• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مطالعۂ کُتبِ تاریخِ اسلام اور غیر مسلموں سے مخاصمانہ رویّہ

تاریخِ اسلام سے متعلق بیش تر کُتب کے مطالعے کے دوران یہ تاثر ملتا ہے کہ مؤرّخ دلائل سے یہ ثابت کرنے کوشش کررہا ہے کہ فلاں مسلمان حُکم راں نے فلاں علاقہ یا مُلک فتح کرنے کے بعد مفتوحہ خطّے سے دشمنوں کو مار بھگایا، شکست خوردہ بادشاہ کو قید کرنے کے باوجود اُس سے اچّھا سلوک کیا یا فلاں مسلم حُکم راں نے اسلامی سرحدوں کو مزید وُسعت دی یا فلاں مسلمان حُکم راں نے فتوحات حاصل کرنے کے بعد دشمنوں سے حُسنِ سلوک کا مظاہرہ کیا اور زیرِنگیں علاقے یا مُلک کےعوام کو مذہبی آزادی دی۔ 

مختصر یہ کہ مسلمان حُکم رانوں کی شخصیت، فتوحات اور اصلاحات کا ذکر کرتے ہوئے انہیں عبادت گُزار، سخی و دریا دل اور علم دوست سمیت دیگر اچّھی صفات سے مملو، جب کہ غیر مسلموں کو مغلوب اور ظالم ثابت کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں ذیل میں اسلامی تاریخ سے متعلق بعض تصانیف کا ذکر کیا جا رہا ہے۔

مشہورِ زمانہ تصنیف، ’’البدایہ والنہایہ‘‘ المعروف ’’تاریخِ ابنِ کثیر‘‘ کی ابتدائی جِلدوں میں تو قبل از اسلام کے حالات و واقعات بیان کیے گئے، لیکن بنو اُمیّہ کے حُکم رانوں کو فاتح قرار دیتے ہوئے اُن کی خوبیاں، جب کہ مغلوب اقوام کی خامیاں اور نقائص بیان کیےگئے ہیں۔

علاوہ ازیں، ’’تاریخ الرّسل والملوک‘‘ المعروف ’’تاریخِ طبری‘‘ اور ’’تاریخ الکامل از ابنِ اثیر‘‘ اور ’’تاریخِ یعقوبی‘‘ کا اندازبھی یہی ہے، البتہ عالمی شُہرت یافتہ تصنیف، ’’تاریخ ابنِ خلدون‘‘ مذکورہ بالا کُتب سے اِس اعتبار سے منفرد ہے کہ اس میں تاریخی واقعات کا تجزیہ ناقدانہ انداز میں کیا گیا ہے۔ 

تاریخِ اسلام کے ضمن میں اُردو کی معروف کُتب، ’’تاریخِ اسلام از شاہ معین الدّین احمد ندوی‘‘ اور ’’تاریخِ اسلام از اکبر شاہ نجیب آبادی‘‘ سمیت دیگر تصانیف میں بھی روایتی انداز اختیار کیا گیا ہے۔

اکثر مسلمان مؤرخین کی جانب سے اپنی کُتب میں مسلمان حُکم رانوں کو ہمیشہ فاتح، عادل اور انصاف پسند، جب کہ غیرمسلموں کو مفتوح و مغلوب اور ظالم و جابر بنا کر پیش کیا گیا، جس کے نتیجے میں قاری غیرمسلموں بالخصوص اہلِ مغرب کو اسلام دشمن سمجھنے لگتا ہے۔ تاہم، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان مؤرخین نے اپنے ہم مذہب حُکم رانوں کو ہمیشہ ’’فاتح‘‘ اور ’’عادل‘‘ اور غیرمسلموں کو ’’مغلوب‘‘ اور ’’ظالم‘‘ بنا کر ہی کیوں پیش کیا؟

آج بھی درس گاہوں میں تاریخِ اسلام کی یہی روایتی کُتب پڑھائی جا رہی ہیں۔ دوسری جانب جب کوئی شخص تصویر کا دوسرا رُخ دِکھاتا ہے، تو تحقیق کرنے کی بجائے اس پر لعن طعن شروع کردی جاتی ہے۔ 

یعنی ہم دلیل، منطق اور تحقیق کی بجائے جذبات و احساسات کے زیرِ اثر اسلامی تاریخ کا تجزیہ اور مطالعہ کرتے ہیں۔ بہرکیف، تاریخِ اسلام پر مبنی بیش تر کُتب کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ جب مسلمان طاقت وَر تھے، تو انہوں نے دیگر اقوام کو اپنا مطیع بنا رکھا تھا۔ نیز، غیر مسلموں کو ’’ذمی‘‘ قرار دے کر اُن سے ’’جزیہ‘‘ لیا جاتا تھا اور ذمیوں کے لیے الگ قوانین بھی تشکیل دیے گئے تھے۔

اگر آج کا غیرمسلم مؤرخ امریکا سمیت دیگر عالمی طاقتوں کی جانب سے مسلمانوں پر روا رکھے گئے مظالم کو کچھ اس طرح بیان کرے گا کہ ’’11ستمبر 2001ء کو امریکا میں واقع ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو تباہ کردیا گیا۔ بعدازاں، شواہد سے واضح ہوگیا کہ دہشت گردی کی اس کارروائی میں عراق اور افغانستان ملوّث تھے۔ لہٰذا، عراق اور افغانستان میں جوابی کارروائی کی گئی اور پھر امریکا نے عراق و افغانستان میں ایسا شان دارانفرااسٹرکچر قائم کیا، جو اس سے پہلے کبھی نہیں بنایا گیا تھا۔ 

علاوہ ازیں، جنگ میں معذور ہونے والے افراد کا مُفت علاج کروایا گیا، ضعیف العمر افراد کے لیے اولڈ ہومز اور خواتین کی تعلیم کے لیے اسکولز قائم کیے گئے۔‘‘ تو جب مستقبل میں غیرمسلم نوجوان اس قسم کی تاریخ پڑھیں گے، تو وہ ہمارے یعنی مسلمانوں سے متعلق کچھ ایسی ہی رائے قائم کریں گے، جیسی کہ ہمارا نوجوان آج غیرمسلموں سے متعلق رکھتا ہے۔

یعنی دونوں ہمیشہ ایک دوسرے کے ’’حریف‘‘ ہی رہیں گے۔ دوسری جانب عصرِحاضر کا مسلمان طالبِ علم جب اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرےگا، تواس نتیجے پر پہنچے گا کہ غیرمسلموں نے ہمیشہ مسلمانوں کے ساتھ زیادتیاں ہی کی ہیں۔ نیز، پہلے ہم فاتح تھے اور اب مغلوب ہوگئے ہیں اور ایک وقت آئے گا کہ ہم دوبارہ غالب آجائیں گے۔ یوں مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان طاقت کے حصول کی یہ جنگ سدا جاری رہےگی۔ لہٰذا، دَورِ جدید کےمؤرخین کو اس ضمن میں بہت غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔

دوسری جانب معروضی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ بیش تر غیرمسلم ممالک میں مسلمانوں کو مساوی بنیادوں پر تمام حقوق حاصل ہیں اور ان ممالک میں غیر مسلموں کا مسلمانوں کے ساتھ رویّہ بھی بہترین ہے، جب کہ اس کے برعکس ماضی میں مسلمان جب کسی مُلک کو فتح کرتے تھے، تو وہاں مقیم غیر مسلموں کو ’’ذمی‘‘ قرار دیتے اور انہیں وہاں اپنے مذہب کی تبلیغ کی بھی اجازت نہیں ہوتی تھی، جب کہ آج بھی غیرمسلموں کو اسلامی ممالک میں تبلیغ کی اجازت نہیں ہے۔

اس کے برعکس غیر مسلم ممالک میں نہ صرف مساجد کی تعمیر میں کوئی رُکاوٹ کھڑی نہیں کی جاتی، بلکہ وہاں مسلمانوں کو تبلیغِ اسلام کی بھی اجازت حاصل ہے، لہٰذا ہمیں یعنی مسلمانوں کو ماضی میں تاریخِ اسلام سے متعلق لکھی گئی کُتب کا ازسرِنوجائزہ لینے کی ضرورت ہے، جب کہ جدید مؤرخین کو اسلامی تاریخ کی بابت ایسی تصانیف تحریر کرنی چاہئیں کہ جن میں تجزیہ بھی شامل ہو۔ 

مزید برآں، تاریخِ اسلام پر مبنی کُتب میں مسلمانوں کی فتوحات کی بجائے اُن کے علمی کارناموں اور سیاسی و انتظامی اصلاحات کو نمایاں کیا جائے، تاکہ قارئین مسلمان حُکم رانوں کے حقیقی کارناموں سے واقفیت حاصل کرسکیں۔ یاد رہے، جنگی فتوحات کے نتیجے میں مفتوح ومغلوب قوم کےافراد مطیع تو ہوجاتے ہیں، لیکن اُن کا جذبۂ انتقام ختم نہیں ہوتا اور وہ بدلہ لےکرہی دَم لیتے ہیں، البتہ کتاب کے آخر میں جنگوں کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ 

نیز، مسلمان مصنّفین اورمؤرخین کوچاہیے کہ وہ اپنی تصانیف کے ذریعے اُمّتِ مسلمہ کو علم و ہُنر کی جانب راغب کریں، جو ہمارے اسلاف کی اصل میراث ہے اور ان ہی کی بنیاد پر ماضی میں مسلمانوں نے ترقّی حاصل کی اور آج بھی ہم سائنس اور ٹیکنالوجی ہی کی بدولت دُنیا میں اعلیٰ مقام حاصل کرسکتے ہیں۔

مختصراً یہ کہ ہمیں مسلمان مؤرخین کی جانب سے تاریخِ اسلام پر لکھی گئی کُتب کا بغورجائزہ لینا چاہیے اور دُنیا کو اپنے اسلاف کے علمی کارناموں سے متعلق آگہی فراہم کرنی چاہیے۔ علاوہ ازیں، اسلامی تاریخ لکھتے وقت کی گئی غلطیوں کی بھی نشان دہی کرنی چاہیے۔

(مضمون نگار، پی ایچ ڈی، اسلامیات ہیں۔ گزشتہ بیس سال سے شعبۂ درس وتدریس سے وابستہ ہیں اور اس وقت آغا خان یونی ورسٹی ایگزامینیشن بورڈ میں بطوراسپیشلسٹ، اسلامیات خدمات انجام دے رہے ہیں)

سنڈے میگزین سے مزید