• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رازدارِ رسول ؐ، حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ

عہد کی پاس داری: مدینے پر حملے کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں، ابوجہل نے قریشِ مکّہ کو خبردار کردیا تھا کہ مکّے کے تمام افراد اس جنگ میں لازمی شریک ہوں ۔حضرت حذیفہ بن یمانؓ اور ان کے والد حسیل بن جابر یمانی مکّہ مکرّمہ میں موجود تھے۔ وہ دونوں مدینہ منورہ پر حملے کی خبر سُن کر اور قریش کی تیاریاں دیکھ کر نہایت پریشان تھے۔ 

اُن کی خواہش تھی کہ کسی طرح جلد از جلد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے پاس پہنچ جائیں… پھر ایک رات، جب اہلِ قریش خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ وہ دونوں باپ، بیٹا نہایت خاموشی سے ایک اونٹنی پر سوار ہوکر مدینے کی جانب روانہ ہوگئے۔

ابھی کچھ ہی دور گئے تھے کہ ابوجہل کے کارندوں نے انہیں گرفتار کرلیا۔ صبحِ صادق کا وقت تھا۔ ابوجہل، قریش کے چند سرداروں کے ساتھ خانۂ کعبہ میں بیٹھا بدر کی جانب پیش قدمی کو آخری شکل دے رہا تھا کہ اس کے کارندے دونوں باپ، بیٹے کو رسّیوں سے جکڑے اس کے پاس حاضر ہوگئے۔

 ابوجہل نے سخت غصّے سے انہیں دیکھا اور بولا۔ ’’تم دونوں محمد(ﷺ) کا ساتھ دینے جارہے تھے ناں، اب تمہاری سزا موت ہے۔‘‘ اس نے حکم دیا کہ اُن دونوں کو حرم سے باہر لے جاکر قتل کردیا جائے۔ کارندے اُنھیں لے کر واپسی کے لیے مڑے ہی تھے کہ قریش کے کچھ سردار گھبرا کر اُٹھے اور بولے۔ ’’اے ابوالحکم! (ابوجہل کی کنیت) یہ کیا غضب کرتے ہو، اگر اُنھیں قتل کردیا، تو نہ صرف پورا عبس قبیلہ، بلکہ قبیلہ عبدالاشہل والے بھی ہمارے دشمن ہوجائیں گے، جن کی بیٹی اُن میں بیاہی ہوئی ہے، بہتر یہی ہے کہ انھیں جانے دو۔‘‘ 

ابوجہل بھی ایک ضدی آدمی تھا، اُس نے اُن کے قتل کا ارادہ تو بدل دیا، لیکن اُن سے عہد لیا کہ اس جنگ میں وہ محمد(ﷺ) کا ساتھ نہیں دیں گے۔ آزادی ملتے ہی وہ دونوں بدر کے میدان میں آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور سارا ماجرا بیان کردیا۔ حضور اکرمﷺ نے فرمایا۔ ’’تم دونوں معاہدے کی پابندی کرو۔‘‘ اور پھر اُنھیں مدینہ منورہ کی جانب روانہ کردیا۔ (صحیح مسلم حدیث۔ 4639)۔

سلسلۂ نسب: حضرت حذیفہ؄ کا سلسلۂ نسب کچھ یوں ہے۔ حذیفہ بن حسیل بن جابر عمرو بن ربیعہ بن جروہ بن حارث بن مازن بن قطیعہ بن عبس بن غطفان۔ حافظ ابنِ حجرؒ فرماتے ہیں کہ ’’مدینہ کے قبائل اوس و خزرج بھی یمنی النسل تھے۔ اس لیے حضرت حذیفہ؄ کے والد، حسیل کا نام اُن کی قوم نے یمان رکھ دیا اور پھر وہ اسی نام سے مشہور ہوگئے۔ حضرت حذیفہؓ کی کنیت عبداللہ العبسی ہے۔ آپؓ حافظِ قرآن، حدیث کے عالم، کاتبِ وحی اور درویش منش انسان تھے۔ 

آپ متوسط قد ، اکہرے بدن کے تھے، پیشانی کشادہ ،سفید چمکیلے دانت اور ذہانت سے لب ریز عقابی نگاہیں، لہجہ نہایت نرم ، چہرے پر مسکراہٹ لیے مقابل سے میٹھے انداز میں گفتگو کرتے۔ حضرت حذیفہؓ کے والد حسیلؓ بن جابر کا تعلق بنو غطفان کے جنگ جُو خاندان، عبس سے تھا،جو اپنی بہادری اور جواں مردی کے لیے مشہور تھا۔ 

حسیلؓ بن جابر کے ہاتھوں مکّے میں ایک شخص کا قتل ہوگیا تھا، چناں چہ وہ چھپ کر مدینہ آگئے اور بنو عبدالاشہل قبیلے میں پناہ لے لی۔ بنواشہل کا تعلق قبیلہ اوس سے تھا، یہ قبیلہ مدینہ کے مشہور قبائل میں سے ایک تھا۔ بعد میں یہی قبیلہ بنو اوس کا رئیس بھی بنا۔ حسیل بن جابر نے اسی قبیلے کی ایک معزز خاتون، رباب بنتِ کعب سے نکاح کیا، جن کے بطن سے حضرت حذیفہؓ پیدا ہوئے۔ (اصابہ، 232/1)۔

ہجرت یا نصرت کا اختیار: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے جب نبوّت کا اعلان فرمایا تو حضرت حذیفہؓ اپنے والد کے ساتھ مکّہ مکرّمہ تشریف لائے اور آنحضرتﷺ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کیا۔ آپؓ کے والد، قریش کے مہاجر تھے، لیکن حضرت حذیفہؓ نے مدینے میں آنکھ کھولی۔

حضور اکرمﷺ کے مدینہ ہجرت کے بعد حضرت حذیفہؓ اپنا زیادہ تر وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبتِ اقدس میں گزارتے، ایک دن آنحضرتﷺ سے دریافت کیا۔ ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم! میرے والد مکّہ کے مہاجر ہیں، جب کہ میری والدہ مدینے کے انصار میں سے ہیں، اب مَیں خود کو مہاجر کہلواؤں یا انصار؟‘‘ آنحضرتؐ نے فرمایا۔ ’’اے ابو حذیفہ! تمہیں اختیار ہے، چاہے مہاجر کہلاؤ یا انصار۔‘‘ حضرت حذیفہؓ نے عرض کیا۔ ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! مَیں انصاری کہلوانا پسند کروں گا۔‘‘

حضرت حذیفہؓ والد حضرت یمان کی شہادت: سیّدہ عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ اُحد کے میدان میں شکست خوردہ مشرکین بھاگنے لگے، تو ابلیس لعین نے بہ آوازِ بلند کہا۔ ’’اے اللہ کے بندو! اپنے پیچھے والوں کو قتل کرو۔‘‘ اس کے بعد آگے والے اپنے پچھلوں پر ٹوٹ پڑے۔ 

اس دوران حضرت حذیفہؓ نے دیکھا کہ مسلمان ان کے والدِ محترم کو اپنا دشمن سمجھ کر مار رہے ہیں، تو انھوں نے بلند آواز میں فرمایا۔ ’’اے لوگو! یہ تو میرے والد ہیں۔ میرے والد کا تو خیال کرو۔‘‘ لیکن لوگ نہ رُکے، حتیٰ کہ انہیں شہید کردیا۔اس موقعے پر انھوں نے کمالِ ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا۔’’ اللہ تمہیں معاف فرمائے۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث نمبر 6883-4065)

دشمن کی صفوں میں: حضرت حذیفہ بن یمانؓ نے غزوئہ بدر کے علاوہ تمام جنگوں میں حصّہ لیا۔ غزوہ اُحد میں ان کے والد شہید ہوئے۔ غزوئہ احزاب میں محاصرے کو تین ہفتے گزر چکے تھے۔ ایک طوفانی اور اندھیری رات میں حضرت محمدﷺ نے حضرت حذیفہؓ کوکفا رکی سراغ رسانی کے لیے روانہ کیا۔ 

انہوں نے جاکر دیکھا کہ طوفانی ہوا سے اتحادیوں کے خیمے اکھڑ چکے تھے، تمام سامان بکھرگیا تھا اورجانور ہلاک ہونے لگے تھے۔قریب ہی سردارانِ قریش، آگ کے الاؤ کے گرد بیٹھے آپس میں زور و شور سے بحث مباحثے میں مصروف تھے۔ آخرکار، ابو سفیان نے مکّہ واپسی کا فیصلہ سُنا دیا۔ حضرت حذیفہؓ نے واپس آکر رسول اللہﷺ کو اتحادیوں کی بدحالی سے آگاہ کیا تو آپ ؐ مسکرا دیے۔ (کنز العمال حدیث 30084) اس موقعے پر آپؐ نے فرمایا۔ ’’اب ہم اُن پر حملہ کریں گے، وہ ہم پر چڑھائی نہیں کرسکیں گے۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث 4110)۔

رازدارِ رسول اللہؐ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ہر صحابیؓ کو اُن کی صلاحیتوں کے مطابق کام تفویض فرمایا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبیؐ کو یہ خاص وصف عنایت فرمایا تھا کہ آپؐ شخصی تعارف اور مختصر گفتگو سے اُس شخص کے بارے میں بہت کچھ جان جایا کرتے تھے اور بہت جلدآپ ؐ پر اُس شخص کی اندرونی کیفیت عیاں ہوجایا کرتی تھی۔ 

حضرت حذیفہؓ میں چار خصوصیات ایسی تھیں، جو انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی تھیں۔ اوّل یہ کہ وہ بہت ذہین اور سمجھ دار تھے۔ مشکل سے مشکل مسئلے کا حل ڈھونڈ نکالتے تھے۔ دوم، بہت جلد بات کی تہہ تک پہنچ جاتے تھے اور نتیجہ اخذ کرنے میں دیر نہیں لگاتے تھے۔ سوم، راز کو راز رکھتے تھے، یعنی دوسرے کی بتائی ہوئی راز کی بات کو امانت سمجھتے تھے۔ 

چہارم، نہایت ٹھنڈے مزاج کے حامل تھے، غصّہ کرنا یا بدلہ لینا نہیں جانتے تھے، اپنے معاملات اللہ پر چھوڑ دیا کرتے تھے۔ غزوئہ اُحد میں مجاہدین کے ہاتھوں غلط فہمی کی بِنا پر اپنے والد کی شہادت کے موقعے پر بھی خیر کی دُعائیں کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اُنھیں منافقین کے ناموں سے آگاہ فرمادیا تھا۔ یہ ایسا راز تھا، جو اُن کے علاوہ کسی اور صحابیؓ کے پاس نہیں تھا۔ 

آپؐ نے حضرت حذیفہؓ کو تاکید فرمادی تھی کہ اسے راز رکھنا اور منافقین کی حرکات و سکنات پر بھرپور نظر رکھنا، تاکہ وہ مسلمانوں کو خفیہ طور پر کوئی اذیّت نہ پہنچا سکیں۔ اس وقت مسلمانوں کی تعداد تھوڑی تھی، آپؐنہیں چاہتے تھے کہ مسلمانوں کے انتشار کی کوئی بھی صورت یہود و کفار کے سامنے آئے۔ 

حضرت حذیفہؓ نے منافقین کے ناموں سے متعلق راز کو زندگی بھر سینے میں رکھا۔ سیّدنا عمر فاروقؓ نے اپنا معمول بنالیا تھا کہ اگر اُنھیں کسی کے انتقال کی خبر ملتی تو آپؓ، حضرت حذیفہؓ کے متعلق معلوم فرماتے کہ کیا وہ جنازے میں شریک ہیں؟ اگر وہ شریک ہوتے تو سیّدنا عمر فاروقؓ بھی اس شخص کا نمازِ جنازہ پڑھتے، وگرنہ نہیں۔

فتنوں سے متعلق احادیث: صحابۂ کرامؓ کا یہ معمول تھا کہ وہ عام طور پر آنحضرتؓ سے خیر و بھلائی اور نیکی سے متعلق باتیں دریافت کیا کرتے تھے، لیکن حضرت حذیفہؓ کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ وہ اُن کے برعکس حضوراکرمﷺ سے فتنوں، شر اور روزِ محشر سے متعلق سوالات کیا کرتے، تاکہ اُن سے بچا جاسکے۔

اسی لیے اُن کے پاس فتنوں اور علاماتِ قیامت سے متعلق اچھا خاصا ذخیرہ تھا، جو اُن کے نام سے منقول ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے ایک دفعہ فرمایا۔ ’’تم میں سے کون ہے، جسے فتنے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی کوئی حدیث یاد ہو۔‘‘ حضرت حذیفہؓنےفرمایا۔ ’’ رسول اللہؐ نے جیسے فرمایا تھا، مجھے اُسی طرح یاد ہے۔‘‘ 

حضرت عمرؓ نے فرمایا۔ ’’ہاں! تمہاری جرأت، اس حوالے سے قابل داد ہے۔ بتاؤ! آپؐ نے کیا فرمایا تھا؟‘‘ حضرت حذیفہؓ نے جواب دیا۔ ’’انہوں نے فرمایا تھا کہ آدمی کا فتنہ اپنے اہل و عیال، اولاد اور ہم سائے سے متعلق ہوتا ہے۔ نماز، صدقہ اور بھلی بات، نیز، اچھا کام اس کے لیے کفّارہ ہے کہ نماز، صدقہ، اچھے کاموں کا حکم دینا اور برے کاموں سے روکنا یہ سب اس کا کفّارہ بن جائیں گے۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث 1435)۔

جنگ نہاوند میں شرکت: سیّدنا عمر فاروقؓ کو اطلاع ملی کہ نہاوند کے مقام پر ڈیڑھ لاکھ ایرانیوں کا ایک لشکر مسلمانوں سے مقابلے کے لیے تیار ہے۔ خبر موصول ہوتے ہی ایرانیوں کے لشکر سے مقابلے کے لیے آپؓ نے پہلے خود جانے کا فیصلہ کیا، لیکن صحابۂ کرامؓ کے منع کرنے پر حضرت نعمان بن مقرن کو سپہ سالار اور حضرت حذیفہؓ کو اُن کا نائب بناکر روانہ کیا۔ 

دونوں صحابی رسولؐ30ہزار مجاہدین کو لے کر نہاوند شہر کی جانب روانہ ہوئے۔ وہاں دونوں افواج میں گھمسان کارَن پڑا۔ مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی، لیکن سپہ سالار نعمان بن مقرنؓ شہید ہوگئے ، جس کے بعد حضرت حذیفہؓ سپہ سالار مقرر ہوئے۔ انہوں نے نہاوند پہنچ کر مالِ غنیمت جمع کیا۔ وہاں کے آتش کدے بجھائے۔

مالِ غنیمت لشکر میں تقسیم کیا ،جب کہ ہیرے، جواہرات کا بکس امیرالمومنینؓ کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے روانہ کیا، لیکن حضرت عمرؓ نے اسے واپس بھجواکر حکم جاری کیا کہ انہیں بھی فروخت کرکے رقم، مجاہدین میں تقسیم کردی جائے۔ چناں چہ جواہرات فروخت کرکے رقم، مجاہدین میں تقسیم کردی گئی۔ حضرت حذیفہؓ نے صرف نہاوند ہی نہیں، بلکہ فارس کے دوسرے شہروں مثلاً دینور، ہمدان وغیرہ کی فتح میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔

حاکم ِشہر کی سادگی: سیّدنا فاروق اعظم نے حضرت حذیفہؓ کو مدائن کا گورنر مقرر فرمایا۔گورنر کا منصب سنبھالنے کے بعدمدائن کے لیے روانہ ہوئے، تو آپ کے استقبال کے لیے معززینِ شہر، ہزاروں افراد کے ساتھ شہر سے باہر جمع ہوگئے۔ سب کی نظریں گورنر کی شاہی سواری کی منتظر تھیں۔

ایسے میں خچر پر سوار نہایت معمولی لباس پہنے، ایک شخص شہر میں داخل ہوا، اس کا کسی نے کوئی نوٹس ہی نہیں لیا۔ جب کافی دیر ہوگئی، تو سب کو فکر لاحق ہوئی، پوچھا، کیا بات ہے؟ حاکم شہر ابھی تک تشریف نہیں لائے؟ بتایا گیا کہ وہ تو تم سب کے سامنے سے گزر کر شہر کے اندر چلے گئے ہیں۔ یہ سن کر معززین ِشہر سخت حیران ہوئے۔

عاجزی و انکساری : جب تک مدائن میں رہے، عاجزی و انکساری کی تصویر بنے رہے۔ حاجت مندوں کے لیے گھر کا دروازہ ہمہ وقت کھلا رہتا، معمولی گھریلو ضروریات کے علاوہ اپنی ماہانہ اجرت غریبوں میں تقسیم کردیتے۔ ایک مرتبہ ایک مجوسی خادم نے سونے چاندی کے برتن میں پانی لاکر دیا، آپؓ نے پینے سے انکار کردیا۔ اکثر رسول اللہ ؐ کا ارشاد دہرایا کرتے کہ سونے چاندی کے برتنوں میں کھاؤ، نہ پیو، یہ دنیا میں کافروں کے لیے ہیں اور آخرت میں ہمارے لیے ہیں۔ (صحیح بخاری 5632) 

کچھ عرصے بعد امیر المومنین، سیّدنا عمر فاروقؓ نے انھیں مدینہ طلب فرمایااور یہ دیکھنے کے لیے کہ مدائن کے حاکم کس شان سے مدینہ آتے ہیں، یہ سوچ کر راستے میں کھجوروں کے ایک جُھنڈ میں چُھپ کر بیٹھ گئے۔ کچھ ہی دیر میں حضرت حذیفہؓ آتے نظر آئے، دیکھا کہ جس حال میں مدینہ سے گئے تھے، اُس سے زیادہ خستہ حال مدینہ واپس آئے ہیں۔ سیّدنا عمر فاروقؓ جھنڈ سے نکل کر فرطِ محبت میں اُن سے لپٹ گئے اور فرمایا۔ ’’اے حذیفہ! تم میرے بھائی ہو اور مَیں تمہارا بھائی۔‘‘

فضائل ومناقب: مدینہ منورہ میں مسلمانوں کی پہلی مردم شماری کی ذمّے داری رسول اللہؐ نے حضرت حذیفہؓ کے سپرد فرمائی تھی۔ امیر المومنین، حضرت عثمانؓ بن عفّان کو قرآنِ کریم کی تدوین اور طباعت کا مشورہ حضرت حذیفہؓ ہی نے دیا تھا، کیوں کہ وہ اہلِ شام و عراق کے اختلافِ قرأت کی وجہ سے پریشان تھے۔ 

آپؓ کے مشورے سے حضرت عثمانؓ نے حضرت حفصہؓ کے گھر سے مصحف منگوایا اور صحابہؓ کی ایک جماعت مقرر فرمائی۔ مصحف کی نقول تیار کرکے تمام اہم شہروں میں بھیجیں۔ (مشکوٰۃ حدیث 2221) آپؓ100 سے زیادہ احادیث کے راوی ہیں۔ 12احادیث صحیح بخاری اور مسلم دونوں میں ہیں۔ 18بخاری میں اور 17مسلم شریف میں ہیں۔

وفات: 35ہجری میں حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے چالیس روز بعد آپ ؓ نے مدائن میں وفات پائی۔وصال کا وقت قریب آیا، تو وصیّت فرمائی کہ ’’مجھے قیمتی کفن نہ دینا۔ اگر اللہ کے یہاں میرے لیے بہتری ہے، تو وہاں مجھے جنّت کا کفن ملے گا اور اگر میرے لیے بہتری نہیں، تو یہ کفن بھی مجھ سے چِھن جائے گا۔‘‘ 

پھر فرمایا۔ ’’اے اللہ! تُو جانتا ہے کہ مَیں نے ہمیشہ امیری کے مقابلے میں فقیری پسند کی ہے اور موت کو زندگی پر ترجیح دی ہے۔‘‘ یہ فرماتے ہوئے اپنے خالق ِحقیقی سے جاملے۔

سنڈے میگزین سے مزید