• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک سروے کے مطابق صدر اوبامہ کی مقبولیت اتنی کم ہو چکی ہے کہ ان کو دوسری جنگ عظیم کے بعد کا بدترین صدر تصور کیا جا رہا ہے ۔اسی طرح الیکشن سے پہلے بھارت میں وزیر اعظم منموہن سنگھ اور کانگریس کی غیر مقبولیت انتہا پر تھی۔ لیکن نہ تو امریکہ میں فوری طور پر الیکشن کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اور نہ ہی ہندوستان میں ایسا ہوا۔ بالغ جمہوریتوں میں حکومت کو اپنی ٹرم پوری کرنے تک تبدیل کرنے کے بارے میں کوئی سوچتا بھی نہیں ہے۔ پاکستان کی بد قسمتی ہے کہ پیپلز پارٹی کے آخری دور کے علاوہ اپوزیشن ہرحکومت کے آتے ہی اس کی ٹانگ کھینچنا شروع کر دیتی ہے۔ اس وقت تحریک انصاف مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو گرانے کی پوری تیاری کر چکی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کی حکمت عملی کتنی بالغانہ ہے اور دوسرے مقتدر ادارے کیا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں۔
تحریک انصاف کا تازہ ترین مطالبہ ہے کہ پورے الیکشن کا ویسے ہی آڈٹ کیا جائے جیسے افغانستان میں کیا جارہا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے الیکشن سے متعلقہ ہر ادارے کو بد عنوان قرار دے دیا ہے۔ ان کے خیال میں الیکشن کمیشن کی مشینری اور عدلیہ نے مل کر الیکشن کے آخری مراحل میں دھاندلی کی تھی۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کونسا ادارہ آڈٹ کرے؟ اور اس کا کیا بھروسہ کہ عمران خان اس ہونے والے آڈٹ کو بھی رد نہیں کردیں گے؟ المختصر اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ عمران خان ہر قیمت پر مڈ ٹرم الیکشن کا مطالبہ کررہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) تو مڈٹرم الیکشن کا انعقاد کروانے پر تیار نہیں ہوگی اس لئے اگر عمران خان اپنی اسٹریٹ پاور سے حالات اتنے خراب کردیتے ہیں کہ سول انتظامیہ کے بس سے باہر ہو جاتے ہیں تو غیر جمہوری نظام کا آغاز ہو جائے گا۔
اس وقت مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت میں بہت کمی آئی ہے، شاید سانحہ ماڈل ٹاؤن نے بھی اپنے منفی اثرات مرتب کئے ہوں لیکن اصل مسئلہ لوڈ شیڈنگ کا ہے۔ حکومت چاہتے ہوئے بھی اس شدید گرمی میں لوڈ شیڈنگ ختم نہیں کر سکتی۔ بجلی کی سپلائی کا انفراسٹرکچر (گرڈ اسٹیشن وغیرہ) انتہائی خستہ حالت میں ہے اور نئی پیدا ہونے والی بجلی کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔ اس لئے اگر حکومت مزید بجلی پیدا بھی کر لے تو تب بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ لیکن اگر حکومت کی منصوبہ بندی کو دیکھا جائے تو اگلے چار پانچ سال میں ہی لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔
بجلی کی ترسیل کے انفرا سٹرکچر کو جدید بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے وقت درکار ہے۔ اسی طرح بجلی پیدا کرنے کے نئے وسائل بھی چند سالوں میں ہی بارآور ہوسکتے ہیں۔ ڈیڑھ دو سال میں نیلم جہلم پراجیکٹ سے969 میگاواٹ اور تربیلا(4) سے 2017 میں 1410 میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی۔ سب سے بڑھ کر داسو ہا ئیڈر و پاور پراجیکٹ ہے جس سے پانچ سالوں میں 2000میگاواٹ بجلی کی فراہمی ہو گی۔ اسی طرح اگلے چند سالوں میں کوئلے سے لگائے گئے پلانٹ سستی بجلی پیدا ہونا شروع کردیں گے۔ لیکن اس کا مطلب ہے کہ اگلے چند سالوں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے نجات نہیں مل سکتی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی مقبولیت فوری طور پر مثبت سمت اختیار نہیں کر سکتی۔اس سے حزب مخالف بھرپور فائدہ اٹھا سکتی ہے اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو اتنا غیر مستحکم کر سکتی ہے کہ غیر جمہوری طاقتوں کو مداخلت کا موقع میسر آجائے۔
ویسے مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے معیشت کی بحالی کے لئے کافی مثبت کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ کافی عرصے کے بعد ترقی کی رفتار چار فیصد سالانہ سے اوپر گئی ہے، بجٹ خسارہ بھی کم ہوا ہے اور ٹیکسوں کے محاصلات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
زرمبادلہ کے ذخائر بھی چودہ بلین ڈالر کے قریب پہنچ چکے ہیں اور روپے کی قیمت مستحکم ہوئی ہے۔ آئی ایم ایف نے بھی عندیہ دیا ہے کہ پاکستانی معیشت مثبت سمت اختیار کر چکی ہے۔ اس طرح عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے بھی پاکستان کو منفی کی بجائے مثبت صف میں کھڑا کر دیا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ جب حکومت نے یورو بانڈ بیچنے کے لئے مارکیٹ کا رخ کیا تو اس کا رد عمل توقع سے بھی بہتر تھا۔ پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ بھی اس وقت بلند ترین سطح پر ہے۔ غرضیکہ پاکستان کی معیشت میں دن بدن بہتری آرہی ہے۔ لیکن آئی ایم ایف ، موڈیز اور دنیا کے دوسرے مبصرین کی رائے ہے کہ پاکستان میں معاشی بہتری کا مکمل انحصار سیاسی استحکام کا مرہوں منت ہوگا۔ اگر پاکستان میں سیاسی انتشار کی کیفیت پیدا ہوئی تو پاکستان پھر ایک مرتبہ معاشی بحران کا شکار ہو جائے گا۔
سیاسی استحکام کی بنا پر چین اور ہندوستان تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔ نوے کی دہائی میں جب پاکستان میں سیاسی انتشار عروج پر تھا اور ہر دو ڈھائی سال کے بعد حکومت تبدیل ہو جاتی تھی تو پاکستان کی حقیقی ترقی کی رفتار بہت کمتر سطح پر تھی۔ یہی وہ زمانہ ہے جب بھارت اور چین میں معاشی اصلاحات کے نتیجے میں ان ملکوں کی ترقی کی رفتار نو سے دس فیصد کے درمیان رہی۔ پچھلے بیس پچیس سالوں میں چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن چکا ہے جبکہ بھارت بھی دنیا کی بڑی معاشی طاقت سمجھا جانے لگا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کئی اشاریوں کے حوالے سے پورے جنوب مشرقی ایشیاء میں سب سے پیچھے ہے۔
اگرچہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت پاکستان کی معیشت کو مثبت سمت دینے میں کامیاب نظر آتی ہے لیکن اس کے تمام منصوبوں کی تکمیل کے لئے کم از کم چار پانچ سال کا عرصہ درکار ہے فی الحال عوامی سطح پر حالات خراب نظر آتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ کچھ سروے بتارہے ہیں کہ مسلم لیگ کی مقبولیت پاکستان تحریک انصاف سے کہیں زیادہ کم ہو چکی ہے اور غالباً یہی وجہ ہے کہ عمران خان فوری طور پر مڈ ٹرم الیکشن کا مطالبہ کر رہے ہیں یا بہت جلد کریں گے۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر مسلم لیگ (ن) کو چند سال حکمرانی کے لئے مل گئے اور ان کے بنائے ہوئے منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچ گئے تو مسلم لیگ دوبارہ مقبولیت حاصل کر لے گی۔ سیاسی پہلو سے حالات تحریک انصاف کی موافقت میں ہیں لیکن اس کا موجودہ حکومت کی اکھاڑ پچھاڑ سے سیاسی انتشار بڑھے گا جس سے پاکستان کی معیشت منفی طور پر متاثر ہو گی۔
حکومت کو پانچ سال کے لئے اسی لئے منتخب کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے آغاز کے سالوں میں مشکل اور غیر مقبول فیصلے کرنے کے بعد اگلے سالوں میں بہتر کار کردگی کا مظاہرہ کر سکے۔ فرض کیجئے اگر مسلم لیگ (ن) کی جگہ تحریک انصاف یا کسی اور پارٹی کو منتخب کر لیا جاتا ہے تو اس کو بھی انہی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا جن سے موجودہ حکومت نبرد آزما ہے۔ اس وقت جو بھی حکومت ہوگی اگلے کئی سالوں تک لوڈ شیڈنگ ختم نہیں کر سکتی، مہنگائی لمبے عرصے تک کم نہیں ہوگی، اسی طرح قومی قرضہ جات کا رجحان بھی نہیں بدلے گا۔ المختصر معاشی بہتری کی اس سے بہتر توقع نہیں کی جا سکتی۔ ان حالات میں حکومت کی تبدیلی سے کوئی بہتری نہیں آئے گی۔ اس لئے حکومت، اپوزیشن اور ریاست کے دوسرے مقتدر اداروں کو سیاسی استحکام قائم رکھنے کے لئے تگ و دو کرنا چا ہیئے۔ کسی بھی طرح کا سیاسی انتشار معیشت کے لئے زہر قاتل ثابت ہوگا۔
تازہ ترین