پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں آنے والے نئے موڑ کو ملک میں بہت کم توجہ ملی ہے کیونکہ عوام کی زیادہ توجہ اسلام آباد میں جاری سیاسی ڈرامے پر ہے۔ لیکن محض اس وجہ سے دونوں ملکوں میں طویل عرصے سے سرد و گرم تعلقات کے مستقبل پر نئی پیش رفت کے مضمرات کم نہیں ہوں گے۔بھارت کی جانب سے دونوں ملکوں کے خارجہ سیکرٹریوں کے درمیان ہونے والی ملاقات کو اچانک منسوخ کردینے سے شاید اسلام آباد میں موجود حکام کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن پاکستان میں بہت ہی کم لوگوں کو دہلی کے مذاکرات گریزانداز پر حیرت ہوئی ہوگی۔ گزشتہ تقریباً ایک دہائی سے اسلام آباد سے منقطع و بحال ہوتے سفارتی روابط میں یہ بھارت کی ایک نمایاں خاصیت رہی ہے۔ کیا بات چیت میں نیا خلل دہلی کا کسی خاص واقعے پر اظہار برہمی ہے؟ یا پھر اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ نریندر مودی حکومت نے پاکستان کے بارے میں اپنی طاقت پر مبنی اعلانیہ پالیسی پر عمل کرنے کیلئے رابطے کے اصولوں کی تشکیل نو کی کوشش کی ہے؟ کہیں یہ ایک جچی تلی حکمت عملی کے حصے کے طور پر اکتا دینے والے جانے پہچانے طرز سفارت کاری کی واپسی تو نہیں؟ یا جموں و کشمیر میں ریاستی انتخابات سے قبل انتخابی سیاست اس فیصلے کی وجہ بنی؟ دہلی کے اس فیصلے کے پیچھے چھپے ممکنہ مقاصد کو سمجھنے سے پہلے یہ جاننا زیادہ بہتر ہوگا کہ کیا ہوا تھا۔ پاکستانی حکام کو بات چیت کی منسوخی کے بارے میں سب سے پہلے 18 اگست کو بھارتی وزارت خارجہ کے اعلان کے ذریعے پتہ چلا۔ جس کے بعد بھارتی سیکریٹری خارجہ سجاتا سنگھ نے پاکستانی ہائی کمشنر عبد الباسط کو فون کیا جو اس وقت کشمیری رہنما شبیر شاہ سے ملاقات کررہے تھے اور پھر اس کے اگلے روز انہوں نے دیگر حریت رہنماؤں سے ملاقاتیں کرنا تھیں۔ فون کال میں یہ کہا گیا کہ پاکستان کو کشمیری علیحدگی پسندوں یا بھارت دونوں میں سے کسی ایک کے ساتھ بات چیت کا فیصلہ کرنا ہوگا، اور یہ بھی کہا گیا کہ اگر پاکستانی سفیر نے حریت رہنماؤں سے ملاقاتوں کے سلسلے کو آگے بڑھایا تو اسلام آباد میں ہونے والی بات چیت ختم کردی جائے گی۔ ان ملاقاتوں کو بدنیتی سے بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا گیا۔
اس فون کال کے کچھ ہی دیر بعد بھارتی میڈیا نے کال کی تفصیلات کے بارے میں بتانا شروع کردیا اور پھر بات چیت کی منسوخی کی اطلاع دی۔یقیناً پاکستان سفارت کاروں اور کشمیری رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقاتیں کوئی غیرمعمولی بات نہیں تھیں۔ یہ ایک بہت پرانا معمول ہے جس پر کسی بھارتی حکومت نے کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔ اس طرح کی مشاورت پاکستان بھارت مذاکرات سے قبل معمول کے طور پر کی جاتی ہے اور اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ لیکن اس مرتبہ بھارت نے غصے میں آنے کا ڈرامہ رچایا اور اسلام آباد سے مشورہ کئے بغیر بات چیت شروع ہونے سے محض چند دن قبل اسے ختم کرنے کا اعلان کردیا۔اس سے پہلے جب کل جماعتی حریت کانفرنس کے نمائندوں نے 19 جولائی کو ہائی کمیشن کا دورہ کیا تھا تب تو مودی حکومت نے کوئی سفارتی شکایت نہیں کی۔ بلکہ اس کے بعد سجاتا سنگھ نے 25 اگست کو اپنی ملاقات طے کرنے کے لئے23 جولائی کو پاکستان سیکرٹری خارجہ کو ٹیلی فون کیا تھا۔ لہٰذا مذاکرات میں روڑے اٹکانے کے دہلی کے فیصلے سے یہ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ آیا بات چیت کی منسوخی کی بیان کردہ وجوہات محض ایک بودا عذر لنگ ہے تاکہ دیگر مقاصد کو چھپایا جاسکے۔جموں و کشمیر میں عنقریب ہونے والے ریاستی اسمبلی کے انتخابات کو مودی کے فیصلے کی ایک وجہ قراردیا جارہا ہے۔ بی جے پی نے مشن 44 پلس کو اپنی مہم کا نصب العین بنالیا ہے جس کا مقصد87 رکنی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنا اور پہلی بار ایک ہندووزیراعلیٰ مقرر کرنا ہے۔ شاید اس نے سوچا ہو کہ پاکستان سے بات چیت منقطع کرنے سے اس کی انتخابی مہم کو فائدہ پہنچے گا۔ یہ موقف بھارتی میڈیا کے کئی حصوں نے بیان کیا ہے۔ درحقیقت دہلی کے فیصلے پر خود بھارت میں کافی تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ایک اخبار نے اس فیصلے کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔ ایک دوسرے اخبار نے اسے ذاتی مقصد کہا۔ دیگر نے بات چیت کی منسوخی کو بی جے پی کی کشمیر حکمت عملی کا کولیٹرل ڈیمیج (غیرارادی پہنچنے والا نقصان) قراردیا۔ مثال کے طورپرکلکتہ کے ٹیلی گراف نے لکھا کہ اسمبلی انتخابات کے قریب پاکستان کے ساتھ پینگیں بڑھانے سے بی جے پی کو اچھا انتخابی پلیٹ فارم نہیں مل رہا تھا۔مودی کے ماقبل اقدامات اور پاکستان کے خلاف جارحانہ تقاریر سے اس موقف کو تقویت ملی ہے۔ لیکن اس سے ایک وسیع حکمت عملی کا بھی پتہ چلتا ہے۔ جموں و کشمیر وہ واحد ریاست ہے جس کا مودی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد دو مرتبہ دورہ کیا ہے تاہم وادی جانے سے گریز کیا۔ لداخ کے دورے کے دوران پاکستان سے متعلق مودی کے اشتعال انگیز بیانات میں ایک سخت گیرانداز اپنایا گیا جو اس کے ظاہری نرم انداز کے بالکل برعکس تھا جب اس نے مئی میں اپنی حلف برداری کی تقریب میں وزیراعظم نواز شریف کو مدعو کیا تھا۔ ان سب سے کم از کم یہی اشارہ ملتا ہے کہ بھارتی حکومت پاکستان سے کشمیر پر بات کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ یہ بی جے پی کی گزشتہ حکومت میں اپنائی جانے والی پالیسی سے سراسر انحراف ہے جس کے مستقبل کے مکالمے اور کشمیر پر کسی بھی معنی خیز بات چیت کے امکانات پر اہم اثرات مرتب ہوں گے۔ نیز بی جے پی نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کا وعدہ بھی کیا ہوا ہے (جس کے تحت کشمیر کو ایک خصوصی درجہ حاصل ہے)، اس وعدے کے بعد یہ موقف پاکستان کے لئے ایک نئے سخت سفارتی چیلنج کی صورت سامنے آیا ہے۔کشمیر کے علاوہ پاکستان کے حوالے سے بھارت کے مجموعی موقف میں سختی کا اشارہ بھارتی حکام سے منسوب ان بیانات سے بھی ملتا ہے جو حالیہ خبروں میں سامنے آئے ہیں۔ایک بھارتی افسر نے کہا کہ یہ سلسلہ اب زیادہ تر معمول کی کارروائی کے طور پر نہیں چلے گا اور پاکستان سے روابط کے نئے بنیادی اصول و ضوابط طے کئے جارہے ہیں۔ مذاکرات کی منسوخی کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایک اور بھارتی افسر نے کہا کہ اس سے ایک مشکل تقاضے کا پتہ چلتا ہے جس پر بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان آمادہ ہوجائے اگر وہ مذاکرات پر کسی پیش رفت کا خواہش مند ہے تو۔ مودی حکومت کے اسلام آباد بات چیت منسوخی کے جو بھی مقاصد ہوں، اس فیصلے سے فی الحال کم از کم تین باتیں پتہ چلتی ہیں۔ اول، دہلی کو تجارتی تعلقات سمیت تعلقات معمول پر لانے کے عمل کو تیز کرنا تو درکنار اس کی تشکیل نو کرنے کی بھی کوئی جلدی نہیں،اس کی بجائے وہ نہ صرف اپنے ہاں بلکہ کئی بین الاقوامی فورم میں بھی کھلے عام پاکستان کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس پر دباؤ بڑھانے کو ترجیح دے رہا ہے۔دوم، دہلی شاید روابط کے قاعدے قوانین کی ازسرنو تشریح کرنے کی کوشش کرتے ہوئے پاکستان کے لئے شرائط مقرر کررہا ہے کہ مذاکرات کی بحالی کے لئے اسے ان پر پورا اترنا ہوگا۔ سوم، بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت یہ سمجھ بیٹھی ہے کہ اگر اسلام آباد تعلقات معمول پرلانے کیلئے دہلی کے نئے تقاضوں کا احترام کرلے تو مذاکرات کی بحالی کو ایک دباؤ یا انعام کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اس سوچ کا مضحکہ خیز پہلو یہ ہے کہ اس میں نئے پن کے سوا سب کچھ ہے۔ حقیقتاً یہ وہی حکمت عملی نظر آتی ہے جس پر دہلی نے گزشتہ ڈیڑھ دہائی تک عمل کیا ہے جس کے دوران اس نے کم از کم تین بار بات چیت کا سلسلہ توڑا اور پھر مکالمے کی بحالی کے لئے شرط عائد کردی کہ پاکستان مخصوص تقاضوں پر پورا اترے۔ لیکن2001 سے پاکستان کے ساتھ سلسلہ جنبانی کیلئے دہلی کے رکنے چلنے رکنے چلنے والے طریق کار سے نہ تو اسے اس کے مطلوبہ نتائج حاصل ہوئے اور نہ ہی پاکستان کا اصولی موقف کمزور ہوا۔ ایک سفارتی دھونس کے آلہ کار کے طور پر یہ طریقہ نہیں چل سکا۔ بلکہ بار بار سفارتی تعطل الٹا دہلی کے اپنے ذاتی بیان کردہ مقاصد کے لئے نقصان دہ ثابت ہوئے جن کی وجہ سے تجارت اور عوام سے عوام کے رابطے میں پیش رفت،جنہیں بھارت نے طویل عرصے سے اپنی ترجیح بنایا ہوا تھا،میں رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔2008 میں ممبئی حملوں کے تناظر میں دہلی نے تمام مذاکراتی عمل روک دیا تھا۔ یہ سفارتی تعطل2011 تک برقراررہا جس کے دوران بھارت نے مذاکرات کی بحالی کو ممبئی حملوں کی قانونی چارہ جوئی پر پاکستان کی کارروائی سے مشروط کردیا۔ لیکن جب مذاکرات گریز موقف کی وجہ سے دہلی کو کوئی فائدہ نہ پہنچا تو اس نے سفارتی سمت تبدیل کی اور واپس جامع مذاکرات پر لوٹ آیا۔ مذاکرات کے دو ادوار ہوئے۔ تیسرا بمشکل شروع ہی ہوا تھا کہ دہلی نے لائن آف کنٹرول پر جھڑپوں کو بہانہ بناتے ہوئے جنوری 2013 میں دوبارہ باضابطہ مکالمے کا سلسلہ منقطع کردیا۔تب سے دہلی نے باضابطہ بات چیت بحال کرنے کی پاکستانی پیش کش کو مسلسل مسترد کیا ہے باوجود اس کے کہ وزیراعظم نواز شریف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد کئی بار دہلی کو اس کیلئے راضی کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور اب بھارتی حکام سلسلہ جنبانی کی نئی شرائط مقرر کرنے کا وہی راگ الاپ رہے ہیں۔ لیکن مذاکرات گریز رویہ اپناتے ہوئے ایسا کرنے کی کوشش کرنا باہم متصادم ہے۔
اس طریقے سے نہ ماضی میں کوئی فائدہ ہوا اور نہ ہی مستقبل میں ہوسکتا ہے۔ ایک رعایت کے طور پر مذاکرات کی پیشکش کی حکمت عملی کو ہر مرتبہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ہر بار دہلی نے اپنے ذاتی مقصد کے حصول کے لئے بات چیت معطل کی اور جب بھی مذاکراتی عمل پر واپس لوٹا اسے کسی فائدے کی بجائے الٹا سفارتی طور پر نقصان ہی ہوا۔ اب جب کہ باضابطہ بات چیت معطل ہے اور صورتحال معمول پر لانے کا سلسلہ ڈیڈ لاک کا شکار ہے، تو تعلقات کے مستقبل سے متعلق ایک غیر یقینی کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے اور یہ معاملہ ایسے وقت پیش آنا بدقسمتی ہے جب تجدید شدہ روابط سے دونوں ممالک کو فائدہ ہوسکتا تھا کہ وہ کشیدگیوں سے پریشان ہوئے بغیر اندرونی چیلنجوں سے نمٹنے پر توجہ دیتے اور خطے میں کسی قدر استحکام پیدا کرتے۔ جہاں تک عالمی برادری کی بات ہے تو اسے مذاکرات میں تعطل آنے پر محض ہاتھ ملنے اور مایوسی کا اظہار کرنے سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ جب یہ صریح طور پر واضح ہوجائے کہ امن عمل کی بحالی کی راہ میں کون سا ملک رکاوٹ بنا ہوا ہے تو بین الاقوامی برادری کو چاہئے کہ اپنے پیغامات اور سفارتی توانائیوں کا رخ اس ملک کی طرف موڑے نہ کہ ٹھنڈے ٹھنڈے بیانات جاری کرکے دونوں ملکوں پر بات چیت کرنے کے لئے زور دیتی رہے۔