• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج دنیا کو جن بڑے مسائل کا سامنا ہے، اُن میں ’’موسمیاتی تبدیلی‘‘ سرِفہرست ہے، جو اب محض ایک ماحولیاتی مسئلہ نہیں رہا، بلکہ ایک عالمی بحران کی شکل اختیار کرچکا ہے اور اس کے اثرات ہماری زندگی کے ہر پہلو پر مرتّب ہورہے ہیں۔ قطبی خطّوں میں پگھلتی برف سے لے کر غیر متوقع سیلابوں اور شدید خشک سالی تک، موسمیاتی تبدیلیاں اپنے بھرپور اثرات کے ساتھ نمودار ہورہی ہیں۔ صنعتی انقلاب کے بعد سے انسانی آبادی نے قدرتی ماحول پر جو اثرات مرتّب کیے ہیں، وہ بے حد تشویش ناک ہیں اور بلاشبہ، اس کی سب سے بڑی وجہ انسانی سرگرمیاں ہیں۔ 

دنیا کی سلامتی کو درپیش خطرات میں موسمی تبدیلی بڑے خطرے کے طور پر اُبھری ہے۔ گلوبل وارمنگ کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق، موسمیاتی تبدیلیاں، سیلاب اور خشک سالی میں اضافے کے ساتھ ناقابل اعتبار، متضاد موسموں، انسانی رہن سہن اور فصلوں کی تباہی کا باعث بن سکتی ہیں۔ 

مطلب، عالمی برادری موسمی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ سے لاحق طویل المدتی خطرات بخوبی بھانپ چکی ہے۔ اِسی ضمن میں ورلڈ واچ انسٹی ٹیوٹ اور برطانیہ کے چیف سائینٹیفک ایڈوائزر، ڈیوڈ کنگ ماحولیات، موسمی تبدیلیوں کو دہشت گردی سے بڑا خطرہ قرار دے چکے ہیں۔ 

وہ نیشنل اکیڈمی آف سائنس، آئی پی سی سی اور ورلڈ میٹرولوجیکل ایسوسی ایشن سے متفق ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات سے نمٹنے کی ضرورت پر اب کوئی اختلاف نہیں رہ گیا۔ لندن کی انوائرمینٹل جسٹس فاؤنڈیشن کے مطابق، دنیا میں 26ملین افراد موسمی تبدیلیوں کے باعث ہجرتوں پر مجبور ہوئے،جب کہ 2050ء تک مزید500سے 600 ملین افراد نہ صرف ہجرت پر مجبور ہوں گے بلکہ دیگر شدیدخطرات سے بھی دوچار ہوں گے۔

موسمیاتی تبدیلیوں کی بنیادی وجوہ: موسمیاتی تبدیلیوں کی سب سے بڑی وجہ انسانی سرگرمیاں ہیں کہ صنعتی انقلاب کے بعد سے انسانی آبادی نے قدرتی ماحول پر جو اثرات مرتّب کیے، وہ بہت ہی تشویش ناک ہیں۔ 

ماہرین، عالمی حدّت میں اضافے کی بڑی وجہ گرین ہاؤس گیسز کا فضا میں اخراج قرار دیتے ہیں، جب کہ حیاتیاتی ایندھن، قدرتی گیس، کوئلے، تیل سے توانائی پیدا کرنے کے بھی ماحول پر حد درجہ منفی اور مضر اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ واضح رہے، کوئلہ، توانائی کا ایک یونٹ پیدا کرنے میں قدرتی گیس سے 70فی صد زائد، کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں چھوڑ کر ماحول کو تباہ کرتا ہے۔ 

اس کے علاوہ دیگر عوامل بھی ماحول کی تباہی میں بنیادی کردار ادا کررہے ہیں، جن میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی، جنگلات میں آگ، بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر، بڑھتی ہوئی آبادی اور گاڑیوں کی بہتات وغیرہ شامل ہیں۔ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2)، میتھین (CH4) اور نائٹرس آکسائیڈ (N2O) جیسی گرین ہاؤس گیسز کابڑھتا ہوا ارتکاز، سورج کی حرارت کو زمین کے کرئہ ہوائی میں قید کرلیتا ہے، جس سے زمین کا درجۂ حرارت بڑھتا ہے اور اسی عمل کو ’’گلوبل وارمنگ‘‘ کہتے ہیں۔

ان گیسز کے اخراج کی بڑی وجوہ میں فوسل کا استعمال بھی شامل ہے، جب کہ جنگلات کی بے دریغ کٹائی قدرتی عمل میں خلل ڈالتی ہے اور ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بڑھاتی ہے۔ اس کے علاوہ مختلف صنعتی کارروائیاں اور سرگرمیاں بھی گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات: موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات دنیا بھر میں محسوس کیے جارہے ہیں، جو محض ماحولیاتی نہیں، بلکہ سماجی اور اقتصادی سطح پر بھی نمایاں ہیں۔ زمین کا اوسط درجۂ حرارت مسلسل بڑھنے کے نتیجے میں گرمی کی شدید لہریں عام ہو رہی ہیں، جو انسانی صحت، زراعت اور پانی کے ذخائر پر منفی اثر ات مرتّب کرتی ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک میں ہیٹ ویوز کا بڑھنا اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ پاکستان کو دو طرح کے سنگین خطرات لاحق ہیں، شمال میں درجۂ حرارت میں اضافے کے باعث گلیشئیر پگھل رہے ہیں، تو جنوب میں سمندری پانی کی سطح بلند ہورہی ہے۔ 

ماہرین کے مطابق 1920ء سے عالمی درجۂ حرارت میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے، شمالی علاقوں میں درجۂ حرارت میں 1.9ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ ہوا ہے، جس کے نتیجے میں برف پگھلنے سے ڈیمز بھر رہے ہیں، نئی جھیلیں بن رہی ہیں اوربڑے پیمانے پر پانی ضائع ہو رہا ہے۔ 

دنیا بھر کے گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے سے سمندروں کی سطح بلند ہو رہی ہے، جس کے نتیجے میں ساحلی علاقوں میں سیلاب کا خطرہ بڑھنے کے علاوہ بارشوں کا نظام غیر یقینی ہونے سے کہیں شدید بارشیں اور سیلاب آرہے ہیں، جس کا اندازہ پاکستان میں  2022ء سے اب تک آنے والے حالیہ تباہ کن سیلاب سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ سب موسمیاتی تبدیلیوں ہی کا شاخسانہ ہے۔ پھر درجۂ حرارت میں تبدیلیوں کے سبب بہت سی نباتاتی اور حیوانی انواع کے مسکن بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ 

کئی پودے اور جانور اپنی بقا کی جدوجہد کر رہے ہیں، جن میں سے بہت سے معدومی کے خطرے سے بھی دوچار ہیں۔ خشک سالی، سیلابوں کے باعث فصلوں کی پیداوار متاثر ہونے سے نہ صرف خوراک کی قلّت اور غذائی عدم تحفّظ بڑھ رہا ہے، بلکہ پانی کے ذخائر کے دبائو میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ نیز، ان ہی موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والی نت نئی بیماریاں بھی انسانی صحت کے لیے بڑا خطرہ بن کر سامنے آرہی ہیں۔

’’موسمیاتی تبدیلی‘‘ ایک کڑوی حقیقت ہے اور اس کے اثرات ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین سے سنگین تر ہوتے جا رہے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اس کی وجوہ کو سمجھیں اور اس کے اثرات میں کمی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کریں، تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک محفوظ اور صحت مند کرئہ ارض چھوڑ سکیں کہ اس عالمی چیلنج کا مقابلہ صرف اجتماعی کوششوں اور پائے دار حل کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اگر آج اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی ٹھوس اقدام نہ کیا گیا، توممکن ہے کہ مستقبل میں اس مسئلے کے حل کی مہلت ہی نہ مل سکے۔

سنڈے میگزین سے مزید