سینیٹ میں پیپلزپارٹی کی رکن شیری رحمن نے گھریلو تشدد کی روک تھام کے لئےایک بل پیش کیا ہے جس میں بیوی بچوں کے علاوہ گھریلو ملازمین کوبھی جسمانی، جذباتی ، معاشی اور جنسی تشدد ، مار پیٹ یاکسی طرح کا نقصان پہنچانے پر سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔ قومی اسمبلی یہ بل پہلے ہی منظور کرچکی ہے۔ سینیٹ کی منظوری کے بعد اسے قانون کا درجہ حاصل ہوجائے گا۔ بل میں کہا گیا ہےکہ بیوی کو بے بنیاد الزامات لگا کر طلاق دینے کی دھمکی، اس کی رضامندی کے بغیر دوسری شادی کرلینے اور مار پیٹ پر شوہر کو تین سال قید بھگتنا ہوگی اور ایک لاکھ روپے جرمانہ بھی ادا کرنا ہوگا۔ جرمانے کی رقم میں سے 20؍ ہزار روپے متاثرہ فریق کو ادا کئے جائیں گے۔ متاثرہ فریق کو اسی گھر میں رہنے کا حق ہوگا جس میں وہ پہلے سے رہ رہی تھی چاہے یہ شوہر کا ذاتی مکان ہو یا کرائے پر لیا گیا ہو۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کو بتایاگیا کہ پاکستان میں خواتین پر تشدد کے 70؍ فیصد واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ تھانوں میں درج ہونے والے ریپ کیسز کی تعداد بھی بمشکل 0.5 فیصد ہے جبکہ گھریلو تشدد کے واقعات بھی 0.1 فیصد رپورٹ ہوتے ہیں۔ تشدد، ہراسانی اور ذہنی اذیت پہنچانے کے واقعات کی زیادہ تر شکار نچلے طبقے کی خواتین ہوتی ہیںجو اپنےاوپر ہونے والے ظلم کسی کو بتا بھی نہیں سکتیں۔ بچوں اور کم عمر ملازمین پر ہونے والے تشدد کے واقعات اس کے علاوہ ہیں۔ یہ پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں ہونے والے انسانی حقوق کی پامالی کا سنگین تر پہلو ہے۔ خالق کائنات نے جب انسان کو پیدا کیا تو اس کےساتھ ہی حقو الل اور حقوق العبا بھی بتادئیے اور ان کی خلاف ورزی کی سخت ترین وعید بھی سنادی۔ اس کے باوجود مرد ہو یا عورت، انسان ہو یا جانور، ازل سے بدترین قسم کے تشدد اور ناانصافیوں کا شکارچلا آرہا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہیگا۔ قانون صرف کمزوروں کیلئے ہوتا ہے طاقتور کا قانونی ضابطے کچھ نہیں بگاڑ سکتے، تاریخ یہی بتاتی ہے۔
انسانی حقوق کی پامالی کا پہلا واقعہ حضرت آدم علیہ السلام کے وقت میں ہی وقوع پذیر ہوا جب ان کے بیٹے قابیل نے ایک عورت کو حاصل کرنے کیلئے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کردیا، یہ انسانی دنیا کا پہلا قتل اور انسانی حقوق کی پہلی خلاف ورزی تھی۔ اسکے بعد چل سو چل۔ وقت کے فرعونوں، ہامانوں اور شدادوں نے مخلوق خدا پر اتنے مظالم ڈھائے، اتنےبے بس اور بے کس قتل کئے، اتنے غلام بنائے، اتنے قید خانوں میں ڈالے کہ انکا شمار مشکل ہے۔ خالق کائنات نے اسی لئے کرہ ارض پر تقریباً سوا لاکھ پیغمبر، نبی اور رسول بھیجے تاکہ ظالموں اور گمراہ ہونے والوں کو ہدایت کا راستہ دکھائیں۔ مگر شیطان اور اس کی ذریت نے انہیں بھی اذیتیں پہنچائیں اور ان کے پیرو کاروں کو بھی ۔انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ نبی آخرالزماںﷺ سے پہلے جتنے پیغمبر آئے انہوں نے بھی حقوق انسانی کی پاسداری کا پیغام پہنچایا اور ہدایت کا راستہ دکھایا تاآنکہ رسالت مآبؐ کی بعثت سے اللہ کا دین مکمل ہوگیا۔ حضور ﷺ نے انسانی حقوق کا جو منشوراللہ کے حکم سے پیش کیا وہ آخری اور حتمی تھا۔ مگر آج اس کے ماننے والے اور اس پر عمل کرنے والے تعداد میں ان سے کہیںکم ہیں جو اس منشور کی صریح خلاف ورزی کررہے ہیں۔ اسلام نے انسانی حقوق کا جو منشور پیش کیا اس میں بے گناہ انسانی جانوں کے اتلاف کو بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے یہی نہیں بلکہ جانوروں اور دوسری مخلوق خدا پر ظلم سے بھی روکا گیا ہے اور ان کے زندہ رہنے کے حق کی پاسداری کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام عالم نے بھی اس حقیقت کا ادراک کیا اور اقوام متحدہ کے ذریعے انسانی حقوق کے تحفظ کا منشور پیش کیا جو اب صرف کاغذوں ہی میں بند ہے۔ اس منشور میں کسی مذہب زبان رنگ اور علاقے سے قطع نظرتمام انسانوں کو عالمی سطح پر برابر قرار دیا گیا اور اس کا بنیادی مقصد انسانی عزت نفس، مال و جان کا تحفظ، مساوات، ا ظہار رائے کی آزادی، انصاف اور امن کو یقینی بنانا قرار دیا گیا۔ 1946ء میں انسانی حقوق کا جو اعلامیہ جاری کیا گیا وہ انسانوں کے حق زندگی، حق آزادی، حق مذہب اور حق تعلیم کی ضمانت دیتا ہے۔مگر عملی طور پر دنیا میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون رائج ہے۔ کشمیر اور فلسطین میں جو کچھ ہورہا ہے اسے ساری دنیا دیکھ رہی ہے، انسانی حقوق کی تنظیمیں کبھی کبھار اس پر آواز بھی اٹھاتی ہیں جو صدا بہ صحرا ثابت ہورہی ہیں۔ ہوتا وہی ہے جو زور آور اورظالم طاقتیں چاہتی ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں کسی نہ کسی مقام پر ہر دس منٹ بعد ایک عورت قتل ہوجاتی ہے اور قاتل اس کا شوہر بیٹا یا کوئی رشتہ دار ہوتا ہے صرف 2024ء میں 117؍ ممالک میں 50؍ ہزار خواتین یا جوان لڑکیاں قتل ہوئیں۔ پچھلے دنوں خواتین کے تحفظ کا عالمی دن منایا گیا اس روز بھی سیکڑوں عورتیں اپنے رشتہ داروں کے ہاتھوں ہی قتل ہوئیں۔ ایسے قتل دنیا کے ہر خطے میں ہوتے ہیں مگر افریقا میں عورتوں کے قتل کی وارداتیں سب سے زیادہ ہیں۔
یہ دن عورتوں کے لئے مخصوص تھا اس لئے ان کی حالت زار کا ذکر کیا گیا ورنہ مردوں کے قتل کے واقعات بھی ان سے کم نہیں۔ تشدد، دھمکیوں اور ہراسانی کے واقعات اس کے علاوہ ہیں۔ قدیم زمانے میں تو طاقتور کا بولا ہوا لفظ ہی قانون ہوا کرتا تھا اور کمزوروں، غلاموں اور ناداروں کی گردنیں اڑا دی جاتی تھیں۔آج کے مہذب دور میں بھی یہی کچھ ہورہا ہے اور قانون اور اس کے رکھوالے بے بسی سے اس کو دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ ہی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 40؍ فیصد خواتین تشدد، بلیک میلنگ اور ہراسانی کا سامنا کررہی ہیں جبکہ اتنے ہی غریب اور کمزور لوگوں کو ہر آن اپنی جانیں بچانے کی فکر رہتی ہے۔ عالمی برادری کو دہرا معیار ترک کرکے اس صورتحال کے خاتمے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔