کراچی میں اِن دِنوں ایک ہیجان برپا ہے۔ ذرائع ابلاغ سے لے کر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس تک، سب پر اس مسئلے کی زوردار گونج سنائی دے رہی ہے۔ یہ مسئلہ ای ٹریفک چالان کا ہے۔ شہر میں نافذ کیے گئے اس نئے نظام نے شہریوں میں شدید بے چینی کی لہر دوڑادی ہے۔ وہ بہت سے سوالات اٹھارہے ہیں جن کے جواب دست یاب نہیں ہیں۔
منطقی طور پر وقت اور حالات کی مناسبت سے اس فیصلے کا دفاع مشکل نظر آتاہے۔ ایسے میں نظامِ حکومت اور سہولتیں بہتر بنانے کے دیگر امکانات پر توجّہ نہ دینے کے شکوے بھی وزن رکھتے ہیں۔ شہر کی سیاسی اور سماجی جماعتیں اور تنظیمیں اسے شہریوں پر ظلم قرار دے رہی ہیں۔
ایسے میں بعض حلقے اس اقدام کی اس حد تک حمایت کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں کہ شہر میں ٹریفک کا نظام بہتر بنانے کے لیے کوششیں کی جانی چاہییں اور چالان بھی ہونے چاہییں، لیکن جس شدّت سے اور جتنی مالیت کے چالان کیے جارہے ہیں اس سے وہ بھی متفق نظر نہیں آتے۔
لوگوں کو دیوار سے نہ لگائیں
تیئس اکتوبر کی رپورٹ کے مطابق ٹریفک پولیس ، کراچی نے رواں سال9ماہ کے دورا ن شہر میں 12لاکھ سے زائدچالانز میں97کروڑ روپے سے زائد کے جرمانہ عائد کیے، جن میں موٹر سائیکل چلانے والوں پر 7لاکھ سے زائد چالانز میں 41کروڑ سے زائد جرمانہ عائد کیے گئے۔ٹریفک پولیس کی جانب سے شہر میں فیس لیس ای ٹیکٹنگ کا نظام وضح کیا گیا ہے۔
اس سلسلےمیں یکم اکتوبر سے ٹریفک پولیس کی جانب سے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف موقع پر چالان بنانابند کردیا ہے اور یکم اکتوبر سے شہر میں ٹریفک پولیس کی جانب سے کسی شہری کے خلاف کوئی چالان نہیں کیا جارہا ہے۔
تاہم27اکتوبر سے شہر بھر میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر ڈرائیور کو بھاری جرمانوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور جرمانوں کے چالان بہ ذریعہ ڈاک ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے گھروں پر بھجوائے جائیں گے۔ ٹریفک پولیس نے رواں سال یکم جنوری سے30ستمبر تک شہر میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی گاڑیوں کے مجموعی طورپر12لاکھ4ہزار13چالان کیے۔
ان چالانز کی مد میں 97 کروڑ81لاکھ96ہزار850روپے جرمانہ وصول کیا گیا۔ٹریفک پولیس کے ذرائع سے حاصل اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ موٹر سائیکل چلانے والوں کے7لاکھ 4ہزار 1سو97چالان کیےگئے جن سے41کروڑ 74لاکھ 7 سو 50 روپے جرمانہ وصول کیا گیا۔
دوسرے نمبرپرمنی ٹرک گاڑیوں پر1لاکھ29ہزار 3سو48 چالان کیے گئے جن سے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانہ کی مد میں13کروڑ24لاکھ7ہزار9سو روپے وصول کیے گئے۔ تیسرے نمبر پر سوزوکی گاڑیوں پر92ہزار 2سو 88چالان کئے گئے جن سے 7کروڑ 52 لاکھ 68ہزار 8سو جرمانہ وصول کیا گیا۔
اس کے بعد موٹر کارپر83ہزار 818 چالانز کی مد میں 8کروڑ 1لاکھ 41 ہزار 2سو ،اسی طرح ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے رکشوں پر65ہزار 2سو8چالانز کی مد میں 9کروڈ 21 لاکھ50ہزار 3سو روپے جرمانہ وصو ل کیا۔
دیگر چالانز میں بسوں کے 6ہزار 7سو90چالانز پر1کروڈ 54 لاکھ13ہزاور 9سو ،ڈاٹسن گاڑیوں کے 6 ہزار5سو68 چالانزپر68لاکھ54ہزار 6سو،ڈمپر گاڑیوں کے 29 سو35چالانز پر54لاکھ 92 ہزار 5سو،انٹر سٹی بسوں پر 5سو84چالانز کی مد میں 16 لاکھ 41 ہزار 9سو روپے، جیپس پر 6 ہزار 1سو 67 چالانز کی مد میں 42 لاکھ 96ہزار4سو، منی بس وکوچز پر 29 ہزار 3سو62 چالانز کی مد میں 3کروڑ 56 لاکھ 96 ہزار 3سو، آئل ٹینکر ز پر2ہزار1سو38چالانز کی مد میں40 لاکھ 76 ہزار 30، چنگچی رکشوں پر 5سو50 چالانز کی مد میں 7 لاکھ 25 ہزار 5سو، ٹیکسی گاڑیوں پر 2سو8چالانز کی مد میں 2لاکھ78ہزار 2سو ،ٹریکٹر پر 1سو 83 چالانز کی مد میں 3 لاکھ 41 ہزار ،ٹرالر پر 13 ہزار 9سو 18 چالانوں کی مد میں 2کروڑ12ہزار 8 سو، ویگن ہائی لیکس گاڑیوں پر9ہزار 7سو64چالانز کی مد میں 1 کروڑ45لاکھ36ہزار2سو اور واٹر ٹینکرز پر 6 ہزار1سو9چالانوں کی مد میں1کروڑ 22لاکھ 71 ہزار 8سو روپے جرمانہ وصول کیا گیا ۔
ای چالان کا نظام نافذ ہونے کے بعد آنے والی خبریں اس سے بھی زیادہ خراب تصویر پیش کرتی ہیں۔ تیس اکتوبر کی خبر کے مطابق کراچی کی سڑکوں پرتین یوم میں11ہزار سے زائد 'ای چالان کیے گئے جن میں سے ایک ہزار 755 چالان تیز رفتاری پر کیے گئے۔
شہری ای چالانز پرحیران و پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ شکوہ کناں ہیں کہ حکومت نے کیمرے اور ڈیوائسز تو لگا دیں مگر کہیں بھی رفتاری کی حد یا چالان کی زد میں آنے والی دیگر خلاف ورزیوں کے بارے میں بینرز یا سائن بورڈز نہیں لگائے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ اندھا دھند چالان کیے گئے تو ساری کمائی چالان بھرنے میں ہی چلی جائے گی۔
دوسری جانب ڈی ایس پی ٹریفک، کاشف ندیم کا کہنا ہے کہ کراچی میں حسن اسکوائر، سوک سینٹر ، شارع فیصل، نرسری ، بلوچ کالونی اور ڈرگ روڈ ،، آئی آئی چند ریگر روڈ ، کلفٹن، تین تلوار اور ڈیفنس اتحاد اسٹریٹ پر سسٹم رائج ہے جو اوور اسپیڈ مانیٹر کررہا ہے۔
یاد رہے کہ ڈی آئی جی ٹریفک پیر محمد شاہ کے زیر استعمال سرکاری گاڑی کا بھی ای چالان ہوا تھا۔ ڈی آئی جی ٹریفک نے چالان کی تصدیق کرتے ہوئے بتایاتھا کہ گاڑی کا چالان گارڈن کے قریب ہوا جسے ڈرائیور چلارہا تھا، 10ہزار روپے کا چالان سیٹ بیلٹ نہ باندھنے پر ہوا۔
ای چالان سسٹم کے28اکتوبر کو نفاذ کے بعد صرف ابتدائی چھ گھنٹوں میں شہریوں کے ایک کروڑ25لاکھ روپے سے زائد کے چالان کیے گئے۔ اس حوالے سے کراچی ٹریفک پولیس کاموقف ہےا کہ چھ گھنٹوں میں مجموعی طور پر2ہزار662چالان کیے گئے جن میں اوور اسپیڈنگ پر419اور لین لائن پر گاڑی نہ چلانے پر 3 چالان ہوئے۔
شہر کے سیاسی اور سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ جس رفتار سے چالان ہونا شروع ہوئے ہیں اسے دیکھتے ہوئے یہ خوف محسوس ہورہا ہے کہ کہیں لوگوں کو قانون کی پاس داری کے نام پر دیوار سے لگانے کے نتیجے میں وہ بغاوت پر نہ اُتر آئیں۔اگرخدانخواستہ ایسا ہوا تو اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے لوگ اسے سنبھال نہیں پائیں گے۔
موٹر سائیکل سواروں پر بھاری بوجھ
رواں برس ہونے والے چالانز کے اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ موٹر سائیکل سوار وں پر جرمانوں کا بہت زیادہ بوجھ ڈالا گیا ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل نئی نمبر پلیٹس کی مد میں ان سےساڑھے پندرہ سو روپے وصول کیے گئے تھے۔
شہر کی سڑکوں پر چلنے والے ٹریفک میں اگر چہ آج موٹر سائیکلز کی تعداد سب سے زیادہ نظر آتی ہے،لیکن دوسری جانب یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ یہ سڑک پر چلنے والی سب سے سستی سواری ہے(بائیسکل کے بعد،جو اب خال خال ہی نظر آتی ہیں)۔
اسے زیادہ تر غریب اور متوسط طبقے کے افراد چلاتے ہیں اوران میں یومیہ اوسطا سو تا دوسو روپے کا پیٹرول ڈلواتے ہیں۔ اسے چلانے والوں میں یومیہ اجرت پر کام کرنے والے محنت کشوں سے لے کر کھانوں کا آرڈر گھر گھر پہنچانے والے، گلی گلی گھوم کر سامان بیچنے والے، چھوٹی موٹی دکان چلانے والے، شہر میں مسافر بردار گاڑیوں کی شدید قلت اور دست یاب گاڑیوں کی حالتِ زار سے تنگ آکر موٹر سائیکل پر دفتر یا کاروباری مقام پرآنے جانے والے، تھوک بازاروں سے سامان خرید کر مختلف دکانوں پر سپلائی کرنے والے وغیرہ شامل ہیں۔ یہ سب افراد غریبوں یا نچلے متوسط طبقات میں شمار ہوتے ہیں۔
اگر انہیں اتنے بھاری جرمانوں کے ذریعے زِچ کیا گیا تو ایک جانب امن وامان کے مسائل کھڑے ہوسکتے ہیں تو دوسری جانب شہر میں اشیا کی فراہمی متاثر ہونے، ان کے نرخ بڑھنے،حتی کہ بے روزگاری اور خودکشیوں کی شرح بڑھنے کے بھی خطرات ہیں۔
شہرِ ناپُر ساں،مگر سونے کی چڑیا
کراچی طویل عرصے سے مسائل کاشہر بن چکا ہے۔ بڑھتی ہوئی آلودگی سے لے کر پانی کی نکاسی تک کا نظام درہم برہم ہے۔ بجلی کا بحران،ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، سڑکوں پر خطر ناک ٹریفک، پبلک ٹرانسپورٹ کا نہ ہونا، تعلیمی مسائل، گندگی سے پھیلنے والی بیماریوں سے لے کر کتے کے کاٹنے کے بعد لگائی جانے والی ویکسین کا موجود نہ ہونا، سمندر پاس ہوتے ہوئے بھی شہریوں کو پانی میسر نہ ہونا۔ اس کے علاوہ بھی بے تحاشا مسائل اس شہر میں موجود ہیں۔ لیکن دوسری جانب یہ شہر سونے کی چڑیا بھی ہے۔
کراچی کو حکومتی سطح پر کافی عرصے سے نظر انداز کیا جارہا ہے۔ اختیارات کی جنگ نے کراچی کو تباہ کر دیا ہے مسائل کا انبار ہے، مگر کوئی پرسان حال نہیں۔ بانی پاکستان کا شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو رہا ہے۔ ایک روڈ سلامت نہیں۔ تمام سرکاری اداروں کے ملازمین تن خواہیں تووصول کرتے ہیں، مگر کام کرنے کو کوئی تیار نہیں۔
پانی کا بل عوام ہر ماہ ادا کرتے ہیں مگر پانی عوام کو میسر نہیں ہے۔ بجلی کم بل زیادہ کی صورت حال ہے۔ کراچی والوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کو کوئی تیار نہیں ہے۔ ہر سیاسی جماعت یہ کہتی ہے کہ کراچی ہمارا ہے، مگر کراچی والوں کے درد کو سمجھنے کےلیے کوئی تیار نہیں۔
وفاق،صوبے اور سندھ کی سیاسی جماعتوں کے درمیان یہ سہہ فریقی تنازع بڑے عرصہ سے کراچی کے مسئلے کے حل سے زیادہ اس کا حصہ ہے۔2011سے سپریم کورٹ نے کراچی کے مسائل کو بڑی سنجیدگی سے لیا، جب سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے از خود نوٹس کارروائی کے تحت کراچی میں امن و امان کے معاملے کو اٹھایا، لیکن کراچی کے مسائل ہنوز حل نہیں ہوئے۔ زیادہ تر حکومتوں کی توجہ عبوری اور عارضی اقدامات پر مرکوز رہی۔ کراچی کو انتظامی اور سیاسی دونوں طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔
اس سے کہیں زیادہ یہ عروس البلاد مختلف مافیاز کے شکنجے میں رہا۔ امن و امان کے علاوہ بجلی، پانی، گیس جیسی بنیادی سہولتوں کا بھی فقدان رہا ،تمام بڑے شہری ادارے اپنی غفلت اور نا اہلی کے باعث مسائل کے حل میں ناکام رہے ۔شہر کھنڈر اور کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ مافیاز نے قیمتی زمینوں پر قبضے کر نے شروع کر دیے اور یہ قبضے چھڑانا اتنا آسان نہیں ہے۔ ان مافیاز کی وجہ ہی سے ابھی تک کراچی کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا۔ چالیس سال پرانا ماس ٹرانزٹ کا مسئلہ ہویا عظیم تر آب رسانی کا منصوبہ، کے۔ فور یا گرین لائن بس پروجیکٹ یا سرکلر ریلوے کی بحالی، کوئی اپنے انجام کو نہیں پہنچا۔ اس ابتری کی بلدیاتی حکومت بھی برابر کی ذمے دار ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ ای چالان جیسے اقدامات کے بجائے کراچی کےمسائل کاپانے دار حل طاقت ور بلدیاتی نظام میں مضمرہے۔ یہ حکومت سندھ اور بلاول بھٹو زرداری کےلیےوقت ہے کہ وہ اٹھارہویں آئینی ترمیم پر عمل درآمد کا بھی جائزہ لیں اور اس شق کو لاگو کریں جس کے تحت مالی، سیاسی اور انتظامی اختیارات مقامی حکومتوں کو منتقل ہوتے ہیں۔
لوگوں کے سوالات
لوگ سوال کررہے ہیں کہ جس ملک میں تن خواہ دار طبقہ سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرتا ہے، اسے ای چالان جیسے شوشوں کے ذریعے کیوں مزید زیرِ بار کیا جارہا ہے۔ اشرافیہ اور محاصل چوری کرنے والوں کی گردنیں کیوں نہیں ناپی جاتیں۔ اگر نظام کو بہتر کرنے کے لیے فنڈز کی ضرورت ہے تو ان کی گردنیں پکڑیں۔
ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانے کیے جائیں، لیکن اس قدر زیادہ مالیت کے نہیں۔ پھر یہ کہ کوئی بھی نظام ایک روز میں تبدیل نہیں ہوتا۔ اس کے لیے ذہنیت تبدیل کرنے کا طویل اور صبرآزما کام کرنا پڑتا ہے۔اس کے لیے کیا کیا گیا ہے؟
لوگ سوال کررہے ہیں کہ شہر میں پانچ ہزار نئی اور جدید بسیں لانے کے وعدے پورے ہوگئے؟ ڈمپرز اور ٹینکرز پر کیمرے اور ٹریکر لگانے کا کیا ہواکیا اس فیصلے پر عمل درآمد ہوگیا؟
ہزاروں لگژری گاڑیوں کے مالکان ٹیکس نہیں دیتے، کیا ان سب پرشکنجہ کس لیا گیا؟ کیا کراچی سرکلر ریلوے بحال ہوگئی؟ ماس ٹرانزٹ سسٹم مکمل ہوگیا، ریڈ،یلو اور بلیو لائن کے منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچ گئے؟ سیف سٹی اور پورے شہر میں مفت وائی فائی ہاٹ اسپاٹ کے وعدے وفا ہوچکے؟
مسئلے کی جڑ کا خاتمہ کریں
کراچی میں ٹریفک جام ہونے اور قوانین کی خلاف ورزیوں کی شکایات ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہیں۔ اس مسئلے کے کئی پہلو ہیں لہذا اس کا حل نکالنا آسان کام نہیں ہے اور صرف ای چالان کا نظام نافذ کرکے یہ مسائل حل نہیں کیے جاسکتے۔ بادی النظر میں متعلقہ حکام مسئلے کے بہت سے پہلوؤں سے ناواقف نظر آتے ہیں یا ان پر توجہ دینے کو تیار نہیں ہیں۔ شہر میں ٹریفک کی روانی کو بحال رکھنا ایک جانب بلدیہ عظمی کراچی کی ذمے داری ہے اور دوسری جانب ٹریفک پولیس کی۔
بلدیہ اس مسئلے کے تیکنیکی پہلوؤں کو دیکھتی ہے، بالخصوص انجینئرنگ کے نقطۂ نظر سے اور ٹریفک پولیس کا محکمہ ٹریفک کے قوانین کے نقطۂ نظر سے۔ یہ علیحدہ علیحدہ نقطہ ہائے نظر بھی اس مسئلے کے حل کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔جب تک ہم ایک چھت تلے اس مسئلے کا تمام پہلوؤں سے جائزہ نہیں لیں گے اور تمام متعلقہ شعبوں کے ماہرین کی مدد حاصل نہیں کریں گے اس وقت تک اس مسئلے کا پائے دار حل نہیں نکل سکے گا۔
اگرچہ پاکستان جیسے ممالک میں عوام اور خواص میں ٹریفک کنٹرول اور ٹریفک انجینئرنگ کے بارے میں زیادہ شعور نہیں ہے، لیکن ترقی یافتہ دنیا اس بارے میں بہت پہلے سے بے دار ہے۔ مثلاً برطانیہ میں 1970ء کی دہائی میں اس بارے میں گیارہ ملین امریکی ڈالرز کی لاگت سے چھیاسی انٹر سیکشنز پر ایک تحقیق کی گئی تھی۔ جدید چورنگیاں بنانے کا آغاز اس تحقیق کے بعد ہوا تھا جو وہاں کی ٹرانسپورٹیشن ریسرچ لیباریٹری نے کی تھی۔
اس تحقیق کے نتیجے میں برطانیہ اس قابل ہوا تھا کہ وہ اپنی چورنگیوں کی جیومیٹری اور حفاظت سے متعلق خامیاں دور کرسکے۔ اس کام کے نتیجے میں وہاں بہت سی چورنگیاں بحال کی گئیں اور بہت سے مقامات پر نئی بنائی گئیں۔ اس کے بعد دنیا بھر میں اس بارے میں مزید کام ہوا۔ 2003ء میں ریاست ہائے متحدہ امریکا میں سیفٹی ریسرچ اسٹڈی میں چوبیس انٹرسیکشنز کا جائزہ لیا گیا۔
اس تحقیق کے دوران ماہرین نے بہت سی خامیوں کی نشان دہی کی جنہیں بعد ازاں دور کردیا گیا۔ خامیاں دور کرنے کے بعد ماہرین نے متعلقہ انٹر سیکشنزپر پہلے اور بعد میں ہونے والے حادثات کا تجزیہ کیا تو پتا چلا کہ ہر طرح کے حادثات کی سنگینی میں39فی صد کمی واقع ہوچکی ہے۔ اس کے علاوہ ہر طرح کے حادثات میں لوگوں کے زخمی ہونے کی شرح مجموعی طور پر76فی صدکم ہوئی اور جان لیوا اور معذور کردینے والے حادثات میں90فی صد تک کمی آئی۔
یہ نتائج ہمیں بتاتے ہیں کہ دنیا بھر میں ہونے والی اس نوعیت کی تحقیق سے حاصل ہونے والے اسباق پرعمل کیا جائے تو ہمیشہ کثیرالجہتی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
ان تحقیقات سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ٹریفک کا نظام بہتر بنانے کے ضمن میں چورنگیوں اور انٹرسیکشنز کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اتنی تحقیق اور جستجو سے حاصل ہونے والے فوائد کس قسم کے ہوتے ہیں؟ اس سوال کا جواب درج ذیل نکات کی شکل میں دیا جاسکتا ہے:
(1) جدید تحقیق کے مطابق چورنگیاں اور انٹرسیکشنز بنانے سے ٹریفک کی رفتار حد میں رہتی ہے جس کے نتیجے میں ہر طرح کے لوگوں کے لیے سڑک کے حادثات کی شرح اور ان کی شدت کم ہوجاتی ہے۔
(2) چورنگی کے گرد چلنے والے ٹریفک کے خلاء میں داخل ہونے کے لیے ڈرائیور کو زیادہ وقت مل جاتا ہے۔
(3) تنگ روڈ وے اپروچز بنانے سے پیدل چلنے والوں کے لیے سڑک عبور کرنے کا فاصلہ کم ہوجاتا ہے اور انہیں سڑک عبور کرتے وقت صرف ایک جانب دیکھنا پڑتا ہے۔
(4) چورنگیاں ایسے لوگوں کے لیے محفوظ انٹرسیکشن کا کام دیتی ہیں جو نو آموز ہوتے ہیں۔
(5) گاڑیاں صرف دائیں جانب مڑ سکتی ہیں۔
(6) گاڑی رکنے کے مواقعے کم ہونے اور زیادہ دیر تک گاڑیاں نہ رکنے کی وجہ سے دھوئیںکا اخراج کم ہوجاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اگر آپ ٹریفک کی روانی میں خلل کم کردیں تو گاڑیاں چلانے والوں کا اضطراب بھی کم ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش نہیں کرتے اور یوں حادثات کی شرح کم ہوجاتی ہے۔ اسی لیے اس اصول کو حفاظت کا اصول بھی کہا جاتا ہے اور ٹریفک انجینئرنگ کے لیے دنیا بھر میں متعدد سیفٹی ماڈلز بنائے اور اختیار کیے گئے ہیں۔
اس ضمن میں کسی بھی چورنگی یا انٹرسیکشن پر سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہاں کتنی سمتوں سے گاڑیاں آتی ہیں اور کن نقطوں پر ان کے آپس میں ٹکرانے کے خطرات ہوتے ہیں۔ اس موقعے پر میکرو اسکوپک نامنل سیفٹی ماڈل کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹریفک کی مرجنگ، ڈائی ورجنگ اور کراسنگ کے بارے میں بہت احتیاط سے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ اس مرحلے پر یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ اگر ساری گاڑیاں ایک وقت میں ایک ہی جانب سے آرہی یا جارہی ہوں تو کیا صورت حال پیدا ہوگی۔
بنائے گئے ڈیزائن کے مطابق چورنگی یا انٹرسیکشن سے گزرنے والی گاڑیوں کی ممکنہ رفتار کیا ہوگی، اگر رفتار مقررہ حد کے مطابق ہوگی تو فی منٹ یا گھنٹہ وہاں سے کتنی گاڑیاں با آ سانی گزر سکیں گی، اس شرح سے وہاں سے گزرنے والی گاڑیاں جس سمت میں جائیں گی، وہاں کی سڑکوں پر ٹریفک کا دبائو کتنا ہوگا، جن سڑکوں سے یہ گاڑیاں سفر کرکے آرہی ہوں گی ان سڑکوں پر دباؤ کتنا کم ہوگا، ان سڑکوں اور چورنگی پر حادثات کی ممکنہ شرح کیا ہوگی۔
حادثے کی صورت میں وہاں سے قریبی اسپتال کتنے فاصلے پر ہوگا، اگر فاصلہ زیادہ ہوا تو حادثے کا شکار ہونے والوں کی جانوں کو کس طرح کے خطرات لاحق ہوں گے اور کیا قریب موجود اسپتال میں ارد گرد ہونے والے سڑک کے حادثات سے نمٹنے کے لیے مناسب انتظامات ہیں (یعنی وہ ٹراماسینٹر کے طور پر کام کرسکتے ہیں یا نہیں)۔
لیکن افسوس کہ ہمارے ملک میں سڑکیں اور چورنگیاں بناتے وقت ان نکات میں سے اکثر کا خیال نہیں رکھا جاتا ہے جس کی وجہ ے بڑے شہروں میں نہ صرف ٹریفک کی روانی بری طرح متاثر رہتی ہے اور ایندھن کا زیاں ہوتا ہے بلکہ جاں لیوا حادثات کی شرح بھی بڑھتی جارہی ہے۔
چورنگیوں اور انٹرسیکشنز پر ممکنہ حادثات کا جائزہ لینے کے لیے وہ کانفلکٹ اپارچونٹی ٹیکنالوجی بھی بروئے کار لاتے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی بنیادی طور پر 1968ء میں کی جانے والی ایک تحقیق کے بعد فروغ پزیر ہوئی۔ اس کے تحت کسی حادثے کے بارے میں درج ذیل چار جہتوں سے تحقیق کی جاتی ہے:
(1) حادثے کا زاویہ
(2) ریئر اینڈ ایکسی ڈینٹ۔
(3) سائیڈ سوئپ ایکسی ڈینٹ۔
(4) فکسڈ آبجیکٹ/ سنگل وہیکلز ایکسی ڈینٹ۔
حادثات کے ضمن میں وہاں ٹریفک کنٹرول سلیکشن (یعنی ٹی ڈبلیو ایس سی، اے ڈبلیو ایس سی، سگنل یا چورنگی کے ذریعے)، انتہائی دبائو کے صبح اور شام کے اوقات میں لین کے لحاظ سے ٹریفک کا دبائو اور دن کے دیگر اوقات میں ٹریفک کے دباؤ سے اس کا موازنہ، اپروچ کی جیومیٹری، ٹرن بے کی لمبائی، اپروچ اسپیڈ، مڑنے کا قطر، سگنل کے دن بھر کے اوقات وغیرہ۔
ملائیشیا کی قابلِ تقلید مثال
ملائیشیا میں دو دہائیاں قبل تک موٹرسائیکلز کے بہت زیادہ حادثات ہوتے تھے۔ لیکن پھر وہاں حکومت نے بعض موثر اقدامات اٹھائے، جن کی وجہ سے ان میں قابلِ ذکر حد تک کمی آئی۔ وہاں موٹرسائیکلز کے لیے مخصوص لین بنائی گئیں جو دنیا میں اپنی نوعیت کی سب سے پہلی لین تھیں۔
انہوں نے موٹرسائیکلز اور مسافر بردار گاڑیوں کے مختلف پیٹرنز کو مدِّنظر رکھ کر سڑکیں ڈیزائن کیں۔ 1992ء میں موٹرسائیکلز کی لین میں 14 کلومیٹر کا اضافہ کیا۔ انہوں نے حادثات کی نوعیت، شدّت اور ان کے نتیجے میں آنے والی چوٹوں کا جائزہ لیا اور اس کی روشنی میں حادثات سے قبل اور بعد کی صورت حال کے لیے اپنی حکمتِ عملیاں تبدیل کیں اور انہیں مزید مؤثر بنایا۔
بگوٹا ماڈل
دنیا بھر میں ٹریفک سے متعلق مسائل اور خطرات کم کرنے کے لیے بہت سے ممالک نے نہ صرف ماس ٹرانزٹ نظام تشکیل دیا اور اسے بہتر بنایا، بلکہ ایسی حکمتِ عملیاں بھی وضع کیں، جن کی وجہ سے لوگوں کی جانب سے ذاتی موٹرگاڑیاں اور موٹر سائیکلز یا اسکوٹرز استعمال کرنے کے ضمن میں حوصلہ شکنی ہوئی۔ ترقی یافتہ ممالک کے علاوہ بعض ترقی پزیر ممالک نے بھی ایسی ہی کوششیں کیں، جن کی وجہ سے نہ صرف ٹریفک جام ہونے کی شکایات اور سڑک کے حادثات میں خاطر خواہ کمی ہوئی، بلکہ ماحولیاتی آلودگی بھی کم ہوئی۔
اس ضمن میں کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں، جن میں سے برازیل اور کولمبیا کی مثالیں خاصی اہم ہیں۔ ان ممالک نے اپنے دو شہروں کو پبلک ٹرانسپورٹ کے موثر ہونے اور سڑکوں کو محفوظ بنانے کے ضمن میں دنیا بھر کے لیے نمونہ بنادیا۔ ان نمونوں کی کئی ترقی پزیر ممالک میں تقلید کی گئی۔ بیسویں صدی کے اواخر میں کولمبیا کے شہر بگوٹا میں ٹریفک کی صورت حال ہمارے شہروں جیسی ہی تھی۔
لیکن 1998ء میں اینرک پینالوسا بگوٹا کے میئر منتخب ہوئے تو انہوں نے متعلقہ لوگوں سے یہ سوال کیا کہ جب بگوٹا کے 85 فی صد شہری روزمرہ کے معمولات کے لیے اپنی موٹرگاڑیاں استعمال نہیں کرتے، تو کیا یہ منصفانہ بات ہوگی کہ ہماری سڑکوں پر زیادہ تر جگہیں موٹرگاڑیاں گھیریں؟ اس سوال نے وہاں بہت کچھ بدل دیا اور آج دنیا بھر کے ماہرین شہروں کی منصوبہ بندی کے ضمن میں سوچ بچار کرتے ہوئے اس سوال پر بھی غور کرتے ہیں۔
اینرک پینالوسا نے اپنی اس فکر کے تحت بگوٹا کا نقشہ ہی بدل دیا۔ اس شہر کی آبادی تقریباً 70 لاکھ نفوس پر مشتمل تھی، لیکن انہوں نے اتنی بڑی آبادی کے مسائل کے باوجود اپنا سفر جاری رکھا اور 2015ء تک یہ شہر دنیا بھر میں کام یابی کی نئی مثال بن کر ابھرا۔ واضح رہے کہ کولمبیا کے مختلف علاقوں سے ہر سال ایک لاکھ40ہزار افراد بگوٹا میں آکر بس جاتے ہیں اور ہر سال بگوٹا میں70ہزار موٹرکاریں رجسٹر ہوتی ہیں۔
اینرک پینالوسا نے میئر کی حیثیت سے ذمے داریاں سنبھالنے کے بعد کئی جہتوں میں کام کیا۔ انہوں نے شہر کے باسیوں کے لیے شہر میں زندگی گزارنا سہل بنایا، نئے اسکولز اور سڑکیں بنائیں، غریبوں کے علاقوں تک گندآب کی نکاسی کی سہولتیں پہنچائیں، پارکس کی مرمت کرائی اور آٹو موبیلز کے استعمال کے بارے میں بعض پابندیاں عائد کیں اور سخت پالیسز بنائیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ٹرانسپورٹ کے ضمن میں بعض اصلاحات نافذ کیں۔
انہوں نے بائیسکلز کے لیے70میل طویل راستے بنائے، بہت سی سڑکوں پر موٹرکاروں کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا اور رش کے اوقات میں موٹرکاروں کے استعمال پر پابندی عائد کردی۔ انہوں نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ نمبر پلیٹ کی بنیاد پر گردو نواح سے موٹرکاروں کے شہر میں ہفتے میں صرف دو روز داخل ہونے کی پابندی عائد کی۔
اس پابندی کے ڈرامائی نتائج برآمد ہوئے اور شہر میں سفر کا اوسط وقت21منٹ تک رہ گیا اور حادثات اور ماحولیاتی آلودگی میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے معاشرے میں اینرک پینالوسا جیسا ایک بھی شخص نہیں، جو ہمارے شہروں کی حالت بدل سکے، ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر کرسکے اور سڑکوں کو قتل گاہوں کے بجائے محفوظ بناسکے۔