15 مئی 2014، دوپہر کا وقت۔ فلسطین اور مغربی اردن کے اطراف میں اس مرتبہ سائرن 66سیکنڈز کے لئے بجائے گئے۔ جن کامقصد یہ واضح کرنا تھا کہ ’’النکبۃ‘‘ یا تباہی کو 66 برس بیت گئے۔ 15 مئی 1948کو یہودی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا۔ یہ اہل فلسطین کی بربادی کا آغاز تھا جب جانیں بچانے کے لئے انہیں دربدر ہونا پڑا۔ اس دربدری اور بربادی کو فلسطینی ’’النکبۃ‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ تب سے اب تک وہ جوان لاشے اٹھاتے، معصوم بچوں کو دفناتے آرہے ہیں اور تھکے نہیں۔ انہوں نے کبھی ارض فلسطین سے مخاطب ہوکر یہ نہیں کہا..... اور کتنوں کا لہو چاہئے اے ارض وطن... کتنی آہوں سے کلیجہ تیرا ٹھنڈا ہوگا... وہ غزہ میں اپنی روح گم اور دل دفن کرچکے ہیں۔ اسرائیل اب ان کے علاقوں پر ہی قابض نہیں ان کی زندگیوں کو بھی کنٹرول کررہا ہے۔ وہ انہیں غزہ میں بجلی گھر لگانے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔ چاروں طرف موت کا رقص، خوف اور دہشت کی فضا اسرائیلی طیاروں کی بمباری لیکن فلسطین ان کے لئے زمین کا ٹکڑا نہیں ایک طرز احساس ہے، ایک طرز زندگی ہے۔گزشتہ ہفتے سے غزہ پر یہودی ریاست کی جانب سے بمباری کا سلسلہ جاری ہے۔ بمباری کی شدت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف چار دن میں غزہ پر 900 سے زائد بم گرائے گئے، 600 سے زائد حملے کئے گئے، پانچ دن میں 150 سے زیادہ شہید اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہیں۔ اہل غزہ کی بے بسی سے لطف اندوز ہونے، بھوک کے ذریعے موت کے منہ میں دھکیلنے اور ان کی قتل و غارت کے لئے اسرائیل کو کسی خاص وجہ کی ضرورت نہیں ہے کوئی بھی بات بہانہ بن سکتی ہے۔ اس مرتبہ المیے کا آغاز اس وقت ہوا جب تین یہودی لڑکے اغواء کے بعد قتل کردئیے گئے۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ واردات کا ذمہ دار کون ہے لیکن اسرائیل نے بلاتحقیق غزہ کی حکمران جماعت حماس کو ذمہ دار قرار دے دیا۔ اسی دوران یہودیوں نے ایک پندرہ سالہ فلسطینی بچے کو زندہ جلاڈالا اس پر غزہ میں مظاہرے ہوئے اور حماس کی جانب سے اسرائیل پر راکٹ فائر کئے جانے کا سلسلہ شروع ہوگیا جنہیں اسرائیل میزائل شیلڈ سے فضا میں ہی تباہ کردیتا ہے۔ ان راکٹوں سے اسرائیل کو کوئی نقصان نہیں ہوا اس کا کوئی شہری مرا اور نہ زخمی ہوا۔ اسکے باوجود غزہ پر زمینی کارروائی کا اشارہ دیتے ہوئے اسرائیل نے شمالی اور جنوبی حصوں میں مقیم دس ہزار سے زائد فلسطینیوں کو گھربار چھوڑنے کی ہدایت کی ہے۔ ’النکبۃ‘ آج بھی جاری ہے۔
اسرائیلی جارحیت کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج کیا جارہاہے اگر دنیاسے لندن ناروے کا دارلحکومت اوسلو، پیرس اور نیویارک مراد لی جائے جبکہ مسلم ممالک کے حکمران اور وہ علاقے جو رشتے اور تعلق کے لحاظ سے اہل فلسطین سے قریب ترین ہیں۔ شہداء اور زخمیوں کی گنتی کررہے ہیں۔ پچھلی مرتبہ 2012ء میں اسرائیل کی ایسی ہی وحشیانہ کارروائیوں پر ان مسلم ممالک کی طرف سے ناگواری اور مذمت کے اظہار کی مقابلہ بازی دیکھنے میں آئی تھی اور دبے لفظوں میں احتجاج بھی۔ یہ حکمران ایک دوسرے سے رابطے بھی کررہے تھے اور جنگ بندی کے لئے مذاکرات پر زور بھی دے رہے تھے۔ اس موقع پر عرب دنیا کے ایک نئے حکمران سے دریافت کیا گیا کہ آپ میں اور سابقہ حکمرانوں میں کیا فرق ہے اسرائیلی حملے کے موقع پر وہ بھی اپنے سفیر کو واپس بلا لیتے تھے مذمت کرتے تھے اور صدر اوباما کو فون کیا کرتے تھے۔ جواب ملا’’ فرق ہے،وہ تاخیر سے کیا کرتے تھے ہم فوراً کرتے ہیں‘‘۔ اس مرتبہ یہ تکلفات بھی نظر نہیں آئے۔اسرائیل کے باب میں یہودیوں نے اپنے عزائم کبھی پوشیدہ نہیں رکھے ان کی مذہبی اور مقدس کتاب Talmud (جو توریت کی یہودی شرح ہے) میں لکھا ہے’’اللہ نے یہودیوں کو تمام قوموں کے خون اور دولت پر مکمل اختیار دیا ہے‘‘۔ اسرائیل کے سابق وزیراعظم ایریل شیرون نے کہا تھاکہ وہ اسرائیلی حکومت کو اردن شام عراق لبنان اور مصر تک تصور کرتا ہے۔ سب کچھ واضح اور صاف ہونے کے باوجود یہ مسلم حکمران ہیں جو فلسطینیوں کی بربادی میں عملاً شریک اور امریکہ کے دست راست ہیں جو یہودی ریاست کا سب سے بڑا محافظ ہے۔ غزہ کی مصر کے ساتھ لگنے والی سرحد السیسی نے بند کررکھی ہے اور اس امر کو یقینی بنارکھا ہے کہ مصر کی طرف سے اہل غزہ کو کھانے پینے کی کوئی چیز یہاں تک کہ دوائیں بھی نہ جاسکیں۔ دو تین روز پہلے بڑے فخر سے خبر دی گئی کہ مصری فوج نے صحرائے سینا سے سرنگ کے ذریعے غزہ کو بیس راکٹوں کی اسمگلنگ ناکام بنادی۔ یہ بات کوئی راز نہیں کہ مصری اور بعض دیگر عرب حکمران فلسطینیوں کو پسند نہیں کرتے۔ ایران خود کو اسرائیل کے سب سے بڑے دشمن اور فلسطینی کاز کے حمایتی کے طور پر پیش کرتا ہے لیکن عملی طور پر وہ بھی محض تماشائی ہے۔ ترکی اسرائیل پر غم و غصہ میں پیش پیش ہے لیکن اس کی جانب سےجب بھی بات کی جاتی ہے 1967 کے مقبوضہ علاقوں کی بات کی جاتی ہے اور وہ بھی بہت کم کم۔ اسرائیل کو اس طرح سے نہیں لیا جاتا کہ یہودیوں نے فلسطین کی سرزمین غضب کرکے اس میں ایک ریاست قائم کی ہوئی ہے بلکہ اس طرح بات کی جاتی ہے جیسے اسرائیل یہودیوں کی کوئی جائز اور قانونی ریاست ہے اور مسلمانوں کا اس سے محض سرحدوں کا اور امن و امان کا مسئلہ ہے جس کے لئے کیمپ ڈیوڈ وادیٔ عربہ اور دوحہ وغیرہ کے معاہدات کئے جاتے ہیں۔اسرائیل کے باب میں زمینی حقائق کے نام پر دلائل دئیے جاتے ہیں کہ ہم اسرائیل کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ ہمارے پاس اسرائیل جیسا جدید اسلحہ ہے اور نہ امریکہ جیسا مددگار۔ یہ کم حوصلگی اور پست ہمتی کی بات ہے۔ اسرائیل کے گرد موجود عرب ملکوں مصر اور ترکی کی مجموعی افواج کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ ہے اگر یہ ممالک مجموعی طور پر نہ سہی بلکہ ان میں سے کوئی ایک ملک بھی اپنی افواج کو اسرائیل کی طرف رخ کرکے کھڑا کردے تو یہودی ریاست کی حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی۔ اہل غزہ کی مدد اِدھر اُدھر کے بیانات اور تقریروں سے نہیں ہوسکتی بلکہ ان افواج کو متحرک کرنے سے ہوسکتی ہے جو سینا اور دریائے اردن کے اطراف میں، اللبطانی کے جنوب اور گولان میں ہیں۔ جس دن یہ افواج حرکت میں آئیں یہودی ریاست کی حقیقت کھل کر رہ جائے گی۔
مسلمانوںکے تمام مسائل کا حل مسلمانوں کی وحدت میں پوشیدہ ہے عرب لیگ اور اوآئی سی اس وقت مسلمانوں کے اتحاد کو نہیں بلکہ تقسیم کو واضح کرتی ہیں۔ مسلم ممالک کے حکمران مسلم عوام سے زیادہ امریکہ سے قریب ہیں جب عراق میں مقبوضہ افواج کی درندگی میں اضافہ ہوا تو ان حکمرانوں کی امریکہ سے دوستی میں بھی اضافہ ہوا۔ درحقیقت جو پوری دنیاکے مسلمانوں کا خواب ہے اور جومیرے اللہ کا حکم ہے کہ پوری امت ایک ریاست اور ایک جھنڈے تلے جمع ہوجائے تو پھر اسرائیل کی حقیقت مکڑی کے جالے سے زیادہ کچھ نہیں۔جس روز ایسا ہوا اور انشاء اللہ عنقریب ہوگا دنیا دیکھ لے گی۔