پاکستان کے سیاسی افق پر گہری اوردبیز خاموشی ہے،پارلیمان میں جاری پراسرار سرگرمیاں عام آدمی کے مسائل سے بہت دور ہیں،غربت اور مہنگائی کی چکی میں پسنے والے لوگوں کیلئے اسلام آباد میں تو خوش خبری نہیں البتہ پنجاب حکومت کے سیف سٹی 'پروجیکٹ سے عام آدمی کو احساس تحفظ ضرور نصیب ہوا ہے۔ دنیا آج ٹیکنالوجی کے اس دور میں داخل ہو چکی ہے جہاں شہری سلامتی کے نظام ڈیجیٹل بنیادوں پر قائم کیے جا رہے ہیں۔ چین، برطانیہ، متحدہ عرب امارات، سنگاپور اور ترکی جیسے ممالک میں ’’سیف سٹی‘‘ سسٹم شہری تحفظ، جرائم کے انسدادکے لحاظ سے نہایت کامیابی سے چل رہے ہیں۔ میں نے بیجنگ، لندن، دبئی اور استنبول کے سفر کے دوران مشاہدہ کیا ہے کہ پولیس کی موجودگی کے بغیر،وہاں کے شہری کیمرہ نگرانی، چہرہ شناس ٹیکنالوجی اور فوری پولیس رسپانس کے نظام کے باعث خود کو زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں۔ انہی کامیاب تجربات سے رہنمائی لیتے ہوئے پنجاب حکومت لاہور میں ’’سیف سٹی اتھارٹی‘‘ کا قیام عمل میں لائی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ منصوبہ پاکستان میں جدید شہری تحفظ کی علامت بن گیا۔پنجاب کے دل لاہور میں ہزاروں جدید کیمرے شہر کی سڑکوں، چوراہوں، بازاروں اور حساس مقامات پر نصب ہیں جو دن رات نگرانی کر رہے ہیں۔ ان کیمروں سے حاصل ہونے والا ڈیٹا مرکزی کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر میں پہنچتا ہے، جہاں تربیت یافتہ اہلکار لمحہ بہ لمحہ شہر کے حالات پر نظر رکھتے ہیں۔ یہ نظام اب صرف جرائم کی نگرانی تک محدود نہیں رہا بلکہ ٹریفک نظم و ضبط، ایمرجنسی امداد، اور عوامی شکایات کے ازالے میں بھی بنیادی کردار ادا کر رہا ہے۔ لاہور میں ٹریفک کی روانی ہو یا کسی واردات کی فوری نشاندہی، ہر جگہ سیف سٹی کا جدید نظام عوام کے تحفظ کو یقینی بنا رہا ہے۔اس منصوبے کا سب سے انسان دوست پہلو گمشدہ بچوں اور بزرگوں کی بازیابی ہے۔ ماضی میں جب کوئی بچہ گم ہو جاتا تو والدین کیلئے وہ ایک اذیت ناک مرحلہ بن جاتا تھا۔ کبھی پولیس تھانوں کے چکر، کبھی اعلانات، اور کبھی بے بسی۔ مگر اب سیف سٹی نے یہ دردناک منظر بدل دیا ہے۔ چہرہ شناخت ٹیکنالوجی اور شہر بھر میں نصب کیمروں کے ذریعے گمشدہ افراد کا سراغ لگانا ممکن ہو گیا ہے۔ کمانڈ سینٹر میں اہلکار جب کسی بچے کی تصویر یا ویڈیو سسٹم میں ڈالتے ہیں تو محض چند منٹوں میں شہر کے مختلف کیمروں سے اس کی نقل و حرکت کا سراغ مل جاتا ہے۔ پولیس کا فوری رسپانس یونٹ، حرکت میں آتا ہے اور وہ بچہ جو گھنٹوں یا دنوں کی دوری پر تھا، چند لمحوں میں اپنے والدین کی آغوش میں واپس آ جاتا ہے۔ ایسے مناظر نہ صرف سیف سٹی کے اہلکاروں کیلئے باعثِ فخر ہوتے ہیں بلکہ یہ اس بات کا عملی ثبوت ہیں کہ ٹیکنالوجی جب انسانیت کے ساتھ جڑ جائے تو وہ محض مشین نہیں رہتی، بلکہ رحمت بن جاتی ہے۔سیف سٹی نے جرائم کے سدباب کے میدان میں بھی ایک انقلاب برپا کیا ہے۔ پہلے پولیس تفتیش روایتی انداز میں گواہوں اور بیانات پر انحصار کرتی تھی، مگر اب ہر کیس میں ویڈیو شواہد اور ڈیجیٹل ریکارڈ فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ چوری، ڈکیتی، اغوا یا کسی بھی واردات کے بعد چند گھنٹوں میں مشتبہ گاڑی، ملزمان کی حرکات اور ان کے راستے تک شناخت کر لیے جاتے ہیں۔ نمبر پلیٹ شناختی نظام (ANPR) چوری شدہ گاڑیوں کی فوری نشاندہی کرتا ہے، جبکہ فیس ریکگنیشن سسٹم مجرموں کے چہروں کو ڈیٹا بیس سے ملا کر پولیس کو الرٹ کر دیتا ہے۔ اس نظام نے عدالتوں میں مقدمات کی پیروی کو بھی آسان بنا دیا ہے کیونکہ اب ویڈیو شواہد ناقابلِ تردید ثبوت کے طور پر سامنے آتے ہیں۔لاہور کے شہریوں کیلئے ٹریفک کے نظام میں بھی ایک مثبت تبدیلی آئی ہے۔ ’’ای چالان‘‘ کے ذریعے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر خودکار کارروائی ہوتی ہے اور جرمانہ براہِ راست گاڑی کے مالک کے پتے پر پہنچ جاتا ہے۔ جرمانوں کی شرح کے حوالے سے بڑے پیمانے پر تحفظات موجود ہیں،ملک کی موجودہ معاشی صورتحال کو دیکھتے ہوئے موٹر سائیکل سواروں کیلئے جرمانوں کی رقم میں کمی کرنا بہت ضروری ہے تاہم اس نظام نے شہری نظم و ضبط کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ یہ احساس بھی پیدا کیا ہے کہ قانون سب کیلئے برابر ہے، چاہے وہ عام شہری ہو یا کسی بااثر طبقے سے تعلق رکھتا ہو۔سیف سٹی لاہور کی کامیابی کے پس منظر میں جس شخصیت کا نام نمایاں طور پر ابھرتا ہے وہ ایس ایس پی لاہور مستنصر فیروز ہیں۔ ان کا اندازِ قیادت اور پیشہ ورانہ دیانت داری اس منصوبے کے استحکام میں بنیادی ستون کی حیثیت رکھتےہیں۔ انہوں نے اس نظام کو محض ایک سرکاری پروجیکٹ کے طور پر نہیں بلکہ عوامی خدمت کے ادارے کے طور پر فعال کیا۔ ان کا ماننا ہے کہ ٹیکنالوجی خود کچھ نہیں کرتی، اصل کارنامہ انسان کا جذبہ، نیت اور عزم انجام دیتے ہیں۔ ان کی زیرِ نگرانی ٹیم نے نہ صرف جدید ٹیکنالوجی کے استعمال میں شفافیت پیدا کی بلکہ شہریوں سے براہِ راست رابطے کے طریقوں کو بھی آسان اور مؤثر بنایا۔ان کے دور میں عوامی شکایات کے اندراج اور فوری ازالے کیلئے ڈیجیٹل سسٹم قائم کیا گیا۔ خواتین، بچوں اور بزرگ شہریوں کیلئے خصوصی ریپڈ رسپانس یونٹس متعارف ہوئے۔ پولیس کے سخت اور روایتی تاثر کو انہوں نے خدمت، ہمدردی اور مہذب رویے سے بدل دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج لاہور سیف سٹی صرف ایک حفاظتی منصوبہ نہیں بلکہ عوامی خدمت کا استعارہ بن چکا ہے۔سیف سٹی کا سفر ابھی جاری ہے۔ حکومتِ پنجاب اس منصوبے کو دیگر بڑے شہروں جیسے فیصل آباد، ملتان، راولپنڈی، سرگودھا،سیالکوٹ اور گوجرانوالہ تک وسعت دے رہی ہے۔ مستقبل میں مصنوعی ذہانت اور جدید ڈیٹا تجزیاتی نظام کے ذریعے نہ صرف جرائم کی پیشگوئی ممکن ہو جائے گی بلکہ بروقت تدارک بھی کیا جا سکے گا۔ یہ وہ مرحلہ ہو گا جہاں پاکستان جدید دنیا کے ہم پلہ کھڑا ہو گا۔