• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

کچھ باتوں سے اختلاف

’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی نے روشنی کےایک اور مینار حضرت عیاّشؓ بن ابی ربعیہ کے حالاتِ زندگی نہایت عُمدگی سے گوش گزار کیے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا سوشل میڈیا سے متعلق رقم طراز تھے۔ ایک بہترین تجزیہ پڑھنے کو ملا۔ ’’رپورٹ‘‘ میں ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے نیلم کی حسین وادی میں گزارے چند ایام کی رُوداد پیش کی۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں منور راجپوت نے ڈاکٹر افتخار احمد سے بہت ہی مفید اور معلوماتی گفتگو کی۔ ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ اس بار کچھ خاص پسند نہیں آیا۔ 

ارسلان اللہ خان، ڈاکٹر ریاض، میمونہ ہارون کے مضامین کافی فکر انگیز تھے۔ حمیرا اسلم نے دہی بڑوں کی کہانی دل چسپ انداز سے بیان کی۔ اقصیٰ منور ملک کا افسانہ سبق آموز تھا اور’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ہماراخط شامل نہیں کیا گیا۔

اگلے شمارے میں منیر احمد خلیلی نے مسلم اندلس کے سقوط سے متعلق چشم کُشا تحریر پیش کی۔ ثانیہ انور کے ’’سنڈے اسپیشل‘‘ کا جواب نہ تھا۔ سیّدہ تحسین عابدی کے مضمون کی کچھ باتوں سے اختلاف ہے، جب کہ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ڈاکٹر طاہر نقوی کا ’’تین بھائی ’’پیرو‘‘ میں‘‘ کاحصّہ اول انتہائی دل چسپ ثابت ہوا، عمیر محمود کا مضمون معلوماتی تھا۔ 

سیّد محمّد ذکی اور فیصل قاسم قریشی کے مضامین بھی معلومات افزا تھے۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں ڈاکٹر عزیزہ انجم اکیلے پن کے عذاب کے موضوع پرعُمدہ تحریر لائیں اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں نہ صرف ہمارا، خادم ملک کا خط بھی جگمگا رہا تھا، بےحد شکریہ۔ (سید زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)

سارا سال ہڑبونگ، افراتفری

یومِ آزادی ایڈیشن کے سرِورق پر قائدِاعظم محمّد علی جناح کی تصویر لگا دیتیں، تو بہتر ہوتا۔ تحریکِ پاکستان میں خواتین کے بےمثال کردار پر مضمون لاجواب تھا۔ ہاں رہی بات، طوفانِ بدتمیزی کی، تو اِس مُلک میں صرف جشنِ آزادی کے موقعے پر ہی نہیں، سارا سال ہی ایک ہڑبونگ، افراتفری کا سا سماں رہتا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ لاقانونیت ہے۔ 

’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا کا تجزیہ سو فی صد درست تھا۔ نیا سلسلہ ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ بہت پسند آیا، خصوصاً امجد طفیل کے ’’کج مدار‘‘ میں مختلف معاشرتی رویوں کی نشان دہی بہت عُمدگی سے کی گئی۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کا افسانہ اچھا تھا، مگرسب لوگ ماسٹر عبدالعلی جیسے نہیں ہوتے اور’’آپ کا صفحہ‘‘ میں عائشہ ناصر کا خط بہت ہی عُمدہ تھا۔ (سعید احمد خانزادہ، سکرنڈ، ضلع شہید بےنظیرآباد)

ج: آپ لوگوں سے ایک بار پھر دست بستہ التماس ہے کہ جریدے کے مندرجات پر تبصرے ہی کی کوشش فرمایا کریں۔ یہ جو بلاوجہ کی بقراطیت اور فلسفہ شروع ہوجاتا ہے اور پھر خط، خط نہیں رہتا، ایک گنجلک نامہ بن جاتا ہے، تو اِن گھمّن گھیریوں سے نبرد آزما ہونے کی فرصت یہاں کسی کے پاس نہیں۔ آپ کاخط80 فی صد اِسی لیے ایڈٹ کیا گیا کہ پڑھتے سمے محسوس ہورہا تھا، جیسے ہم میں سقراط کی رُوح حلول کرگئی ہے، تو قارئین کا تو نہ جانے کیا ہی حال ہوتا۔

والدِ محترم کے سچّے واقعات

آپ کی انتہائی مہربانی، ذرّہ نوازی ہے۔ آپ کے الفاظ میرے اہلِ خانہ کے لیے بھی کس قدر اہمیت کے حامل ہیں، بیان کرنا ناممکن ہے۔ میرے پاس تو ایسے قیمتی الفاظ ہی نہیں، جن سےشکریہ ادا کیاجاسکے۔ بندۂ ناچیز کے دوسرے خط نے’’اِس ہفتے کی چِٹھی‘‘ کا اعزازحاصل کیا، یقین کیجیے، حوصلہ افزائی نے میرا سر فخر سے اونچا کر دیا۔ اللہ کریم کے فضل و کرم کے بعد آپ کی وجہ سے اس راستے پرچل پڑا، یعنی لکھنے لکھانے کی طرف مائل ہوگیا ہوں۔ 

آپ کی یہ نصیحت کہ ’’محض خط لکھتے وقت احتیاط کا دامن تھامے رکھنے کے ساتھ عمومی زندگی میں بھی احتیاط سے کام لیتے رہیے گا۔‘‘ میرے لیے زندگی بھر کا مختصر اور جامع ترین سبق ہے، جسے مَیں نے پلے باندھ لیا ہے۔ اللہ رب العزت استقامت عطا فرمائے۔ آپ نے قارئین میں سے کسی کو مشورہ دیا تھا کہ اگر آپ کو خط لکھنا نہیں آتا تو ’’آپ کاصفحہ‘‘ پر جو لوگ لکھتے ہیں، اُن کے خطوط کا بغور مطالعہ کریں، لہٰذا مَیں نے بھی چند دست یاب جرائد میں ’’آپ کا صفحہ‘‘ کا مطالعہ کیا، خصوصاً مجھے محمد سلیم راجا اور شائستہ اظہر کے خطوط نہایت دل چسپ معلوم ہوئے۔ 

خیر، رواں ہفتے کےجریدے میں، مجھے نبیل قریشی کا ’’ٹائم مینجمینٹ‘‘ سے متعلق مضمون بہت پسند آیا کہ وہ میرے لیے بے حد مفید ثابت ہوا۔ سچ ہے، ہر وقت کے لیے کوئی کام اورہرکام کا کوئی وقت ہوتا ہے۔ سیّدہ تحسین عابدی کے تحقیقی مضامین بھی خُوب پڑھے جا رہے ہیں۔ سلیم اللہ صدیقی کی تحریر سے ’’سندھ طاس معاہدے‘‘ کی اصل حقیقت آشکار ہوئی، تو پروفیسر حکیم ریاض کا کدّو سے متعلق معلومات مضمون پڑھ کربہت اچھا لگا۔ 

چیونٹی پر مضمون کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک چھوٹی سی چیونٹی میں بھی کیا کیا خواص یک جا کر رکھے ہیں۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ واقعات ’’آخری ہجرت‘‘اور’’وے ویرا! مینوں لے چل‘‘ نے تو رُلا کے رکھ دیا۔ دُعا ہے کہ رب العزت آپ اور آپ کی ٹیم کو صحت و عافیت اور سُکونِ قلب سے مزیّن لمبی زندگی عطا فرمائے۔ 

آخر میں ایک گزارش کہ میرے والدِ محترم اکثر اوقات اپنے دَور کے سچّے واقعات ہم بہن، بھائیوں کو سُناتے رہتے ہیں، تو کیا میں اُن سے سُنے واقعات اپنی ٹوٹی پھوٹی تحریر میں لکھ کرآپ کی خدمت میں ارسال کر سکتا ہوں اورکیا وہ میرے والد کےنام سے شائع ہوجائیں گے۔ (حافظ عمرعبدالرحمٰن ڈار، ہرن مینار روڈ، شیخو پورہ)

ج: جی بالکل۔ آپ ارسال بھی کرسکتے ہیں اور قابلِ اشاعت ہونے کی صُورت میں جس نام سے بھیجےجائیں گے، اُسی نام سے شائع بھی ہوجائیں گے۔

آہ! وہ بھی کیا دَور تھا!!

بچپن سے جنگ اخبار کا مطالعہ کرتے چلے آرہےہیں اورایک طویل مدت سےسنڈے میگزین کامطالعہ بھی جاری وساری ہے۔ مَیں جب گاؤں ہتھونگو میں رہتا تھا، خاص طور پر اتوار کا جنگ اخبار خریدنے کے لیے کھپرو آتا اور پھر جریدہ بڑے شوق اور چاہ سے پڑھتا تھا۔ تب اِس میں سچّی کہانیاں، نیٹ بیتیاں پڑھنے کو مِلا کرتیں۔ آہ! وہ بھی کیا دَور تھا۔

خیر، 31 اگست 2025ء کے سنڈے میگزین کے ٹائٹل پر خُوب صُورت ملبوسات پہنے کچھ بچّے جلوہ گرتھے۔ منیر احمد خلیلی کے مضمون ’’تیونس، تیسری آمریت کے شکنجے میں‘‘ پڑھ کر تیونس سے متعلق معلومات میں سیر حاصل اضافہ ہوا۔ پاکستان میں اسٹاک مارکیٹ کے78 سال پر مبنی ’’رپورٹ‘‘ اچھی لگی۔ 

ماہِ ستمبر کے اہم تاریخی واقعات، عالمی ایام کا تذکرہ بہترین تھا۔ ’’ٹرمپ، پیوٹن ملاقات‘‘ کا عُمدہ تجزیہ کیا گیا۔ ’’تیز بارش میں ہونے والا واقعہ‘‘ کی پہلی قسط کا جواب نہ تھا۔ ’’نئی کتابیں‘‘ میں اختر سعیدی عُمدگی سے تبصرہ فرما رہے تھے۔ فون نمبرز کی اشاعت کا سلسلہ شروع کرکے تو آپ نے بہت ہی اچھا کام کیا ہے اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں پرنس افضل شاہین کا نام نظر نہیں آیا، حالاں کہ وہ تو مستقل نامہ نگار ہیں۔ (امریش کمار کھتری، چنیسر گوٹھ، کراچی)

ج: ’’آپ کا صفحہ‘‘ کا مستقل نامہ نگار تو کوئی بھی نہیں ہے۔ ہاں، کچھ خطوط نگار باقاعدگی سے خط ضرور لکھتے ہیں، لیکن اُن کے خطوط بھی ہر ہفتے ہی شائع ہوں، یہ لازم نہیں کہ میرٹ کے بعد ہمارا اولین اصول ’’First come, first served‘‘ ہے۔

بچّہ پارٹی کا قبضہ

تازہ سنڈے میگزین کے ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں منیر احمد خلیلی نے تیونس کے حالات پر بہترین مضمون تحریر کیا۔ سرِورق پر تو ’’بچّہ پارٹی‘‘ کا قبضہ تھا۔ ویسے آپ کا انتخاب اچھا تھا، تبدیلی بہت خوش گوار محسوس ہوئی۔ عرفان جاوید کی ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ میں ہمارے آبائی شہر شکارپور کا ذکر آیا، تو پڑھ کے بہت اچھا محسوس ہوا۔ ’’نئی کتابیں‘‘ میں اختر سعیدی نے ساری شعروشاعری ہی کی کتابوں پر تبصرہ فرما دیا۔ سلیم راجا کے آمد پر کیا کہیں کہ آپ نے بہت خوش دلی سے خیر مقدم کر کے سب کی ترجمانی کردی۔ ( رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج: ویسے ’’تبدیلی‘‘ ایسی ہی ہونی چاہیے، جو قلب ونظر کو بھلی محسوس ہو، نہ کہ بارِگراں۔

سالم بندہ غائب ہوجاتا ہے

ٹائٹل پر ایک معصُوم، مظلوم سی دوشیزہ دیکھ کر ہنسی آگئی، لیکن اندرونی صفحات پر اُسی پہ ’’مولاجٹ‘‘ کا سا گمان ہوا۔ ’’نیپا‘‘، جہاں مُلک کا مستقبل تعمیر ہوتا ہے، پڑھا۔ لیکن بیش تر باتیں کتابی سی معلوم ہوئیں کہ جب ان سرکاری افسران سے رابطہ پڑتا ہے تو ’’دُور کے ڈھول سہانے‘‘ ہی معلوم ہوتے ہیں۔ بالکل درست کہا منوّر مرزا نے ’’ٹیکنالوجی نے دنیا بدل دی ہے‘‘ عرفان جاوید کا انتخاب ’’ماٹی کہے کمہار سے‘‘ کیا ہی شان دار، منفرد و دل کش افسانہ تھا۔ 

عمیر محمود درختوں کی اہمیت بیان کررہے تھے۔ برطانیہ میں ایک درخت کٹنے پر قوم سوگوار ہوئی، ملزم کو 4 سال قید سنائی گئی، ہمارے یہاں تو سالم بندہ غائب ہوجاتا ہےاور پتا نہیں چلتا کہ زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ اور ’’آپ کاصفحہ‘‘ میں تو اِس ہفتے حافظ عبدالرحمٰن، ایمن علی منصور، صفدرخان اور راؤمحمّد شاہد ہی کےخطوط چھائے ہوئے تھے۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، تحصیل کوٹ ادّو، ضلع مظفّرگڑھ)

ج:  مغرب میں بھی اِس قسم کی ڈرامے بازیاں، تام جھام (درخت کاٹنےپرسزا) ہی زیادہ ہوتا ہے۔ ’’انسانیت‘‘ ہرجگہ ہی عُنقا ہے۔

رونگٹے کھڑے کردیئے

اس ہفتے سنڈے میگزین کے آرٹیکلز ’’تحریکِ پاکستان میں خواتین کا کردار‘‘، ’’پاکستان زندہ باد، پائندہ باد‘‘، ’’پاکستان کا قیام ناگزیر تھا‘‘، ’’ڈاکٹرعلاّمہ محمّداقبال:پاکستان کےمفکر، مُبشر اور مجوّز‘‘ اور ’’قارو مکرانی: تحریکِ آزادی کا بھولا بسرا ہیرو‘‘ منفرد و بےمثال تھے۔ 

علاوہ ازیں، زبیرانصاری کی تحریر’’اساتذہ کی تعظیم و احترام اور ہائی پیشیا آف اسکندریہ کا قتل‘‘ نے تو رونگٹے کھڑے کر دیئے۔ واقعتاً جس معاشرےمیں اساتذہ کی تذلیل ہو، وہ کبھی تعمیر و ترقی کی منزل نہیں پاسکتا۔ 

آج کے دَورکا ایک بڑا المیہ ہی ہےکہ طلبہ، والدین کے ہاتھوں اساتذہ کی عزّت محفوظ ہیں۔ مزید براں، ’’کج مدار‘‘ اور ’’سفرفسانے‘‘ سمیت ’’وعدہ ‘‘ بہت ہی اچھی تحریریں تھیں۔ (بابرسلیم خان، سلامت پورہ، لاہور)

ج: بجا فرمایا۔

      فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

آزادی کے رنگ، رسالۂ جنگ کے سنگ، ’’یومِ آزادی ایڈیشن‘‘ پیشِ نظر ہے۔ جذبۂ حب الوطنی سے سرشار، راجا پاکستانی نے، رسالے کے جھومر ’’سنڈے اسپیشل‘‘ سے آغازِ مطالعہ کیا، جہاں ماضی کی بہادر مسلم خواتین کی داستانِ جرأت سے قوم کی بیٹیوں کوسبقِ حریّت دیا گیا۔ ’’نئے دنوں کی مسافتوں کو اُجالنا ہے…وفا سے آسودہ ساعتوں کو سنبھالنا ہے۔‘‘ ہمارے فیصل آباد میں خاتون کمشنر(مریم خان)نےروڈز کنارے مجاہدینِ آزادی سے متعلق معلوماتی فلیکسِز آویزاں کروا کے انڈی پینڈس ڈے سیلیبریشنز کی اِک منفرد و قابلِ ستائش روایت کا آغاز کیا۔ 

’’یومِ آزادی ایڈیشن‘‘ کی بِندیا ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں قوم کے بزرگوں کو یُوں خراجِ  عقیدت پیش کیا گیا کہ ’’اِن کی بنیاد رکھی ریاستِ پاکستان، تمام تر آزمائشوں کے باوجود مسلسل آگے بڑھ رہی ہے۔‘‘ ارواحِ اسلاف ہم سے آرزو مند ہیں، ’’اُمید، صُبحِ جمال رکھنا، خیال رکھنا… چلو مِلا کر قدم قدم سے، خیال رکھنا‘‘ ’’پاکستان کا قیام کیوں نا گزیر تھا؟‘‘ صاحبِ مضمون نے قارئین کے پیشںِ نظر یہ نکتہ رکھا۔ اور قائدِ اعظم اور مہاتما گاندھی کی آمنےسامنے تصاویر لگاکر باور کروا دیا کہ ’’اسلام vs ہندوازم‘‘، قلعۂ اسلام عطا کرنے پر ہم بابائے قوم کے ممنون ہیں۔

’’یُوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران…اے قائدِاعظم!تیرااحسان ہے ، تیرا احسان‘‘۔ یومِ آزادی کی خوش گوارساعتوں کو یادگار بناتے ہوئے ’’جشنِ آزادی ایڈیشن‘‘میں نسلِ نو کو شرافت و وقار کے ساتھ دِن منانے کی پیار بَھری نصیحت کی گئی، جس پراقبال کے شاہینوں کایُوں ریسپانس ہونا چاہیے۔ ’’ہم تیرے رکھوالے، ہم تیرے رکھوالے…پاک وطن ہم تیرے بیٹے، تیری گود کےپالے‘‘ اوراگلے صفحے پرمصورِ پاکستان کی تصویرسفید چاند، سبز دوات اور ہلالی پرچم کے جھرمٹ میں رشکِ قمرتھی۔ 

اس کشمیری مجاہد سے متعلق فقط اتنا کہیں گے۔ یاد کرتا ہے زمانہ اُنہی انسانوں کو…روک لیتے ہیں جو بڑھتے ہوئے طوفانوں کو۔‘‘ Jewel of Mukran قادو مکرانی کی داستانِ شجاعت شائع کرکے آزادی کی گھڑیوں کو اَن مول کردیا گیا۔

’’سینٹر اسپریڈ‘‘کااسٹائلش گل دستہ بھی سبزوسفید رنگوں سے مرصّع تھا، جِس کے گرد قومی رنگوں سے رنگی پریاں دیکھ کر قلبِ سلیم بھی مُترنِّم ہوا، ’’ہردل کی آواز…پاکستان زندہ باد، پاکستان زندہ باد، پاکستان زندہ باد۔‘‘ اقصیٰ ملک نے اپنے افسانے سےجذبۂ حُبّ الوطنی کودوام بخشا۔ جب کہ ایورگرین سلسلے ’’حالات و واقعات‘‘ میں  عالمی مخبر،منورمرزانے،پانسا پلٹتی بساطِ عالم، کے تناظرمیں، ہم وطنوں کواپنی اداؤں پرغور کا صائب مشورہ دیا۔ 

اسلام کے نام لیوا پانچ درجن بھرمسلم ممالک کویک جان ویک آواز ہونا چاہیے،’’ہم مصطفویؐ مصطفویؐ مصطفویؐ ہیں‘‘ جامِ جشنِ آزادی میں، ڈاکٹر قمر عباس نے کلامِ شیریں گھول کر، لُطفِ مطالعہ دوآتشہ کیا۔ اورمَری کی حسین وادی میں قلمائے گئے شاہ کارافسانے’’کج مدار‘‘ (مدوّن :عرفان جاوید) کے کرداروں کاموضوع دُعا (برف باری)یک ساں تھا، تاہم حرفِ دُعا مختلف۔ 

ڈاکٹر طاہر نقوی جیسے سیلانی بابو، پردیس میں ’’سافٹ پاکستان‘‘ کے بیوٹی فُل اِمیجر ہیں، ویل ڈن! قرطاسی ملاقات کی آخری گھڑی میں، ’’آپ کا صفحہ‘‘ کے سب ہم راہی، شان دار’’آزادی گفٹ‘‘ ملنے پر ہم آہنگ ہیں؎ بس اتنا کہنے آئے ہیں…شکریہ پاکستان، پاکستان،شکریہ…مُسکر اپاکستان، پاکستان مُسکرا۔ (محمّد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)

ج: ہمیشہ کی طرح بہت ہی خُوب۔

گوشہ برقی خطوط

* آپ لوگ عید کے دن بھی کام کرتے ہیں کیا، تب ہی تو سنڈے میگزین کا آج تک کبھی کوئی ناغہ نہیں ہوا۔ (صاعقہ سبحان)

ج: متوقع چُھٹیوں کا شیڈول ذہن میں رکھ کے ایڈوانس کام کر لیا جاتا ہے۔ تعطیلات ہم بھی فیملیز کے ساتھ ہی گزارتے ہیں۔

* آپ نے میرے تین آرٹیکلز شائع کیے، جن کے لیے بہت ممنون ہوں، لیکن متعدد تحریریں آپ کے معیار پر پوری نہیں اُتر پائیں، جس کا افسوس ہے۔ میری ایک درخواست ہے، اگر ناقابلِ اشاعت کی فہرست شایع کرنے کے بجائے ہر لکھاری کو انفرادی طور پر اُس کی تحریروں سے متعلق آگاہ کردیا جائے تو زیادہ بہتر رہے گا، اِس طرح کسی کی دل شکنی نہیں ہوگی۔ دوسری بات یہ کہ آپ کے ہاں تحریر شایع کرنے کا پیمانہ کیا ہے۔ اب اگر مَیں ’’ڈائجسٹ‘‘ کے لیے چند ایک تحریریں بھیجوں توکیا وہ قابلِ غور ہوں گی۔ (طوبٰی سعید، لاہور)

ج: انفرادی طور پر آگاہ کرنا تو کسی صُورت ممکن نہیں۔ اگرآپ چاہتی ہیں کہ آپ کا نام فہرست میں شامل نہ کیا جائے، تو وہ نہیں کیا جائےگا، تحریر شایع ہوگئی تو ٹھیک، وگرنہ خُود ہی سمجھ لیجیے گا کہ ناقابلِ اشاعت تھی۔ اور اگر تین تحریروں کی اشاعت کے بعد بھی آپ کو پیمانے کا اندازہ نہیں ہوسکا، تو بتانے سے بھی نہیں ہوسکتا۔

* ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں اپناخط دیکھا، بہت خوشی ہوئی۔ آپ کو ایک تحریر ارسال کررہی ہوں، جو گھر گھر کے حالات کی منظر کشی کر رہی ہے کہ آج کل ہر بچّہ، بڑا موبائل فون ہی پر نظریں جمائے دکھائی دیتا ہے۔ ’’فیملی ٹائم‘‘ کا تصور ہی ختم ہوگیا ہے۔ معیار کے مطابق ہو تو شایع کر دیجیے گا۔ (شائستہ عابد، لاہور)

ج: جی ضرور۔

* الحمدُللہ، سنڈے میگزین تاحال اپنی روایات برقراررکھے ہوئے ہے۔ اللہ تعالیٰ جریدہ پڑھنے اور اِس کے سب لکھنے والوں کو ہمیشہ سچ لکھنے اور سُننے کی توفیق عطا فرمائے۔ (خضر حیات، احمد پورلمہ)

قارئینِ کرام کے نام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk

سنڈے میگزین سے مزید