لاہور ہائی کورٹ نے خاتون کی بریت کے بعد پولیس ریکارڈ مینجمنٹ سے ریکارڈ ڈیلیٹ کرنے کی استدعا مسترد کر دی۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق سلیم نے شہری ڈاکٹر عظمیٰ حمید کی درخواست پر تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔
عالت نے بریت یا ڈسچارج مقدمات کو پولیس سرٹیفکیٹ میں ظاہر کرنے سے روکتے ہوئے پولیس کو 10 روز میں درخواست گزار خاتون کو نیا سرٹیفکیٹ جاری کرنے کی ہدایت دے دی۔
لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے جاری کیے گئے تحریری فیصلے کے مطابق بریت، ڈسچارج یا منسوخ مقدمات کا ذکر پولیس سرٹیفکیٹ میں نہیں کیا جا سکتا، پولیس بری مقدمات کا ریکارڈ رکھ سکتی ہے مگر سرٹیفکیٹ میں ظاہر نہیں کر سکتی۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ رولز کے مطابق پولیس 60 سال تک مقدمات کا ریکارڈ رکھ سکتی ہے، عدالت پولیس کو ریکارڈ رکھنے سے روکنے کا حکم نہیں دے سکتی، بری شخص وہی حیثیت رکھتا ہے جیسے کبھی مقدمہ قائم ہی نہ ہوا ہو۔
فیصلے میں کہا گیا کہ آئین کا آرٹیکل 14 شہری کی عزت و وقار کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے، درخواست گزار خاتون پر 2016ء میں فراڈ کا مقدمہ درج ہوا، 2017ء میں جوڈیشل مجسریٹ نے خاتون کی بریت کی درخواست منظور کر لی۔
درخواست گزار خاتون نے اسٹڈی ویزے پر بیرون ملک جانے کے لیے پولیس ریکارڈ سرٹیفکیٹ کے لیے درخواست دی تھی، پولیس نے خاتون کو سرٹیفکیٹ جاری کیا جس میں بری ہونے والے مقدمے کا بھی ذکر تھا۔
درخواست گزار نے مقدمے کا ذکر کیے بغیر سرٹیفکیٹ جاری کرنے اور ریکارڈ ڈیلیٹ کرنے کی استدعا کی تھی۔