• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت نے مقبوضہ کشمیر میںآزادی کی تحریک دبانے کیلئے پہلگام میں جو فالس فلیگ ڈرامہ رچایا تھاتاکہ پاکستان کواس میں ملوث کرکےبدنام کرسکے۔ اس میں تو وہ بری طرح ناکام ہوا اب القاعدہ لشکر طیبہ اور جیش محمدکےحوالے سے امریکہ کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں بھی ناکا م ہوگیا ہے۔ امریکہ نے ان تینوں تنظیموں کو پاکستان کے کھاتے میں ڈالنے سے انکار کردیا ہے۔کیونکہ پاکستان میں انہیں2002 ہی میں کالعدم قرار دیدیاگیا تھا۔ افغانستان اور اسرائیل کے سواپوری دنیا اس معاملے میں پاکستان کے موقف کی حمایت کررہی ہےکہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں چلنے والی تحریک علیحدگی کی نہیں، آزادی کی تحریک ہے کیونکہ یہ ریاست کسی بھی لحاظ سے بھارت کا حصہ ہی نہیں۔

اس کے برخلاف بھارت کے بہت سے صوبوں یا ریاستوں میں علیحدگی کی منظم تحریکیں چل رہی ہیں۔ بھارت میں علیحدگی کی اصل تحریکیں ارونا چل، آسام، منی پور، میزورم، ناگا لینڈ، مشرقی پنجاب، تری پورہ، میگھالیہ اور کئی دوسرے علاقوں میں چل رہی ہیں۔ ان میں سے بعض کا مقصد مذہبی، بعض کا سیاسی اور بعض کا سماجی و معاشی انصاف کے لیے بھارت سے علیحدگی ہے۔ ارونا چل کا صوبہ جنوبی تبت کا متنازع علاقہ ہے اور تبت اس وقت چین کا حصہ ہے۔ چین نے ارونا چل پر باضابطہ دعویٰ کر رکھا ہے۔ اس پہاڑی علاقے میں ارونا چل ڈریگن فورس (اے ڈی ایف) یا ایسٹ انڈیا لبریشن فرنٹ نامی شدت پسند تنظیم آزادی کی تحریک چلا رہی ہے۔ آل ہجونگ چکما ہوم لینڈ موومنٹ یہاں کی سیاسی تنظیم ہے جو ارونا چل پردیش کو ہجونگ چکا ہوم لینڈ کے نام سے آزاد وطن بنانا چاہتی ہے، آسام میں یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ آف آسام سرگرم عمل ہے جو آسام کو بھارت سے آزاد کراکے الگ ملک بنانا چاہتی ہے۔ بھارت نے دہشت گرد قرار دے کر1990ء میں اس پر پابندی لگادی تھی۔ آسامی علیحدگی پسندوں کے خلاف بھارتی فوج کا آپریشن آج بھی جاری ہے۔ اس دوران فوج سے جھڑپوں میں دس ہزار گوریلے مارے گئے مگر ان کے ساتھیوں نے ہتھیار نہیں ڈالے۔ 1996ء سے یہاں مسلم یونائیٹڈ لبریشن ٹائیگرز نامی تنظیم بھی سرگرم ہے جو مسلم اکثریت کی وجہ سے آسام کو مسلمانوں کا آزاد وطن بنانا چاہتی ہے۔ ایک عسکری تنظیم یونائیٹڈ پیپلز ڈیمو کریٹک سالیڈیریٹی بھی ہے جو کار بی قبائل کے لیے خودمختار ملک قائم کرنے کی غرض سے لڑ رہی ہے۔ بھارتی فوج کو آسام کے جنگلوں میں ان تنظیموں کے خلاف سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ مقاصد کے اختلاف کے باوجود یہ تنظیمیں بھارت کے خلاف متحد ہیں۔

ناگا ایک اور جنگجو قبیلہ ہے جو ناگا لینڈ کی آزادی کے لیے لڑ رہا ہے۔ ناگا نیشنل کونسل نے1950ء میں بھارت سے آزادی کے لیے بغاوت کی تھی۔ اس وقت نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگا لینڈ ناگا لیم آزاد مملکت کے نام سے اس صوبے کی آزادی کے لیے رہنمایانہ کردار ادا کررہی ہے۔ تری پورہ بھارت کی ایک اور ریاست یا صوبہ ہے۔ 1989ء میں یہاں نیشنل لبریشن فرنٹ آف تری پورہ کے نام سے قوم پرست جنگجوؤںکی مسلح تنظیم قائم کی گئی۔ یہاں عیسائی آبادی کی اکثریت ہے اور یہ تنظیم تری پورہ میں ’’خدا وند اور یسوع مسیح‘‘ کی سلطنت قائم کرنا چاہتی ہے۔ اس سے قبل 1978ء میں یہاں میزو نیشنل فرنٹ کا قیام عمل میں آچکا تھا جو تری پورہ کی آزادی کے لیے سرگرم ہے۔ تری پورہ نیشنل والنٹئیر تنظیم بھی اسی مقصد کے لیے کام کررہی ہے۔ 1990ء میں قائم ہونے والی آل تری پورہ ٹائیگر فورس بھی آزادی کے لیے لڑ رہی ہے۔ آزاد سکھ مملکت کے قیام کے لیے خالصتان تحریک بھارت کے لیے ایک اور بڑا خطرہ ہے۔ اس تحریک کا مقصد مشرقی پنجاب، ہریانہ، ہماچل پردیش اور راجستھان کے شمالی اضلاع سری گنگا نگر اور ہنومان گڑھ پر مشتمل سکھ مملکت کا قیام ہے۔ تحریک کا مرکز مشرقی پنجاب ہے مگر اس کے ذیلی مراکز دنیا بھر میں موجود ہیں۔ 1970ء سے 1990ء تک کا دور خالصتان تحریک کے عروج کا زمانہ تھا۔ اس دوران سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ گولڈن ٹیمپل (دربار صاحب) میں اپنے مسلح ساتھیوں کے ہمراہ مورچہ بند ہوگیا۔ جون1984ء میں وزیراعظم اندرا گاندھی کے حکم پر بھارتی فوج نے آپریشن کرکے اسے اس کے ساتھیوں سمیت ہلاک کردیا۔ اندرا گاندھی کو اس کارروائی کے بدلے اپنی جان کی قربانی دینا پڑی، جب ان کے دو سکھ محافظوں نے انہیں قتل کردیا۔ اس پر سکھ مخالف فسادات پھوٹ پڑے جن میں ہزاروں سکھوں کا قتل عام ہوا۔ اس کے نتیجے میں سکھوں کے کئی علیحدگی پسند گروپ قائم ہوگئے جو آج بھی زیر زمین بھارت سے آزادی کیلئے سرگرم ہیں۔

منی پور ایک اور ریاست ہے جہاں آزاد جمہوریہ منی پور کی تحریک زوروں پر ہے۔ اس کی جغرافیائی حدود میانمار (برما) تک پھیلی ہوئی ہیں۔ منی پور لبریشن فرنٹ سمیت چھ علیحدگی پسند تنظیمیں آزادی کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ یہ ریاست ہندوستان کا کبھی حصہ نہیں رہی۔ اس پر برطانوی دور میں قبضہ کیا گیا تھا۔ بائیں بازو کی تنظیم پیپلز لبریشن آرمی1978ء سے آزادی کی جنگ میں شریک ہے۔ میزورم میں ہمر، چکا، بروس، پاؤس، لائس اور رینگر قبائل بھارت سے علیحدگی کے لیے میزو نیشنل فرنٹ کے پرچم تلے سرگرم ہیں۔ تامل ناڈو میں بھی چھاپہ مار علیحدگی کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بھارت کے برہمن سامراج کے ستائے ہوئے کئی جنوبی اور مشرقی صوبے آزادی کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ علیحدگی کی ان تحریکوں کی وجہ سے بھارتی بجٹ کا خطیر حصہ فوج اور پیرا ملٹری فورسز پر خرچ ہورہا ہے۔ جس کی وجہ سے اقتصادی ترقی کے لیے بہت کم رقم بچتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کی سوا ارب آبادی میں سے تقریباً80 کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس صورت حال میں بھارت کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہوسکتا ہے۔

پاکستان کے خلاف نریندر مودی کی سازشیں انجام بد سے بچنے کیلئے ایک ناکام کوشش دکھائی دیتی ہیں۔ بھارت میں یہ سب کچھ ہونے کے باوجود پاکستان نے کبھی وہاں کے علیحدگی پسندوں کی حمایت یا حوصلہ افزائی نہیں کی جبکہ بلوچستان میں اس کا عشر عشیر نہ ہونے پر بھی بھارت عملی طور پر سرگرم ہے۔ مودی صاحب نے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں ’’انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں‘‘ کا الزام لگایا ہے جو ایک مذاق کے سوا کچھ نہیں۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں کے نہتے عوام نے تیغ تیر اور کلہاڑیوں سے بھارتی اور ڈوگرہ فوجوں کا مقابلہ کیا اور ان سے ایک ایک پہاڑ، وادی، دریا، چشمے اور پگڈنڈی کو آزاد کرایا اور وہ اب بھی پورے کشمیر کی آزادی کے لیے سربکف تیار کھڑے ہیں۔

تازہ ترین