• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کہتے ہیں جب روم جل رہا تھا تو اس کا حکمران نیرو دنیا و مافیہا سے بے نیاز بانسری بجانے میں مشغول تھا۔ اسے اپنے وطن اور ہم وطنوں کی مشکلات کا ذرا بھی احساس نہیں تھا۔ یہی حال آج کل ہمارے ’’ انقلابی لیڈروں‘‘ کا ہے۔ پاکستان اندرونی اور بیرونی خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ ایک طرف دہشت گرد اپنے ہی لوگوں کا بے دریغ خون بہا رہے ہیں اور ہماری مسلح افواج ان کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں۔ مسلح افواج کے بہادر جوان اپنی جانوں پر کھیل کر ہمارے مستقبل اور ملک کی سرحدوں کو محفوظ بنانے کی تگ و دو میں ہیں دوسری طرف ہمسایہ ممالک میں حالیہ تبدیلیوں کی وجہ سے بیرونی محاذوں پر بھی کئی چیلنج درپیش ہیں۔ ملک اقتصادی لحاظ سے انتہائی کمزور ہو چکا ہے۔ بجلی، گیس کی کمی، بیروزگاری اور مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ دہشت گردوں نے اب مسافر بردار طیاروں پر بھی حملے کرنے شروع کر دیئے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سات لاکھ کے قریب لوگ سخت گرمی اور بے سروسامانی کے عالم میں شمالی وزیرستان اور ملحقہ علاقوں سے نقل مکانی کرکے اپنی ’’نامعلوم‘‘ منزل کی طرف بے چارگی کے عالم میں رواں دواں ہیں۔ ان میں معصوم بچے، عورتیں اور بوڑھے بھی شامل ہیں۔ یہ ایسا وقت ہے کہ سب کو اپنے اپنے ذاتی، جماعتی اور گروہی اختلافات بالائے طاق رکھ کر ملک و قوم کی خاطر متحد ہو جانا چاہئے کیونکہ اگر خدانخواستہ ہم یہ جنگ ہار گئے تو آج کے یہ ’’ نام نہاد انقلابی‘‘ اپنے انقلاب کا شوق کہاں پورا کریں گے۔باشعور اقوام پر جب بھی ایسا وقت آتا ہے تو وہاں سب اختلافات بھُلا کر ایک قومی حکومت تشکیل دے دی جاتی ہے تاکہ قوم کی تمام تر توانائیاں اپنی بقا کی جنگ جیتنے میں صرف ہوں۔ اتفاق سے اس وقت پاکستان کے تمام صوبوں میں ملک کی قابلِ ذکر پارٹیاں برسرِ اقتدار ہیں۔ گویا یہ ایک قسم کی قومی حکومت ہے لیکن اس ’’اتفاقی اتحاد‘‘ کو بھی ’’نفاق‘‘ میں بدلنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے۔ اس جنگ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے صوبے کے پی کے کی حکومت اور پارٹی کے سربراہ عمران خان اس جنگ زدہ صوبے کی حالتِ زار اور آئی ڈی پیز کے مسئلے سے نپٹنے کے بجائے پورے سسٹم کو ہی ڈی ریل کرنے میں مصروف ہیں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ ان کو اتنی جلدی کیا ہے کیا وہ اپنے مجوزہ انقلاب کے لئے مزید کچھ دیر انتظار نہیں کر سکتے؟ ان کے پاس کے پی کے کا پورا صوبہ ہے،پہلے وہ اپنے انقلاب کا خواب اس صوبے میں تو پورا کریں اس کے بجائے وہ اسمبلیوں سے استعفے اور کے پی کے اسمبلی کو تحلیل کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ یہ بے وقت کی راگنی اور وطنِ عزیز کی مشکلات میں اضافہ کرنے کے مترادف ہے۔جہاں تک انتخابات میں دھاندلی کی شکایات کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں تمام پارٹیوں کے تحفظات ہیں۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے لیکن اس وقت ان پارٹیوں کے ساتھ عمران خان نے بھی محض اس لئے اُن انتخابی نتائج کو قبول کر لیا کہ یہ جمہوری نظام کی بقا اور ملکی صورتِ حال کا تقاضا تھا۔ ابھی وہ حالات بدلے نہیں بلکہ ان کی شدت میں اور اضافہ ہوگیا ہے ۔ اس لئے یہ شکایات چاہے سو فیصد جائز بھی ہوں انہیں کچھ دیر کے لئے موخر کر دینا ہی دانشمندی اور وطن ِ عزیز کے ساتھ محبت کا تقاضا ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ عمران خان اپنی شکایات سے دستبردار ہو جائیں۔
وہ بے شک متنازع حلقوں میں دوبارہ گنتی کے موقف پر نہ صرف قائم رہیں بلکہ اس سلسلے میں ضروری قانونی کارروائی بھی کرتے رہیں لیکن فی الحال حکومت کے خلاف کسی قسم کی احتجاجی تحریک شروع نہ کریں کیونکہ اس کا فائدہ انہیں نہیں کسی اور کو ہو گا۔ جس سے ملک کو جو مزید سنگین خطرات لاحق ہو جائیں گے جن کی ذمہ داری سے جناب عمران خان اپنا دامن نہیں بچا سکیں گے۔ عمران خان بہرحال ایک عوامی لیڈر ہیں جنہیں ملک بھر کے عوام نے ووٹ دیئے ہیں وہ جان بوجھ کر خود کو سیاسی عمل سے خارج نہ کریں۔ بعض ’’سیاسی یتیموں‘‘ کے ساتھ مل کر اپنے عوامی مینڈیٹ کی توہین نہ کریں۔ یہ لوگ تحریک انصاف کو استعمال کر کے غیر جمہوری طاقتوں کی راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔ جس میں یقیناً عمران خان جیسے عوامی لیڈر کی کوئی گنجائش نہیں ہو گی۔ جناب طاہرالقادری وقفے وقفے سے جس انقلاب کی دہائی دیتے رہتے ہیں وہ جان لیوا انقلاب اس قوم نے برسوں بھگتا ہے۔ یہ لوگ نہ تو انقلاب کے مفہوم سے آگاہ ہیں اور نہ ہی انہیں پتہ ہے کہ حقیقی انقلاب کے کیا تقاضے ہوتے ہیں۔ علامہ اقبال نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا تھا۔
قوم کیا ہے، قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا سمجھیں گے، یہ دو رکعت کے امام
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ جناب عمران خان کچھ صبر سے کام لیں اور اس مشکل گھڑی میں ’’انتشار پسندوں‘‘ کے بجائے قوم کے اجتماعی مفاد کے مطابق سیاست موخر کر دیں کیونکہ روم کو آگ لگی ہوئی ہے اور ایسے کٹھن وقت میں اپنی اپنی بانسری بجانے کے بجائے متحد ہو کر اس آگ کو بجھانے کی ضرورت ہے۔
تازہ ترین