عالمی طاقت کی بدلتی ہوئی حرکیات کے موقع پر لندن کے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز (آئی آئی ایس ایس) کے زیر اہتمام ایک کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس میں دنیا کے تذویراتی چیلنجز پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی گئی جس سے کافی معلومات حاصل ہوئیں۔اولسو میں منعقد ہونے والے اس سالانہ عالمی تذویراتی جائزے میں کئی ماہرین اور حکام جمع ہوئے جنہوں نے ایک غیر مستحکم عالمی موڑ پر اہم جغرافیائی سیاسی چیلنجز و جغرافیائی اقتصادی امکانات پر ہونے والی بحث میں حصہ لیا۔
ایک طرف جب جنگ عظیم دوم کے بعد کا بین الاقوامی نظام تبدیلی کے مراحل سے گزر رہا ہے، کانفرنس میں عام تاثر یہ پایا گیا کہ دنیا بھر کے اہم خطوں میں طاقت کے توازن سے متعلق تذویراتی مطابقت پذیریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ اس مرکزی خیال کی ہی بازگشت تھی جو انسٹیٹیوٹ کے حال ہی میں شائع شدہ سالانہ سروے میں پیش کیا گیا تھا جس میں آئندہ سال اس رجحان کے تیز ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ کانفرنس میں ایک اہم موضوع تذویراتی ماحول کی سختی سے متعلق تھا۔ بڑی طاقت بننے کی جغرافیائی سیاست کی بحالی کو عالمی ماحول کی ایک بڑھتی ہوئی خصوصیت کے طور پر دیکھا گیا۔ ایک دوسرا نمایاں خاکہ مشرق وسطی میں جاری بحران تھا۔ نیز عدم تحفظ کی مخلوط اقسام کئی ترقی پذیر ممالک کو چیلنج کررہی ہیں۔ مشرق وسطیٰ پر ایک مکمل سیشن کافی دلچسپ رہا اور استحکام کے امکانات سے متعلق کئی متفرق خیالات سامنے آئے۔ ایک خونریز انتشار کے ذریعے خطے کا نظم و نسق ازسرنو تشکیل پارہا ہے۔ لیکن دولت اسلامیہ فی العراق و شام (داعش) کے ظہور نے خطے کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور امریکا کی زیر قیادت مغرب کو اپنی پالیسی کا دوبارہ جائزہ لینے پر مجبور کردیا ہے۔
مختلف مقررین کے درمیان اس پر اتفاق رائے پایا گیا کہ موجودہ عدم استحکام کی وجوہات حکمراں اشرافیہ کے قانونی جواز کا بحران، اداروں کی ٹوٹ پھوٹ اور کمزور و ناکام ریاستیں ہیں۔مقررین نے مغرب کے غلط اقدامات اور مداخلتوں کی نشاندہی بھی کی جو صورت حال کو مزید خراب کرنے کا سبب بنیں۔ اسی طرح علاقائی دشمنیوں اور اثر و رسوخ کے مقابلے کا بھی کردار رہا۔ ایک عرب مقرر نے عراق و شام کی موجودہ صورت حال اور 1980 کی دہائی میں افغانستان میں روس مخالف مہم کا باہم موازنہ کیا جب مغرب نے مجاہدین کو اسلحہ اور پیسا فراہم کیا تھا جس کے نتیجے میں وہاں انتہا پسند طاقت ور ہوگئے تھے۔
ایک مقرر کا کہنا تھا کہ داعش کا عروج کئی ناکامیوں کا نتیجہ ہے۔ ان میں حکومت و اداروں کی ناکامیاں اور خطے کو نئی شکل دینے کی مغربی کوششیں شامل ہیں۔ فنانشل ٹائمز کی رولا خلف نے خطے کو ایک جامع بگاڑ کا شکار قرار دیا جسے وبا لگنے کا شدید خطرہ لاحق ہے۔ انہوں نے کہا متعدد ریاستوں عراق، لیبیا، شام اور یمن کی بقا پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ آج سب سے نقصان دہ خلیج فرقہ واریت ہے جس کا ایندھن ایران اور سعودی عرب کے درمیان سرد جنگ بنی ۔ انہوں نے دلیل دی کہ تہران کے ساتھ مصالحت کے مغربی اقدامات نے اس خلیج کو مزید گہرا کیا۔
ایک دوسری خلیج اسلام پسند اور اسلام مخالف طاقتوں کے مابین ہے۔ اگر تیونس میں قدرے استحکام آیا ہے تو اس کی وجہ اس کا سمجھوتے کا کلچر ہے جو کہیں اور دکھائی نہیں دیا۔کئی شرکاء نے اس بات سے اتفاق کیا کہ مشرق وسطیٰ کے موجودہ بحران کو محض فوجی طاقت سے حل نہیں کیا جاسکتا۔ ایک عرب مقرر نے کہا کہ اصل جنگ سیاسی ہے جس میں لوگوں کو واپس ریاست سے جوڑنے کا عمل شامل ہے۔ نیز علاقائی اتفاق رائے کے بغیر کوئی حل نہیں نکالا جاسکتا۔اسی طرح ایشیا میں ایک نئی سرد جنگ؟ کے موضوع پر سیشن بھی کافی پرکشش رہا۔ اس میں ایشیا پیسیفک میں بڑھتی ہوئی تذویراتی کشیدگیوں پر بات کی گئی جن کا محرک نہ صرف متناقض سمندری دعوے ہیں، بلکہ سیشن کے نگراں کے مطابق امریکا کی ازسرنو توازن قائم کرنے کی حکمت عملی کی چینی تشریح بھی ہے۔ ایک جاپانی مقرر اور سابق وزیر نے یوکرائن میں روسی اقدامات اور بحیرہ جنوبی چین میں بیجنگ کی کارروائیوں کا بھی باہم موازنہ کیا۔ لیکن انہوں نے ایک نئی سرد جنگ کے تصور کو مسترد کردیا۔ ایک اور مقرر نے کہا جو ہورہا ہے وہ ایک باکسنگ میچ سے زیادہ فٹ بال گیم لگتا ہے۔ چین سے تعلق رکھنے والے مقرر ایرک لی نے تو میلہ ہی لوٹ لیا۔ شریک سرمایہ دار اور ماہر سیاسیات ایرک لی نے چین کے مقاصد کا سلیس تجزیہ پیش کیا۔ انہوں نے دلیل دی کہ موجودہ حالات کو سمجھنے کے لیے انہیں سرد جنگ کے زاویے سے دیکھنا کارآمد نہ ہوگا۔ انہوں نے امریکا سوویت یونین محاذ آرائی سے موازنہ کرنے والے تمام موقفوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ چین عالمی معیشت سے گہری حد تک جڑا ہوا ہے، اور چین و امریکا معاشی طور پر ایک دوسرے پر اتنے زیادہ منحصر ہیں کہ کسی محاذ آرائی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ چونکہ لی نے چین کے اہداف کا بہت مدلل خلاصہ پیش کیا لہذا ان کے اہم نکات کو بیان کرنا فائدے مند ہوگا۔ پہلا نکتہ تھا کہ امریکا موجودہ غالب عالمی قوت ہے جس نے جنگ عظیم دوم کے بعد کا اور سرد جنگ کے بعد کا عالمی ڈھانچہ تشکیل دیا اور اس نے عالمی امور کے تمام پہلوؤں کو گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ ایشیا پیسفیک بھی اسی عالمی ڈھانچہ کا ہی ایک حصہ ہے۔
دوسری جانب چین ایک تیزی سے ابھرتی ہوئی طاقت ہے جس نے امریکا کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننا ہے۔ لیکن چین نے اس عالمی ڈھانچے کا خاکہ بنانے اور اس کے قیام میں کوئی حصہ نہیں لیا ہے۔ اگرچہ اس نے اس ڈھانچے سے فائدہ اٹھایا ہے لیکن اس انتظام سے اس کے مفادات کبھی پورے نہیں ہوئے۔ لی کے دلائل کا دوسرا حصہ یہ تھا کہ سرد جنگ کے بعد کا یہ عالمی ڈھانچہ اب ٹوٹ رہا ہے جس کی دو بنیادی وجہ ہیں۔ پہلی کا تعلق امریکا کی مشکلات سے ہے جنہوں نے اس کی اندرونی ساخت کے مسائل اور بیرونی طور پر حد سے تجاوز کرنے سے جنم لیا ہے، جس کا نتیجہ ناکامیوں اور کمزوری کی صورت میں نکلا۔ اور دوسری وجہ دیگر ممالک کا عروج بنی جن میں چین سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ انہوں نے تیسرا نکتہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ عالمی ڈھانچہ برقرار نہیں رہ سکتا کیونکہ یہ موروثی طور پر ہی بے لچک اور تبدیلی کو اپنانے سے لاچار ہے۔
ایشیا کو علی الاعلان اپنا محور بنانے کے باوجود امریکا کو اپنی توجہ کئی علاقوں پر مرکوز کرنی پڑی جن میں یوکرائن اور مشرق وسطیٰ شامل ہیں۔ لی نے کہا کہ اس سے امریکا کے لیے کسی خاص خطے میں اپنی طویل مدتی حکمت عملی کو برقرار رکھنا مشکل ہوگیا۔ لیکن لی کا کہنا تھا کہ چین ایشیا میں اپنے ممتاز کردار کو واپس حاصل کرنے کے لیے طویل مدتی تذویراتی ہدف کا تعاقب کررہا ہے، جس کے لیے اسے لامحالہ موجودہ عالمی ڈھانچے میں تبدیلیوں کی کوششیں کرنی پڑیں گی۔ اس سے کشیدگیاں پیدا ہوئیں۔ اور جب کوئی دسترخوان پر زیادہ بڑا ہاتھ مارنے کی کوشش کرے تو ان کشیدگیوں کا پیدا ہونا تو ایک فطری امر ہے۔ لی نے تسلیم کیا کہ جارحانہ رویے کی وجہ سے خود دسترخوان کے تباہ ہونے کا خطرہ بھی پیدا ہوگیا ہے۔ اس سے ان کی مراد فوجی تنازعہ تھا۔ لیکن چین جنگ کا خطرہ مول لیے بغیر اسٹیٹس کو میں اپنے حق میں تبدیلیاں کرنے میں کافی محتاط رہا ہے۔ انہوں نے اسے چین کی حکمت عملی کا جوہر قرار دیتے ہوئے پیش گوئی کی کہ اس میں حادثات کا امکان کم ہوجائے گا نیز امریکا اور چین کے درمیان طویل اور یپچیدہ مذاکراتی عمل سے ہونے والی مطابقت پذیریوں کے ذریعے پرامن طور پر ایک نئی ہیئت سامنے آئے گی۔ عالمی بدلاؤ کے وقت کشیدگی کی معمولیت کے اس تصور کی بازگشت دیگر سیشنز میں بھی سنائی دی، تاہم عالمی استحکام پر اس کے مضمرات کے حوالے سے متفرق نقطہ نظر سامنے آئے۔ ایران پر ہونے والے سیشن کا موضوع تھا ایک اختتامی مرحلے کی جانب؟ جس میں اس بات کا جائزہ لیا گیا کہ کیا موجودہ جوہری مذاکرات کے ذریعے رواں سال کے آخر تک کوئی معاہدہ طے پاسکتا ہے۔ ایک ایرانی مقرر نے اپنے ملک کا موقف واضح کرتے ہوئے عندیہ دیا کہ معاہدہ مشرق وسطیٰ کو درپیش دیگر چیلنجز پر وسیع مشغولیت کا دروازہ کھول سکتا ہے۔ لیکن مقررین کے درمیان اس بات پر اتفاق رائے تھا کہ جوہری مذاکرات اختتامی مرحلے پر نہیں ہیں، کیونکہ خاصی رکاوٹیں بدستور برقرار ہیں اور دونوں فریق بنیادی امور پر ہنوز گہرے اختلافات کا شکار ہیں۔ امکان یہی ہے کہ مذاکرات کی نومبر 2014 کی حتمی مدت آگے بڑھ جائے گی۔
زیر بحث آئے امور میں یہ بھی شامل تھا کہ کیا مشرق وسطیٰ کے نئے جغرافیائی سیاسی منظر نامے نے جوہری سمجھوتے کو زیادہ یا کم مشکل بنایا ہے۔ ایک سابق امریکی افسر نے نکتہ اٹھایا کہ فی الوقت نہ تو واشنگٹن اور نہ ہی تہران بنیادی جوہری رعایتیں دینے پر تیار ہیں۔ ایرانی وفد نے پورے اعتماد کے ساتھ یہ دعویٰ کیا کہ اگر پانچ جمع ایک مذاکرات ناکام بھی ہوگئے تو بھی امریکا ایران کے خلاف مزید پابندیاں لگانے کی پوزیشن میں نہیں۔ یوکرائن میں روس مغرب محاذ آرائی پر ایک بھرپور بحث ہوئی۔ انسٹی ٹیوٹ کے چیرمین فرانکوئس ہیس بورگ نے کئی اہم سوالات اٹھائے۔ کیا روس کو ردعمل دینے میں یورپ کا مقصد ماسکو میں حکومت کی تبدیلی ہے، یا دوسری جنگ عظیم کے بعد کے نظام اور سابق روسی جمہوریاؤں کے حقِ انتخاب کا تحفظ کرنا ہے؟۔ اگر روس کے خلاف اپنائے جانے والے آلات کا ہدف ماسکو میں حکومت کی تبدیلی ہے تو حکمت عملی اور مقصد غیر مربوط ہیں۔ موجودہ تعطل کی وجہ بننے والے مسائل کو حل کیے بغیر روس کو سزا دینا بمشکل کوئی دانا حکمت عملی ہے۔ایک روسی مقرر نے نشاندہی کی کہ روسیوں اور خود صدر ولادی میر پیوٹن میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ یورپ حکومت کی تبدیلی کی کوشش کررہا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ امریکا روس اور چین کے خلاف دہری روک تھام کی حکمت عملی پر عمل درآمد کررہا ہے، لیکن اس سے یہ دونوں طاقتیں ایک دوسرے کے اور قریب ہی آئیں گے۔اس مباحثے میں اہم سوالات اٹھائے گئے۔ کیا تعطل ایک ایسے مقام سے آگے جاچکا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں؟ کیا یورپ میں سرد جنگ کے بعد کے نظام کو بچایا جاسکتا ہے اور کیا اس پر بات چیت کا کوئی ارادہ پایا جاتا ہے؟ مذاکرات اب تک اتنے محدود کیوں رہے ہیں؟
فی الوقت ان سوالات کے جوابات موجود نہیں۔ لیکن اچھی کانفرنسز ہمیشہ جوابات سے زیادہ سوالات پیدا کرتی ہیں خاص طور پر تیزی سے حرکت کرتی دنیا میں جو مسلسل بدلتے ہوئے اور ناقابل پیشگوئی دور سے گزر رہی ہے۔