سپریم کورٹ کے جسٹس جواد نے کہا ہے زیر سماعت وزیر اعظم نااہلی کیس کا فیصلہ اردو میں دینگے تاکہ قوم کو بھی پتہ چل سکے کہ عدالت نے کیا فیصلہ دیا۔
ہمارا حسن انتخاب دیکھیں کہ اب تک 2وزرائے اعظم کی نااہلی کے فیصلے تو آچکے ہیں، خدا کرے کہ تیسرے اہل ثابت ہوں، اور سلسلہ رواں دواں رہے، ہمیں پوری توقع ہے کہ موجودہ وزیر اعظم برقرار رہینگے کیونکہ ان کی گورننس پر انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی، ان دنوں حکومت اور کرکٹ کا ایک جیسا حال ہے شاید ہمارئی بیٹنگ لائن کمزور ہے، ورنہ ورلڈ کپ ہو یا اقتدار کپ جیتنا کوئی مشکل کام تو نہیں، ہم دعائیں تو مسلسل کررہے ہیں لیکن ہر دعا عرش تک پہنچ کر ان ریمارکس کیساتھ واپس آجاتی ہے’’خدا اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک اسے خود اپنی حالت بدلنے کی فکر نہ ہو‘‘ بہرحال عدالت عظمیٰ کے ریمارکس بھی آنا شروع ہوگئے ہیں، دیکھئے فیصلہ کیا ہو، بہرحال ہم تو چاہتے ہیں کہ کم از کم ایک وزیر عظم تو اہل ثابت ہوجائے، ہر وہ شخص جس کے ’’ہوس‘‘ قریب سے بھی نہیں گزری ہر روز اپنے مطلب کی پیش گوئی کررہا ہے، ہمارے مطالب بھی تو کئی ہیں، اب اصل مطلب کا تعین تو عدالت کرے گی، مگر ان بکار خویش ہوشیار نجومیوں کا کیا کیا جائے جو ہر روز یہ حالت کردیتے ہیں کہ’’مرا چین وین سب چھینا ظالم! نظر ہٹالے‘‘، آخر ا یسا کیوں ہے کہ ن لیگ کی حکومت جب بھی آتی ہے اس سے کچھ دیر بعد یہ کہنا پڑتا ہے؎
میرے محبوب نہ جا آج کی رات نہ جا
ہونے والی ہے سحر تھوڑی دیر اور ٹھہر!
بلکہ آسمان سے بھی یہ صدا آتی ہے؎
تو نے بلبل جب سے دو تنکے لئے
ٹوٹتی ہیں بجلیاں ان کے لئے
وزیر اعظم کی تو ڈگری بھی سولہ آنے اصلی ہے، پوری امید ہے کہ عدالت انہیں سند اہلیت دیدے گی، اور وہ سند فراغت سے فارغ ہوجائیں گے، بقول حافظ شیرازی دعا ہے؎
حافظ وصال می طلبد از رہ دعا
یارب! دعائے خستہ دلاں مستجاب کن
(حافظ وصل کی دعا کرتا ہے یا اللہ! خستہ دلوں کی دعا قبول فرمالے)
ہم کوئی پیش گوئی تو کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے مگر اتنا اندازہ لگاسکتے ہیں کہ پاکستان کے حق میں کچھ بہتر ہی ہونے والا ہے۔
٭٭٭٭٭٭
وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے:حاجیوں نے حکومت کیلئے دعائیں کیں جو قبول ہوئیں۔
حکومت نے اپنی بقاء کو لاحق جملہ امراض کے لئے دوائیں اور حاجیوں نے دعائیں کیں اور حکومت بچ گئی، اگر اس بیان کو وزیر موصوف اپنے تک محدود رکھتے تو بہتر ہوتا کیونکہ حاجیوں کے حج کو سیاسی بنانا حج جیسی عبادت بارے مناسب نہیں، پھر یہ کہ کیا حاجیوں نے پرویز رشید کو بتادیا کہ ہماری دعائوں نے آپ کی حکومت کو بچالیا، ورنہ یہ اتنی کمزور اور ’’اہلیت‘‘ کی حامل تھی کہ اس کا بچنا مشکل تھا، خدانخواستہ آگے چل کر حکومت کی طبیعت ناساز ہوگئی تو کیا وہ یہ بیان دیں گے کہ حاجیوں کی دعائیں قبول نہ ہوسکیں وگرنہ مسلم لیگ(ن) کو کچھ نہیں ہونا تھا، ن لیگ کی قیادت اپنے وزیروں کو ہدایت فرمادیں کہ وہ اس طرح کے بیانات نہ دیں جن سے یہ تاثر ملے کہ حکومت کو اپنی نااہلی کا احساس ہے، یہ بات تو ماننے کے لائق ہے کہ حاجیوں نے اپنے ملک کی سلامتی کے لئے دعائیں کی ہوں گی، البتہ قبولیت بارے تو کوئی حتمی بات نہیں کی جاسکتی، ا ور یہ بھی وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ حکومت کی سلامتی ہی ملک کی سلامتی کی ضامن ہے، جب مرض لاعلاج ہوجائے، دوائیں اثر نہ کریں تو لوگ دعائوں کا سہارا لیتے ہیں جو کہ اچھی بات ہے مگر یہ مرض کا اقرار ضرور ہے اور ظاہر ہے کہ دعا ایک راز کی بات ہے اللہ جانے کس حاجی نے کیا دعا کی پرویز رشید بھلا کیا جانے۔بہتر ہوگا کہ و زارت اطلاعات حجاج کرام کی دعائوں کے بارے ایک سروے کرائے، اس کے لئے پیلڈاٹ کا ادارہ مناسب رہے گا، اگر حکومت اور بالخصوص وزیر اطلاعات یہ سمجھتے ہیں کہ وہ صحیح سمت میں جارہے ہیں تو ضرور دعائیں کریں اور کرائیں مگر انہیں ایک سیاسی بیان کی صورت عام نہ کریں، فرد ہو یا حکومت جب کسی خوف کا شکار ہوجائے تو اس کا کرتا دھرتا افراد ایسی باتیں کرتے ہیں کہ ان کا ڈر نمایاں ہوجاتا ہے۔ یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا تمام حاجی مسلم لیگ ن سے تعلق رکھتے ہیں، ظاہر ہے ان میں دوسری جماعتوں کے حاجی بھی شامل ہونگے۔ ہمارے فاضل وزیر اطلاعات نہایت مخلص اور فعال وزیر ہیں۔ انہیں ملک و قوم سے بڑھ کر حکومت کی فکر ہے اور حکومت کا دوسرا نام اقتدار ہے جو کہ بہر صورت سلامت رہنا بہت ضروری ہے۔ حاجیوں کو شاید بزعم وزیر باتدبیر یہ فکر لاحق رہی ہوگی کہ خدایا ہماری واپسی تک حکومت سلامت رہے یہ نہ ہو کہ کوئی کام دکھاجائے، پرویز رشید صاحب اپنی کارکردگی پر اطمینان رکھیں، بے شک دعاکرائیں مگر کسی کہ نہ بتائیں، یہ کمزور پہلو ہے۔
٭٭٭٭٭٭
عمران خان فرماتے ہیں: نواز شریف کو ڈیڑھ کروڑ ووٹ پڑا ہوتا تو لوگ گونواز گو نہ کہتے۔
خان صاحب کے بارے میں کچھ نہ کہنا بھی کچھ کہنا ہے، انہوں نے ہر آنکھ ہر کان کو اپنی طرف متوجہ کرلیا ہے۔ اب ان پر کروڑوں مرکوز آنکھیں کیا دیکھ رہی ہیں، کیا مانگ رہی ہیں، کیا فریاد کررہی ہیں، کیا غضب ڈھارہی ہیں، یہ تو خود خان صاحب بھی نہیں جانتے مگر وہ یہ کیسے جان گئے کہ نواز شریف کو ڈیڑھ کروڑ ووٹ نہیں پڑا۔ گونواز گو کا تعلق ووٹوں کی کثرت سے نہیں، ’’حسن کارکردگی‘‘ سے ہے، یا پھر خان صاحب کی تربیت کا اثر ہے کہ پیر صابر شاہ بھی گونواز گو پکار اٹھے۔ کہیں انہوں نے’’کسی‘‘ سے کالا علم تو نہیں سیکھ لیا، کہ صنم کہے ہری ہری، ملتان میں ایک نشست پر ہار جیت کو بھی یار لوگوں نے پورے ملک میں کسی بڑی تبدیلی کا سبب مان لیا۔ ایک ضمنی الیکشن ہے، ہوتے رہتے ہیں، اس پر کسی جماعت کے آئوٹ یا ان ہونے کا اظہار کچھ مناسب یا قرین قیاس نہیں، مگر ہم تو وہ محقق ہیں کہ راستے میں پڑھے کاغذ کے ٹکرے پر لکھی کسی تحریر پر بھی پی ایچ ڈی کرنے کی ٹھان لیتے ہیں، مقصود موضوع نہیں ہوتا ڈگری کا حصول ہوتا ہے۔پی ایچ ڈی کرنے والا اور ایم بی بی ایس کرنے والا دونوں ڈاکٹر کہلاتے ہیں، ان دونوں میں فرق بظاہر نہیں ہے،مگر بہت گہرا ہے۔ اس لئے ایم بی بی ایس ڈاکٹر کو ایم ڈی اور پی ایچ ڈی ڈاکٹر کو فقط ڈاکٹر کہا جائے، اسی طرح ہم سب اس کمپلیکس میں بھی مبتلا ہیں کہ ہاتھی لاکھ کا مرے تو سوا لاکھ کا، یعنی کسی بھی ریٹائر ہونے والے کو سابق وزیر اعظم، سابق صدر، سابق وزیر کہہ دیتے ہیں اور وہ خود بھی یہی لکھتے ہیں، جب کوئی سابق ہوگیا تو اس کا عہدہ لکھنا فقط دھونس ہے اور تو اور کہ قبروں پر بھی سابق فلاں فلاں لکھا جاتا ہے۔ اس طرح اگر کسی نے چند لیکچرز کسی کالج یونیورسٹی میں دئیے ہوں وہ تو سابق ہی نہیں تاحیات پروفیسر کہلاتا ہے، بہرحال یہ ہماری اپنی پسندیدہ بیماریاں اس لئے لاعلاج ہیں ، بہرحال حقیقت بیان میں کیا حرج ہے چاہے بندہ خود بھی اس کی زد میں آتا ہو۔
٭٭٭٭٭٭
زمزمہ ہائے شب ہنگام
٭...پرویز رشید: عید سے قبل حکومت کی قربانی بارے پیشگوئی غلط ثابت ہوئی، نفلی قربانی تو عید کے بعد بھی جائز ہے۔
٭...زعیم قادری: طاہر القادری جھوٹ بولنے کا عالمی ریکارڈ قائم کرچکے ہیں، مگر عالمی میڈیا نے اس کی خبر نہیں دی، نہ ہی کسی سروے نے تعین کیا۔
٭...میر ظفر اللہ جمالی: دھرنوں سے تبدیلی نہیں آئے گی۔
کچھ نہ کچھ تو آئے گا۔
٭...غنویٰ بھٹو: دھرنے والوں کی باتیں ہمارے منشور کا حصہ ہیں۔
یہ ٹو ان ون ہوگیا!
٭...ایوان صدر اور وزیر اعظم ہائوس بجلی بلوں کے نادہندہ ۔
الزام’’اس ‘‘کو دیتے تھے
قصور اپنا نکل آیا!
٭...ملتان میں کون جیتے گا۔
ہم کچھ نہیں کہیں گے، کہا تو ہاشمی مخدوم ناراض ہونگے۔
٭...نواز شریف: چوکے چھکے مارنے والے بائونڈری پر آئوٹ ہونگے۔
اب ہم کیا کہیں؟ غالب کے شعر پر گزارہ کرلیتے ہیں؎
اک کھیل ہے اور نگ سلیماں مرے نزدیک
اک بات ہے اعجاز مسیحا مرے آگے
٭...کچھ کھلا کے کھایا جاتا تو لوگ کھانے کو نہ آتے، مگر یہاں تو67 برس سے یہ ہورہا ہے کہ’’کھایا پیا کچھ نہیں گلا نہیں، گلاس توڑا ،بارہ آنے‘‘
٭...غزل کا معنی سوت کاتنا ہے،عورتوں سے باتیں کرنے کو تشبیب کہتے ہیں۔
٭...احمق کوئی نہیں ہوتا، حماقت ذہن کو آرام پہنچانے کا نام ہے، اقبالؒ کو بھی کہنا پڑا؎
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
٭...ان دنوں ایک آیت بہت کوٹ کی جاتی ہے کہ اولوالامر کی اطاعت کرو، جبکہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جو اولو الامر تم میں سے ہو، ظاہر ہے رعیت کی اکثریت تو اشرافیہ نہیں ہوتی!