• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلام آباد سات روز سے محاصرے میں ہے اور طرح طرح کی افواہیں گردش کر رہی ہیں۔ علامہ طاہر القادری اور عمران خاں جو لاہور سے یہ ضمانت دے کر چلے تھے کہ وہ اسلام آباد میں انتظامیہ کی طرف سے مختص کیے ہوئے مقامات ہی تک محدود رہیں گے اور ’’ریڈ زون‘‘ میں داخل نہیں ہوں گے ، اُنہوں نے حکومت کی پُرامن پالیسی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ایک شام انتہائی ڈرامائی انداز میں اعلان کر دیا کہ وہ ریڈ زون میں جائیں گے ،پارلیمنٹ کا گھیراؤ کریں گے اور وزیراعظم ہاؤس میں گھس جائیں گے۔ اِس عہد شکنی پر قوم کے سنجیدہ حلقے حیران رہ گئے اور اُنہیں دیر تک اپنے کانوں پر اعتبار ہی نہ آیا کہ اصولوں کی پاسداری کا دم بھرنے والے ’’مسٹر‘‘ اور ’’ملا‘‘ اپنے قول سے پھر بھی سکتے ہیں۔ آخرکار اُنہیں اپنے کانوں میں پڑنے والی آوازوں پر یقین کرنا ہی پڑا جو مختلف ٹی وی چینلز کے ذریعے اُن تک پہنچ رہی تھیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ٹی وی چینل اِن دنوں کپتان عمران خاں اور شیخ الاسلام طاہر القادری کے فرمودات کے اسیر ہو چکے ہیں اور چوبیس گھنٹے انہی کے اوصاف اور اقدامات کے بارے میں تبصرے اور تجزیے نشر کر رہے ہیں جنہیں سن سن کر دن میں تارے نظر آنے اور وحشت ناک خواب دکھائی دینے لگے ہیں۔
سترہ جون ہماری تاریخ کا ایک اندوہناک دن ہے کہ اُس روز ماڈل ٹاؤن میں چودہ لاشیں گریں اور گلو بٹ کا ایک خونخوار کردار سامنے آیا۔ وزیراعلیٰ شہبازشریف نے اِس حادثے کا شدید کرب محسوس کرتے ہوئے ایک جوڈیشنل کمیشن قائم کر دیا ، اپنے وزیر رانا ثناء اﷲ سے استعفیٰ لے لیا اور اپنے انتہائی عزیز اور قابلِ اعتماد سیکرٹری ڈاکٹر توقیر شاہ کو منصب سے ہٹا دیا۔ سانحے میں مبینہ طور پر ملوث پولیس افسر معطل کر دیے اور یہ سمجھ بیٹھے کہ اِس طرح حقائق تک پہنچ جانا سہل ہو جائے گا ، مگر وہ اِس امر کا اندازہ نہ لگا سکے کہ یہ ناخوشگوار واقعہ ایک بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ بننے والا ہے۔
جسٹس باقر نجفی جن کی سربراہی میں عدالتی کمیشن قائم کیا گیا تھا ، اُنہوں نے واقعات کی تہہ تک پہنچنے کی پوری پوری کوشش کی اور اگر علامہ طاہر القادری بھی اُن کے ساتھ تعاون کرتے ، تو عینی شہادتوں میں بھی اضافہ ہوتا اور واقعات کی بعض پوشیدہ کڑیاں بھی سامنے آجاتیں۔ اخبارات سے پتہ چلا ہے کہ فاضل جسٹس نے رپورٹ مرتب کر کے حکومت کے متعلقہ شعبے تک پہنچا دی ہے ، مگر وہ ابھی تک منظرِ عام پر نہیں آئی جس کے باعث جناب طاہر القادری کی آتش بیانی میں ہر لحظہ اضافہ ہو رہا ہے اور اُن کے مطالبات میں اِس مطالبے کو اوّلین اہمیت دی جا رہی ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیراعظم پاکستان کے خلاف کسی تاخیر کے بغیر ایف آئی آر درج کی جائے ، اُنہیں فوری طور پر گرفتار کر کے قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ پہلے وہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے کے حق میں نہیں تھے اور اُنہوں نے اپنا ٹیلی فون بند کر رکھا تھا ، مگر ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم باجوہ کی طرف سے پریس ریلیزآنے کے بعد جس میں ’’بامقصد مذاکرات‘‘ کی تجویز دی گئی ہے ، وہ بات چیت کے لیے رضامند تو ہو گئے ہیں ، مگر اپنے اوّلین مطالبے سے دستبردار ہونے پر آمادہ نظر نہیں آتے۔ اُن کے معتقدین جو اُن کے ساتھ لاہور سے اسلام آباد آئے ہیں ، وہ ڈنڈا بردار ہیں اور اُن میں خواتین کی تعداد غیر معمولی طور پر زیادہ ہے۔ علامہ قادری صاحب نے اپنے لاہور کے سیکرٹریٹ میں ڈنڈابردار خواتین کو اپنا محافظ مقرر کر رکھا تھا اور لیبیا کے معمر قذافی کی طرح ویمن شیلڈ استعمال کر رہے تھے اور اسلام آباد میں بھی یہی شیلڈ استعمال کی جا رہی ہے۔
علامہ صاحب نے اشارۂ غیبی پر پارلیمنٹ کا گھیراؤ کر لیا اور پارلیمنٹ کے اندر جانے والے تمام راستے بند کر ڈالے۔ اُنہوں نے فرمایا کہ ارکانِ پارلیمنٹ ہمارے شکار ہیں اور وہ ہماری لاشوں ہی پر سے گزر کر باہر جائیں گے۔ وزیراعظم نوازشریف نے سیاسی عزیمت کا ثبوت دیتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پُرامن رہنے کی ہدایات جاری کیں اور پارلیمان کے اندر اُبھرتی ہوئی صورتِ حال پر بحث ہوتی رہی۔ تمام پارلیمانی جماعتوں کے قائدین کی طرف سے اپنے ادارے کے تحفظ کے عزم کا شاندار اور باوقار اظہار ہوا اور اُنہوں نے وزیراعظم کو فسادیوں کے خلاف ڈٹ جانے کا مشورہ دیا۔ وہ بلوائیوں کے ارادے خاک میں ملا دینے کے حوالے سے بہت پُرجوش اور پوری طرح متحد تھے۔ اُنہوں نے پختہ ارادہ کر لیا ہے کہ وہ ’’موب کریسی‘‘ کو شکست دے کر دم لیں گے اور کسی کو منتخب حکومت پر شبخون مارنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
اِن ایقان افروز خیالات سے ڈنڈا بردار جمہوریت کے خلاف پوری قوم اُٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ عمران خاں اور علامہ طاہر القادری کے تصورات اور عقائد میں بنیادی اختلافات پائے جاتے ہیں ، مگر وہ اساسی نکات پر متحد نظر آتے ہیں کہ نواز شریف کی حکومت ختم کی جائے اور منتخب اداروں کی بساط لپیٹ دی جائے۔ وہ یہ مقصد بے مہار ہجوم کی طاقت سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اِس کارِ لاحاصل میں یہ دونوں سیاسی اور مذہبی شخصیتیں بُری طرح سے بے نقاب ہو گئی ہیں اور اُن کے اندر کا خبث باہر آ گیا ہے۔ دونوں کے اُبلتے جذبات سلگانے اور اشتعال انگیز بیانات سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ وہ قیادت کی اعلیٰ صفات سے محروم ہیں اور اُن کی بات قابلِ اعتماد نہیں۔ عمران خاں نے جب زمین پاؤں سے کھسکتی دیکھی ، تو اُنہوںنے سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کر دیا اور اِسی طرح علامہ قادری نے اپنے مریدوں سے کہا کہ انقلاب مارچ سے بے مقصد واپس لوٹنے والے بھی قتل کر دیے جائیں۔اس قسم کے مطالبات کس کیفیت میں کئے جاتے ہیں اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہونا چاہئے۔
اِن حضرات کے غیر جمہوری اور غیر انسانی رویوں کے خلاف وکلاء برادری بھی میدانِ عمل میں اُتر آئی ہے اور اُس نے پورے ملک میں ہڑتال کی کال دی ہے۔ محترمہ عاصمہ جہانگیر ایک بات مسلسل کہہ رہی ہیں کہ سٹریٹ پاور کے ذریعے کوئی جرم ثابت کیے بغیر ایک بار حکومت کو چلتا کیا گیا ، تو اِس ملک میں پھر کوئی حکومت قائم نہیں ہو سکے گی۔ تمام سیاسی قائدین بھی اِس خطرے کی نشان دہی کر رہے ہیں اور جمہوریت کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔ پاکستان کے جید اور اکابر علماء بھی اِس اصول پر متفق ہیں اور مذہب کے نام پر طاقت کے استعمال کی مذمت کر رہے ہیں۔ تمام اخبارات ڈنڈا بردار سیاست پر تین حرف بھیج رہے ہیں۔ بلاشبہ نظامِ حکومت کا معیار بلند کرنے کے لیے بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے اور یہ اصلاحات ایک مضبوط حکومت اور ایک مضبوط پارلیمان ہی کر سکتی ہے جبکہ عمران خاں اور طاہر القادری سب سے پہلے اُن کے خاتمے کی باتیں کر رہے ہیں جن سے اُن کے عزائم کے بارے میں بڑے پیمانے پر شکوک و شبہات پھیلتے جا رہے ہیں۔ ہماری مسلح افواج اِس دوراہے پر حالات کو معمول پر لانے اور آئین و قانون کی عملداری قائم رکھنے میں ایک مثبت کردار ادا کر رہی ہیں۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ نواز شریف کی حکومت پہلے سے زیادہ مستحکم ہو گی اور جناب شہباز شریف کو ایک اعلیٰ منتظم کے طور پر ملکی ترقی میں اپنا رول بہتر طور پر ادا کرنے کا موقع ملے گا اور اُنہیں اپنا اسلوب حکمرانی تبدیل کرنا اور عوام کے مسائل پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینا ہو گی۔
اب یہ ناگزیر معلوم ہوتا ہے کہ مقامی حکومتوں کے انتخابات جلد سے جلد کرا دیے جائیں اور فیصلہ سازی کے عمل کو وسعت اور شفافیت دی جائے جبکہ میرٹ کی بنیاد پر نظامِ حکومت چلایا جائے۔ ہنگاموں نے یہ سبق دیا ہے کہ جناب عمران خاں کی زبان اور اُن کے کھلاڑی پن نے تیزی سے انصاف کی سیاسی حیثیت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ مسلم لیگ نون کی قیادت پر واجب آتا ہے کہ وہ اپنی جماعت کو پورے ملک میں ہردلعزیز بنائے اور کارکنون کی رائے کو بنیادی اہمیت دے۔ نتیجتاً یہ بلوائی اور یہ فسادی ریاست کے لئے چیلنج نہیں بن سکیں گے۔
تازہ ترین