معیشت کے سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیںکہ پاکستان دیوالیہ ہونے کےخطرے سے بچ کر معاشی بحالی کی راہ پر گامزن ہوچکا ہے ۔ اقتصادی اشاریے بہتر اور روشن مستقبل کا پیغام دے رہے ہیں۔ اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے۔ زرعی اور صنعتی پیداوار بڑھ رہی ہے اس سے روزگار کے مواقع بھی بڑھیں گےاور قوم خوشحال ہوگی۔ لیکن کچھ تلخ حقیقتیں ایسی ہیں جن سے ان تمام تردعوؤں کے باوجود صرف نظر نہیں کیا جاسکتاملکی آبادی میں تیز تر اضافہ ان میں سرفہرست ہے ۔ اس کے نتیجے میں بے روزگاری اور مہنگائی روز بروز بڑھتی جارہی ہے ۔ عام آدمی اس وقت بھی نامساعد حالات میں گھرا ہوا ہے اور آنے والے وقتوں میں صورتحال ناقابل برداشت حد تک خراب ہوسکتی ہے ۔ پاکستان کی آبادی اس وقت 24کروڑ 10لاکھ سے زیادہ ہے آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے افزائش آبادی کی شرح ایشیا میں سب سے زیادہ ہے ۔اندازہ لگایا گیا ہے کہ اگلے پندرہ سال میں بے روزگار وںکےلئے ایک کروڑ چار لاکھ مواقع کی ضرورت ہوگی جو متوازن اور پائیدار ملکی ترقی کے لئے ضروری ہیں ۔ مگر بڑھتی ہوئی آبادی ان مواقع کو کھا رہی ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ نوجوانوں پر مشتمل ملک کی 64فیصد آبادی کو روزگار نہیں ملے گا یہ صورتحال ملکی ترقی اور خوشحالی کے لئے بہت بڑا چیلنج ہے ۔ وفاقی وزیرمنصوبہ بندی نے متنبہ کیا ہے کہ 2050ءتک یعنی آئندہ 25سال میں پاکستان کی آبادی 37کروڑتک پہنچ جائے گی جس کا مطلب ہر سال چالیس سے 50لاکھ نفوس کا اضافہ ہے ۔1990ءتک پاکستان ضبط ولادت اور فی کس آمدنی کےلحاظ سے ہمسایہ ملکوں سے آگے جارہا تھا اب پیچھے ہے پالیسی سازوں اوراقتصادی ماہرین کے مطابق اگر آبادی یونہی بڑھتی رہی اور وسائل کے لحاظ سے آبادی کو متوازن نہ رکھا گیا تو ترقی و خوشحالی کے لئے حکومتی کوششیں دھر ی رہ جائیں گی ۔
آبادی میں غیر متناسب اضافہ صنعت، زراعت ، تعلیم غرض یہ کہ زندگی کے ہر شعبے پر اثر انداز ہوگا ۔ڈھائی کروڑ بچے اب بھی اسکول میں داخل نہیں ہوپاتے، آنے والے وقت میں ان کی تعداد اور بڑھ جائے گی ۔
معیشت دان تھامس مالتھس نے کہا تھا جب آبادی ضرورت سے زیادہ بڑھ جاتی ہے تو خدا زمین پر زلزلوں ، قحط اور دوسری قدرتی آفات کی شکل میں موت کا سامان پیدا کرتا ہے۔لاکھوں افراد اس کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ یہ سلسلہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا ، اس لئے انسان آبادی کو خود کیوں نہ کنٹرول کرے حکومت نے خاندانی منصوبہ بندی کا محکمہ قائم کیا تھا لیکن مذہبی بنیادوں پر استوار معاشرے میں اس کا پیغام ناکافی ثابت ہوا ۔ اب علمائےکرام نے بھی شریعت کی روشنی میں ناگزیر صورتوں میں مانع حمل ادویات کا استعمال جائز قرار دیا ہے ۔ ساتھ ہی یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں ہر50، منٹ میں ایک عورت زچگی کی پیچیدگیوں کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلی جاتی ہے۔
پالیسی سازوں کو سوچنا ہوگا کہ آبادی کا دباؤ نظام صحت،خوراک، آبی قلت، روزگار کے مواقع اور مہنگائی کی موجودہ صورتحال پر کیسے قابو پایا جاسکے گا اس حوالے سے چین کے تجربے سے بھی فائدہ اٹھانا ہوگا، جس نے برسوں پہلے شرح ولادت کو ایک بچے تک محدود کیا تھا اس کانتیجہ یہ نکلا کہ شرح پیدائش میں مسلسل کمی سے نوجوانوں کی قلت پیدا ہوگئی جو معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتے ہیں ۔اب پھر سے دو بچوں کی اجازت دی گئی ہے ۔ فطرت کے اپنے اصول اور ضابطے ہیں ۔ شرح ولادت میں نہ اتنی کمی ہو کہ ترقیاتی سرگرمیاں ماند پڑ جائیں اور نہ اتنا اضافہ ہوکہ ترقی اور خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ بن جائے ۔
حکومت پاکستان کواپنےمخصوص معاشرتی تقاضوں اور تعمیر و ترقی کی ضرورتوں کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ ایک قابل عمل اور فطری تقاضوں سے ہم آہنگ پالیسی بنانا ہوگی جس سے بے روزگاری بھی نہ بڑھے اور مہنگائی بھی اعتدال میں رہے ۔زمینی حقائق کو دیکھنا ہوگا کہ حکومت کی کوششوں اور دعوؤں کے برخلاف مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہوا ہے ۔ نومبر2025میں مہنگائی کی شرح 6اعشاریہ 1فیصد پر آگئی ، اشیائے خوردنی کے نرخوں میں اضافہ عام آدمی کے لئے سب سے زیادہ پریشانی کا سبب بن جاتا ہے ۔ لیبر سروے کے مطابق بے روزگاری کی شرح 22.5فیصد تک پہنچ چکی ہے ۔ ہر عمر اور ہر صنف کے بے روزگاروںکی تعداد بڑھ رہی ہے سب سے زیادہ متاثر ہونیوالوں میں 15سے29سال کے نوجوان ہیں ۔ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ دس لاکھ نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لئے پھر رہے ہیں اور انہیں روزگار نہیں ملتا جو لوگ برسر روزگار ہیں ان کی آمدنی بھی چارسال پہلے کےمقابلے میں کم ہے ۔روپے کی قیمت میں کمی نے ان کی مشکلات بڑھا دی ہیں دیہی آبادی زراعت پر انحصار کرنا چھوڑ کر محنت مزدوری کے لئے شہری آبادی کا رخ کررہی ہے۔ اس سے زرعی پیداوار کم ہوگئی ہے اور شہروں پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔ پالیسی سازوں کو افزائش آبادی ، روزگار اور مہنگائی پر خصوصی توجہ دینا ہوگی تاکہ ملک کی معیشت مستحکم اور پائیدار بنیاد پر استوار رہے غریب اتنا غریب نہ رہے کہ دو وقت کی روٹی بھی نصیب نہ ہو اور امیر اتنا امیر نہ ہوجائے کہ ریاست کو بھی خاطر میں نہ لائے ۔