• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وجہ بے رنگی گلزار کہوں تو کیا ہو گا
کون ہے کتنا گناہگار کہوں تو کیا ہو گا
تم نے جو بات سر بزم نہ سننا چاہی
میں وہی بات سر دار کہوں تو کیا ہو گا
ساحرلدھیانوی کے مندرجہ بالا اشعار پاکستان عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے رہنمائوں کی رات کے پچھلے پہر میں راولپنڈی میں ہونے والی ملاقاتوں اور پھر اس کے بعد ہونے والے مذاکرات کی خبروں کو سن کر میرے ذہن میں آئے۔وقت اتنی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اور سیاسی اتار چڑھائو اسٹاک ایکسچینج کے اتار چڑھائو سے زیادہ تیز اور خطرناک ہے۔ تھوڑی تھوڑی دیر کےبعد نئی خبر آتی ہے اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد حالات بدلتے ہیں کبھی کفن پہنے جاتے ہیں اور قبریں کھودی جاتی ہیں۔میں سپریم کورٹ میں آج صبح سرفراز شاہ کا قتل کیس چلا رہا تھا۔ دہشت گردی اور عوام میں خوف وہراس اور سراسیمگی پھیلانے اور پھیلنے کے موضوع پر بڑی گرما گرم بحث ہو رہی تھی۔ میں نے کہا کہ ٹی وی پر قبریں کھودنا ،دکھانے کے مناظر اور کفن پہن کر سیاسی جلسے میں شرکت کرنے کے مناظر اور کفن ہوا میں لہرانے کے مناظر بھی عوام میں خوف وہراس اور عدم تحفظ کی فضا پیدا کرتے ہیں۔
میرے جیسا آدمی قبر دیکھ کر خوف زدہ ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر جب کہ قبر کھودنے والے نے کفن بھی پہن رکھا ہو۔ دہشت گردی کے قانون کی دفعہ 6اور دفعہ7میں خوف وہراس پھیلانے اور عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنے والوں کے لئے سزائیں ہیں مگر ہمارے ملک میں سیاسی رہنما سزا سے بالاتر ہوتے ہیں۔ اور مجمع لگانے اور مجمع گرم کرنے کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔
خیر یہ تو قانونی باتیں ہیں اور خوامخواہ کالم لکھتے وقت میرے ذہن میں آ گئیں شاید اس لئے کہ آج سارا دن سرفراز شاہ والا کیس چلایا ہے۔بات ملکی سیاست، دھرنوں اور پھر دھرنوں کے الٹی میٹم کے بعد آرمی ہائوس میں سیاست دانوں کی ملاقاتوں کے سلسلے میں ہو رہی تھی۔ وزیر اعظم نے آرمی چیف کو مداخلت کے لئے کہا ہے اس پر تحریک انصاف کے جاوید ہاشمی صاحب اور دوسرے کئی سیاستدانوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کا ٹوئٹر چلا کہ بی بی ہم شرمندہ ہیں۔ اس وقت ملکی سیاست اس خطرناک موڑ پرپر پہنچ گئی ہے کہ ملکی معیشت اور سلامتی کو بھی دائو پر لگا دیا گیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس کالم کے شائع ہونے تک ملک کے سیاسی حالات کیا ہوں گے۔ دھرنے ختم ہو گئے ہوں گے ،نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو چکا ہو گا اور لوگ اطمینان سے اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہوں گے یا پھر مارشل لا لگ چکا ہو گا۔
ملک میں مکمل امن و امان ہو گا۔ دوکانداروں، تاجروں اور صنعت کاروں نے سکھ کا سانس لیا ہو گا۔بھتہ خوروں، بدمعاشوں اور لٹیروں کی زندگیاں تنگ ہو گئی ہوں گی اور عوام میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی ہو گی۔ سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں ہو گا۔سیاست دانوں اور رشوت خور افسروں کے نام ای سی ایل میں ڈل چکے ہوں گےاور وہ چور راستوں کے ذریعے پاکستان سے بھاگنے کے منتظر ہونگے۔ یہ تو اب وقت بتائے گا کہ کیا ہونے والا ہے ؟ وزیر اعظم نے آرمی کو مداخلت کی دعوت دیکر تقریباً وہی کام کیا ہے جو بھٹو صاحب مرحوم نے 1977کی پی این اے موومنٹ کے دوران جنرل ضیاء الحق اور نیوی اور فضائیہ کے سربراہوں کو اپنے ساتھ مذاکراتی ٹیم کے میز پر بٹھا کر کیا تھا گویا دعوت خود دی تھی۔ 245کے تحت فوج پہلے ہی ڈیوٹی انجام دے رہی ہے۔
عمران خان کے دھرنے اور پھر تقریروں کے وقفوں میں لگائے جانے والے ملی نغموں اور گانوں کی دھوم سب جگہ پھیل گئی ہے۔ اور بڑے بڑے فنکاروں اور پری چہرہ سامعین کی موجودگی ماحول کو دھرنے کے لئے بہت سازگار بنانے میں مددگار ثابت ہو ئی ہے اور لوگ دھرنے میں شرکت اور دھرنا دیکھنے بہت دور دور سے آتے ہیں۔ سیاست کے نئے انداز ہیں جو کہ عام لوگوں کو پسند آئے ہیں۔اب لوگ سیاسی جلسوں میں بہادر یار جنگ اور شورش کاشمیری کی تقریریں سننے نہیں آتے وہ تو انجوائے کرنے آتے ہیں۔
میں ابھی بھی حالات اچھے نہیں دیکھ رہا۔یہ مذاکرات میری سوچ کے مطابق ناکام ہو جائیں گے۔اب مبینہ طور پر حکمران پارٹی کے اندر قیادت کی تبدیلی کی بات بھی زوروشور سے چل رہی ہے۔ اس سلسلے میںبعض لوگ چوہدری نثار کا نام لے رہے ہیں،بہرحال دیکھئے قرعہ کس کے نام نکلتا ہے۔عوام اب ان دھرنوں کی سیاست سے بیزار ہو چکے ہیں اور اگر انہیں ایک آدھ دن میں ختم نہ کیا گیا تو لوگ خود اپنی مرضی سے کوئی نئی راہ اختیار کر لیں گے اور ہو سکتا ہے کہ دونوں پارٹیوں کے سربراہوں کا اپنے کارکنوں پر کنٹرول ختم ہو جائے ۔طاہر القادری صاحب کے لوگ تو ان کے مرید ہیں اور ان کے جانے کے امکانات کم ہیں۔ جبکہ عمران خان کے لوگوں کی تعداد دن کے وقت بہت کم اور رات کے وقت کچھ کم ہونے کا امکان ہے۔ مذاکرات ناکام ہونے کی صورت میں پورا نظام فوج کے رحم و کرم پر ہو گا جو کہ عوام کو تحفظ فراہم کر سکتی ہے۔ بہرحال صورت حال اطمینان بخش نہیں ہے، کالم شائع ہونے تک حالات کیا ہوں ،کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ وقت دعا ہے ،قبریں کھدی ہوئی ہیں ایک اطلاع کے مطابق راولپنڈی اسلام آباد کی مارکیٹوں میں کفن کا کپڑا شارٹ ہو گیا ہے کیونکہ طلب بڑھ گئی ہے۔خدا خیر کرے۔ آخر میں علامہ اقبال کا قطعہ جمہوریت کے عنوان سے پیش کرتا ہوں۔
اس راز کو اک مرد فرنگی نے کیا فاش !
ہر چند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے
تازہ ترین