• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے، جو کاربن کا کم سے کم اخراج کرتے ہیں، لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سب سے زیادہ بُھگت رہے ہیں۔ ترقّی یافتہ ممالک نے صنعتی ترقّی کے دَوران اربوں ٹن کاربن خارج کیا، جس کے نتیجے میں عالمی درجۂ حرارت میں اضافہ ہوا، گلیشیئرز تیز رفتاری سے پگھلے، سطحِ سمندر بلند ہوئی، طوفان، سیلاب آئے اور شدید گرمی کی لہریں پیدا ہوئیں، جب کہ ترقّی پذیر ممالک، جن میں پاکستان سرِ فہرست ہے، اس کا سب سے زیادہ بوجھ برداشت کر رہے ہیں۔

گزشتہ چند دہائیوں میں پاکستان میں قدرتی آفات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ 2010ء ،2015 ء اور2022 ء کے سیلابوں سے لاکھوں افراد متاثر ہوئے، ہزاروں جانیں گئیں اور اربوں روپے کا نقصان ہوا اور یہ صرف مالی نقصان نہیں تھا بلکہ انسانی زندگیوں اور بنیادی ڈھانچے پر بھی بدترین اثرات مرتّب ہوئے۔

شدید گرمی اور خشک سالی نے زرعی پیداوار کو نقصان پہنچایا، پانی کی قلّت ہوئی اور معیشت بُری طرح متاثر ہوئی۔ ترقّی پذیر ممالک کے پاس ایسی مالی اور تیکنیکی صلاحیت بھی نہیں کہ وہ ہر آفت کے بعد فوری بحالی ممکن بنائیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ اثرات اُن کے لیے زیادہ سنگین ثابت ہوتے ہیں۔

پاکستان کا عالمی فورمز پر واضح مؤقف ہے کہ ترقّی یافتہ ممالک کاربن اخراج کی ذمّے داری قبول کرنے کے ساتھ، ترقّی پذیر ممالک کو مالی اور تیکنیکی امداد فراہم کرہیں۔ کوپ- 27 اور دیگر بین الاقوامی اجلاسوں میں پاکستانی قیادت نے زور دیا کہ یہ امداد نہ صرف مالی، بلکہ عملی طور پر ترقّی پذیر ممالک کے لیے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کم کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔ خاص طور پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین، بلاول بھٹّو زرداری نے عالمی فورمز پر پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان جیسے ممالک نے سب سے کم کاربن خارج کی، لیکن سب سے زیادہ نقصان برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔

پاکستان کے عام شہری، کسان اور کاروباری طبقے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا براہِ راست سامنا کر رہے ہیں۔ سیلابوں سے فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں، کھیت پانی میں ڈوب جاتے ہیں، لاکھوں افراد بے گھر ہو جاتے ہیں، شہری علاقے پانی اور بجلی کی کمی کے شکار ہیں۔ پاکستانی حکومت نے اِس مسئلے کے حل کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں، خاص طور پر سندھ حکومت نے پانی کے مؤثر انتظام، پائے دار زرعی امور اور متبادل توانائی کے ذرائع پر توجّہ دی ہے۔ 

عالمی سطح پر بھی پاکستان مسلسل اپنی پوزیشن واضح کر رہا ہے کہ ترقّی پذیر ممالک کو موسمیاتی انصاف کے تحت ترجیح دی جائے، وہ مالی اور تیکنیکی امداد کے مستحق ہیں تاکہ اپنے عوام اور معیشت کو محفوظ بنا سکیں۔ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات انسانیت اور معیشت، دونوں ہی کے لیے خطرہ ہیں۔ ترقّی یافتہ ممالک کے کاربن اخراج کی وجہ سے پاکستان میں سیلاب، خشک سالی، گرمی کی لہریں اور دیگر قدرتی آفات میں خاصا اضافہ ہوا ہے اور یہ سلسلہ آئندہ دہائیوں میں مزید شدّت اختیار کرے گا۔

ترقّی یافتہ ممالک کے کاربن اخراج کے اثرات نے پاکستان میں مالی نقصان بہت زیادہ بڑھا دیا ہے۔2010ء کے سیلاب میں تقریباً 20 لاکھ افراد متاثر ہوئے، اربوں روپے کا زرعی نقصان ہوا اور بنیادی ڈھانچا جیسے سڑکیں، پُل، اسکول اور اسپتال تباہ ہوئے۔ 2022 ء کے سیلاب نے بھی تقریباً33 ملین افراد کو متاثر کیا، ہزاروں گھر تباہ ہوئے اور مُلکی معیشت پر اربوں روپے کا بوجھ پڑا۔ یہ صرف مالی نقصان نہیں بلکہ ترقّی پذیر ممالک کے لیے ایک خوف ناک چیلنج ہے، کیوں کہ ہر قدرتی آفت کے بعد فوری بحالی ممکن نہیں ہوتی۔

نیز، انسانی جانوں کا نقصان بھی کافی زیادہ ہو چکا ہے۔ ہزاروں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، لاکھوں بے گھر ہوئے، خواتین، بچّوں کی صحت، تعلیم بری طرح متاثر ہوئی۔ سادہ الفاظ میں، ترقّی یافتہ ممالک کی جانب سے کاربن اخراج کی وجہ سے پاکستان کے عوام کی زندگی براہِ راست متاثر ہو رہی ہے اور یہ موسمیاتی انصاف کے اصول کے خلاف ہے۔

اس ضمن میں پاکستان نے عالمی فورمز پر اپنی آواز بلند کی ہے تاکہ ترقّی یافتہ ممالک اپنی ذمّے داری قبول کریں اور یہ مؤقف عالمی سطح پر پاکستان کی مستقل جدوجہد اور پالیسی کی عکّاسی کرتا ہے، جب کہ قومی سطح پر حکومت نے زرعی بیمہ اسکیمز، متاثرہ خاندانوں کے لیے مالی امداد اور بنیادی ڈھانچے کی بحالی جیسے منصوبے شروع کیے ہیں۔ 

اس حوالے جو سفارشات مرتّب کی گئی ہیں، اُن میں٭ترقّی پذیر ممالک کے لیے عالمی سطح پر مالی اور تیکنیکی امداد کی فراہمی٭قومی سطح پر پائے دار زرعی امور اور پانی کے انتظام کی بہتر حکمتِ عملی٭قدرتی آفات کے خلاف حفاظتی اقدامات اور آگاہی مہمّات٭اور عالمی سطح پر ترقّی یافتہ ممالک کی ذمّے داری کے حوالے سے مسلسل سفارت کاری جیسے امور شامل ہیں۔

پاکستان کی یہ کوششیں واضح کرتی ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کا سامنا کرنے کے لیے صرف قومی اقدامات کافی نہیں، بلکہ عالمی انصاف اور بین الاقوامی تعاون بھی ضروری ہے۔ پاکستان نے ثابت کیا کہ وہ نہ صرف اپنے عوام کی حفاظت کے لیے آگے بڑھ رہا ہے بلکہ عالمی سطح پر ترقّی یافتہ ممالک کو اپنی ذمّے داری قبول کرنے پر بھی آمادہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ IPCC کی رپورٹس کے مطابق، کاربن کے اخراج کی ذمّے داری تقریباً70فی صد ترقّی یافتہ ممالک پر عائد ہوتی ہے، جب کہ پاکستان جیسا ترقّی پذیر مُلک صرف0.7 فی صد کاربن اخراج کا ذمّے دار ہے، مگر سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔

نیز، پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کم کرنے کے لیے حکومت نے متعدّد اقدامات بھی کیے ہیں۔ سندھ حکومت نے متبادل توانائی جیسے سولر اور ونڈ پاور منصوبے شروع کیے ہیں تاکہ کاربن کا اخراج کم کیا جا سکے اور ماحول دوست توانائی کے ذرائع فروغ پائیں۔ زراعت میں پانی کی بچت کے لیے جدید طریقے اپنائے گئے ہیں، مثلاً ڈرپ ایری گیشن اور کم پانی میں زیادہ پیداوار کے لیے نئی ٹیکنالوجیز متعارف کروائی گئی ہیں۔ شہروں میں فضائی آلودگی اور حرارت کے اثرات کم کرنے کے لیے گرین بیلٹ اور درخت لگانے کے منصوبے شروع کیے گئے ہیں۔

عالمی تحقیق نے یہ بھی ظاہر کیا ہے کہ پاکستان میں مستقبل میں سیلاب، خشک سالی، اور گرمی کی شدّت میں مزید اضافہ ہوگا اور یہ اثرات نہ صرف انسانی جانوں اور معیشت پر براہِ راست مرتّب ہوں گے، بلکہ زراعت، پانی کی فراہمی اور توانائی کے شعبوں کے لیے بھی چیلنج ثابت ہوں گے۔

اِس لیے پاکستان کی کوششیں صرف فوری بچاؤ تک محدود نہیں بلکہ طویل مدّتی پالیسی اور منصوبہ بندی پر مرکوز ہیں۔ ہمارے لیے موسمیاتی تبدیلی صرف ایک ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ انسانی زندگی، معیشت، اور قومی سلامتی کا بھی چیلنج ہے۔پاکستان کی مستقبل کی حکمتِ عملی میں چند اہم نکات شامل ہیں۔

موسمیاتی انصاف: ترقّی یافتہ ممالک کی ذمّے داری ہے کہ وہ کاربن اخراج کی وجہ سے متاثرہ ترقّی پذیر ممالک کی مدد کریں تاکہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں کے سنگین اثرات کا مؤثر مقابلہ کر سکیں۔ قومی سطح پر اقدامات: پائے دار زرعی امور، پانی کے مؤثر انتظام اور سبز توانائی کے منصوبے متعارف کروائے گئے ہیں تاکہ موسمیاتی اثرات کم کیے جا سکیں۔ 

جدید ڈرپ ایری گیشن، سولر، ونڈ پاور اور گرین بیلٹ پروگرام، اِس حکمتِ عملی کا حصّہ ہیں۔ بین الاقوامی تعاون: پاکستان نے عالمی فورمز پر مؤقف اختیار کیا ہے کہ ترقّی پذیر ممالک کو مالی اور تیکنیکی امداد فراہم کی جائے تاکہ وہ اپنے عوام اور معیشت کا تحفّظ کرسکیں اور یہ تعاون صرف مالی امداد تک محدود نہ ہو، عملی اور ٹیکنالوجیکل سپورٹ بھی دی جائے۔ عوامی آگاہی: عوام میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے متعلق آگاہی بڑھائی جائے اور اِس ضمن میں زرعی اور شہری سطح پر پائے دار اقدامات کی تربیت فراہم کی جائے۔

آخر میں یہ کہنا درست ہوگا کہ پاکستان نہ صرف اپنے عوام کی حفاظت کے لیے آگے بڑھ رہا ہے بلکہ عالمی سطح پر ترقّی یافتہ ممالک کو اپنی ذمّے داری قبول کرنے پر بھی آمادہ کر رہا ہے اور قیادت اور عوام کی یہی کوششیں مستقبل میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کم کرنے اور مُلک کو ایک مضبوط، محفوظ اور خوش حال مستقبل کی طرف لے جانے میں کلیدی کردار ادا کریں گی۔ (مضمون نگار، حکومتِ سندھ کی ترجمان ہیں۔)

سنڈے میگزین سے مزید