• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جدید ٹیکنالوجی نے جہاں معاشرے میں بہت کچھ بدل کے رکھ دیا ہے، وہیں اخبار بینی کی روایت بھی قدرے کم ہوگئی ہے۔ تیز رفتار طرزِ زندگی میں لوگ مصروفیات کے سبب ’’ای پیپرز‘‘ کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ 

تاہم، روایتی اخبار بینی کی اہمیت ہنوز برقرار ہے کہ اخبار بینی فکری، علمی، سماجی و سیاسی تربیت میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ معاشرے میں نسل در نسل منتقل ہونے والی اس تہذیبی روایت کے حوالے سے اردو کے معروف شاعر،اکبر الہ آبادی نے کہا تھا ؎ کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو.....جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو۔

جب کہ ادا جعفری کا اس حوالے سے کہنا تھا؎ ہمارے شہر کے لوگوں کا ا ب احوال اتنا ہے..... کبھی اخبار پڑھ لینا، کبھی اخبار ہو جانا۔ درحقیقت، ایک اخبار ہمیشہ اخلاقِ جمیلہ، خصائل پسندیدہ کے اوصاف اور عادات رذیلہ کے نقصانات بیان کرکے قوم کو اچھی باتوں پر مائل اور بری باتوں سے متنفر کرتا ہے۔ اخبار سے ذہنی بالیدگی میں اضافہ، علمی مذاق بڑھتا ہے۔ الغرض، اخبار کےبے شمار فوائد ہیں۔ اخبار بینی محض خبر کے حصول کا ذریعہ نہیں، بلکہ ایک پوری تہذیبی روایت ہے۔

ابھی کل کی بات ہے، علی الصباح ناشتے کے ساتھ اگر اخبار نہ ہوتا، تو دن کا آغاز اُدھورا سا محسوس ہوتا۔ خصوصاً بڑی عمر کے افراد اخبار کے اداریے سے لے کر اشتہارات تک سب کھنگال ڈالتے۔ نوجوان، کھیلوں کے صفحات اور روزگار کے اشتہارات ڈھونڈتے، بچّے تصاویر اور کارٹونز دیکھ کر خوشی محسوس کرتے۔ 

یوں اخبار خاندان کے ہر فرد کے لیے کسی نہ کسی طرح دل چسپی اور معلومات کا بہترین ذریعہ تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب اخبار کی سرخی ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں اور ایک شہر سے دوسرے شہر میں بحث کا موضوع بنتی۔ چائے خانوں پر بیٹھے لوگ روز کی خبروں پر ایسے تبصرے کرتے، جیسے وہ خود اسمبلی کے رکن ہوں۔ تب اخبار بینی محض انفرادی ضرورت نہیں، اجتماعی زندگی کا حصّہ تھی۔

برِّعظیم میں اخبار بینی کو عروج انگریز دَور میں حاصل ہوا۔ جب کہ اردو اور انگریزی کے ابتدائی اخبارات نے علمی و سیاسی شعور شعور کی بے داری کا فریضہ انجام دیا۔ پھر تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان میں روزنامہ جنگ، نوائے وقت، امروز اور دیگر اخبارات نے عوامی بے داری، قوم کی رائے بنانے اور سیاسی تحریکوں کو مہمیز دینے میں ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا۔ 

ایوب خان کے خلاف تحریک ہو، مشرقی پاکستان کے دگرگوں حالات یا جنرل محمد ضیاء الحق کے دَورِ حکومت میں جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد، اخبار نے ہر دَور میں ہمیشہ ایک گواہ اور رہنما کی حیثیت سے قوم کو آگاہی و رہنمائی فراہم کی اور متحرک بھی کیا۔ یہی وجہ تھی کہ اُس دَور میں اخبارات پر سینسر شپ اور قدغنیں لگائی گئیں، کیوں کہ حُکم ران اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ عوام کی آنکھیں اور کان سب سے زیادہ اخبار کے ذریعے ہی کُھلتے ہیں۔ 

اخبار بینی نے نہ صرف انفرادی بلکہ قومی سطح پر بھی سوچ کو جِلا بخشی، اخبار سے استفادہ کرنے والے شخص کی گفتگو میں پختگی، دلیل میں وزن ہونے کے سبب اس کی بات سُنی جاتی کہ وہ تازہ حقائق اور حوالہ جات کے ساتھ اپنی رائے پیش کرتا۔ 

گاؤں، دیہات میں بھی یہ روایت عام تھی کہ ایک شخص اخبار خرید کر بلند آواز میں دوسروں کو خبریں سُناتا، یوں پورا چائے خانہ یا بیٹھک عِلم اور آگہی کی محفل میں بدل جاتی، لیکن افسوس یہ روایت رفتہ رفتہ کم زور پڑتی جارہی ہے۔ ٹیکنالوجی کے انقلاب نے معلومات کو جیبوں میں بند کردیا ہے۔ 

موبائل فون اور انٹرنیٹ نے لمحوں میں خبریں پہنچانا شروع کیں، تو ہر صبح اخبار کے انتظار کا وہ لُطف باقی نہ رہا اور آج کا نوجوان تو سوشل میڈیا پر چند سطروں کی خبر دیکھ کر مطمئن ہوجاتا ہے، حالاں کہ اس خبر کی صداقت اور تحقیق اکثر مشکوک ہوتی ہے اور یہی وہ واضح فرق ہے، جو اخبار بینی کو اب بھی معتبر بناتا ہے، کیوں کہ اخبار میں شائع ہونے والی خبر کئی مراحل سے گزر کر آتی ہے۔ 

رپورٹنگ، ایڈیٹنگ، پروف ریڈنگ اور تصدیق و تحقیق کے بعد چھپنے والی خبر، جو اعتماد بخشتی ہے، وہ واٹس ایپ کے فارورڈ میسیجز یا فیس بُک پوسٹس کبھی نہیں دے سکتے، لیکن افسوس، نوجوان نسل نے اس فرق کو سمجھنا چھوڑ دیا ہے اور یہی اخبار بینی کی معدومیت کی ایک بڑی وجہ ہے۔ 

تاہم، خوش آئند بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے بے دریغ استعمال کے باوجود اس کی افادیت برقرارہے کہ ایک اخبار صرف خبرہی نہیں دیتا، زبان و بیان کی درستی کے ضمن میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کسی اخبار کا قاری، نئے الفاظ، نئی اصطلاحات اور نئی سوچ حاصل کرتا ہے۔ یہ جہاں طلبہ کے لیےتحقیق و جستجو کا ایک بڑا ذریعہ ہے، وہیں عام قاری کے لیے ملکی و عالمی حالات و واقعات سے آگاہی کا بڑا دَر بھی ہے۔ اسی لیے پرانے زمانے میں استاد اپنے شاگردوں کو اخبار لازماً پڑھنے کی تاکید کیا کرتے تھے۔

اخبار بینی نے مزاح اور تفریح کے میدان میں بھی بھرپور کردار ادا کیا ہے۔اس کے ادبی صفحات کالمز، متنوّع موضوعات پر معلومات افزا مضامین گویا ایک ہمہ جہت کتاب کی صُورت روزانہ سامنے ہوتے ہیں۔ یوں کہیے کہ جو شخص دنیا میں بُرے، بھلے کی تمیز چاہے، حقائق و معارف اور مختلف علمی و عملی معلومات کا شوق رکھے، مہذّب، شائستہ، عاقل و فرزانہ ہوکر رہنا چاہے اور گھر بیٹھے بلا صرف و خرچ ایک شفیق استاد کا متلاشی ہو، تو وہ اخبار بینی اختیار کرے۔اور اس تناظر میں دیکھا جائے، تو اخبار بینی کا مستقبل مایوس کُن نہیں، اُمید افزا ہے۔بس، ضرورت اس امر کی ہے کہ گھروں، اسکولوں اور جامعات میں اخبار بینی کی ترغیب دی جائے۔ 

استاتذہ، طلبہ کےمابین اخباری مضامین پر بحث کروائیں، والدین بچّوں کو اخبار کی کہانیاں سُنائیں اور نوجوان اپنی صبح کا آغاز موبائل کے بجائے اخبار کے صفحات سے کریں۔ یوں اخبار بینی ایک بار پھر ہماری اجتماعی زندگی کا حصّہ بن سکتی ہے۔

واضح رہے، اخبار صرف ماضی کی یاد نہیں، ہمارے حال اور مستقبل کی دستاویز بھی ہے اور اسے زندہ رکھنا ہماری فکری و اجتماعی ذمّے داری ہے کہ اگر ہم نے اس زندہ روایت کو کھو دیا، تو شاید آنے والے وقت میں ہمارے پاس سُنانے کے لیے کہانیاں تو ہوں، مگر حوالے کے لیے وہ معتبر صفحات نہیں، جو کبھی ہماری زندگی کا حصّہ تھے۔

سنڈے میگزین سے مزید