السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
ہمارے لیے کچھ نہیں رکھا تھا!!
’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں رابعہ فاطمہ نے تحریکِ پاکستان میں خواتین کا کردار بہت خُوبی سے اجاگر کیا۔ اِس کردار کو خواتین میں مزید پختہ ہونا چاہیے۔ مدثر اعجاز نے ’’پاکستان کا وجود کیوں ضروری تھا؟‘‘ کے موضوع پرمختصراً، لیکن دلائل سے بھرپور روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر محمّد ریاض علیمی قوم کے نوجوانوں کو شعور وفہم کی آزادی کا سبق دے رہے تھے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں سیّدہ تحسین عابدی نے بھی اچھا مضمون تحریر کیا، لیکن آخر میں پیپلز پارٹی کی ترجمان بن گئیں۔ ڈاکٹر عابد شیروانی نے ڈاکٹر علّامہ اقبالؒ کے دیکھے گئے خواب، قائدِ اعظم کی فراہم کردہ تعبیر پر عُمدہ نگارش قلم بند کی۔
ڈاکٹر قمر عباس کی نظم ’’عزم فولادی‘‘ بھی بہت پسند آئی۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منوّر مرزا نے کوئی اُمید افزا بات نہیں کی۔ منور راجپوت نے قادومکرانی کی ادھوری داستان بیان کی، اگر مکمل تفصیل مل جائے، تو ضرور شائع کی جائے۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ کے حصّہ دوم میں ایک جگہ سیاہی پھیلی ہوئی تھی، جس کی وجہ سے قسط کا مزہ کرکرا ہوگیا۔
عندلیب زہرا نے سبق آموز افسانہ تحریر کیا۔ اقصیٰ منور کا افسانہ بھی خُوب صُورت تھا۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ہمارے لیےکچھ نہیں رکھا تھا۔اگلے شمارے میں، منیراحمد خلیلی نے ایک پُراسرار مذہبی گروہ، دروز سے متعلق آگہی فراہم کی۔ یہ نام پہلی دفعہ سُننے میں آیا۔ ’’ہمارے ادارے‘‘میں منور راجپوت نے ایک بہترین ادارے کا تعارف کروایا۔ منوّرمرزا ٹیکنالوجی کے فضائل بیان کررہے تھے۔
ڈاکٹر یاسمین شیخ نے مختلف قسم کی الرجیز سے آگاہ کیا، سیر حاصل مضمون تھا۔ ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ کا انتخاب لاجواب تھا۔ عمیر محمود نے پاکستان میں درختوں کی کٹائی کی طرف توجّہ دلائی، تو ثاقب عبداللہ نظامی شخصیت پرستی کو ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ تصوّر کرتے ہیں۔ ’’سفرفسانے‘‘ کی آخری قسط کا جواب نہ تھا۔ کلثوم پارس نے اپنے افسانے میں تصویر کا دوسرا رُخ دکھایا۔ اور’’آپ کا صفحہ‘‘ میں اس بار بھی ہمارے لیے کچھ نہیں تھا۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)
ج: کیوں، کچھ نہیں تھا، کیا آپ کے محبوبِ خاص، خادم ملک کا خط بھی نہیں جگمگا رہا تھا یا اب اُس کی جگمگاہٹ بھی ماند پڑگئی ہے۔
اچھے اچھے لکھاری
کافی عرصے بعد حاضری دے رہا ہوں۔ صحت دن بہ دن بگڑرہی ہے۔ آپ کےتمام قلمی معاونین اور دیگراسٹاف کی خدمت میں سلام عرض ہے۔ ایک منظوم تبصرہ حاضرِ خدمت ہے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ بہت دل چسپ ہوتا ہے، کم ازکم خاکسار کو پڑھ کے بہت لُطف آتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ’’سنڈے میگزین‘‘ مقبول ترین جریدہ ہے۔
کبھی اِس میں، ہم بھی شامل ہوا کرتے تھے، مگر اب تو وقت ہی نہیں ملتا۔ اِس کی تحریریں بےحد معلوماتی،رنگارنگ ہیں۔ ویسے رسالے کو کافی اچھے اچھے لکھاری مل گئے ہیں۔ (صدیق فنکار، کلمہ چوک، دھمیال روڈ، عکسری اسٹریٹ، جھاورہ، راول پنڈی کینٹ)
ج: اللہ آپ کو صحت و تن درستی دے۔ آپ کے منظوم تبصرے کو رواں کرنے میں کہیں زیادہ دقت کا سامنا کرنا پڑا۔ سو، براہِ مہربانی شعرو شاعری پرکچھ رحم فرمائیں، نثر ہی پر توجّہ مرکوز رکھیں، تو بہتر ہے۔ دوم، اگر خط لکھتے ہوئےحاشیہ کھینچنے کا تردّد فرما ہی لیا تھا، تو اُسے خالی بھی رہنے دیتے۔ ’’نوٹ‘‘ کے عنوان سے وہاں بھی اتنی فن کاری دکھادی کہ بالآخر صفحے پرحقیقتاً تِل دھرنے کی جگہ نہ چھوڑی۔
اعزازی چِٹھی کی ہیٹ ٹرک
شمارہ موصول ہوا۔ سرِورق پر حجاب میں لپٹی ماڈل بھلی لگی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی نے ربیع الاوّل کی مناسبت سے انتہائی شان دارنگارش تحریر فرمائی۔ بعد از خدا بزرگ توئی، قصّہ مختصر۔ ’’فیچر‘‘ میں رؤف ظفر نے ادویہ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی الم ناک صورتِ حال کی نشان دہی کی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ عوام کی خدمت کے دعوےدار حُکم رانوں کو یہ کُھلا ظلم کیوں نظر نہیں آرہا۔ اپنے علاج معالجے کے لیے توغیرمُلکی اسپتالوں میں جا کر عوامی خزانہ لٹاتے ہیں، مگر عوام کے لیے ذرا دردِدل نہیں رکھتے۔
’’حالات وواقعات‘‘ میں منور مرزا بتا رہےتھے کہ آج دنیا کے بیش تر ممالک معیشت کی بہتری کی تگ و دو ہی میں لگے ہیں۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں عاصمہ عمران نے حجاب سے متعلق اچھی تحریر پیش کی۔ خوشی ہے، آپ کوری لیکس مل گیا، گرچہ آپ کا کوئی نعم البدل نہیں۔ ’’نئی کہانی، نیافسانہ‘‘ میں عرفان جاوید نیلوفراقبال کا افسانہ ’’عورت‘‘ لائے، عُمدہ انتخاب تھا۔ رابعہ فاطمہ نے گریجویٹ بے روزگاروں کا اصل مسئلہ، ہنر کا فقدان قرار دیا۔ زرافشاں فرحین نے مغرب میں حجاب کی بڑھتی مقبولیت کی نوید سُنائی۔
شاید مغربی عورت بھی اب نام نہاد آزادیٔ نسواں کی آڑ میں عریانیت و فحاشی سے بےزار ہو رہی ہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ڈاکٹر عزیزہ انجم اور کرن نعمان کے افسانے عُمدہ، سبق آموز تھے۔ اختر سعیدی نئی کتابوں پر بہترین تبصرے کے ساتھ موجود ملے، تو ہمارے صفحے پر محمّد سلیم راجا کی شگفتہ تحریر نے بہت محظوظ کیا۔ اگلے جریدے کے سرِورق پر پھول جیسے بچّے اپنی معصومیت کےساتھ جلوہ گر تھے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘میں ڈاکٹر حافظ محمد ثانی ’’شانِ وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَک‘‘ کی بہترین تفسیر پیش کررہے تھے۔
سلیم اللہ صدیقی اسٹاک مارکیٹ کی 78 سالہ تاریخ لائے، تو ثانیہ انور ماہِ ستمبر کے اہم تاریخی واقعات، ایام کا تذکرہ خاصی عرق ریزی سے کرتی دکھائی دیں۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں بھی ثانیہ انور کا قلم جولانیاں دِکھارہا تھا۔’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں۔ پروفیسر ڈاکٹر صادق میمن نے ہیپا ٹائٹس جیسے موذی مرض سے آگاہی فراہم کی۔ ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ میں عرفان جاوید کا انتخاب خُوب تھا۔ اور ہمارے صفحے پر راجا کو اعزازی چٹھی کی ہیٹ ٹرک پر مبارکاں۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپورخاص)
ج: ثابت ہوا، راجے مہاراجے کم ازکم اپنے ہوتے تو’’شہزادوں‘‘ کی دال نہیں گلنے دیں گے۔
کڑوی کسیلی باتوں کا شکریہ
؎ جیسے گگن پہ صُبح سویرے پہلی کِرن لہرائے… اس سُرخی کے ساتھ ماڈل پریسا شاہ جلوہ افروز تھی، میگزین کو خوب رُونق بخشی، دُعا ہے کہ ہمیشہ ہنستی مُسکراتی رہے۔اللہ زمانے کی سَردوگرم ہَواؤں سے محفوظ رکھے۔ معصوم سراپے پہ حسین پیراہن خُوب بہار دِکھا رہے تھے۔
کمر پر ہاتھ رکھے کسی دِیس کی شہزادی لگی، ناک کی نتھلی نے مزید چار چاند لگادیئے۔ ’’سَرچشمۂ ہدایت‘‘ کا صفحہ غائب تھا۔ منیر احمد خلیلی کی تحریر ’’دروز، ایک پُراسرار مذہبی گروہ‘‘ کافی معلوماتی تھی۔ عمیر محمود کی تحریر ’’جب ایک درخت کو انصاف مِلا‘‘ بھی عُمدہ تھی۔
ثانیہ انور واقعتاً بہترین قلم کار ہیں اور آپ کی ٹیم میں خوش گواراضافہ بھی۔ منوّر مرزا ایک منجھے ہوئے قلم کار ہیں، جو لکھتے ہیں خُوب لکھتے ہیں۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں، ’’ٹیکنالوجی نے دنیا بدل کے رکھ دی‘‘کے موضوع پر بہترین روشنی ڈالی۔ ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ میں جاوید صدیقی کے افسانے ’’ماٹی کہے کمہار سے‘‘ کا جواب نہ تھا۔
اِس انتخاب پرعرفان جاوید داد کے مستحق ہیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ کا صفحہ غائب تھا،جب کہ کلثوم پارس کی تحریر ’’مجازی خُدا‘‘ میری نظر میں نمبروَن ٹہری۔ اور’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ہمارا خط بھی شامل تھا، تو آپ کی کڑوی، کسیلی باتوں کا شکریہ۔
حیا و حجاب سے گُندھا اگلا شمارہ خُوب مہک رہا تھا۔ ٹائٹل سے سینٹر اسپریڈ اور آپ کا صفحہ تک، ہر تحریر لاجواب تھی۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل، رابعہ فاطمہ، ڈاکٹر عزیزہ انجم، کرن نعمان کس کس کی تحریر کی توصیف کی جائے، جب کہ قرات نقوی کی ای میل بھی جگمگارہی تھی، تسلّی ہوئی۔ ( محمد صفدر خان ساغرؔ، نزد مکی مسجد، محلہ شریف فارم، راہوالی، گوجرانوالہ)
ج: ماڈل کی قصیدہ خوانی پر ’’کڑوی کسیلی‘‘ کی ایک اور ڈوز بنتی تو تھی، مگر خیر جانے دیں۔
تعریفوں کے پُل
سیّدہ تحسین عابدی نے اپنی تحریر میں سندھ حکومت کی تعریفوں کے پُل باندھ دیئے۔ قصور اُن کا بھی نہیں، اُن کی نوکری ایسے ہی پکی ہوگی، مگرآپ کو خیال رکھنا چاہیے۔ ویسے کوئی عابدی صاحبہ سے پوچھے کہ یہ کراچی، ’’کچراچی ‘‘ کیوں بن گیا ہے، گھروں میں پانی کیوں نہیں آتا۔
کراچی کی سڑکیں کیوں برباد ہیں اورہاں’’سنڈے میگزین‘‘میں ذرانوٹ چھاپنے والی مشین پر تو کوئی مضمون شائع کریں کہ اسٹیٹ بینک نوٹ کیسے چھاپتا ہے اور ایک عام آدمی یہ نوٹ کیسے چھاپ سکتا ہے۔ تاکہ ہم بھی گھر بیٹھے ارب پتی ہوسکیں۔ (نواب زادہ بےکار ملک، سعیدآباد، کراچی)
ج: تحسین کی تحریروں میں تو زیادہ تر باتیں ٹھوس دلائل کے ساتھ ہوتی ہیں۔ ہم تو آپ کی اونگیاں بونگیاں بھی ایک زمانے سے شائع کر رہے ہیں۔ اور ہاں، یہ ’’آپ کا صفحہ‘‘ تحسین باقاعدگی سے پڑھتی ہیں، تو سمجھیں، آپ کے اعتراضات اور سوالات اُن تک پہنچ گئے، کوئی جواب ملا، تو وہ بھی آپ کے گوش گزار کردیا جائےگا۔ رہی نوٹ چھاپنے کے طریقے کی بات، تو وہ ایف آئی اے آپ کے گھر آکے آپ خُود سِکھائے گی۔
منفرد لکھاری، عُمدہ بات چیت
’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں خاص موضوعات پر قلم اٹھانے والے خاص لکھاری منیر احمد خلیلی پُراسرار مذہبی گروہ ’’دروز‘‘ کو زیرِ قلم لائے کہ یہ لوگ نہ تو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، نہ یہودی، نہ عیسائی کہلانا پسند کرتے ہیں۔ یعنی حقیقت میں بس سانس لینے والی مخلوق ہے۔ جو اپنےخالق کوسجدہ نہ کرے، بھلا اُس میں اور جانور میں کیا فرق ہے۔ سرکاری افسران کی تربیت میں اہم کردار ادا کرنے والا ادارہ ’’نیپا‘‘ اپنے موجودہ ڈائریکٹر جنرل، ڈاکٹر سید سیف الرحمان کے زیرِ سرپرستی ترقی و کام یابی کی منازل طے کر رہا ہے، جان کر بےحد خوشی ہوئی۔
منفرد لکھاری، منور راجپوت کی ڈاکٹر سیف الرحمان سے بات چیت بہت مفید ثابت ہوئی۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں، دنیا پرگہری نظر رکھنے والے قلم کار منور مرزا ’’ٹیکنالوجی نے دنیا بدل کے رکھ دی‘‘ کے عنوان تلے یہ باور کروا گئے کہ ٹیکنالوجی ہی دنیا کی ڈرائیونگ فورس ہے۔ اب جنگیں زمین پرنہیں، فضاؤں میں لڑی جارہی ہیں۔
ڈاکٹر یاسمین شیخ ’’بھانت بھانت کی الرجیز‘‘ کے عنوان سے یہ سمجھا رہی تھیں کہ اپنے شوق بےشک پورے کریں، مگر احتیاط بھی لازم ہے۔ ثانیہ انور ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پر بھی چھا گئیں، واہ بھئی۔ ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ میں عرفان جاوید کا مرتّب کردہ جاوید صدیقی کا افسانہ’’ماٹی کہے کمہار سے‘‘ کی کیا ہی بات ہے۔
’’جب ایک درخت کو انصاف ملا‘‘اور’’شخصیت پرستی‘‘ اچھے مضامین تھے، جب کہ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ’’سفر فسانے: تین بھائی ’’پیرو‘‘ میں‘‘ ایسا شان دارسفرنامہ تھا کہ جو مدتوں یاد رہے گا۔ کلثوم پارس کا فن پارہ ’’مجازی خدا‘‘ بہت خُوب تھا، ’’نغمۂ یومِ آزادی‘‘ بھی پسند آیا اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ اس بار رانا محمد شاہد کے نام رہا۔ بہت خوب بھئی۔ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈّو، میرپور خاص)
فی امان اللہ
اگست کا پہلا شمارہ حاصل نہ ہوسکا، چناں چہ لائبریری سے پڑھا اور وہیں بیٹھ کر تبصرہ بھی لکھ رہا ہوں۔ منیر احمد خلیلی ’’مسلم اندلس اور یہودی‘‘ میں یہودیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے متعلق بتارہے تھے۔ یہودی، ہٹلر کے ظلم کو ’’ہولوکاسٹ‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ مگر تقریباً دو سال سے وہ خُود فلسطین کے مظلوم، نہتّے عوام کے ساتھ جو سلوک روا رکھے ہوئے ہیں، اُس سے بڑاالمیہ تو کوئی ہوہی نہیں سکتا۔ ڈاکٹر عبدالستار عباسی زندگی کی بےثباتی، خسارے پردل چسپ تحریر لائے۔
قرآنِ ہدایت میں خالق نےخُود انسان سے متعلق فرمایا کہ’’انسان خسارے میں ہے۔‘‘سیّدہ تحسین عابدی نے حالیہ روُح فرسا واقعے کے تناظر میں لرزہ خیز قبائلی رسوم پر عُمدہ انداز سے لکھا۔ کُتب خانوں کی حالت آج کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں۔ تاہم، بہادریار جنگ اکادمی کتب خانے سے متعلق پڑھ کر اچھا لگا کہ وہاں 40 ہزارسے زائد نادر و نایاب کتابیں موجود ہیں۔
ہمارے شہر کی سرکاری لائبریری (جہاں بیٹھ کر خط لکھ رہاہوں) خُوب صُورت تو بنادی گئی ہے، مگر نئی کتابیں لانے، پرانی سنبھالنے کا کوئی انتظام نہیں۔ اس دفعہ کا’’سینٹر اسپریڈ‘‘ تتلیوں کی مانند رنگ برنگ تھا۔ عرفان جاوید کا انتخاب، اختررضا سلیمی کا افسانہ ’’ایک کہانی، جو لکھی نہ جاسکی‘‘ بہت متاثر کُن تھا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں ڈاکٹر عزیزہ انجم کا موضوع ’’جدیدیت کی چاہ اور اکیلے پن کا عذاب‘‘بھی خاصادل گرفتہ کرگیا۔
اگلے جریدے کے سرِورق کا منظر تو صُبح سویرے ہی کاتھا، مگر ماڈل کہیں سے بھی صُبح کی پہلی کرن کی مانند نہ لگی۔ منیر احمد خلیلی کے موضوعات شان دار ہوتے ہیں۔ اس دفعہ وہ ایک پُراسرار مذہبی گروہ ’’دروز‘‘ کی حقیقت سےآگاہ کررہے تھے۔ ’’نیپا‘‘ ’’پرمنور راجپوت نے انتہائی معلوماتی تحریر پیش کی۔ منور مرزا نے بھی ٹیکنالوجی کی بدلتی روایات پردل چسپ انداز سے لکھا۔
ڈاکٹر یاسمین شیخ نے مختلف الرجیز سے متعلق بیش قیمت معلومات فراہم کیں۔ ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ میں’’ماٹی کہےکمہار سے‘‘ بھارتی مصنف جاوید صدیقی کا ایک کلاسیک افسانہ تھا۔ انوکھے کرداروں اور مخصوص بولیوں نے افسانے کو شاہ کار بنادیا۔ ’’جب ایک درخت کوانصاف ملا‘‘ اور ثاقب عبداللہ نظامی کا ’’شخصیت پرستی‘‘ بھی منفرد موضوعات لگے۔
’’ڈائجسٹ‘‘ پر کلثوم پارس نے’’مجازی خدا‘‘میں عمیق باتیں لکھیں۔ اس ہفتے، ’’اِس ہفتےکی چٹھی‘‘ میرےتین خطوط پر مشتمل تھی۔ کیا ایسا خطوط کی زیادہ تعداد کے پیشِ نظر ہورہاہے۔ ویسے تین، تین خطوط کے مکسچر کے بعد اس کا ذائقہ’’شکار پوری اچار‘‘ جیسا ہوگیا کہ جس کی شہرت تو بہت ہے، مگر ذائقہ کچھ نہیں۔ (رانا محمد شاہد، گلستان کالونی، بورے والا)
ج: آج دو خطوط کا مکسچر ہے، امید ہے، ذائقہ کچھ بہتر معلوم ہوا ہوگا۔
* مَیں ’’سنڈے میگزین‘‘ کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتی ہوں اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ تو جریدے کی جان ہے۔ آپ بہت اچھے طریقے سے خطوط کے جوابات دیتی ہیں اور یوں خط لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
میرا ایک مختصر سا آرٹیکل شائع کرنے کا بہت شکریہ۔ یقیناً باقی تحریروں کی باری بھی آجائے گی۔ میرے تین ناول، بہت سے افسانے، کہانیاں مختلف میگزینز میں شائع ہوچکے ہیں۔ سنڈے میگزین میں ناول شایع کروانے کی خواہش ہو تو مکمل ناول بھیجنا ہوگا یا قسطوں میں؟ (نسرین اختر نینا، اسلام آباد)
ج: مکمل۔
* آپ کا میگزین اچھا جا رہا ہے، مجھے یہ پڑھ کر خوشی ہوئی کہ آپ کو یاد تھا کہ مَیں پہلے بھی آپ سے انٹرویو کی فرمایش کرچُکی ہوں۔ چلیں خیر، یہ بتا دیں، نیا ناول کب شروع کر رہی ہیں؟ (افشاں حسن،مصطفیٰ ٹاؤن، لاہور)
ج: فی الحال تو ایسا کوئی ارادہ نہیں۔
* ایڈیٹر، اور سب لکھاریوں کو محبت بھرا سلام ۔ خیر سے آپ نے میری دوسری تحریر بھی ردی کی ٹوکری میں میں ڈال دی، لیکن کوئی بات نہیں۔ ہم بھی ہار ماننے والے نہیں۔ یہ ٹھان لیا ہے کہ تحریر سنڈے میگزین میں چھپوا کر ہی رہیں گے۔ شمارے میں دعا عظیمی کی کہانی ’’ہم زاد‘‘ پسند آئی۔
نئی کتابوں پر تبصرہ اچھا لگا، مگر بعض کتابوں کی قیمت کچھ زیادہ تھی خطوط اور ای میل کے جوابات ہمیشہ کی طرح اچھے انداز میں دیئے گئے، اس پر آپ کو اکیس توپوں کی سلامی دی جاتی ہے۔ ایک کہانی بھیج رہا ہوں، اس امید پر کہ اب کی بار جریدے کی زینت بنانے کے قابل لگے گی۔ (مجاہد لغاری، گاؤں قاضی نورمحمد لغاری، ضلع ٹنڈوالہیار)
ج: سلامی قبول کی، لیکن کہانی زینت بنانے کے قابل ہوتی، تو اب تک بن گئی ہوتی۔
* جنگ اخبار کا پرانا قاری ہوں، اتنا پرانا کہ اب سر پر بال بھی نہیں رہے، مگر مجال ہے کہ سنڈے میگزین والوں نے آج تک میرے ای میل کو جگہ دی ہو۔ (ثناءاللہ سید، اسلام آباد)
ج:سر کے بال غلط بیانی کرنے سے تو نہیں جھڑ گئے؟؟ کچھ تو اللہ کا خوف کریں، قارئین گواہ ہیں کہ اِس سے قبل بھی آپ کی کئی ای میلز شایع ہو چُکی ہیں۔
قارئینِ کرام کے نام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk