گرچہ پاکستان میں حصول ِتعلیم کام یابی کی ضمانت نہیں، لیکن بہرحال یہ کام یابی کے امکانات کو بڑھانے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ تعلیم فرد کو عِلم، ہُنر اور مہارت فراہم کرتی ہے، جو اچھی ملازمت حاصل کرنے، بہتر آمدنی کمانے اور ذاتی و سماجی ترقی کا زینہ چڑھنے کے اہم، کارآمد ٹولز ہیں۔ تاہم، کام یابی کے حصول کے لیے تعلیم کے علاوہ دیگر عوامل، مثلاً سخت محنت، درست مواقع اور فنون میں مہارت بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
نیز، جو پیشہ ورانہ زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے بھی لازم ہیں۔ جب کہ تعلیم، فرد کو سوچنے، تجزیہ کرنے اور مسائل حل کرنے کی صلاحیت ہی فراہم نہیں کرتی زندگی میں مختلف چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے بھی تیار کرتی اور سماجی و اقتصادی طور پر مستحکم کرنے میں بھی مدد دیتی ہے۔
خیر، تعلیم کے حصول کے بعد اصل جدوجہد اُس وقت شروع ہوتی ہے، جب تمام تعلیمی مراحل طے کرنے کے بعد بھی ایک پاکستانی گریجویٹ کو بار بار یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ اس کے ہاتھ میں جو ڈگری ہے، وہ جعلی نہیں، ایک حقیقی دستاویز ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے مُلک میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد اس کی تصدیق کا عمل اور طریقہ کار کسی طویل جدوجہد سے کم نہیں۔ ستم بالائے ستم، یونی ورسٹی سے اصل ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہی ڈگری، تصدیق کے لیے دوبارہ یونی ورسٹی میں جمع کروانی پڑتی ہے۔ اس کے بعد معاملہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سپرد کیا جاتا ہے کہ ’’جناب، براہِ کرم دیکھ لیجیے، یہ طالبِ علم کہیں خود ساختہ گریجویٹ تو نہیں۔‘‘
اس مرحلے سے گزرنے کے بعد وزارتِ خارجہ (MOFA) کے دَر پر حاضری دینا پڑتی ہے، تاکہ اس بات کی تصدیق ہوسکے کہ ہائر ایجوکیشن کی مُہر اصلی ہے یا مزید کسی شبے کی گنجائش ہے۔ تاہم، دل چسپ بات یہ ہے کہ ڈگریز کی تصدیق کا سلسلہ صرف یونی ورسٹی سطح پر ختم نہیں ہوجاتا۔ اسکول و کالج کی اسناد کے لیے بھی ایک الگ ادارہ انٹر بورڈ کو آرڈینیشن کمیشن موجود ہے، جو میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے سرٹیفیکیٹس کی تصدیق کرتا ہے۔
آئی بی سی سی کا ادارہ بھی وہی روایتی انداز اختیار کرتا ہے، یعنی یہاں بھی طالبِ علم کا تعلیمی سفر تصدیق کے تین مراحل سے گزرتا ہے۔ پہلے IBCC، پھر HEC، اور آخر میں MOFA۔ گویا بچپن سے جوانی تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملنے والی ڈگری کےاصلی یا نقلی ہونے کی یقین دہانی کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے۔
واضح رہے کہ یہ تمام مراحل ہفتوں، تو کبھی مہینوں تک محیط ہوتے ہیں۔ اس دوران تصدیق کے ضمن میں ادا کی جانے والی فیس، ڈاک کے اخراجات اور قطاروں میں گھنٹوں انتظار کے بعد شک بھری نظروں کا ایسا انداز اپنایا جاتا ہے، جیسے طالبِ علم نے ڈگری نہ حاصل کی ہو، کسی جرم کا ارتکاب کیا ہو۔
پاکستان میں ڈگریز کی تصدیق کا یہ پیچیدہ سفر اُس وقت شروع ہوا، جب مُلک میں جعلی ڈگریز کا کاروبار عام ہوا۔ نام نہاد یونی ورسٹیز، ڈگریاں ریوڑیوں کی طرح بانٹنے لگیں اور آن لائن فراڈ کا سلسلہ اس حد تک وسیع ہوگیا کہ ہر ادارے کو اپنے تحفّظ کے لیے مذکورہ تصدیقی مراحل سے گزرنا لازم قرار دینا پڑا۔ ایچ ای سی نے آن لائن Degree Attestation System کا آغاز کیا، تاکہ جعل سازی کو روکا جا سکے، مگر یہ نظام خود بُھول بُھلیّوں میں گُم ہوکر رہ گیا۔
درخواست، اسکروٹنی، فیس، اپائنٹمنٹ اور کوریئر ہر قدم پر ایک نیا دَروا ہوتا چلا گیا۔ ڈگری کی تصدیق کے اس پیچیدہ نظام کے حوالے سے ایک سابق طالب علم نے ایچ ای سی، اسلام آباد کے دفتر میں اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے لکھا۔ ’’مَیں اپنی ڈگری کی تصدیق کے لیے صبح سات بجے لائن میں لگا۔ کئی گھنٹے قطار میں اذیت ناک انتظار کے بعد شام کوجب میری باری آئی، تو صرف یہ اطلاع دی گئی کہ آپ کی فائل مل گئی ہے، تین روز بعد دوبارہ آئیں۔‘‘
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایسے تجربات سے طلبہ کے لیے ڈگری کی تصدیق کا مطلب صرف اعتماد حاصل کرنا نہیں، اپنی عزتِ نفس بچانا بھی ہے، کیوں کہ اصل مسئلہ صرف کاغذی تصدیق کا نہیں، اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کا ہے۔ ریاست، ادارے اور افراد سب ایک دوسرے پر شک کی بنیاد پر چل رہے ہیں۔
یونی ورسٹی کو ایچ ای سی پر اعتبار نہیں، ایچ ای سی کو یونی ورسٹی پر نہیں اور وزارتِ خارجہ کا دونوں ہی پر اعتماد نہیں۔ نتیجتاً ایک ہی ڈگری کئی بار تصدیق کروانے کے باوجود بعض اوقات بیرونِ ملک’’دوبارہ تصدیق‘‘کے مرحلے سے گزرتی ہے۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں تعلیم، صرف حصولِ علم نہیں بلکہ اعتبار کا نشان سمجھی جاتی ہے۔ وہاں ڈگری اعتماد پیدا کرتی ہے، یہاں ڈگری اعتماد مانگتی ہے۔ وہاں نظام طالب ِعلم پر بھروسا کرتا ہے، جب کہ ہمارے یہاں طالبِ علم نظام کو یقین دلاتا ہے۔ یہ فرق ہی ہماری تعلیمی زبوں حالی کا آئینہ دار ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک میں ایک طالب علم کو اپنی ڈگری کی شفّافیت ثابت کرنے کے لیے اس قدر تگ و دونہیں کرنی پڑتی۔
اس ضمن میں اگر ہم امریکا کی مثال لیں، تو پتا چلتا ہے کہ وہاں کسی مرکزی حکومتی محکمے سے ڈگری کی تصدیق نہیں کروانی پڑتی، بلکہ وہاں World Education Services جیسے ادارے موجود ہیں، جو بیرونِ ملک سے حاصل شدہ ڈگریز کا معیار پرکھ کر رپورٹ جاری کرتے ہیں اور دستاویزات بھیجنے، فیس ادا کرنے کے بعد چند ہفتوں میں ایک رپورٹ مل جاتی ہے، جو ملازمت، امیگریشن یا داخلے کے لیے کافی ہوتی ہے۔وہاں تصدیق کا نظام شک پر نہیں، اعتماد پر قائم ہے۔
برطانیہ میں بھی کسی سرکاری دفتر میں قطار لگانے کی ضرورت نہیں۔ وہاں جامعات یا سرکاری ادارے کسی امیدوار کی تعلیمی حیثیت جانچنے کے لیے براہِ راست متعلقہ یونی ورسٹی سے رابطہ کرتے ہیں۔ تصدیق بذریعہ ای میل یا آن لائن پورٹل مکمل ہوجاتی ہے۔
ایک بار اگر کسی یونی ورسٹی نے تصدیق کر دی، تو وہ سسٹم میں ریکارڈ ہو جاتی ہے، دوبارہ کسی کو کوئی ثبوت دینے کی حاجت نہیں رہتی۔ اسی طرح کینیڈا، آسٹریلیا اور یورپ کے بیش تر ممالک میں بھی تصدیق کا نظام مؤثر اور سہل ہے۔ ادارے ایک دوسرے سے ڈیجیٹل سطح پر منسلک ہیں۔ کسی بھی یونی ورسٹی سے فارغ التحصیل طالبِ علم کا ڈیٹا مرکزی قومی ڈیٹا بیس میں موجود ہوتا ہے، جہاں سے کوئی بھی مستند ادارہ براہِ راست تصدیق کر سکتا ہے۔
چین اور بھارت نے بھی اس مسئلے کو بہتر طریقے سے حل کیا ہے۔ چین میں وزارتِ تعلیم نے ایک آن لائن پورٹل قائم کیا ہے، جہاںڈگری کی تصدیق صرف چند منٹوں میں ہو جاتی ہے۔ بھارت میں یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن (UGC) کی ویب سائٹ پر تسلیم شدہ جامعات کی فہرست موجود ہے، جس سے جعلی اداروں کی نشان دہی انتہائی آسان ہو گئی ہے۔
اس کے برعکس پاکستان میں ڈگریز کے حوالے سے کوئی ڈیٹا پبلک نہیں، نیز، بہت سی جامعات ابھی تک آن لائن تصدیقی نظام ہی سے منسلک نہیں۔ خلیجی ممالک میں خصوصاً متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں، بیرونی ڈگریز کی تصدیق وزارتِ تعلیم کے ذریعے لازم ہے، لیکن وہاں بھی نظام سادہ اور تیز رفتار ہے۔ ایک بار تصدیق ہو جانے کے بعدطالب علم کا ریکارڈ پورٹل پر مستقل محفوظ رہتا ہے۔ کوئی دوسرا ادارہ چاہے، توبہ آسانی تصدیق کر سکتا ہے۔
جب کہ ہمارے ملک میں تصدیق کا طریقہ غیر مؤثر، غیر شفّاف اور غیر مربوط ہے۔ٹیکنالوجی کے اس جدید دَور میں بھی ہمارے ادارے ڈیجیٹل انضمام سے محروم ہیں۔ یونی ورسٹی کا ریکارڈ ایچ ای سی سے الگ، ایچ ای سی کا ریکارڈ وزارتِ خارجہ سے جدا اور تینوں کے درمیان کوئی خودکار نظام نہیں۔ نتیجتاً ہر امیدوار کو اپنے کاغذات کی تصدیق کے لیے تین تین اداروں کے چکّر لگانے پڑتے ہیں۔ گویا، سچ کو بھی اپنی سچّائی کے ثبوت کی ضرورت ہوتی ہے۔
یہ نظام صریحاً وقت اور پیسے کا زیاں ہے۔ ملازمت کے حصول کے لیے دوڑبھاگ کرنے والے ایک عام گریجویٹ کو اس عمل پر ہزاروں روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ اگر وہ بیرونِ ملک جانا چاہے، تو مزید ڈاک خرچ اور ایمبیسی فیسز الگ دینی پڑتی ہیں، لیکن بعض اوقات پھر بھی یقین دہانی مکمل نہیں ہوتی۔ اکثر غیر ملکی ادارے HEC یا MOFA کی تصدیقی مہر ثبت ہونے کے باوجود کہتے ہیں کہ ’’اپنی یونی ورسٹی سے براہِ راست تصدیق کروائیں۔‘‘
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک طالبِ علم نے چار سال علم حاصل کیا، امتحانات دیے، تھیسسز جمع کروایا، فیسز ادا کیں، تو کیا اس کے بعد بھی اُسے اپنی سچّائی ثابت کرنا لازم ہے؟ ریاستی نظام کو اتنا معتبر ہونا چاہیے کہ ایک ڈگری ہی خُود اپنا ثبوت بن جائے؟ دراصل خرابی ہمارے انتظامی ڈھانچے میں ہے۔ جس ملک میں تھوک کے حساب جعلی ڈگریز بیچی گئی ہوں، تو وہاں سب پر شک عام ہو جاتا ہے، لیکن ہر طالب علم کو اس جرم کی سزا دینا انصاف نہیں۔
ایچ ای سی کو چاہیے کہ وہ ایک مرکزی ڈیجیٹل سسٹم قائم کرے، جہاں ہر تسلیم شدہ یونی ورسٹی کی جاری کردہ ڈگری خود بخود رجسٹر ہو جائے۔ وزارتِ خارجہ اور یونی ورسٹیز اسی ڈیٹا بیس سے منسلک ہوں، تاکہ تصدیق عمل صرف چند منٹوں میں ممکن ہوجائے۔ اس طرح نہ صرف جعل سازی روکی جا سکتی ہے، بلکہ اعتمادو یقین بھی بحال کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں اس وقت کسی نئے ضابطے کی نہیں، بلکہ نظام میں سادگی اوریک سانیت لانے کی ضرورت ہے۔ اگر ایک طالبِ علم کو اپنی ڈگری کی تصدیق کے لیے تین تین وزارتوں کے چکّر لگانے پڑیں، تو یہ محض انتظامی مسئلہ نہیں بلکہ ریاستی نااہلی کی علامت ہے۔
علم کی دنیا میں یقین سب سے بڑی سند ہوتا ہے اور جب یقین و اعتبار نہ ہو تو ہر کاغذ مشکوک لگنے لگتا ہے۔ ہمارے ملک کے مقتدر حلقوں کو اب یہ سوچنا ہوگا کہ ہم اپنے نوجوانوں سے محنت کروانے کے بعد ان پر شک کیوں کرتے ہیں؟ کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم ایسا نظام بنائیں، جہاں محنت کا ثبوت خُود کار طور پر محفوظ ہو، طالبِ علم کو بار بار اپنی سچائی ثابت نہ کرنی پڑے؟