پاکستان، خصوصاً کراچی جیسے بڑے شہر میں ٹریفک کے نظم و ضبط اور روڈ سیفٹی کے لیے جدید نظام کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں کہ دنیا کے بڑے شہروں میں ٹرانسپورٹ نظام کی درستی کے لیے روایتی چالان یا جرمانوں کی بجائے الیکٹرانک چالان سسٹم مقبول ہو رہا ہے۔ ای-چالان کا بنیادی مقصد (1) شفّافیت، ریکارڈ کی درستی اور (2) فوری اطلاع اور ادائی کے ذریعے قواعد پر عمل داری بڑھانا ہے۔
نیز، یہ نظام روایتی بدعنوانیوں، رکاوٹوں کو کم اور شہریوں کو آن لائن سہولت فراہم کرتا ہے۔ اِس ضمن میں متحدہ عرب امارات، سنگاپور اور بھارت کے کئی صوبے بطور مثال پیش کیے جاسکتے ہیں، جو اِس امر کی عکّاسی کرتے ہیں کہ اگر تیکنیکی انفرا اسٹرکچر مضبوط ہو اور ڈیٹا بیس یک ساں طور پر مربوط ہو، تو ای-چالان سے فوری اور قابلِ اطمینان نتائج برآمد ہوتے ہیں۔تاہم، ای-چالان کا نفاذ محض تیکنیکی مسئلہ نہیں، یہ ایک ادارہ جاتی، قانونی اور عوامی حساسیت کا معاملہ ہے۔
لہٰذا، دنیا بَھر میں کچھ چیلنجز بھی سامنے آئے ہیں، جیسے (ا) ڈیٹا انٹیگریٹی: گاڑیوں اور ڈرائیورز کے رجسٹریشن، ڈیٹا کا درست اور اپ ٹو ڈیٹ ہونا(ب) نوٹی فیکیشن میکانزم: کس طرح مؤثر طور پر شہریوں کو چالان کی اطلاع پہنچے (ج) غلط اندراجات: بعض اوقات سسٹم میں تیکنیکی خامی یا انسانی غلطی کے باعث غلط چالان جاری ہوجاتے ہیں اور (د) ازالہ: اپیل یا ریویو کے مؤثر طریقۂ کار کا فقدان۔
یہ مسائل حل کیے بغیر کوئی بھی ای-چالان پروگرام پائے دار ثابت نہیں ہوسکتا۔ اِسی لیے بین الاقوامی تجربات کے مطابق، نفاذ سے پہلے اور ابتدائی دنوں میں پارلیمانی قواعد، ڈیجیٹل گورنینس، معیارات اور عوامی آگاہی مہمّات ضروری ہیں۔سندھ حکومت نے اسی عالمی تناظر کے پیشِ نظر ای-چالان نظام کی سمت ٹھوس اقدامات اُٹھائے ہیں۔
نئے نظام میں کراچی جیسے میٹروپولیٹن شہر میں روڈ سیفٹی بہتر بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے۔ کیمروں، سینسرز اور سینٹرلائزڈ ڈیٹا بیس کے ساتھ مربوط چالان سسٹم، ٹریفک نظام کو بہتر اور شفّاف بناتا ہے۔ اِس نظام کے نفاذ کے ابتدائی ایّام میں ہزاروں چالان جاری کیے گئے، جس سے روڈ سینس میں فوری بہتری کے آثار دِکھائی دیئے۔
سڑک پیدل پار کرنے، زیبرا لائن کے پاس گاڑیاں روکنے اور ہیلمٹ/سیٹ بیلٹ جیسے بنیادی قواعد کی پابندی میں اضافہ ریکارڈ ہوا۔ یہ وہ نتائج ہیں، جو بین الاقوامی تجربات میں بھی سامنے آئے۔ چوں کہ یہ ایک نیا تجربہ ہے، اِس لیے کچھ عملی مشکلات بھی سامنے آئیں، جو قابلِ توجّہ ہیں۔
اِن مسائل کا حل صرف تیکنیکی پیچیدگیوں کی درستی نہیں، بلکہ شفّاف کمیونی کیشن اور اپیل کے واضح چینلز قائم کرنا بھی ہے تاکہ کسی انسانی غلطی یا تیکنیکی خرابی کو شہریوں کے حقِ اعتراض کے ذریعے درست کیا جا سکے۔ سندھ حکومت کے نقطۂ نظر سے یہ قدم صرف ایک ٹیکنالوجی کے نفاذ تک محدود نہیں، بلکہ اِس نظام کا مقصد شہریوں کی حفاظت، روزانہ کی معیشت میں ٹریفک تاخیر کم کرنا اور ہنگامی خدمات کے لیے راستے کھولنا ہے۔
چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں صوبائی حکومت نے ٹریفک کے نظم و ضبط کو شہر کی ترقّی کا بنیادی جزو تسلیم کیا ہے۔ یہ سیاسی بیانیہ نہیں، بلکہ ریاستی ذمّے داری ہے۔ سندھ حکومت نے ٹریفک ای-چالان کو شفّاف، فیس لیس اور سسٹمیٹک طریقے سے نافذ کرنے کے لیے ادارہ جاتی اصلاحات کی ہیں، جن میں شہری آگاہی، آن لائن ادائی کے ذرائع اور اپیل/درخواست کے مؤثر طریقے شامل ہیں۔
عوامی آگاہی اِس تبدیلی کا لازمی ستون ہے۔ جب شہری جانیں گے کہ یہ نظام کیوں ضروری ہے، نفاذ کا طریقہ کیا ہے اور غلط چالان کی صُورت میں کس طرح اپیل کرنی ہے، تو نظام کی قبولیت میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ سندھ حکومت ویژول کیمپینز، کال سینٹر ہیلپ لائنز اور مقامی میڈیا کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے اِس سمت میں کام کر رہی ہے تاکہ عوام تک تمام معلومات اچھے طریقے سے پہنچائی جاسکیں۔
اس کے ساتھ، پولیس اہل کاروں کی تربیت اور ٹریفک پلاننگ کی بہتری بھی جاری ہے تاکہ نظام محض جرمانے تک محدود نہ رہے بلکہ روڈ سیفٹی کلچر قائم ہوسکے۔ یہ جامع حکمتِ عملی، بین الاقوامی معیارات اور مقامی ضرورتوں کے مطابق ڈھالی گئی ہے۔ سندھ حکومت نے جس ہمّت سے یہ قدم اُٹھایا ہے، وہ قابلِ ستائش ہے۔ اِس اقدام کے ذریعے واضح پیغام دیا جا رہا ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہوگا اور شہریوں کی حفاظت سب سے اہم ترجیح ہے۔
حکومت کو اپنی اِن کوششوں کو عوامی شمولیت، عالمی اصلاحات اور مستقل نگرانی کے ذریعے جاری رکھنا ہوگا تاکہ کراچی اور پورے سندھ کی سڑکیں محفوظ بن سکیں۔ دنیا تیزی سے ڈیجیٹل گورنینس کی جانب بڑھ رہی ہے۔ شہری سروسز، فنانس، صحت، سیکیورٹی، تعلیم، غرض ہر شعبہ اب ٹیکنالوجی کے ساتھ مربوط ہو چُکا ہے۔ اِسی طرح ٹریفک مینجمینٹ بھی اب محض روایتی پولیسنگ نہیں رہی بلکہ جدید ڈیجیٹل انفورسمینٹ کا حصّہ بن گئی ہے، جس کا بنیادی ستون ای-چالان سسٹم ہے۔
مگر جدید دنیا میں کوئی بھی سسٹم صرف ٹیکنالوجی سے نہیں چلتا۔ اسے مضبوط قانونی تحفّظ، شہری حقوق کے احترام، شفّافیت اور جواب دہی کے ستون درکار ہوتے ہیں۔ای-چالان نظام دنیا بَھر میں اِسی لیے مقبول ہوا کہ٭انسان کی بجائے سسٹم اور کیمرے قانون نافذ کرتے ہیں٭ٹریفک قوانین کا نفاذ شفّاف اور غیرجانب دار ہوتا ہے٭خلاف ورزی کا ڈیجیٹل ثبوت موجود ہوتا ہے٭وقت اور جگہ کی قید کے بغیر آٹومیٹڈ کارروائی ہوتی ہے٭شہریوں کو آن لائن نوٹی فیکیشن، ادائی اور اپیل کی سہولت میسّر ہوتی ہے۔
تاہم، اِس کا ایک دوسرا رُخ بھی ہے اور وہ یہ کہ دنیا نے سسٹم میں غلطی کے امکانات بھی تسلیم کیے ہیں۔ جیسے نمبر پلیٹس کی mis-readings، غلط ڈیٹا اینٹری یا سسٹم کی کوئی تکنیکی خرابی۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر دو اصول مسلمہ ٹھہرے: (1) کسی بھی شہری کے خلاف کارروائی شفّاف ہو(2) شہری کو اپیل اور شکایت کا منصفانہ حق حاصل ہو۔یہی اصول سندھ حکومت نے بھی اپنائے ہیں۔
یورپ نے General Data Protection Regulation کے ذریعے دنیا بَھر میں یہ اصول متعارف کروایا کہ٭شہری کا ڈیٹا اُس کی اجازت اور اخلاقی اصولوں کے مطابق ہی استعمال ہو٭ہر ڈیجیٹل کارروائی کی شفّاف دستاویز موجود ہو٭شہری کو یہ حق ہو کہ وہ اپنے ڈیٹا، اُس کے استعمال اور غلطیوں پر اعتراض اُٹھا سکے ٭نگرانی (surveillance) اور سزا، دونوں کا استعمال قانونی اور دستاویزی انداز میں ہو۔ ای-چالان چوں کہ کیمرا نظام پر مبنی نگرانی کا نظام ہے، تو اِس لیے GDPR جیسے قوانین اس کے لیے عالمی معیار طے کرتے ہیں،یہی معیار سندھ حکومت بھی اپنا رہی ہے۔
اگر دنیا کی مثالیں دیکھی جائیں، تو متحدہ عرب امارات نے جدید نگرانی اور شہری سہولت، کیمروں کے ذریعے آٹومیٹڈ ٹریفک انفورسمینٹ، آن لائن پورٹل، اسمارٹ فون ایپس، واضح، فوری نوٹی فیکیشن اور غلط چالان کی صُورت میں آن لائن ریویو سسٹم کے ذریعے ثابت کیا کہ جدید ٹریفک سسٹم صرف جرمانوں کا نام نہیں، یہ شہریوں کے ساتھ ڈیجیٹل سوشل کنٹریکٹ ہے۔
اِسی طرح سنگاپور نے Zero-Tolerance پالیسی، ٹیکنالوجی کے ساتھ پبلک ٹرانسپورٹ انٹی گریشن اور ٹریفک قوانین کی اسکولز کی سطح پر تدریس کے ذریعے اپنا ٹریفک نظام بہتر بنایا، جب کہ برطانیہ نے شہری حقِ اپیل، عدالتی نگرانی، CCTV evidence کی قانونی طور پر منظوری اور شہری کو 14دن کے اندر اپیل کا حق دے کر ای چالان نظام کو بہتر بنایا۔ یہی وہ نکات ہیں، جنہیں سندھ حکومت نے ابتدائی مرحلے میں سمجھا، اِسی لیے شہری آگاہی مہم، سوشل میڈیا ریسپانس ٹیم اور اپیل کا نظام ساتھ ساتھ متعارف ہو رہا ہے۔
کراچی، حیدرآباد اور دیگر شہروں میں ٹریفک کا دباؤ زیادہ، آبادی کثیر اور گاڑیوں کا بہاؤ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ ایسے میں روایتی نظام ناکافی، رشوت/بدعنوانی کی شکایات عام، ٹریفک حادثات میں اضافہ، راہ گیروں کے حقوق متاثر اور ایمبولینسز یا ایمرجینسی ریسپانس سُست ہونے جیسے مسائل سامنے آرہے ہیں اور یہی وہ صُورتِ حال ہے، جو ڈیجیٹل ٹریفک نظام کو ناگزیر بناتی ہے۔
سندھ حکومت نے بین الاقوامی اصولوں کے مطابق کیمروں پر مبنی شفّاف نظام، شہری کو تصویر کے ساتھ چالان کی فراہمی، غلط چالان کی شکایت/اپیل کا نظام، ٹریفک پولیس کی جدید تربیت، عوامی آگاہی مہم اور شہری سروس سینٹر/ آن لائن ادائی جیسے طریقے متعارف کروائے ہیں۔ صوبائی حکومت کے یہ اقدامات صرف جرمانہ نہیں، روڈ کلچر ریفارمز ہیں۔کراچی پاکستان کا معاشی مرکز ہے۔
شہر کے لیے ایک جدید، محفوظ اور قانون کے تابع ٹریفک مینجمنٹ سسٹم کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ سندھ حکومت کا مقصد صرف جرمانے وصول کرنا نہیں، بلکہ روڈ سیفٹی، شہری تحفّظ اور قانون کی بالادستی کو بھی یقینی بنانا ہے۔ جدید شہروں میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر آن لائن چالان معمول ہے اور کراچی بھی اُسی جدید نظام کی طرف بڑھ رہا ہے۔
لاہور میں اِی چلان سسٹم کو عوام نے وقت کے ساتھ قبول کیا اور آج وہاں ٹریفک ڈسپلن پہلے سے کئی گُنا بہتر ہے۔ کراچی بھی اُسی سمت بڑھ رہا ہے اور صوبائی حکومت اسے’’عوام دوست پالیسی‘‘ انداز میں لے کر چل رہی ہے۔ حکومتِ سندھ شہریوں کی تجاویز کو خوش آمدید کہتی ہے۔ تنقید اگر تعمیری ہو، تو اس سے نظام بہتر ہوتا ہے۔ اِسی لیے شکایات، تجاویز اور بہتری کی تجاویز کے لیے خصوصی سیل بھی قائم کیا گیا ہے۔ (مضمون نگار ، حکومتِ سندھ کی ترجمان ہیں)