اور سندھ کے کنارے بسنے والے لاکھوں افراد اس مسئلے کا شکار ہیں۔ زرعی زمین کی زرخیزی میں کمی بھی صنعتی فضلے ہی کا شاخسانہ ہے۔ بھاری دھاتیں اور کیمیکلز زمین میں شامل ہوکر کھیتوں کی پیداوار متاثر کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں کسان معاشی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں اور مُلک میں غذائی عدم تحفّظ بڑھتا ہے۔ صحتِ عامّہ پر اس ماحولیاتی بگاڑ کے اثرات بہت شدید ہیں۔
بچّوں میں سانس کی بیماریاں، جِلدی امراض، یہاں تک کہ کینسر جیسے موذی امراض بھی بڑھتے جارہے ہیں۔ لاہور جیسے شہروں میں ’’اسموگ‘‘ نے موسمی آفت کی شکل اختیار کرلی ہے، جس سے تعلیمی و معاشی سرگرمیاں متاثر ہورہی ہیں۔ قدرتی ماحولیاتی نظام بھی ان اثرات سے محفوظ نہیں رہا۔ جنگلات کی کٹائی، آبی ذرائع کی آلودگی اور فضائی تغیّر نے حیاتی تنوّع کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ صورتِ حال اس قدر سنگین ہوگئی ہے کہ پرندے، مچھلیاں اور دیگر جان دار اپنی بقا کی جدوجہد پر مجبور ہوگئے ہیں۔
سائنسی تجزیہ مع عالمی تحقیق: ماحولیات کے حوالے سے کی گئی مختلف سائنسی تحقیقات کے مطابق، صنعتی سرگرمیوں کی وجہ سے خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسز، مثلاً کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین، عالمی درجہ حرارت میں اضافہ کرتی ہیں۔ یہ اضافہ پاکستان جیسے مُمالک میں انتہائی خطرناک ہے کہ جہاں ماحولیاتی نگرانی کے وسائل محدود ہیں۔ گلوبل وارمنگ کے اثرات سیلاب، خشک سالی اور غیر معمولی درجہ حرارت کی صُورت سامنے آرہے ہیں۔
فضائی آلودگی اوزون کی تہہ کو بھی متاثر کرتی ہے۔ اوزون کی تہہ زمین کو سورج کی مضر شعاؤں سے محفوظ رکھتی ہے، مگر مختلف صنعتی سرگرمیوں کے دوران گیسز کے اخراج سے یہ تہہ کم زور ہورہی ہے، جس کے نتیجے میں خصوصاً شہری علاقوں میں جِلدی امراض اور آنکھوں کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ پانی کی آلودگی پر کی جانے والی سائنسی تحقیق بتاتی ہے کہ بھاری دھاتیں، مثلاً سیسہ اور پارہ انسانی جسم میں داخل ہو کر گردوں اور جگر کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ یہ زہریلے اجزاء بچّوں کی دماغی نشوونما بھی متاثر کرتے ہیں۔
پاکستان میں ان کی سطح عالمی معیار سے کہیں زیادہ پائی گئی ہے۔مذکورہ تحقیق کے مطابق، کلائمیٹ چینج کے تناظر میں پاکستان دنیا کے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شامل ہے۔ جرمن واچ کی 2020ء کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان 20برس تک دنیا کے دس سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک کی فہرست میں رہا۔
یہ بات صنعتی اخراج اور جنگلات کی کمی کے باہمی تعلق کوبھی ظاہر کرتی ہے۔ مذکورہ سائنسی شواہد واضح کرتے ہیں کہ صنعتی ترقی کے ساتھ ماحولیاتی بگاڑ کو روکنے کے لیے سائنسی تحقیق اور ٹیکنالوجی کا استعمال ناگزیر ہے، بصورتِ دیگر ترقی خود اپنے بوجھ تلے دب جائے گی۔
ماحولیاتی قوانین اور حکمتِ عملی: پاکستان نے ماحولیاتی قوانین کی سمت اگرچہ کچھ پیش رفت تو کی، لیکن یہ عمل سست اور غیر مؤثر رہا۔ 1983ءمیں پہلا انوائرنمنٹ پروٹیکشن آرڈیننس نافذ کیا گیا اور 1997ءمیں انوائرنمنٹ پروٹیکشن ایکٹ نے مزید قانونی بنیاد فراہم کی۔ ان قوانین کا مقصد صنعتی فضلے اور اخراج پر قابو پانا تھا۔
تاہم، عملی میدان میں مذکورہ قوانین پر عمل درآمد نہایت کم زور رہا۔ صنعت کاروں نے اخراج کے معیارات کو اکثر نظرانداز کیا اور حکومتی ادارے اپنی کم زور صلاحیت اور وسائل کی کمی کے باعث خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھا سکے۔ای پی اے جیسے ادارے بھی قائم کیے گئے، مگر یہ مالی وسائل اور ماہر افرادی قوت کی کمی کا شکار رہے۔
نتیجتاً ماحولیاتی تحفّظ صرف کاغذی کارروائی ہی تک محدود رہا۔ادھر،پاکستان نے بین الاقوامی معاہدات یعنی پیرس ایگریمنٹ اور اقوام متحدہ کے پائے دار ترقی کے اہداف پر دستخط تو کیے، مگر ان پر عملی اقدامات بھی ناکافی رہے، جس کے سبب اخراج کم کرنے کے اہداف اب بھی پورے نہیں ہوسکے۔ یہ صورتِ حال ظاہر کرتی ہے کہ قوانین کا نفاذ، عوامی شعور اور صنعت کاروں کی شمولیت کے بغیر ماحولیاتی تحفّظ ممکن نہیں۔ محض کاغذی اقدامات، عملی تبدیلی نہیں لاسکتے۔
پاکستان کی صنعتی ترقی نے گو کہ معیشت کو استحکام دیا، روزگار کے مواقع پیدا کیے اور برآمدات میں اضافہ کیا، مگر اس ترقی کی قیمت ماحولیاتی بگاڑ کی صورت ادا کی گئی۔ فضائی، آبی اور زمینی آلودگی نے صحتِ عامہ، زراعت اور قدرتی وسائل کو نقصان پہنچایا، لہٰذا اب یہ ناگزیر ہوگیا ہے کہ پاکستان ماحول دوست صنعتوں کی طرف قدم بڑھائے۔
گرین ٹیکنالوجی، متبادل توانائی اور ری سائیکلنگ جیسے اقدامات اختیار کیے جائیں۔ دنیا میں کلین پروڈکشن کے اصول کام یابی سے اپنائے جارہے ہیں۔ اس اصول کو ہمارے ملک میں بھی لاگو کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ساتھ ہی، عوامی شعور بے دار کرنے کے ساتھ تعلیم و آگہی کے ذریعے اس سنگین مسئلے کا حل یقینی بنانا بہت ضروری ہے۔
تعلیمی اداروں اور میڈیا کے ذریعے عوام کو یہ احساس دلایا جائے کہ ماحولیاتی تحفّظ ان کی اپنی صحت اور مستقبل کے لیے ناگزیر ہے۔ اس ضمن میں حکومت کو سخت اور مؤثر اقدامات کرنے ہوں گے۔ آلودگی پھیلانے والی صنعتوں پر بھاری جرمانے عائد کرنے کے ساتھ ماحول دوست صنعتوں کو سبسڈی فراہم کی جائے تاکہ خوش گوار ماحول اور تبدیلی ممکن ہو۔
یاد رہے، اگر پاکستان سنجیدگی سے سائنسی بنیادوں پر حکمت ِعملی اپنالے تو نہ صرف صنعتی ترقی برقرار رہے گی، بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک محفوظ اور صحت مند ماحول بھی فراہم کیا جا سکے گا کہ یہی پائیدار ترقی کا راستہ ہے۔